Monday, December 31, 2018

itni mohbbat karo na (season 2) episode 9

itni mohbbat karo na 2
By zeenia sharjeel
Epi # 9

رات بھر ڈر کی وجہ سے وہ سو نہیں سکی بے سکونی کی وجہ سے صبح تک حیا کو بخار ہوگیا۔۔۔۔ زین رات بھر اس کے پاس بیٹھا رہا صبح جاکر حیا کی آنکھ لگی تو وہ آفس کے لئے تیار ہونے لگا

"جانا ضروری ہے افس، یقینا تم رات کو سوئے نہیں ہوں گے"
حور نے زین کو آفس کے لئے تیار ہوتے دیکھا تو بیڈ سے اٹھ کر اس کے قریب آئی

"جانا ضروری ہے جلدی آجاؤں گا، تم حیا کے پاس چلی جاؤ اس کے روم میں، اس کو ٹیمپریچر ہے۔۔۔ اس کے پاس ہی رہو اکیلے میں پریشان نہ ہو جائے"
زین نے ٹائی کی ناب باندھتے ہوئے کہا

"ٹمپریچر کیوں ہوگیا کل تک تو اچھی بھلی تھی" حور نے فکر مندی سے کہا

"معمولی بخار ہے شام تک ٹھیک ہو جائے گا، ٹینشن مت لو"
زین نے اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے کہا

"کیسے نہ ٹینشن  لوں تم دونوں ہی میری جان ہلکان کر کے رکھتے ہو، دونوں ہی پریشان کرتے ہو ہر وقت"
حور نے اپنا سر زین کے سینے پر رکھتے ہوئے کہا 

"تم سے لاڈ اٹھوانے اور نخرے دکھانے کی عادت جو ہوگئی ہے"
زین نے حور کے گرد ہاتھ حائل کرتے ہوئے کہا

"جلدی گھر آ جانا آج افس سے"
حور نے اسی طرح زین کے سینے پر سر ٹکائے ہوئے بولا

"اگر اس طرح بولو گی تو پھر میں افس ہی نہیں جاتا"
زین نے حور کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا

"تمہارے آرام کرنے کے احساس سے بول رہی ہوں"
حور میں سر اٹھا کر زین کو گھورتے ہوئے کہا زین مسکرا دیا

"چلو ریڈی ہوکر او ناشتہ بناتی ہوں"
حور نے روم سے نکلتے ہوئے کہا

"نہیں آفس میں کر لونگا تم حیا کے پاس جاؤ"
زین خدا حافظ کہتا ہوا گھر سے نکل گیا

****

"باجی یہ آپ کیا بنا رہی ہیں"
نسیمہ نے کچن میں جھانکتے ہوئے حور سے پوچھا

"حیا کے لیے سوپ بنا رہی ہوں، تم نے صفائی کر لی"
حور نے باؤل میں سوپ نکالتے ہوئے پوچھا

"صفائی تو کرلی ہے باجی۔۔۔۔ یہ حیا بی بی کو کیا ہوگیا، کل تک تو بالکل چنگی بھلی تھی"
نسیمہ کو تجسس ہوا ہے

"ایسے ہی رات میں ڈر گئی تھی نیند میں تو صبح بخار ہو گیا"
حور نے سوپ کا باول پکڑ کر کچن سے نکلتے ہوئے بولا

"باجی کہیں کوئی بھوت وغیرہ تو عاشق نہیں ہوگیا ہے حیا بی بی پر، خوبصورت بھی تو بہت ہیں۔۔۔۔ جبھی تو نیند میں ڈر گئی ہوگیں۔ ۔۔۔ آپ تو کوئی دم درود کروائے پہلی فرصت میں"
نسیمہ نے اپنی طرف سے مشورہ دیا

"کیا فضول باتیں کر رہی ہوں تم،،، صفائی کرلی ہے نا چلو پھر باہر کا دروازہ اچھی طرح بند کرتی ہوئی جاو"   حور نے نسیمہ کی باتیں سن کر غصہ میں کہا 

****

حیا آنکھیں بند کر کے لیٹی ہوئی تھی جب اس کے موبائل پر بیل بجی

"ہادی کی کال ہوگی بابا نے بتایا ہوگا اسے میری طبیعت کا"
حیا نے سوچتے ہوئے  موبائل پر نمبر دیکھا تو نمبر جانا پہچانا ہرگز نہیں تھا

"ہیلو کون"
حیا نے کال ریسیو کرتے ہوئے کہا

"وہی جس کی تم نے رات کی نیند اور دن کا چین چھین کر اچھا خاصا ڈسٹرب کر دیا ہے "
معاویہ کی آواز سن کر حیا کی آنکھیں دوبارہ خوف سے پھیل گئی

"تم۔۔۔ تمہیں نمبر کس نے دیا میرا"
حیا نے حیرت سے پوچھا

"جب تمہارے گھر آ سکتا ہوں تمہارے بیڈروم تک،، تو تمھارا نمبر حاصل کرنا کون سا مشکل ہے میرے لئے"
موبائل سے معاویہ کی آواز ابھری

"کیا چاہتے ہو"
حیا نے کل رات کا منظر سوچ کر ڈرتے ہوئے پوچھا

"تمہیں"
معاویہ نے جواب دیا

"شٹ اپ تم دو ٹکے کے پولیس والے تمہاری ہمت کیسے ہوئی بکواس کرنے کی"
معاویہ کی بات سن کر حیا نے ڈر کو ایک طرف رکھتے ہوئے غصے میں کہا

"جانم کل دو ٹکے والا کام تو میں نے کیا ہی نہیں اور سوچ سمجھ کر بولو دوبارہ ہمت کی بات کر کے مجھے چیلنج کر رہی ہوں اگر آج رات آیا نہ تو وہ ضرور کر کے جاؤں گا، جو کل رات تمہارے آنسو دیکھ کر کرنے سے رک گیا تھا"
معاویہ نے شہادت کی انگلی کو اپنے ہونٹوں پر رکھتے ہوئے کہا

"کیوں فون کیا ہے تم نے"
حیا نے اس کے دھمکی دینے پر ایک بار پھر نرم پڑھتے ہوئے کہا

"طبیعت کیوں خراب کر لی تم نے جب کہ کل رات تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا میں نے،، ایسی نازک مزاجی نہیں چلے گی، میرے جیسے رف اینڈ ٹف بندے کے ساتھ"
معاویہ چیئر کے پیچھے ٹیک لگاتے ہوئے کہا

"تم اپنے آپ کو بہت ہیرو سمجھتے ہو،، اگر کل رات والی بات میں نے اپنے بابا کو بتادی تو وہ تمہیں کھڑے کھڑے ہی شوٹ کردیں گے" حیا نے اس کو ڈرانا چاہا

"ہاہاہا اوکے تو ایسا کرو آج اپنے بابا کو میرے بارے میں بتا دو اور یہ بھی بتا دو کہ میں آج خود آ رہا ہوں تمہارے گھر، ان کی گولی کھانے"
معاویہ نے محظوظ ہوتے ہوئے کہا

"تم دوبارہ آکے تو دکھاؤ میرے بابا واقعی تمہیں جان سے مار دیں گے"
حیا کو اسکے ڈھیٹ پن پر ایک بار پھر غصہ آنے لگا

"مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ تم چاہ رہی ہو کہ میں تمہارے پاس دوبارہ آو۔۔۔ ویسے دل تو میرا بھی بہت چاہ رہا ہے تمہیں دیکھنے کو،،، کیا خیال ہے آجاؤ پھر آج رات"
معاویہ نے مسکراتے ہوئے اس کی رائے لینا چاہی

"میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی،،اور اپنی ساری خوش فہمیوں کو آگ لگادوں جاکر"
حیا نے جلتے ہوئے کہا

"شکل دیکھنے کی تو اب ساری زندگی عادت ڈالنی پڑے گی۔۔۔۔ معاویہ مراد خوش فہمیاں نہیں پالتا۔۔۔۔ ہاں اگر تمہیں کوئی خوش فہمی لاحق ہوگئی ہو کہ تم معاویہ مراد کی دسترس اور پہنچ سے دور ہو تو اس خوش فہمی کو فورا دل سے نکال دینا"
معاویہ نے جیسے حیا کو باور کرایا
     
"اوکے میں فون رکھتا ہوں آنٹی سوپ لارہی ہیں وہ پی لینا اور ریسٹ کرو اب"
معاویہ نے سعد کو آتا دیکھ کر فون بند کردیا

ابھی حیا نے فون کان سے ہٹایا بھی نہیں تھا کہ حور سوپ کا باول لے کر روم میں داخل ہوئی

"حیا جلدی سے اٹھو شاباش، یہ سوپ پیو کچھ نہیں کھایا ہوا تم نے صبح سے"
حور کے بولنے کی دیر تھی حیا ایک دم چونکی

"مما یہ کھڑکی کیوں کھولی آپ نے پلیز بند کریں اسے، باہر کا دروازہ بھی چیک کریں پلیز"
حیا کی حالت غیر ہونے لگی

"کیا ہو گیا ہے حیا نسیمہ نے کھولی ہوگی کھڑکی، صفائی کر کے گئی ہے ابھی اور دروازہ بند ہے باہر کا جلدی جلدی سے سوپ ختم کرو شاباش"
حور نے کھڑکی بند کرکے باؤل حیا کو پکڑاتے ہوئے کہا

"یہ انسان تو میری سوچ سے بھی زیادہ خطرناک ہے"
حیا سوچتی رہ گئی

*****

"یہ انگوٹھی بس تم نے اپنے پاس رکھنے کے لیے لی ہے"
ہادی آفس سے آکر بیٹھا تو فضا نے ہادی کے روم میں آ کر اس سے کہا

"ارے مما آئیے"
ہادی اٹھ کر بیٹھا

"وہ انکار تو نہیں کرے گی"
ہادی نے اپنے دل کے شک کو فضا کے سامنے رکھا

"تمہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ انکار کرے گی"
فضا نہ خود الٹا ہادی سے سوال کیا تو مسکرایا

"لگ تو نہیں رہا مگر پھر بھی ڈر لگ رہا ہے"
ہادی نے کنفیوز ہوتے ہوئے کہا

"چلو پھر ایسی بات ہے تو میں اور تمہارے بابا خود زین بھائی سے حور سے بات کرلیتے ہیں"
فضا نے مسکراتے ہوئے ہادی سے کہا

"کیا بابا کو پتہ ہے اس بارے میں"
ہادی نے چونک کر فضا سے پوچھا

"بیٹا تمہارے بابا کو آنکھوں کی زبان اور دل کی باتیں منہ سے بول کر سمجھانی پڑتی ہے اور انہیں تمہاری پسند کا بھی میں نے ہی بتایا ہے"
فضا نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا

"کیا خیال ہے پھر آج ہی مانگ لیں، حیا کو زین بھائی اور حور سے"
فضا نے مسکرا کر ہادی سے مشورا مانگا

"مما کیسی باتیں کر رہی ہیں چھوٹی ہے ابھی۔۔۔ اس کی تو اسٹڈیز بھی کمپلیٹ نہیں ہوئی"
ہادی نے گڑبڑاتے ہوئے کہا

"چھوٹی نہیں ہے جوان ہو چکی ہے حیا اور پھر سوچ لو خوبصورت لڑکیاں زیادہ دیر تک نہیں ٹکتی ماں باپ کے گھر۔۔۔۔۔ پرسوں ہی میں اور حور پارک میں واک کر رہے تھے، تو برابر والی مسز انصار حور سے حیا کے بارے میں پوچھ رہی تھی،،، اب کیا کہتے ہو" فضا نے ہادی سے دوبارہ پوچھا

"پھر تو ابھی فورا چلتے ہیں، آپ میں اور بابا۔۔۔۔ چلیں بس کھڑی ہو جائیں"
ہادی کو ٹینشن ہو گئی ہو ایک دم کھڑا ہو کر بولا

"ہاہاہا بیٹھ جاؤ  بدھو چلیں گے آج ہی بات کریں گے حیا تمہاری ہے"
فضا نے ہادی کو اطمینان دلایا

*****

"کل ایک اور لڑکی غائب ہوگئی انسپیکٹر سعد اور اس کا 24گھنٹے گزرنے کے بعد کچھ معلوم نہیں ہو سکا"
معاویہ نے فائل ٹیبل پر پھینکتے ہوئے کہا آج ہی اس لڑکی کے باپ اور بھائی رپورٹ لکھوانے آئے تھے

"سر جی سب آپ کے سامنے ہی ہے کوئی سرہ ہاتھ آئے کسی کا نام سامنے آئے تو کارروائی کی جا سکے شک کس پر کرے بندہ"
انسپکٹر سعد نے گلا کھنگارتے ہوئے کہا

"یوں ہاتھ پر ہاتھ رکھنے سے کوئی سرہ ہاتھ نہیں آنے والا سعد، بابر جو اعظم نامی بندے سے ملنے والا تھا اس کا کیا بنا، مجھے کیوں نہیں انفرمیشن دی گئی"
معاویہ نے سختی سے پوچھا

"سر جی بابر ملنے نہیں گیا اعظم سے اقبال نے اب تک نظر رکھی ہوئی ہے جیسے ہی کوئی حرکت محسوس ہوئی فوری ایکشن لیا جائے گا"
سعد نے معاویہ کو مطمئن کرنا چاہا

"ایسے کچھ بھی معلوم نہیں ہو سکے گا اور اس اعظم نامی بندے کو ڈھونڈ کر یہاں لے کر آؤ"
معاویہ نے چیئر سے اٹھتے ہوئے سعد  سے کہا

"جی سر جی ایک دو دن میں اس کی حاضری تھانے میں ہوگی" 
سعد کی بات سن کر معاویہ باہر نکل گیا

****

"نسیمہ کام کر کے جا چکی تھی حیا کو سوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی حور گروسری کرنے کے ارادے سے باہر نکلی

"بیگم صاحبہ آپ رکیں میں اپ کو ٹیکسی لا دیتا ہوں"
حور کو جاتا دیکھ کر شیر خان نے بولا

"رہنے دو شیرخان زیادہ دور نہیں چلنا پڑے گا میں چلی جاتی ہوں، گھر کا دھیان رکھنا"
حور کہتے ہوئے پیدل نکل گئی

"ابھی وہ مین روڈ پر ٹیکسی کے انتظار میں کھڑی تھی کہ ایک لڑکا اچانک سے بھاگتا ہوا آیا اس کا بیگ چھیننے لگا

"چھوڑو بیگ یہ کیا بدتمیزی ہے"
حور نے بیگ کو کھینچتے ہوئے کہا اس لڑکے نے زور سے بیگ چھینا اور حور کو دھکا دیا وہ ایکدم لڑکھڑا کر گر گئی اس کے سر پر چوٹ بھی آئی

معاویہ جو اپنی گاڑی میں سامنے سے گزرتے ہوئے منظر دیکھ رہا تھا گاڑی روکی اور تیزی سے بھاگ کر اس سامنے سے آتے لڑکے کو گریبان سے پکڑا، مگر وہ لڑکا اپنا گریبان چھڑوا کر بھاگ گیامگر بیگ اس سے وہی گر گیا۔۔۔۔ معاویہ وہ بیگ اٹھا کر حور کے پاس آیا وہ ابھی تک گری ہوئی تھی

"آپ ٹھیک ہیں" معاویہ نے سہارا دے  کر حور کو اٹھایا مگر حور کا چہرہ دیکھ کر ایک دم چونکا

"اتنا رزمبلینس"
اس نے دل میں سوچا

"جی میں ٹھیک ہوں تھینک یو بیٹا آپ نے میرے لئے" حور نے سر پکڑ کر بولا اس کے سر پر چوٹ لگی ہوئی تھی

"آپ کو چوٹ لگی ہوئی ہے آئیے میں آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں"  معاویہ کو نکلنا تو اپنے ضروری کام سے تھا مگر کسی احساس کے تحت اس کے منہ سے نکل گیا

"شکریہ بیٹا یہی قریب میں میرا گھر ہے میں اب گھر جاؤں گی، ویسے بھی گہری چوٹ نہیں ہے جو ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے"
حور نے مسکراتے ہوئے کہا

"آئیے پلیز میں اپ کو ڈراپ کر دیتا ہوں آپ کے گھر" معاویہ نے گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

حور تھوڑا ہچکچا کر گاڑی میں بیٹھ گئی

"آپ کا کیا نام ہے"
حور نے اس سے پوچھا

"معاویہ"
معاویہ نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے جواب دیا

"بہت پیارا نام ہے کیا کرتے ہوں آپ"
حور اس سے بے مقصد ہی سوال پوچھے گئی

"بہت شکریہ، آنٹی میرا کام بگڑے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانا ہے ایک طرح سے خدمت خلق بھی کہہ سکتے ہیں۔ ۔۔۔ میں پولیس میں ہوں"
معاویہ نے smile دیتے ہوئے جواب دیا

"ارے یہ تو بہت اچھی بات ہے"
حور نے مسکرا کر کہا

"اپ کو اچھا لگا میرا پیشہ حیرت ہے بہت سے لوگوں پسند نہیں۔۔۔ یہاں تک کے میرے اپنے فادر کو بھی" معاویہ نے ڈرائیو کرتے ہوئے جواب دیا

"میں نہیں سمجھتی پولیس کی جاب غلط ہے۔ ۔۔۔پولیس تو ہمارے محافظ ہوتے ہیں ہماری حفاظت کرنے کے لئے،، اور ویسے بھی پیشہ کوئی بھی غلط نہیں ہوتا بس انسان کو خود اپنی پیشے سے مخلص ہونا چاہیے"
حور نے اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا

"آئی ایم ایمپریسٹ،، کاش سب لوگ اپ کی ہی طرح سوچنے لگ جائے"
معاویہ نے مسکرا کر  کہا

"کون کون ہوتا ہے آپ کے گھر میں" حور نے دوبارہ سوال کیا

"میرے فادر، مدد اور ایک چھوٹی بہن اور میں خود۔ ۔ ۔  آپ کے گھر میں"
معاویہ نے بھی اپنی الجھن کو کلیئر کرنے کے لئے حور سے سوال کیا

"میں، میرے ہسبنڈ اور میری ایک بیٹی"
حور نے جواب دیا

"آپ کو برا تو نہیں لگا میرا اس طرح سوال کرنا۔۔۔۔ دراصل مجھ کو آپ کچھ اپنے اپنے سے لگے ہو، ایسا لگا جیسے میں آپ کو پہلے سے جانتی ہوں اس لئے اس طرح سوالات کیے"
حور نے وضاحت دی

"بالکل بھی برا نہیں لگا بلکہ بہت اچھا لگا آپ سے بات کر کے تو،، اور سیم فیلنگ مجھے بھی اپ اپنی اپنی سی لگی" معاویہ نے مسکراتے ہوئے کہا       
 
"آپ اس گھر میں رہتی ہیں"
معاویہ نے حیرت سے چونک کر کہا

"جی یہ میرا گھر ہے اب اندر آو مجھے اچھا لگے گا" حور نے اخلاق نبھاتے ہوئے کہا

"نہیں آنٹی اس وقت تو مجھے ضروری کام سے جانا ہے لیکن یہ وعدہ ہے   آؤں گا ضرور اور اپنی مدد کو بھی لے کر آؤں گا آپ کو ان سے بھی مل کر بہت خوشی ہوگی" معاویہ نے کچھ سوچ کر کہا

"اوکے میں انتظار کرو گی۔۔۔۔بہت شکریہ مجھے گھر ڈراپ کرنے کا بہت اچھے ہو آپ، ،، اور مجھے بہت اچھا لگا آپ سے مل کر"
حور کو وہ لڑکا اچھا لگا اس نے دل سے تعریف کرتے ہوئے کہا

"شکریہ کہہ کر شرمندہ نہیں کریں آپ بھی بالکل میری مدد کی طرح ہے مجھے بھی خوشی ہوئی آپ سے مل کر"
معاویہ نے مسکراتے ہوئے کہا حور کار سے اتری تو کار آگے بڑھا لے گیا

جاری ہے

itni mohbbat karo na (season 2) episode 8

Itni mohnnat karo na
By zeenia sharjeel
Epi # 8

"تم گھر کے اندر کیسے اور میرے کمرے میں یہ اس طرح"
حیا کی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی سرد لہر دوڑ گئی

"یاد نہیں تم ہی نے تو چیلنج کیا تھا کہ تمہیں تمہارے گھر آکر  تمہیں چھو کر دکھاو گا اور بدلے میں مجھے"
معاویہ بیڈ سے اٹھتے ہی بولنے لگا

ابھی اس کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ حیا نے دوڑ کر دروازے کی طرف پہنچنا چاہا،، مگر اس کا ارادہ بھانپ کر معاویہ لپک کر وہ اس کے پاس پہنچا اور جھٹکے سے اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے خود سے قریب کیا ایک دم حیا معاویہ کے قریب ہوئی اور حیا کے ہونٹ معاویہ کے گال پر ٹچ ہوئے سب اچانک ایک ہی لمبے ہوں میں ہوا معاویہ نے حیا کو دیوار سے لگایا اس سے پہلے وہ چیخ مارتی، معاویہ نے اس کے منہ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھکر اس کی چیخوں کا گلا گھونٹ دیا ہے
خوف سے حیا کی آنکھیں پھیل گئیں کیوکہ وہ اس کے کمرے میں رات کے وقت اس کے بہت نزدیک کھڑا تھا، اگر وہ ذرا بھی مزاحمت کرتی تو وہ پتا نہیں کیا کرسکتا تھا یہ سوچ آتے ہی وہ خوف سے کانپنے لگی 

"نو بےبی آواز بالکل نہیں نکلنی چاہیے تمھاری،  اگر ذرا سی بھی آواز نکلی تو پھر جو میں تمہارے ساتھ کروں گا، اس کی پوری پوری ذمہدار تم خود ہی ہو گئی" معاویہ نے اپنے ہاتھ اس کے ہونٹوں سے ہٹاتے ہوئے کہا اور گہری نے نگاہوں سے وہ اس کو بے حد نزدیک تھی دیکھ رہا تھا،،، تین ملاقاتوں میں وہ جتنا پٹر پٹر بول رہی تھی اس کی بانسبت آج اس کی زبان تالو سے چپکی ہوئی تھی

"تمہیں آج تک سب نے یہ بتایا ہوگا کہ تم کتنی خوبصورت ہو اور واقعی اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے، مگر کسی نے تمہیں یہ نہیں بتایا ہوگا تم کتنی بڑی بے وقوف ہوں، تو تمہیں آج میں بتاؤں گا تم کتنی کم عقل ہو تاکہ تم دوبارہ اپنی کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی دوسرے کو اپنے گھر آنے کی دعوت نہ دے سکوں"
ہاتھوں کی مٹھی میں حیا کے بالوں کو جھگڑ کر معاویہ نے اس کا چہرہ اوپر کرتے ہوئے بولا وہ اس کے اتنے قریب آکر بول رہا تھا کہ حیا کو اس کی سانسوں کی تپش اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھی

"آج معاویہ مراد تمہارے حسن کو خراج بھی دے گا اور اپنے طریقے سے داد وصول کرے گا اور تم پر اپنے حق کی مہر بھی چھوڑ کر جائے گا"
اس کی باتیں حیا مزید خوفزدہ کر رہی تھی اتنا خوف اس نے زندگی میں کبھی محسوس نہیں کیا تھا خوف سے اس سے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا

"تو مس حیا تم نے کہا تھا کہ ہاتھ لگانا تو دور کی بات میں تمہیں چھو بھی نہیں سکتا۔۔۔۔ تم کو اندازہ نہیں ہے لڑکوں سے اتنی بڑی بڑی باتیں کرنا کس قدر مہنگا پڑ سکتا ہے"
مٹھی سے بال آزاد کرتا ہوا معاویہ نے حیا کی تھوڑی انگوٹھے اور  انگلیوں کی مدد سے پکڑ کر اس کا چہرہ اونچا کیا معاویہ کے ہونٹ اور حیا کے ہونٹوں میں مشکل سے ایک انچ کا فاصلہ تھا حیا نے بے ساختہ خوف سے اپنی آنکھیں بند کر لی اور وہ بغیر آواز کے رونے لگی وہ چند منٹ تک اس کو یوں ہی دیکھتا رہا
وہ اس کو ہر روپ میں اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی ہنستے ہوئے غصہ کرتے ہوئے لڑتے ہوئے نروس ہوتے ہوئے ڈرتے ہوئے اور اب روتے ہوئے وہ مبہوت سا اس کو دیکھے گیا۔۔۔ ہونٹوں سے بھٹک کر اس کی نظر گردن تک گئی دل میں آئی ہوئی خواہش کو دبا کر،،، وہ اس کے آنسو اپنی انگلیوں کے پوروں سے صاف کرنے لگا

"پولیس والے اتنے بھی برے نہیں ہوتے کہ ہر کسی کو لوٹ کا مال سمجھ کر اس کو ہتھیانے بیٹھ  جائے"
معاویہ حیا کے کرتے کے اوپر کے دو کھلے ہوئے بٹن بند کرتے ہوئے اس سے کہہ رہا تھا
معاویہ نے فاصلہ قائم کیا تو حیا نے اپنی آنکھیں کھولیں

معاویہ نے اپنی پاکٹ سے ایک رنگ نکالی اور حیا کا نازک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے رنگ پہنانے لگا، حیا نے بےساختہ اپنا ہاتھ پیچھے کرنا چاہا جس پر معاویہ کے ہاتھ کی گرفت سخت ہوگئی اور ایک سنجیدہ نگاہ معاویہ نے حیا پر ڈالی وہ دوبارہ سے سہم گئی معاویہ نے رنگ حیا کی انگلی میں پہنا دیں

"یہ رنگ اب تمہاری انگلی سے اترنی نہیں چاہیے چند دن ہے تمہارے پاس اپنا مائنڈ اچھی طرح تیار کرلو، بہت جلد اپنے پیرنٹس کو لے کر آؤں گا۔۔۔ اب تم اچھے بچوں کی طرح سو جاؤ اور تمہیں خواب بھی صرف میرے دیکھنے کی اجازت ہے" معاویہ نے ہڈ اپنے سر پر ڈالا اور کھڑکی کے راستے سے باہر نکل گیا حیا کافی دیر تک شاک میں کھڑکی کو دیکھتی رہی پھر وہی زمین پر اکڑو بیٹھ گئی

****

"ہیلو کہاں ہیں میری پرنسسز"  تھوڑی دیر بعد حیا کے کانوں میں زین کی آواز آئی

"بابا"
 حیا ایک جھٹکے سے اٹھی اور روم کا دروازہ کھولتے ہی تیزی سے باہر نکلی
زین کو سامنے دیکھ کر اس کی جان میں جان آئیی

"بابا"
وہ دوڑتی ہوئی جا کر زین کے گلے لگ گئی اور زور زور سے رونے لگی

ایسی افتاد پر زین بھی ایک دم بوکھلا گیا ہے

"ارے کیا ہوا میری جان،، کیا ہوا حیا"
وہ زین کے سینے میں منہ چھپائے زور روڈ سے رو رہی تھی۔۔۔ جس پر زین پریشان ہو گیا، حور بھی روم سے باہر آ گئی

"کیا ہوا اسے تم نے ڈانٹا ہے حور"
زین سنجیدگی سے حور سے پوچھنے لگا

"میں تو روم میں تھی اپنے، ابھی تم دونوں کی آوازیں سن کر آئی ہوں۔۔۔۔ حیا کیا ہوا دیکھو یہاں پر میری طرف کیا ہوا ہے بیٹا"
حور زین کو جواب دے کر حیا سے پوچھنے لگی،، مگر اس نے زین کو بہت زور سے پکڑا ہوا تھا اور مسلسل روئے جا رہی تھی

"جاو حور پانی لے کر آو،، حیا یہاں دیکھو میری طرف کیا ہوا ہے بیٹا"
حور کچن کی طرف گئی تو زین نے حیا کا چہرہ اوپر کرتے ہوئے پوچھا

"بابا کیوں چلے گئے تھے مجھے اکیلا چھوڑ کر"
حیا نے روتے ہوئے کہا

"تو میری جان بابا آگئے ہے نا آپ کے پاس، اس طرح کیوں رو رہی ہو حیا پلیز بتاؤ، مجھے پریشانی ہورہی ہے بیٹا"
زین نے حیا کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا

زین واقعی حیا کو اس طرح روتے ہوئے دیکھ کر پریشان ہو گیا، وہ تو اس سے پہلے بھی کتنی دفعہ جاتا رہا ہے مگر حیا نے کبھی اس طرح react نہیں کیا جیسے آج کر رہی تھی
جبکہ آنا تو اسے صبح تھا مگر شام میں ہی میٹنگ سے فارغ ہو کر رات کی فلائٹ سے گھر پہنچنے کا ارادہ کیا ایئرپورٹ پر تھا تو حور کو فون کرکے بتا چکا تھا اپنے انے کا اور حیا کو اس نے خود بتانے سے منع کیا تھا وہ خود اچانک سے آکر اسے سرپرائز دینا چاہتا تھا مگر اس طرح رو کر حیا نے اس کو ہی سرپرائز دے دیا

"حیا پانی پیو اور چلو روم میں اپنے تمھارے بابا تھکے ہوئے آئے ہیں اور تم اس طرح پریشان کر رہی ہوں"
حور نے اسے زین سے الگ کرتے ہوئے پانی پلایا

زین اور حور دونوں ہی اس کو روم اسکے روم میں لے کر گئے وہ بیڈ پر لیٹی تو اس کی نگاہ کھڑکی پر پڑی

"پلیز یہ کھڑکی بند کر دیجئے"
حیا کے کہنے پر زین اور حور نے ایک دوسرے کو دیکھا حور نے آگے بڑھ کر کھڑکی بند کردی

"حور تم کمرے میں جاو میں یہی پر ہو حیا کے پاس"
زین چیئر پر بیٹھتے ہوئے بولا

"نہیں تم فلائٹ لے کر آئے ہو جا کر ریسٹ کروں، میں حیا کے پاس ہو"
حور نے زین کے احساس سے بولا

"میری ریلیکس ہو کونسا پیدل چل کر آیا ہوں، جاو تم سو جاؤ" زین نے دوبارہ کہا

"بابا آپ یہاں آکر بیٹھے میرے پاس" حیا نے آنکھیں کھول کر زین کو اپنے برابر میں بیٹھنے کا کہا شاید وہ بری طرح ڈر چکی تھی

"اوکے ریلیکس ہو کر سوجاو میں کہیں نہیں جا رہا"
زین بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا

حور جانتی تھی کہ اب اس کے یہاں رکنے کا کوئی فائدہ نہیں، زین نے اب ساری رات یہی رہنا ہے وہ روم میں چلی آئی

حیا آنکھیں بند کرکے لیٹی ہوئی تھی زین کھڑکی کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کر کیا بات ہو سکتی ہے

*****

"کیسی طبیعت ہے آپ ساحر کی"
اویس شیرازی نے حامد سے پوچھا

"سر طبعیت بہتر ہے اب،،، ساحر سر ابھی سوئے ہیں
حامد نے اویس شیرازی کو بتایا حامد اس کا خاص بندہ تھا

"کون ہے وہ جس نے اویس شیرازی کے بیٹے کی یہ حالت کی ہے"
اویس شیرازی نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا

"سر کوئی نیا اے۔ایس۔پی آیا ہے معاویہ مراد، کوئی چھوٹا موٹا بندہ نہیں ہے میں نے معلوم کروایا ہے۔۔۔ وہ مراد انڈسٹریز کے مالک خضر مراد کا بیٹا ہے"
حامد نے مودب انداز میں کھڑے ہو کر اویس شیرازی کو معلومات فراہم کی

"مراد انڈسٹریز معاویہ مراد"
اویس شیرازی نے نام دوہرایا

"اور اس سے دو دن پہلے جس نے ساحر پر ہاتھ اٹھایا تھا وہ کون ہے"
اویس شیرازی نے حامد سے دوبارہ پوچھا

"سر اس کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا۔۔۔ وہ یونیورسٹی کے اندر کا لڑکا نہیں تھا۔۔۔۔ جلد معلوم کرکے آپ کو ساری انفارمیشن دوں گا"

"اور کام کیسا جا رہا ہے 20 دن کا وقت ہے مال آگے سپلائی کرنے کے لئے مگر بہت احتیاط سے کام لینا پڑے گا کیوکہ اس وقت پولیس اور میڈیا ایکٹو ہیں اور اس نے اے۔ایس۔پی کے ایمان کی قیمت کا بھی پتا لگا"
اپنی بات مکمل کر کے اویس شیرازی نے سامنے رکھا مشروب کا گلاس ہاتھ میں لیا اور حامد کو ویاں سے جانے کا اشارہ کیا

****

معاویہ نے روم میں آکر اپنی شرٹ اتاری ویسے ہی ڈور ناک ہوا

"کم ان"
معاویہ نے دوبار شرٹ پہنتے ہوئے کہا

خضر اندر روم میں آیا، معاویہ خضر کو دیکھ کر چونکا کیونکہ وہ کبھی بھی اس کے روم میں نہیں آتا تھا

"کہاں سے آرہے ہو اتنی رات میں"
خضر نے غور سے اس کے ہاتھوں کو دیکھا جو شرٹ کے بٹن بند کرنے میں مصروف تھے

"ضروری کام سے گیا تھا"
معاویہ نے مختصر سا جواب دیا

"کس نوعیت کا ضروری کام تھا پوچھ سکتا ہوں"
خضر غور سے معاویہ کے چہرے کو دیکھ رہا تھا جیسے کچھ سوچ رہا ہو

"ایسے ہی دوست سے ملنے گیا اور ایک کیس کے بارے میں کچھ ضروری معلومات اسے دینی تھی وہی دیکھ کر آرہا ہوں"
معاویہ نے سنجیدگی سے خضر کو جواب دیا

"دوست کا نام"
خضر نے پوچھا

"آپ نہیں جانتے کچھ دن پہلے ہی ہماری دوستی ہوئی ہے، آئیے بیٹھ کر بات کرتے ہیں معاویہ نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے جواب دیا

"ویسے حیرت کی بات ہے نئے دوست ذرا مشکل سے ہی بناتے ہو تم"
خضر نے معاویہ کو دیکھتے ہوئے کہا

"ڈیڈ بہت جلد آپ کو ملوآؤ گا اس سے۔۔۔۔ کیا آپ میرے دوست کے متعلق ہی بات کرنے آئے ہیں" معاویہ نے اکتا کر پوچھا

"نہیں تمہارے دوست کے متعلق بات کرنے نہیں آیا ہوں۔۔۔ میں تم سے صرف یہ پوچھنے آیا ہوں،، آج تم اویس شیرازی کے بیٹے کو یونیورسٹی سے مارتے ہوئے لے کر گئے تھے اور جیل میں بند کر کے اس پر تشدد کیا"
خضر نے معاویہ سے پوچھا

"اسے تشدد کرنا نہیں کہتے ڈیڈ، اس نے غلطی کی تھی جس پر میں نے اس کو اس کی غلطی کی چھوٹی سی سزا دی ہے"
معاویہ نے نارمل انداز میں خضر کو جواب دیا

"تمہیں معلوم ہوئی اویس شیرازی کوئی عام بندہ نہیں ہے اس کے کن کن لوگوں سے تعلقات ہیں۔ ۔۔  تمہیں اندازہ ہے اس بات کا اس کے بیٹے کو مار کر تم نے کیا غلطی کی ہے،،، تمہیں اندازہ نہیں ہوگا وہ غصّے میں کیا کچھ کرسکتا ہے"
خضر اب معاویہ پر شروع ہوچکا تھا

"اگر وہ عام بندہ نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب  ہرگز نہیں کہ اس کا بیٹا کچھ بھی کرتا پھرے اور اس سے کوئی پوچھ  گج نہیں کی جائے۔۔۔ ویسے تو مجھے امید ہے،  جتنی خاطر توازہ میں نے اس کے بیٹے کی، کی ہے وہ اب تک انسان کا بچہ بن گیا ہوگا اور اگر پھر بھی وہ نہیں سدھرے گا تو میں دوبارہ اس کے بیٹے کا علاج کروں گا"
معاویہ نے سنجیدگی سے خضر سے کہا

"جیسے تمہاری مرضی باپ ہو سمجھانا میرا فرض تھا، ویسے بھی تم نے تو قسم کھائی ہوئی ہے میری کچھ بھی نہ ماننے کی۔۔۔ خیر چلتا ہوں" خضر اٹھتا ہوا بولا معاویہ بھی کھڑا ہو گیا

"ویسے جس دوست سے تم مل کر آرہے ہو اس طرح کی دوستیاں صحت کے لیے مفید نہیں ہوتیں آئندہ خیال رکھنا" خضر نے غور سے معاویہ کو دیکھتے ہوئے بولا

"کیا مطلب میں سمجھا نہیں آپ کی بات"
معاویہ نے ناسمجھی سے خضر کو دیکھتے ہوئے کہا

"مطلب یہ کہ تم قد میں مجھ سے بڑھ گئے ہو مگر باپ میں ہوں تمہارا"
خضر نے معاویہ کے قریب آ کر اس کے چہرے کا رخ اپنے ہاتھ سے آئینے کی طرف کرتے ہوئے کہا اس کے گال پر لپ اسٹک کا نشان واضح نظر آ رہا تھا پھر معاویہ کے ہاتھ کی ہتھیلی کھولی

خضر نے معاویہ کے چہرے پر نظر ڈالی تو معاویہ نے جھینپ کر نظر نیچے جھکا لی خضر کمرے سے باہر چلا گیا معاویہ نے دوبارہ آئینے کی طرف دیکھا اور اپنے گال پر لپ اسٹک کے نشان پر ہاتھ پھر اسے وہ منظر یاد آیا تو اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی۔۔۔ ہاتھ پر موجود حیا کے لپ اسٹک کے نشان پر معاویہ نے اپنے ہونٹ رکھے اور سونے کے لیے لیٹ گیا


جاری ہے

itni mohbbat karo na (season 2) episode 7

Itni mohhbat karo na 2
By zeenia sharjeel
Epi # 7



"بھائی مجھے آپ سے کچھ کام تھا اگر آپ کے پاس ٹائم ہو تو پلیز"
معاویہ یونیفارم پہنا ہوا گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا اچانک صنم کی آواز پیچھے سے سنائی دی

"اگر ٹائم نہیں بھی ہوا تو میں اپنی بہن کے لئے ٹائم نکالوں گا میری بہن بہت کم اپنے بھائی کو مخاطب کرتی ہے"
معاویہ نے پلٹ کر صنم کو دیکھتے ہوئے کہا اور قدم اس کی طرف بڑھائے

"آؤ یہاں بیٹھ کر بات کرتے ہیں" معاویہ نے صنم کے  شولڈر کے گرد ہاتھ رکھ کر وہی لان میں چیئر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

"ہاں بولو صنم کیا کہنا چاہ رہی تھی تم"
معاویہ نے صنم کو دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا

"بھائی وہ میں کہنا چاہ رہی تھی کہ۔۔۔۔"
صنم اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑتے ہوئے کشمکش میں پڑ گئی کہ معاویہ کو کیسے بتائے

"تمہیں جو بھی بات کرنی ہے وہ بلاجھجک مجھ سے کہو گھبرانے کی ضرورت نہیں"  معاویہ نے اس کو نروس دیکھ کر، اس کا ہاتھ تھامتے کہا 

"بھائی میری یونیورسٹی میں ایک لڑکا ہے ساحر دوسرے ڈیپارٹمنٹ کا ہے ایک مہینے سے مجھے تنگ کر رہا ہے"
صنم نے ڈرتے ہوئے معاویہ سے کہا صنم کی بات سن کر غصے میں معاویہ کے ماتھے کی موجود نس ابھری، صنم نے مزید بات  جاری رکھتے ہوئے کہا

"شروع میں وہ صرف ڈپارٹمنٹ تک میرا پیچھا کرتا تھا پھر اس نے فضول باتیں اور جملے کسنے شروع کردیئے، میں اس کو ابھی بھی اگنور کرتی اگر وہ میرا راستہ نہ روکتا اور کل جب اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر زبردستی مجھے گاڑی میں بٹھانا چاہا۔۔۔۔"
صنم رونے لگی معاویہ سے ضبط کرنا مشکل ہوگیا

"بھائی اگر وہ مہربان شخص بیچ میں آ کر اس ساحر سے مجھے نہ بچاتا تو۔۔۔"

"یہ سب پہلے کیو نہیں بتایا تم نے مجھے"
معاویہ نے اس کی بات سن کر غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا

"مجھے ڈر لگ رہا تھا کہیں آپ غصے میں۔۔۔۔۔  پہلے میں نے سوچا یونیورسٹی جانا چھوڑ دو مگر پھر پیپر سر پر تھے، پورے سال کی محنت ضائع ہوجاتی مگر اب اس کی بڑھتی ہوئی بدتمیزی کی وجہ سے بتایا"  صنم نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا

"چلو یونیورسٹی کے لئے تیار ہو جاؤ، آج تمہیں یونیورسٹی میں چھوڑ کر آتا ہوں"
معاویہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا

"بھائی آپ مجھے یونیورسٹی چھوڑنے جائے گے"
صنم نے معاویہ کو دیکھتے ہوئے کہا

"تو اس میں اتنی حیرانگی کی کونسی بات ہے دس منٹ میں تیار ہو کر آؤ"
معاویہ نے ریسٹ واچ میں ٹائم دیکھتے ہوئے کہا


****

"صنم ساحر کا پورا نام کیا ہے اور کونسے ڈپارٹمنٹ میں ہوتا ہے وہ" معاویہ نے یونیورسٹی کے پاس گاڑی روکتے ہوئے کہا

"بھائی ایک بات مانیں گے پلیز"
صنم نے ڈیپارٹمنٹ کا نام بتاتے ہوئے کہا

"پلیز آپ آرام سے بات سمجھائیے گا" معاویہ اپنی بہن کی  سافٹ نیچر جانتا تھا اس لئے اطمینان دلاتے ہوئے بولا

"اوکے صنم میں ایسا ہی کروں گا اسے ارام سے سمجھاو گا، اب تم اپنی کلاس میں جاو"
صنم بھی اپنے بھائی کی نیچر اور غصہ اچھی طرح جانتی تھی مگر اب وہ صرف ساحر کے لئے افسوس ہی کرسکتی تھی،، صنم گاڑی سے اتر کر اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف  چلی گئی 

معاویہ نے گاڑی سے اتر کر ایک دو اسٹوڈنٹس سے ساحر کا پوچھا،  ساحر اسے مل گیا معاویہ اس کے پاس گیا

"کیا تمہارا نام ساحر شیرازی ہے"
معاویہ نے سامنے کھڑے ہوئے لڑکے کو غور سے جائزہ لیتے ہوئے دیکھ کر پوچھا جو کہ اپنے حلیہ سے ہی کسی بڑے باپ کی بگڑی ہوئی اولاد لگ رہا تھا

"ہاں ہے تو"
اس نے ایسے جواب دیا جیسے احسان کر رہا ہوں

"تو یہ"
معاویہ نے زور دار مکہ اس کے منہ پر دے مارا جس سے وہ دور جا گرا اور اس کی ناک اور منہ سے خون نکلنے لگا

سارے لوگ دیکھ کر جمع ہوگئے معاویہ نے اس کا گریبان پکڑ کر اسے اٹھایا اور گھسیٹتا ہوا کار تک لایا


"کون ہو تم، کہاں لے کر جا رہے ہو مجھے، تمہیں پتہ نہیں ہے میں کس کا بیٹا ہوں"
وہ پورے راستے بولتے ہوئے جا رہا تھا معاویہ چپ کرکے ڈرائیونگ کرتا رہا اور پولیس اسٹیشن کے باہر گاڑی روک کر ویسے ہی اسے گریبان سے پکڑ کرو کر باہر نکال کے لایا

"انسپیکٹر سعد اس کو لاک اپ کرو، نیا مہمان ہے یہ۔۔۔ اس کی اچھی طرح خاطر توازہ کرو، کوئی کمی نہیں آنی چاہیے، ،،، میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں"
معاویہ نے ساحر کو آگے دھکیلتے ہوئے کہا اور چیئر پر بیٹھ گیا

****

"کیا کر رہی تھی میری کیوٹ سی پیاری سی وائف" حور نے جیسے ہی فون اٹھایا زین کی آواز کانوں میں پڑی تو اس کے ماتھے پر موجود بل ختم ہوئے

"تم بھی ناں بس فون پر شروع ہو جایا کرو"
حور نے فون کو گھورتے ہوئے کہا

"سامنے بھی شروع نہیں ہونے دیتی اب فون پر تو پابندی نہیں لگاو یار"
زین نے اس کو مزید چھیڑتے ہوئے کہا

"شاہ تمھاری بیٹی اور جوان"
حور نے بھولنا چاہا

"ہاں یار میری بیٹی جوان ہو چکی ہے، میں جوان بیٹی کا باپ ہو، ائی نو۔ ۔۔۔ تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں بیوی سے باتیں کرنا چھوڑ دو اور اپنے اوپر بڑھاپا طاری کرلوں"
زین حور کی بات کاٹتے ہو بولا

"یہ کب کہ رہی ہوں میں تھوڑا کنٹرول کرو اور یہ بتاؤ ابھی فون کیسے کیا ہے"
حور نے سامنے رکھی چیئر پر بیٹھتے ہوئے پوچھا

"ابھی ابھی میٹنگ سے فارغ ہو یہ بتاؤ تم کیا کر رہی تھی وہ میری پرنسس کالج گئی کے نہیں"
زین نے حور سے پوچھا

"چلی گی ہے تمہاری پرینسیز کالج کل رات کو پتہ ہے کتنی دیر سے گھر آئی ہے"
حور نے کل رات کا احوال سنایا

"یار تم فضا اور بلال کو بلا لیتی نہ یا تم ان کے پاس چلی جاتی ہیں اور وہ ہادی کے ساتھ گئی تھی پھر ٹینشن کس بات کی"
زین نے حور کو ریلیکس کرتے ہوئے کہا

"شاہ تم بھی نہ پتہ نہیں کیسی باتیں کرتے ہو، اب دور اتنا بھی ماڈرن نہیں ہوا ہے اور ہمیں بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے حیا اب بڑی ہوگئی ہے۔۔۔۔ اس کو یوں اتنی رات تک ہادی کے ساتھ گھر انا۔۔۔۔  صرف تمہاری پرمیشن کی وجہ سے میں چپ رہی ہو مگر یہ ٹھیک نہیں ہے"
حور نے رسانیت سے زین کو سمجھایا

"حور ہادی ہمہارے سامنے پلا بڑھا ہے،، گھر کا بچہ ہے کیا تمہیں اس پر بھروسہ نہیں ہے" زین نے حور کو سمجھانا چاہا

"بات بھروسے کی نہیں ہے ہادی بہت عزیز ہے مجھے بالکل حیا کی طرح،،، مگر خیر تم میرا پوائنٹ اف ویو نہیں سمجھ رہے ہو، یہ بتاؤ کب تک واپسی ہے تمہاری"
حور نے زین سے پوچھا

"انشاءاللہ کل صبح تک آجاؤں گا ok فون رکھتا ہوں جب تک کے لیے اپنا خیال رکھنا"
زین نے رابطہ منقطقتہ کرتے ہوئے کہا 

*****

"ہاں سعد اقبال نے کیا رپورٹ دی ہے بابر کے بارے میں،  کچھ خاص بات پتہ چلی"
معاویہ نے فائل بند کرتے ہوئے انسپیکٹر سعد سے پوچھا

"یہ سارے فون ریکارڈز اور باقی کی ڈیٹیلز ہیں بابر کی اور تین دن کے بعد اعظم نامی بندے نے اسے اس ایڈریس پر ملنے کو کہا ہے"
سعد نے پیپر معاویہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا

"ٹھیک ہے پھر تیار رہنا یہ اعظم نامی بندہ مجھے چاہیے، کسی بھی صورت یہ ہاتھ سے نہیں نکلنا نہیں چاہیے، شاید اس کے ذریعہ ہمہیں غائب ہوئی لڑکیوں کا کچھ سوراک ملے"
معاویہ نے پیپر دیکھتے ہوئے سعد کو کہا

"جی سر جی تین دن بعد اعظم آپ کو سلاخوں کے پیچھے ملے گا"
انسپیکٹر سعد نے معاویہ سے کہا

"اور اس لنگور کی خاطر داری کی" معاویہ نے ساحر کے بارے میں دریافت کیا

"سر جی میں نے تو کافی ہاتھ صاف کیا ہے، باقی آپ بتادیں کیا کرنا ہے"
سعد نے سعادت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا

"چلو چل کر دیکھتے ہیں بل نکلے ہیں یا پھر کچھ ابھی باقی ہیں" معاویہ نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا

"اے ASP تو سمجھتا کیا ہو خود کو تو جانتا نہیں ہے میرے باپ کو، کس سے پنگا لیا ہے تو نے، دو گھنٹے کے اندر تیرا ٹرانسفر دوسری جگہ پر نہ کروا دیا تو میرا نام بدل دینا"
ساحر نے دھمکی دیتے ہوئے معاویہ سے کہا

"انسپکٹر سعد بلیڈ لے کر آو اور اس کی آدھی مونچھ کاٹ دو تاکہ آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر خود اپنا نام تجویز کر لے"
معاویہ کے بولنے پر سعد فورا بلیڈ لینے چلا گیا

"تم اپنے ساتھ بہت برا کر رہے ہو ASP بہت پچھتاؤ گے تم" ساحر نے چیختے ہوئے معاویہ سے کہا

کرسی پر بندھے ہوئے ہونے کی وجہ سے وہ مزید کو مزاحمت نہ کرسکا اور سعد نے معاویہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کی آدھی مونچھ کاٹ دی۔۔۔۔۔ سوجھے ہوئے اور نیل پڑے ہوئے چہرے پر آدھی مونچھ میں اس کی شکل اچھی خاصی مضائحکہ خیز لگ رہی تھی"
ساحر اب غصہ میں معاویہ کو گھور رہا تھا

"بلیڈ یہاں دو سعد اور اس کی رسیاں کھولو" 
سعد جانے لگا تبھی معاویہ آواز دے کر سعد سے کہا

"تمہیں پتہ ہے ساحر تمہاری یہ کارٹونوں والی حالت کس وجہ سے ہوئی ہے۔۔۔۔ صنم میری اکلوتی بہن ہے، جس کا تم نے ہاتھ پکڑنے کی غلطی نہیں گناہ کیا ہے۔۔۔ اس گندے ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑا تھا نہ تم نے" معاویہ نے بلیڈ اس کے ہاتھ پر رکھ کر گہرا کٹ لگاتے ہوئے پوچھا

پولیس اسٹیشن ساحر کی چیخوں کی آواز سے گونج اٹھا

"نہیں پلیز مجھے معاف کردو مجھے پتا نہیں تھا میں اس سے معافی مانگ لوں گا"
ساحر کی 5 منٹ پہلے والی ساری اکڑ نکل چکی تھی

"نہیں ساحر اب ایسا غضب بالکل نہیں کرنا اب تم مجھے صنم کے اس پاس بھٹکتے ہوئے نظر آئے تو تمہارے یہ دونوں ہاتھ میں کندھے اکھاڑ دونگا اور سیریسلی ایسا کرکے مجھے ذرا افسوس نہیں ہوگا"
معاویہ نے اس کے دوسرے ہاتھ پر بھی بلیڈ سے گہرا کٹ لگاتے ہوئے کہا وہ چیخیں مار مار کے رونے لگا

"آئندہ کبھی بھی اسے اپنی شکل نہیں دکھاؤں گا پلیز آپ مجھے مت مارنا" ساحر رو رو کے معافیاں مانگ رہا تھا

"صرف اسے ہی نہیں اگر تم نے یونیورسٹی یا پھر باہر کسی بھی اپنی باجی کو چھیڑا تو میں تمہارا وہ حشر کروں گا جو تمہاری سوچ سے بھی زیادہ درد ناک ہوگا۔۔۔۔ ابھی میں نے صرف وارننگ دینے کے طور پر تمہاری آدھی مونچھے کاٹ کر تمہیں آدھا مرد بنایا ہے، اگر اگلی بار تمھاری اونچھی حرکت میری نظر سے گزری تو آگے تم خود سمجھ دار ہو"
معاویہ نے خون والا بلیٹ اسکی شرٹ سے صاف کرتے ہوئے کہا

"سرجی ساحر شیرازی کی بیل کروانے کے لیے وکیل آیا ہے آپ سے ملنا چاہتا ہے"
سعد نے معاویہ کو بتایا تو معاویہ لاکپ سے باہر نکل گیا

****

"ہادی تم نے اسموکنگ کی ہے" ہادی کے روم میں آتے ہی حیا نے چیخ کر کہا

"ارے یار آئستہ تو بولا کرو حلق میں پورا لاؤڈ اسپیکر فٹ ہے تمھارے کوئی نہیں پی میں نے سگریٹ وگرٹ" ہادی نے روم میں باہر نظر ڈالتے ہوئے کہا جہاں پہ فضا حور اور بلال بیٹھے ہوئے تھے

"زیادہ جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے تمہاری شرٹ سے مجھے یہاں تک سگریٹ کی سمیل آ رہی ہے تمہیں پتہ ہے نہ کتنی چڑ ہے مجھے اسموکنگ سے"
حیا نے ہادی کو گھورتے ہوئے کہا

"حیا تھوڑی دیر پہلے فراز آیا تھا وہ اسموکنگ کر رہا تھا جبھی آرہی ہوگی سمیل۔۔۔ جب زین انکل تمہاری خاطر سگریٹ چھوڑ سکتے ہیں تو میری کیا مجال ہے جو میں سگریٹ کو ہاتھ بھی لگاؤ"
ہادی نے حیا کے چہرے کو اپنی نظروں کی حصار میں لیتے ہوئے کہا اف وائٹ پریلوٹ پر لیمن کلر کے کرتے میں وہ اور بھی خوبصورت لگ رہی تھی

"ویسے تم کچھ زیادہ ہی خوش قسمت نہیں ہوں" ہادی نے اس کو دیکھتے ہوئے کہا

"کس معاملے میں بھلا"
حیا نے ناسمجھی سے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا

"محبت کے معاملے میں اتنے سارے لوگوں کی جو  محبت سمیٹے ہوئے ہو"
ہادی اب دیوار سے ٹیک لگائے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا

"تو شاید میں ہوں میں اس قابل کہ مجھ سے محبت کی جائے"
حیا نے اترا کر کہا اور مسکرا دی

"اس میں کوئی شک نہیں، آنٹی انکل کے ساتھ ساتھ بابا مما اور عدیل تم سے بہت محبت کرتے ہیں اور میں بھی تم سے بہت محبت کرتا ہوں" 
ہادی اس کی طرف قدم بڑھاتا ہوا بیڈ کے نیچے اس کے پاس گھٹنے ٹکا کر بیٹھا

"حیا"
وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے، جب حور کی آواز پر ہادی ایک دم اٹھ کھڑا ہوا

"چلو بیٹا گھر چلتے ہیں رات ہونے والی ہے"
حور نے حیا سے کہا

"میں چھوڑ دیتا ہوں آنٹی آپ دونوں کو"
حیا کو آٹھتا دیکھ کر ہادی نے کہا

"کیا ضرورت ہے بیٹا ایک گلی چھوڑ کر ہی تو گھر ہے ہم چلے جائیں گے تو ریسٹ کرو"
حور نے منع کرنا چاہا

"نہیں ٹھیک کہ رہا ہے ہادی چھوڑ آئے گا رات ہو گئی ہے" فضا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا


****

گھر کے گیٹ کے پاس چھوڑ کر ہادی وہی سے گھر چلا گیا وہ دونوں اندر پہنچی شیر خان نے آنکھیں مسلتے ہوئے گیٹ کھولا حیا کی نظر ‏بل ڈوگ پر پڑی جو کہ سو رہا تھا حیا نفی میں گردن ہلاتی رہ گئی

وہ دونوں گھر کے اندر داخل ہوئی حور کے موبائل پر زین کی کال آنے لگی تو حور اپنے روم میں چلی گئی،،، حیا بھی اپنے روم کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور دروازہ بند کرلیا مگر دو قدم بڑھتے ہیں اسے کسی انہونی کا احساس ہوا جیسے روم میں کوئی موجود ہے ناک کے نتھنوں سے سگریٹ کی اسمیل ٹکرائی تو اس نے مزید آگے بڑھ کر سوئچ بورڈ پر ہاتھ مار کر لائٹ ان کی سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔۔۔۔ وہ سکون سے اس کے بیڈ پر لیٹا ہوا سگریٹ کے کش لگانے میں مصروف تھا اور اس کی نظریں سامنے دیوار پر حیا کی انلارج تصویر پر مرکوز تھی

جاری ہے

itni mohbbat karo na (season 2) episode 6

itni mohbbat karo na 2
By zeenia sharjeel
Epi # 6



"کتنی بورنگ شادی ہے"
سوہنی نے منہ بناتے ہوئے بولا

"ظاہری بات ہے کون سی ہمارے کزن کی شادی ہے جو ہم انجوائے کریں گے"
فری پوز بنا کر اپنی تصویر کھینچتے ہوئے بولی

"اگر مجھے اندازہ ہوتا یہاں آکر بور ہونا ہے تو میں آج نہیں آتی زرش کو دیکھو نظر ہی نہیں آرہی ہے اپنی کزن کے ساتھ کیسے گھومے جا رہی ہے" حیا نے اپنی بوریت کا اظہار کرتے ہوئے تبصرہ کیا

"اوہو بوریت دور کرنے کے لئے میرے پاس ایک آئیڈیا ہے کیوں نہ ہم ایک گیم کھیلں" فری نے موبائل رکھتے ہوئے تجویز دی

"اس بینکیوٹ میں گیم کھیلیں کہیں تمہارا دماغ چل تو نہیں گیا"
سوہنی نے اس کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے کہا

"ارے پہلے پوری بات میری سن تو لو ڈمبو"
فری نے جھنجھلاتے ہوئے کہا اور پاس پڑے ٹیبل سے پانی کی منرا بوتل اٹھائی

"کیوں نہ ہم truth and dare کھیلیں"
اس نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

"ویسے آئیڈیا تو اتنا برا نہیں ہے"
حیا نے متاثر ہوتے ہوئے کہا

فری نی ٹیبل سے بوتل اٹھائی اور لیٹا کر اسکو گھمایا۔۔۔ کورک والی سائڈ اتفاق سے حیا کے اوپر آئی اور حیا کا منہ او شیپ میں کھل گیا

"چلو بھی حیا اب تم dare کے لئے تیار ہو جاؤ اور تمہارا dare ہے کہ وہ اس سائیڈ پر بلیک ڈنر سوٹ میں جو dashing person دکھ رہا ہے ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے اپنی پاکٹ میں لائٹر رکھا ہے وہ لائٹر نکال کر تمہیں لانا ہے مگر اس کو پتہ نہ چلے"
سوہنی نے اس کو ڈیئر بتاتے ہوئے معاویہ کی طرف اشارہ کیا

"یو مین اس دو ٹکے کے پولیس والے کے پاس سے لائٹر لانا ہے"
حیا نے ایسی شکل بناکے کہا جیسے اسے کے ٹو کے پہاڑ پر چڑھنے کا کہہ دیا ہو

"کیا ہوا لگتا ہے کافی مشکل ڈیئر مل گیا ہے تمہیں شاید"
فری نے حیا کی شکل دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا

"خیر اب ایسا بھی کوئی مشکل نہیں ہے"
حیا نہ آنکھیں بند کرکے دوبارہ کھولیں اور چیئر سے اٹھتے ہوئے معاویہ کی طرف قدم بڑھائیں

معاویہ جوکہ رش ہونے کی وجہ سے تھوڑا سائیڈ پر ہوکر موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا،، حیا اس کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے آئی معاویہ کی پشت حیا کی طرف تھی اس وجہ سے اس کی نظر حیا پر نہیں پڑھی اور حیا اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی، دبے پاؤں معاویہ کے بالکل قریب آئی اس نے معاویہ کی پاکٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا، معاویہ نے پلٹ کر ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا بے ساختہ ہلکی سی چیز حیا کے منہ سے نکلی

"آخر ایسی کونسی چیز ہے جس کی وجہ سے تمہیں اس دو ٹکے کے پولیس والے کے پاس آنا پڑا"
حیا کا نازک ہاتھ ابھی بھی اس کے مضبوط ہاتھ میں تھا

"کیا مطلب ہے تمہارا، دماغ تو خراب نہیں ہے۔۔۔ بھلا مجھے کیا ضرورت پڑی ہے تمہارے پاس آکر کسی چیز کے لینے کی،، تم جیسے کو تو میں اچھی طرح جانتی ہوں بس لڑکی کا ہاتھ پکڑنے کے بہانے چاہیے ہوتے ہیں"
حیا نے اپنا ہاتھ ایک جھٹکے سے اس کے ہاتھ سے چھڑاتے ہوئے کہا

"یعنی چوری اور اوپر سے سینہ زوری"
معاویہ نے اپنا موبائل جیب میں رکھتے ہوئے حیا کو دلچسپ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا

"چوری؟؟؟؟ چوری کیسی میں تو یہاں سے گزرتے ہوئے جا رہی تھی"
حیا نے بات بناتے ہوئے بولا

"جب چور کو کوئی بہانہ نہیں سمجھ میں آتا تو بالکل ایسی ہی وضاحتیں دیتا ہے"
حیا کا نروس ہوتا ہوا روپ معاویہ کے دل کو اور بھی بھارہا تھا

"ای مسٹر اپنی حد میں رہو اگر میں کچھ بول نہیں رہی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم بار بار مجھے چور کہہ کر مخاطب کرو"
حیا کو اب غصہ آنے لگا

"میرا نام مسٹر نہیں معاویہ ہے اور میں ابھی تک اپنی حد میں ہی ہوں ویسے چور کو چور ہی کہا جاتا ہے کترینہ کیف نہیں"
معاویہ اس کے پل پل بدلتی کیفیت کو انجوائے کر رہا تھا اس لئے جان بوجھ کر بات کو تول دے رہا تھا

"تمہارا نام معاویہ ہو یا پھر x y z مجھے کیا لینا دینا،،، اپنی حد میں ہو یہ تمہاری صحت کے لئے بہتر ہے اور ہاں کر رہی تھی میں چوری کیا کر لو گے تم"
حیا نے مزید تپ کر کہا

"میرے نام سے آگے زندگی میں جاکر تمہیں ہی لینا دینا ہوگا۔۔۔ ویسے تم ایک پولیس والے کے سامنے اپنا اقبال جرم قبول کر رہی ہوں اور پولیس والا بھی وہ جو کہ 10 مار کر ایک گنتا ہے"
اس نے حیا کو ڈرانا چاہا

"تم۔ ۔۔۔ تم مجھے مارو گے"
حیا کو بدتمیز تو پہلے ہی لگا تھا مگر اس درجہ بدتمیز ہوگا وہ سوچ نہیں سکتی تھی

"تو تم چاہتی ہوں میں تمہیں پیار کرو"
معاویہ نے گہری نظریں حیا کے چہرے پر مرکوز کرتے ہوئے کہا

"میرا مطلب تھا تمہیں ایک لڑکی پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے شرم نہیں آئے گی"
حیا نے اس کی بات پر ایک دم گڑبڑا کر کہا

"چور چور ہوتا ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت ان کی پٹائی لگاتے ہوئے شرم کیسی"
معاویہ نے سنجیدگی سے کہا

"ہاتھ لگانا تو دور کی بات تم مجھے چھو بھی نہیں سکتے"
اس کی باتیں حیا کو مزید طیش دلائے جا رہی تھی

"انٹرسٹنگ ویری انٹرسٹنگ چیلنجز تو مجھے ویسے ہی بہت پسند ہیں چھو کر تمہیں یہی دیکھاو یا تمہارے گھر پر"
معاویہ نے چوائس اس کو دی، حیا اس کے ڈھیٹ پن پر غش کھا کر رہ گئی

"ہاہاہا تم میرے گھر آنے کی بات کر رہے ہو،، اگر تم نے میرے گھر پر قدم بھی رکھا تو صبح تک تمہارا قیمہ بنا ہوا  ملے گا"
زین نے چند دن پہلے گلی میں چوری ہونے کی وجہ سے ایک بل ڈوگ خریدا تھا جس کی شکل دیکھ کر ہی روح فنا ہونے لگ جاتی تھی

"اوکے ہماری اگلی ملاقات اب تمہارے گھر پر ہوگی۔۔۔۔ چیلنج مکمل ہونے کے بعد داد میں اپنے طریقے سے وصول کروں گا یہ یاد رکھنا"
معاویہ نے حیا کے گلوس لگے ہوئے گلابی ہونٹوں کو دیکھتے ہوئے کہا اور مسکراتا ہوا وہاں سے چلا گیا

 حیا دانت پیس کر اس کو وہاں سے جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئی

****

"کیا ہوا حیا بار بار پیچھے مڑ کر کیا دیکھ رہی ہو"
 کار ڈرائیو کرتے ہوئے ہادی نے بار بار حیا کو مڑ کر دیکھنے کا نوٹس لیتے ہوئے پوچھا

"نہیں ویسے ہی کچھ خاص نہیں"
اس وقت تو حیا کو پتا نہیں چلا، اس دو ٹکے کے پولیس والے سے کیا کیا بول گئ مگر اب سوچ کر ٹینشن ہو رہی تھی،،، کہیں وہ سچی میں ہی آنا جائے اور زین بھی گھر پر نہیں تھا یہ سوچ کر اس کا دل بری طرح دھڑکنے لگا

"کیا ہوا تم ٹھیک ہو"
ہادی نے اس کو کھوئے ہوئے دیکھ کر پوچھا

"ہاں بھلا مجھے کیا ہونا ہے"
حیا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا

"تو پھر اتنی چپ چپ کیوں ہو بات کرو نہ کوئی"
ہادی نے ایک نظر اس کو دیکھ کر ڈرائیو کرتے ہوئے کہا

"ہادی اگر کسی سے کوئی غلطی آئی مین بےوقوفی میں کوئی غلطی ہوجائے تو کیا کرنا چاہیے" حیا نے ان ڈائریکٹ میں اپنی کی ہوئی بیوقوفی کا حل تلاشنا چاہا

"تو پھر اس غلطی کو آئی مین بیوقوفی میں کی گئی غلطی کو فورا ہادی سے شیئر کر لینا چاہیے"
ہادی نے کٹ سے کار موڑتے ہوئے کہا

"کیا مطلب ہادی سے شئیر کرنا چاہیے۔۔۔ کوئی مجھ سے غلطی تھوڑی ہوئی ہے، تمھارا مطلب تم مجھے بہت بےوقوف سمجھ رہے ہو جو میں غلطی کروں گی"
وہ الٹا اس پر چڑھ دوڑی اتنے میں حیا کا گھر آیا ہادی نے اس کے گھر کے پاس گاڑی روکی

"حیا اگر کچھ کارنامہ انجام دیا ہے تو فورا مجھے بتاؤ اس کے بعد روتی ہوئی میرے پاس مت آنا"
ہادی نے جانچتی ہوئی نظروں سے حیا کو دیکھتے ہوئے کہا

"کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا میں نے،، تمہیں تو شاید دنیا کی سب سے بڑی بےوقوف ہی میں لگتی ہوں جاؤ اب اپنے گھر واپس"
حیا نے گاڑی سے اترتے ہوئے کہا اور گیٹ سے اندر چلی گئی۔۔۔۔ ہادی حیا کو جاتا ہوا دیکھ کر تاسف سے سر ہلاتا ہوا رہ گیا اور کار اسٹارٹ کردی

"شیر خان تمہیں یہاں سونے کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں ڈیوٹی کرنے کے لئے"
حیا نے اونگتے ہوئے چوکیدار کو کہا

"چھوٹی بی بی ابھی ہی آنکھ لگی تھی"
شیر خان نے صفائی دیتے ہوئے کہا

"اور یہ بل ڈوگ کی رسی کھول دو اور اب تمہاری بالکل آنکھ نہیں لگنی چاہیے صبح تک"
شیر خان کو وان کرتی ہوئی وہ اندر چلی گئی

 گھر آکر اس نے ایک ایک روم کا جائزہ لیا تو دل کے اندر سے ڈر جاتا رہا جیسے ہی ریلیکس ہوئی

"حیا"
اپنے نام پر بری طرح اچھل پڑی مگر سامنے حور کو دیکھ کر اس کی جان میں جان آ گئی

"ماما آپ نے تو جان ہی نکال دی تھی میری"
اس نے دوبارہ اپنے آپ کو اطمینان دلاتے ہوئے کہا

"ایک تو اتنا لیٹ ای ہو اوپر سے گھر میں چہل قدمی شروع کردی ہے کیوں ہر وقت پریشان کرتی رہتی ہو"
شاید وہ نیند سے جاگی تھی


"اوکے بابا سوری آپ جا کر سو جائیں میں بھی اپنے روم میں جا رہی ہوں" اس نے حور کو اپنے روم میں بھیجتے ہوئے خود اپنے روم کا رخ کیا

کمرے میں پہنچی تو موبائل بجنے لگا موبائل نکالا تو ہادی کا میسج آیا تھا جسے دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی

"کیا تم ناراض ہو مجھ سے"

"تو کیا نہیں ہونا چاہیے"
حیا نے ٹائپ کیا

"بالکل نہیں ہونا چاہیے ورنہ میری ساری رات جاگتے جاگتے گزر جائے گی"
میسج پڑھ کر حیا کے چہرے پر مسکراہٹ آئی

"اتنے اچھے نہیں ہو تم چپ کر کے سو جاؤ نیند آ رہی ہے مجھے بھی"
حیا نے میسج کرنے کے بعد اپنا موبائل of کردیا


جاری ہے

Friday, December 28, 2018

Muhabbat barsadena tu by Aymen nauman episode 8

Muhabbat  barsadena tu..❤
By Aymen Nauman
Epi 8

حسام گلے رانا کو  اپنی حیوانیت کی بھینٹ چڑھا چکا تھا ۔
اور اب اٹھ کر کمرے میں کچھ تلاش کر رہا تھا چند ہی لمحوں میں اس کو اپنی مطلوبہ شہر مل ہی گئی تھی آخر کار ۔۔۔
حسام نے زمین پہ پڑا گل رانا کا دوپٹہ اٹھایا اور بے جان و بے ہوش اسکے  ساکت وجود کےاوپر پھینکنے کے انداز میں پھیلا  دیا ۔۔۔
البتہ خود فریش ہونے کے لئے چلا گیا ۔۔۔
فریش ہو کہ وہ دوبارہ کمرے میں آیا تھا۔۔
گل ابھی تک ویسی ہی تھی جس حال میں وہ چھوڑ کر گیا تھا ۔۔
ہونہہ۔ ۔۔
نخرے تو دیکھو ذرا ایسے ہیں جیسے کسی محل سے آئی ہو بہت پاک باز بی بی ۔
وہ گل پر تمسخر اڑاتی ہنسی اچھالتا باہر نکل گیاتھا ۔۔
 اپنی گاڑی کی چابی اور موبائل ڈریسنگ ٹیبل پرسے اٹھا کر   ۔۔
دو گھنٹے بعد وہ گھر  واپس آیا تھا اور آتے ہی اس کو پہلا خیال گل کا ہی آیا تھا ۔۔
ہو نہ ہو اب تک تو محترمہ کی عقل ٹھکانے آ چکی ہوگی اچھی طرح سے۔۔
 حسام کی غیرت کو للکارنے کا اب تک تو بہت اچھا سبق سیکھ چکی ہو گی ۔۔۔۔
وہ سفاکی سے پوچھتا واپس گل کی طرف بڑھا تھا ۔
حسان نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا وہ ٹھٹک سا گیا گل بےحس اور حرکت صبح  والے انداز میں ہی بستر پر دراز تھی ۔۔
حسام کو خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوئی وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا تھا اور جھک کر اس کے ہاتھ کی نبض ٹٹولنے لگا ۔
 اس کے اندازے کے عین مطابق گل کے ہاتھ کی نبض بہت ہلکی چل رہی تھی ۔۔
اومائی گڈنیس۔ ۔
 اس کی نبض کو بہت سست حرکت کررہی ہے اب کیا کروں ؟؟
وہ اپنے سر کے بال دونوں مٹھیوں میں قید کئے سوچ رہا تھا ۔۔۔
اگر ہوسپٹل لے کر گیا تو لمبے چوڑے سوالات ہوں گے اور میرا خود کا نام بھی خراب ہو گا ۔۔
پھر اب کیا کروں ؟؟؟
کوئی تو راستہ ہوگا کوئی تو حل ہوگا اس مسئلے کا ؟؟؟
وہ غصے اور پریشانی کے ملے جلے انداز میں پورے کمرے میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہا تھا ۔۔
اب ایسا بھی کیا کردیا کہ یہ ہوش میں ہی نہیں آ رہی ؟؟
وہ اس کے ناک کے قریب بار بار اپنی دو انگلیاں لے جا کر دیکھ رہا تھا کے سانسیں چل رہی ہیں یا نہیں ۔۔۔
اور پھر ایک خیال اس کے دماغ میں بجلی کی سی تیزی سے کوندھا تھا ۔۔
ہاں یار تم فوری میرے گھر آؤ ۔۔
یار تم آ تو جاؤ سب کچھ بتاؤں گا۔۔۔
 بس جلدی سے میرے گھر پہنچوں اور کسی کو بھی     بتا کر مت آنا۔۔۔
اب وہ بہت گہری نظروں سے گل کو دیکھ رہا تھا ۔۔



وہ اپنی ماں صدف اور باپ میرحسن سعدان کے ساتھ زمل کے گھر اس کے ڈرائنگ روم میں برجمان تھا۔ ۔
 ساتھ ہی دو گارڈ بھی تھے جن کو اس نے گھر کے باہر کھڑا رہنے کا حکم دیا تھا ۔۔
آج اتوار کا دن تھا جس کی وجہ سے گھر کے سبہی فرد تقریبا گھر میں ہی تھے۔۔۔
 سوائے زید کے وہ اپنے کسی دوست کی والدہ کی تدفین میں گیا ہوا تھا ۔

گھر کے سبھی افراد حیران پریشان ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔
 کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میرحسن سعدان ملک کا اتنا بڑا سیاستدان
 ان کے گھر میں آخر اتنے ڈھیروں تحفے تحائف پھلوں کی ٹوکریاں، مٹھائیوں کے ٹوکرے لےکر  کیوں آیا ہے؟؟
دیکھئے احمد صاحب ہم خاص ایک سلسلے میں آپ کے گھر تشریف لائے ہیں ۔۔

میر حسن سعدان نے بہت طریقے سے گفتگو کا آغاز کیا ۔۔
وہ ایک قدرے سلجھے ہوئےانسان تھے ۔۔۔
اور ابھی موجودہ دور کے بہترین سیاست دان ثابت ہو رہے تھے ۔۔
وہ حقیقتا نیک فطرت آدمی تھے ۔۔
جی میر صاحب فرمائیں ۔۔
احمد کی بجائے طاہر صاحب نے بڑے شایستہ  انداز میں استفسار کیا ۔۔

میں آپ کی بیٹی ز مل کو اپنی وائف کے عہدے پر فائز کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔

صدف اور حسن کے بولنے سے پہلے ہی میر نے سیدھے لفظوں میں اپنا مدعا بیان کیا ۔۔

ڈرائنگ روم میں بیٹھے سبہی افراد پیر میر حنید کی بات کو سننے کے بعد دم بخود رہ گئے تھے ۔۔

مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ لوگ ہمارے گھر تشریف لائے مگر ۔۔۔
مگر کیا ؟۔۔
میر کے چہرے کے زاویوں میں یکدم سختی سے پیدا ہوئی تھی ۔۔۔
میں بہت معذرت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ میری بیٹی زمل کا نکاح چار دن پہلے ہی میرے بڑے بھائی صاحب کے بیٹے زید سے ہوچکا ہے ۔۔

احمد صاحب ٹھہر ٹھہر کے زمل کے نکاح کے متعلق ان لوگوں کو آگاہی دے رہے تھے ۔۔۔

نکاح ہی ہوا تھا نہ رخصتی تو نہیں ہوئی ہے نہ ؟؟؟
ختم ہوجائے گا نکاح بھی کتنی دیر لگے گی؟ ؟؟
۔۔۔
میر بہت سفاکی سے بولا ۔۔

مسٹر نکاح کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے کہ جب جی میں آیا ختم کردیا اور جب جی میں آیا کر لیا ۔۔۔۔
آدم سے مزید ظبط  نہ ہوا اور وہ بھی میر کے ہی انداز میں سرد تاثرات چہرے پہ سجائے گویا ہوا۔۔۔
 
ٹھیک ہے میں آپ لوگوں کو جلد ہی جواب دوں گا اس سلسلے میں ۔۔

کافی دیر سے خاموش دادا نے گفتگو میں حصہ لیا ۔۔۔
وہ نہیں چاہتے تھے کہ میت اور آدم ایک دوسرے سے بھڑیں  اور کوئی بدمزگی پیدا ہو ۔۔۔

ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی مول لیں  ۔۔

اس لئے کہ میر کا تو کچھ نہیں بگڑنا تھا ان کے گھرانے کا ٹھیک ٹھاک نقصان ہو جانا تھا ۔۔۔
دادا بہت آگے کی سوچ رہے تھے ۔۔

السلام علیکم ۔۔

ابھی دادا کچھ اور بھی کہنے والے تھے کہ حورم ڈرائنگ روم میں آ دھمکی تھی ۔۔۔۔

آدم نے تیز نظروں سے اس کو گھورا تھا وہ اس وقت بھی اپنے اول جلول لاپروا سے ہولیہ میں آپنا تشریف کا ٹوکرا اٹھائے چلی آئی تھی ۔۔

وعلیکم السلام ۔۔

تینوں مہمانوں نے ایک سا تھ جواب دیا تھا ۔۔۔

جبکہ حورم کا تو خوشی کا ٹھکانا ہی نہیں تھا انہیں اپنے گھر میں دیکھ   کے ۔۔
سر آپ یہاں کیسے ؟؟؟۔

حورم بڑے بے تکلفانہ انداز میں میر حنید سے گویا ہوئی تھی ۔۔

آدم نے چبھتی ہوئی نظر حورم پہ ڈالی تھی ۔۔
جیسے آنکھوں سے ہی اٹھا کر ڈرائنگ روم کے باہر پٹخ دے گا ۔۔۔
کیسی ہو پرنسس؟ ؟
 پھر کسی نے تہیں تنگ تو نہیں کیا ؟؟

میراس کو چھیڑتے ہوئے بولا ۔۔۔
حورم تم کمرے میں جاؤ اپنے ۔۔۔
آدم نے حورم کو ڈانٹنے کے انداز میں گویا ڈرائنگ روم سے جانے کا کہا تھا

مسٹر تمیز سے بات کرو ۔۔۔

مجھے پتہ ہے کہ مجھے کس طرح بات کرنی ہے اور کس طرح بات نہیں کرنی ۔۔

برائے مہربانی آپ لوگ جس مقصد کے تحت  آئے تھے اگر وہ پورا ہو گیا ہے تو آپ لوگ جاسکتے ہیں ۔۔

آدم نے بہت چبا چبا کے ہر ایک لفظ کو ادا کیا تھا ۔۔۔
ادم اور میر حنید  دونوں کی آنکھیں طیش اور غصے سے  سرخ ہو رہی تھی ۔۔

یاد رکھنا یہ میری سالی ہے اور اس سے تمیز سے بات کرو ۔۔۔

اور میرے نزدیک میری  سالی میری چھوٹی بہن کی برابر ہے ۔۔
زبان کو لگام دو ۔۔

خیر بہت جلد ملاقات ہو گی جب میں اپنی بیوی کو پورے حق سے رخصت کروا کے لے کر جاؤں گا ۔۔۔

جاری ہے۔ ۔

Muhabbat barsadena tu by Aymen nauman episode 7

محبّت برسادینا تو ۔۔۔❤
از ایمن نعمان
قسط 7
گل رعنا خوفزدہ سی سن  کھڑی رہی اپنے پیچھے ہوتی آہٹ کو محسوس کر کے ۔۔
اسکے پیروں کی جان نکلنے کو تھی۔۔۔
 وہ جیسے تیسےہمت کرکے   ڈرتے ڈرتے پیچھے مڑی بھی دیکھنے کے لئے  ۔۔
اپنے پیچھے کھڑے شخص کو دیکھ کر گل کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا تھا ۔۔۔
اس کو اپنے پورے وجود کا خون نچڑتا محسوس ہوا۔۔
شاباش! کرلی کوشش بھاگنے کی ہو گیا تمہارا شوق پورا ؟؟
سامنے کھڑا شخص تین تالیاں بجاکر تمسخر انہ انداز میں گویا ہوا تھا ۔۔
وہ برق  رفتاری سے بھاگنے کو تھی جب حسام ایک ہی جست لگا کر اس تک پہنچا تھا ۔۔۔
خوف اور سراسیمگی سے کانپتی سسکتی گل کو اٹھا کر چند ہی لمحوں میں آدھا اپنے شانے پر ڈالا تھا ۔۔
مجھے جانے دو چھوڑ دو مجھے رحم کرو مجھ پہ میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا ؟؟؟
تمہیں جانے دوں ؟؟
اور رحم بھی کروں ؟؟
 واہ ڈائیلاگ تو بہت اچھے مار لیتی ہوں ۔۔
ویسے اب تک مجھ جیسے کتنوں کو آپنی ان دو کوڈی کی باتوں کہ جال میں پھانس چکی ہو ؟؟
وہ بہت ہی آرام سے گلے رانا کی ذات کی دھجیاں اڑا رہا تھا اور ایسے بات کر رہا تھا جیسے وہ دونوں بچپن کے دوست ہوں۔ ۔۔
تمنے مجھے کیا کچا کھلاڑی سمجھ رکھا تھا ؟؟
جو بڑے مزے سے بھگ رہی تھیں ؟؟؟
میں وہ شخص ھوں جو سوتا تو ہے مگر سوتا نہیں ۔۔۔
 سوتے ہوئے میں بھی جاگتا ہے ۔۔۔
تم نے یہ سوچا بھی کیسے کہ تم میری قید سے اتنی آسانی سے چھٹکارا اختیار کر سکتی ہوں ؟؟؟
ہاہاہا ۔۔۔
بھول ہے تمہاری وہ اس کو شانے پہ ڈالے گھر کے  اندر لے جاتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔
میں تمہیں کبھی بھی معاف نہیں کروں گی ۔۔
اس کو بد دعائیں اور کوسنے دیتے  ہوئے زاروقطار پھوٹ پھوٹ کے رو رہی تھی ۔۔۔
تم جیسی سے معافی مانگ بھی کون رہا ہے ؟۔؟
وہ" تم جیسی "پہ زور دے کے بولا ۔۔
اس کی باتیں گل رانا کو اندر تک چھلنی کر رہی تھی ۔ ۔۔
حسام اس کو بیڈروم میں لایا اور بیٹھ پہ پھیکنے کے انداز میں  گرا چھوڑا۔ 
پھر واپس پلٹ کر دروازے کا لاک لگانے لگا ۔۔۔
گل رعنا نے جیسے ہی حسّام کو روم کا دروازہ لاک کرتے دیکھا اسکی آنکھوں میں وحشت سی اتر آی ۔۔
تو گویا اسکی عزت کا جنازہ نکلنے کو تھا ۔۔۔
خوف و ہراس اسکے  خوبصورت چہرے پے ناچ رہے تھے ۔۔۔
وہ  حسام کے اسکی طرف بڑھتے قدموں کو دیکھ  کر ڈر اور سراسیمگی سےسمٹ کر بیڈ کے کونے سے جالگی۔ ۔۔
مم ۔۔ممم میرے قریب مت آنا ۔۔۔
وہ وحشت زدہ سی کہہ رہی تھی  ۔۔
ہاں میں  تو  جیسے تمھیں صرف  دیکھنے کے لیے تو  اتنے لاکھوں روپے برباد کرکے خرید کر  لایا ہوں ۔۔
دیکھو تم مجھ سے نکاح کرلو پھر چاہے جتنا بھی میرے وجود سے اپنی ہوس پوری کرنا ہو کر لینا میں تمھیں روکونگی نہیں ۔۔۔
وہ بےبسی سے اسکے اگے گڑگڑاہ کر کہنے لگی ۔۔۔
مگر سامنے موجود شخص کے سینے میں  دل نہیں شاید وہ جذبات سے آری انسان تھا ۔۔۔
 وہ اب اپنی شرٹ اتار کہ سائیڈ پہ رکھے صوفے پر اچھال چکا تھا۔ ۔۔
تمھیں اتنا تو پتا ہی ہوگا کہ کوٹھے سے لائی گئ عورت کو دوسرے لفظوں میں کیا کہتے ہیں؟ ؟۔
وہ تمسخرانہ انداذ میں کہتا بیڈ پہ نیم دراز ہوچکا تھا۔ ۔۔
اب ان دونوں کے درمیان بس ہاتھ بھر کا فاصلہ ہی تھا۔ ۔
مجھے بھلے ہی نکاح کے دوسرے دن ہی چھوڑدینا مگر ابھی مجھ پر تھوڑا ہی ترس کھالو ۔۔۔
او سویٹ ہارٹ ابھی تم دیکھنا میں تم پہ کتنی مہربانیاں کرتا ہوں۔ ۔۔
وہ معنے خیزی سے کہتا اسکے وجود کو اپنی نظروں کے حصار میں لے چکا تھا۔ ۔
۔ ۔
حسام کی نظریں اب اسکے نرم و گداز گلابی پیروں پہ تھیں۔ ۔
اسنے ہاتھ بڑھا کر ایک ہی لمحے میں گل کا پائوں کھینچ کر خود سے بے پناہ قریب کیا تھا۔ ۔
بہت برداشت کرلی تمہاری منمانی اب تم میری منمانیاں برداشت کروگی۔ ۔۔
تم ایک گٹھیا انسان ہو بلکہ انسان کے بھیس میں وہشی درندے ہو۔ ۔
وہ روتی بلکتی کہہ رہہی تھی۔ ۔
کیا کہا میں جانور ہوں میں بھیڑیا ہوں؟ ؟
اب دکھائونگا میں سہی طرح سے اپنی حیوانیت ۔۔
یہ کہہ کر اسنے گل رعنا کے چہرے اور گردن پے اپنے دانتوں سے جگا جگا کآٹنا شروع کردیا۔ ۔
حد یہ کہ اسکے پورے وجود پر کسی بھوکے شیر کی طرح پل پڑا تھا۔ ۔
اس معصوم کو مزاہمت کرنے تک کا بھی حق نہ دیا تھا۔ ۔
وہ نازک و دھان پان سی گڑیا حسام کی درندگی کچھ گھنٹے ہی جھیل پائی تھی اور پھر بے جان سی ہوکر ہوش و خرد کی دنیا سے بےگانی ہوتی چلی گئ۔ ۔۔۔

ماضی🌼

حنا شرجیل کو اپنے سامنے دیکھ کر دنگ سی رہ گئی تھی  ۔۔
جبکہ شرجیل حنا کو بہت گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔
میس مے آئی۔ سٹ ہئیر؟ ؟؟
شرجیل نے حنا کو غائب دماغ پا کر اپنا سوال دوبارہ دہرایا تھا ۔۔
جی ضرور  ۔۔
وہ کھوئی کھوئی سی بولی تھی ۔۔
کیا میں آپ سے تھوڑی دیر آپ کا قیمتی  وقت ادھار مانگ سکتا ہوں ؟؟
شرجیل شائستگی سے پوچھ رہا تھا ۔۔
حنا مدہوش سی ہو کر اس کی مدھر آواز میں کھو سی گئی اسکو اپنے اردگرد  سب کچھ تھمتا  محسوس ہوا۔۔۔
مس اگر آپ نے مجھ پہ مکمل رسرچ کر لی ہے تو واپس ہوش کی دنیا میں آجائیں ؟؟
وo چٹکی بجاتے ہوئے بولا۔۔
جی جی کہیں ؟؟
وہ اس کی اپنے چہرے کے آگے چٹکی بجانے پر چونکی تھی اور اپنی گھبراہٹ چھپاتے ہوئے  بولی  ۔۔۔ 
کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ میرے پیچھے کل کیوں آئی تھی ؟؟
معین کے پیچھے آپ وہاں تک بالکل بھی نہیں آئ تھی کیونکہ میں کئی دن سے نوٹ کر رہا ہوں آپ میرے تعاقب میں ہے ۔۔
وہ جتاتے ہوئے کہنے لگا ۔۔
جی ہاں میں بالکل آپ ہی کی وجہ سے روز تپتی ہوئی دھوپ میں کھڑی ہوتی ہو محض صرف آپ کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے ۔۔
وہ سچائی سے گویا ہوئی ۔۔
مبادہ اگر وہ سچ نہ کہتی تو پھر شاید زندگی میں کبھی وہ شرجیل کو اپنے سامنے نہ دیکھ پاتی ۔۔
محترمہ وجہ بتانا پسند کریں گے کہ آپ میری ایک جھلک دیکھنے کے لئے اتنی تکلیف کیوں ڈھاتی ہیں ؟
وہ بہت گہری نظروں سے حنا کہ چہرے کے اتارچڑھاؤ دیکھ رہا تھا ۔۔۔


آدم عمر میں سب بچوں سے بڑا تھا جبکہ حورم گھر میں سب سے چھوٹی بچی تھی ۔۔
آدم شروع سے سخت مزاج اور سنجیدہ رہنے والا بچہ تھا ۔۔۔
حورم کی پیدائش کے وقت وہ تیرہ سال کا تھا جب چاچی اس گلاب کی پنکھڑی جیسی بچی کو ہاسپٹل سے گھر لے کر آئیں تھی ۔۔۔
سب بچے خوشی سے اس ننھی گل گوتھنی کی طرف دوڑے تھے مگر ان سب کےپہنچنے سے پہلے ہی آدم نے اس کو اپنی چاچی کی گود میں سے جھپٹنے کے انداز میں لے لیا تھا ۔۔
چاچی یہ صرف میری گڑیا ہے ۔۔
اور یہ صرف اور صرف میرے پاس ہی رہے گی ۔۔
ہاہا چاچی کی جان یہ تمہاری ہی ہے رکھ لو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس ۔۔۔
حنا اس کے گلابی پھولے پھولے گالوں پر چٹا چٹ پیار کر کے بولی۔۔
نہیں چاچی غلط بات ہم بھی کھیلیں گے یہ ہماری بھی گڑیا ہے ۔۔
زید اور راحم جلدی سے برا منا کر بولے ۔
جبکہ تین سالہ ننھی زمل   تالیاں بجاتی ٹکر ٹکر سب کو دیکھ رہی تھی ۔۔
حنا نے پیار بھری نظروں سے سب بچوں کو دیکھا اور پھر سمجھاتے ہوئے بولی ۔۔۔
ہاں بھئی یہ سب کی ہے سب کھیلنا ۔۔
نہیں چاچی یہ بس میری حورم ہے ۔۔
آدم  نے اس کا نام بھی منٹوں میں خود ہی رکھ لیا تھا ۔۔
ارے لڑکے نام تو اس کے اماں بابا کو رکھنے دے ۔۔
زارا نے سمجھانا چاہا اپنے ضدی بیٹے کو ۔۔
امی بس یہ میری حورم ہے وہ اس کو لے کر بغیر کسی کی سنے اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔
8سالہ زید اور چھ سالہ راہم اپنے اس اکڑو بھائی کو
ننھی حورم کو لے جاتا دیکھتے رہ گئے ۔۔
چاچی جب حورم بھائی کی فرینڈ ہے تو پھر زمل میری فرینڈ ہے ۔۔۔
جائو راحم تم بھی اب میری فرینڈ سے مت کھیلنا ۔۔۔
زید بھی زمل کا ہاتھ پکڑے اسکو اپنی بنائی ہوئی ٹرین کے پاس لے گیا ۔۔
جبکہ راحم آنکھوں میں بڑے بڑے موتی جیسے  آنسو لیے کبھی زارہ تو کبھی حنا کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
پھر وقت آہستہ آہستہ سرکتا رہا آدم حورم کو کسی کانچ کی گڑیا کی طرح سینچ سینچ کر رکھتا جب بھی حناء اس کو کسی بھی کام سے لینے آتی آدم صاف کہہ دیتا کہ ۔۔
مجھے بتا دیں جو بھی کام حورم کاہے میں خود کر دوں گا ۔۔
حنا لاکھ کہتی رہ جاتی کہ۔ ۔
بیٹا یہ تمہیں رات بھر تنگ کرے گی اور پھر صبح تمہیں اسکول بھی تو جانا ہوگا لاؤ اس کو مجھے دے دو ۔۔
مگر آدم یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ آپ چھوڑ دے وہ مجھے بالکل بھی تنگ نہیں کرتی ۔۔
حتیٰ کہ حورم کی تمام تر ذمہ داری کھلانے پلانے سے لے کر اس کو شاور دلانا سب کام وہ خود ہی کرتا تھا ۔۔
اسکول جاتے وقت بھی حورم کو بڑی مشکل سے  دل پہ بھاری پتھر رکھ کے وہ حنا کو دیتا تھا اور جاتے جاتے بھی اس کو پلٹ کر دیکھتا اور روز کہتا کہ ۔۔
چاچی اس کو کسی کو بھی دینا نہیں میں آکر خود لونگا اس کو بس ۔۔
اور حنا بس مسکرا کر رہ جاتی ۔۔
وہ حورم کے لئے انتہا سے زیادہ پو سیسو اور کئیرنگ تھا۔۔
حورم کسی اور کے ساتھ کھیلنا تو دور کی بات اگر کسی کی وجہ سے اس کو خراش بھی آ جاتی تو آدم چراغ پا ہو  جاتا ۔۔
جبکہ حورم بڑی ہورہی  تھی وہ سب کے ساتھ کھیلنا چاہتی تھی باقی سب بچوں کے ساتھ ملکر  مستی کرنا چاہتی تھی مگر آدم کے روکنے ٹوکنے پر دل مسوس کر رہ جاتی ۔۔
وہ آدم کی حد سے زیادہ روک ٹوک سے سہمتیں جا رہی تھی ۔۔
آدم اس سے جتنی شدید محبت کرتا تھا اتنی ہی سختی بھی کرتا تھا یا شاید سختی اس کی فطرت کا حصہ تھی جو اس کے ہر ہر انداز سے جھلکتی تھی ۔۔
آدم 21 سال کا ہوچکا تھا جب کہ حورم محض نو سال کی تھی جب ایک دن حناء نے آدم کے مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی جٹھانی زارہ سے بات کرنے کا سوچا وہ کئی دنوں سے پریشان تھی ۔۔

بھابھی  حورم اب بڑی ہو رہی ہے اس کا اب آدم کے ساتھ اس کے کمرے میں رہنا مجھے بالکل بھی مناسب نہیں لگ رہا مناسب تو خیر پہلے بھی نہیں لگتا تھا مگر میں آدم کے مزاج اور اس کا حورم سے  شدید لگاؤ  کی وجہ سے خاموش ہو جاتی تھی۔۔

میں پہلے بھی کئی دفعہ آدم سے اس بارے میں بات کر چکی ہوں مگر حناءیقین جانو وہ حورم کے لئے بہت زیادہ جذباتی ہے۔۔
 بلکہ تم شاید میری بات پہ یقین نہ کرو میں نے تو خود ایک فیصلہ کیا تھا کہ میں اب اس کے بابا سے بات کروں گی تاکہ وہی اس کو سمجھائین گے خود۔ ۔

اور پھر انہوں نے اپنی جیٹھانی سے ڈھکے چھپے لفظوں میں بات کی جس پر وہ خود بھی پریشان تھی ۔۔۔
حنا میں کیا کروں وہ حورم کو لے کر اس طرح بھی حیو کرتا ہے جیسے سب اس کے دشمن ہو اور وہ واحد اس کا خیر خواہ پیدا ہوا ۔
بھابی میں جانتی ہوں مگر اب حورم کا اس کے ساتھ رہنا کچھ مناسب نہیں ہے ۔۔۔
پہلے حورم چھوٹی تھی مگر اب وہ بڑی ہو رہی ہے ۔۔

باہر کھڑا آدم ساری باتیں سن چکا تھا خاموشی سے واپس پلٹ کر اپنے اور حورم کے مشترکہ کمرے میں آیا اور پهر دل پہ بھاری پتهر رکھ کے  اپنا کچھ ضروری سامان لے کر دوسرے کمرے میں شفٹ ہو گیا۔۔
یہ سب اس نے جس طرح کیا تھا یہ صرف وہ جانتا تھا اور اس کا خدا ۔۔۔
وقت تیزی سے گزرتا گیا حورم 17 سال کی ہوچکی تھی وہ سب کے ساتھ خوب کھیلتی مستی کرتی اسکو تو گویا آزادی مل گئی تھی ۔۔
مگر آدم کے سامنے وہ پھر سے سہم سی جاتی آدم کی حد درجہ روک ٹوک اور بے پناہ خیال رکھنا اس کو بہت ہی  ایریٹیڈ کرنے لگا تھا ۔۔
وہ آدم سے چھپتی پھرتی جب وہ گھر میں ہوتا ۔۔
مگر آدم اس کے ہر ہر فیل پر نظر رکھے ہوئے تھا ۔۔

بیٹا میں تمہاری چاچی سے  حورم کے لئے بات کر رہی ہوں اس کو اپنے گھر کی رونق بنانے کے لئے ۔۔
تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے ؟؟
آدم گم سم سا ان کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اس نے حورم کے متعلق کبھی ایسا سوچا ہی نہیں تھا۔  ۔۔
آپ دیکھلیں جیسا آپ کو مناسب لگے ۔۔
اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ امی حورم کا رشتہ راحم کے لئے طے بھی کرائی تھیں اور منگنی کی انگوٹھی بھی ہاتھ میں ڈال آئی تھیں ۔۔
وہ اپنی لاعلمی میں ہی رہا تھا کہ ایک دن جب  روزہ افطار کرتے وقت امی راہم سے بولی ۔۔
بیٹا کل میرے ساتھ بازار چلنا اور حورم کے لیے اپنی مرضی سے شاپنگ کر لینا اس کی عیدی لے کر جانی ہے ۔۔
حورم کی شاپنگ راحم کیوں کرے گا آخر؟؟؟
اس کو حیرت ہوئی اس کی حورم کی شاپنگ راحم کی پسند کی کیوں ہو گی ؟؟؟
آدم کی تیوریاں چڑھ گئی تھیں۔ ۔۔
ارے بیٹا اتنا تو حق بنتا ہی ہے میرے لاڈلے کا اس کی خیر سے منگیتر ہے ‏وہ۔ ۔
کیا کہا آپ نے ابھی؟؟؟
 آدم کرسی دکھیل کے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
ارے بھائی آپ کو نہیں پتہ کیا ماما حورم کو انگوٹھی پہنا کر آئی ہے راحم کی ۔۔
زید بڑے ہو جاؤ راحم کی نہیں راہم کے نام کی ۔۔
امی نے اس کے جملے کی تصحیح کی ۔۔
مجھے کسی نے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا ۔۔۔
مجه سے پوچھے بغیر ہی اتنا اہم فیصلہ کیسے لے لیا آپ لوگوں نے ۔۔۔
آدم کے چہرے پر بڑھتا تناؤ دیکھ کر زارہ جلدی سے بولیں  ۔۔۔
بیٹا میں حنا سے بات کرنے گئی تھی تب ہی حنا نے ہی مجھے کہا تھا کہ پہلے تم سے پوچھ لو جب تم سے میں نے پوچھا تو تم نے حامی بھر لی تھی۔ ۔
آدم کچھ بھی کہے بغیر لاؤنج سے واک آؤٹ کر دیا تھا ۔۔۔

جاری۔ ہے۔ ۔

itni mohbbat karo na (season 2) episode 5

itni mohbat karo na
By zeenia sharjeel
Epi # 5


صبح وہ جوگنگ کرکے وہ واپس آیا تو ناعیمہ ٹیبل پر صنم اور خضر کو ناشتہ سرو کر رہی تھی۔۔۔ ٹاؤل سے منہ گردن پر آیا ہوا پسینہ صاف کرکے وہ وہی بیٹھا ناعیمہ نے معاویہ کی طرف جوس کا گلاس بڑھایا جسے معاویہ نے تھام لیا

"کب تک یہ پولیس کی نوکری کرنے کا ارادہ ہے تمہارا،، اکیلے مجھ سے بزنس نہیں سنبھلتا۔۔۔ اپنا شوق پورا کر کے بزنس میں میرا ہاتھ بٹاو"
خضر نے معاویہ کو دیکھتے ہوئے کہا، جو چہرے پر بیزاری لائے ہوئے مشکل سے اپنے باپ کی باتیں سن رہا تھا

"میری نوکری میرے خواب کے ساتھ میرا  شوق ہے ڈیڈ،، مجھے بزنس میں خاص انٹرسٹ نہیں ہے۔۔۔ یہ میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہو تو پھربار بار ایک بات کو دھرانے کا کیا مقصد"
معاویہ نے کلاس سے سپ لیتے ہوئے کہا

"میری بات کا مقصد صرف یہ ہے کہ خوابوں کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی اس لیے اپنی آنکھوں کو کھولو اور ہوش کی دنیا میں قدم رکھو تمہاری اس جاب کا کوئی خاص فیوچر نہیں ہے اس لئے چند دنوں میں تم میرا بزنس جوائن کر رہے ہو"
خضر نے ناشتہ جاری رکھنے کے ساتھ اپنی بات مکمل کی

"ڈیڈ وہ کمزور لوگ ہوتے ہیں جو خواب دیکھتے ہیں لیکن اپنے کم ہمت ہونے کی وجہ سے ان کو پائے تکمیل تک نہیں پہنچاتے ہیں اور ساری زندگی خوابوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے اپنے آس پاس کی حقیقتوں کو فراموش کردیتے ہیں،،، میں اپنے دیکھے ہوئے خوابوں کو خود تعبیر کی شکل دینے والوں میں سے ہو۔۔۔ ان شارٹ آپ کہہ سکتے ہیں میں معاویہ مراد ہو خضر مراد نہیں"
معاویہ نے اپنی بات مکمل کر کے جوس کا گلاس خالی کیا 

خضر نے چائے کا کپ پٹخنے کے انداز میں ٹیبل پر رکھا، وہ خوب سمجھتا تھا کہ معاویہ کس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے ویسے بھی پورے گھر میں صرف اسی کی ہمت ہوتی تھی کہ وہ اس کی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھے

"دیکھ رہی ہو اس کی زبان یہ تربیت ہے تمہاری، ذرا تمیز سکھائی اسے تم نے کہ باپ سے کیسے بات کی جاتی ہے"
اب خضر کی توپوں کا رخ ناعیمہ کی طرف ہوگیا 

"آپ مام کو کیوں بیچ میں لا رہے ہیں یہ ان کی تربیت ہی ہے کہ جو مجھے بہت کچھ کرنے سے روکتی ہے"
معاویہ نے تیز آواز میں کہا

"معاویہ تمیز سے بات کرو اپنے ڈیڈ سے بلکہ فورا سوری کہو"
ناعیمہ نے معاویہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

"سوری مائی فٹ"  شیشے کے گلاس کو زمین پر پھینکتے ہوئے وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا

*****

"گڈ مارننگ بابا"
حیا ڈھیلے ڈھالے شرٹ اور ٹراؤزر میں مبلوس ناشتے کی ٹیبل پر آئی

"گڈ مارننگ مائی پرنسس یہاں بیٹھو بابا کے پاس"
زین نے اپنے برابر والی کرسی پر اشارہ کرتے ہوئے بولا

"تو پھر آپ آفس کے کام سے باہر جارہے ہیں ہیں" حیا نے زین کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے منہ لٹکا کر بولا وہ جب بھی آفس کے کام سے باہر جاتا  تھا تو حیا کو اسی طرح اپنے پاس بٹھا کر بہت سی باتوں کی تلقین کرتا تھا

"دو دن کی تو بات ہے، دو دن بعد بابا آپنی بیٹی کی آنکھوں کے سامنے ہونگے"
زین نے حیا کے سر پر اپنا سر ٹکاتے ہوئے کہا

"میں آپ کو مس کرو گی ہمیشہ کی طرح"
حیا آنے افسردہ ہوتے ہوئے کہا

"یہ وہ منظر تھا جو  حور ہر دفعہ زین کے گھر سے باہر جانے کے وقت دیکھتی تھی

"اپنا اور اپنی مما کا بہت خیال رکھنا کھانا وقت پر کھانا اور مما کو بالکل پریشان نہیں کرنا" زین اس کے شولڈر کے گرد ہاتھ رکھ کر ہمیشہ کی طرح ساری باتیں آرام سے سمجھا رہا تھا

"پھر ایسے تو بالکل مزہ نہیں آئے گا تھوڑا سا تو پریشان کروں گی نہ مما کو"
حیا کے معصومیت سے بولنے پر وہ تینوں ہی مسکرا دیے۔۔۔ زین نے اٹھتے ہوئے حیا کا ماتھا چوما اور حور کی طرف آیا

"اپنا خیال رکھنا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو شیر خان یا نسیمہ کو کہہ دینا، ہادی یا بلال میں سے کوئی چکر لگا لیا کرے گا،، کوئی بھی مسئلہ ہو تو مجھے فورا کال کرنا"
وہ ہمیشہ کی طرح آنکھوں میں نرم تاثر لیے ہوئے حور سے باتیں کر رہا تھا

"آہم آہم اور آخری سب سے امپورٹنٹ بات کرنی ہے وہ بھی جلدی سے کرلیں میں آنکھیں بند کر لیتی ہوں"
حیا نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا تو زین ہنس دیا جبکہ حور شرم سے سرخ ہوگئی

"حیا ہر وقت فضول گوئی سے پرہیز کیا کرو ورنہ مار کھاؤ گی تم مجھ سے"
حور نے غصہ دکھاتے ہوئے کہا

"اوکے میں رات کو کال کروں گا خدا حافظ"
حور کے گال کو اپنی دو انگلیوں سے چھوتا ہوا زین گھر سے باہر نکل گیا

***** 

"ہادی میں کہہ رہی تھی تم"
فضا جیسے ہی روم میں داخل ہوئی ہادی نے تیزی سے کوئی چیز ڈراز میں رکھی مگر فضا کی تیز نگاہوں سے یہ حرکت پوشیدہ نہیں رہ سکی

"جی ماما کیا کہہ رہی تھی آپ"
ہادی نے نارمل انداز اپناتے ہوئے فضا سے پوچھا

"عدیل کے بارے میں بات کر رہی تھی اسے اسٹیڈیز میں تھوڑا سا پرابلم ہو رہا ہے اس کے لیے کوئی اچھا سا ٹیوٹر ارینج کر دو"
فضا نے بھی نارمل انداز میں کام کی بات کی

"اس پڑھاکو کو بھی کوئی پروبلم ہو سکتی ہے بھلا۔۔۔ چلیں یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے میں ارینج کر دوں گا اج کل میں" ہادی نے فضا کو جواب دیا

"اچھا ایسا ہے زین بھائی تو گئے ہوئے ہیں میں تھوڑی دیر کے لئے حور کے پاس جا رہی ہوں تمہارے بابا آفس سے آئے تو بتا دینا"
فضا نے اٹھتے ہوئے کہا

"آپ ابھی کیوں جا رہی ہیں۔۔۔ آئی مین رات میں مجھے اور حیا کو شادی کے فنکشن میں جانا ہے تب انٹی اکیلی ہو گئی اسی وقت چلی جائیے گا تاکہ انہیں بھی اکیلے پن کا احساس نہ ہو"
ہادی نے فضا کو مشورہ دیا

"چلو یہ بھی ٹھیک ہے تمہارے بابا آئیں گے تو پھر انہی کے ساتھ چلی جاؤ گی" فضا نے مسکراتے ہوئے کہا اور کھڑی ہو کر جانے لگی دروازے تک پہنچ کر اچانک رکی

"ویسے ہادی جو رنگ تم نے حیا کیلئے لے کر آئے ہو وہ اسے کب دو گے" فضا نے اچانک ہادی سے سوال کیا

"کونسی رنگ مما" ہادی ایک دم اپنی چوری پکڑے جانے پر گڑبڑآیا

"وہی رنگ جو ابھی میرے آنے سے پہلے تم دیکھ رہے تھے،، اور میرے آنے پر تم نے دراز میں چھپائی ہے"
فضا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،،
تو ہادی ایک دم سٹپٹا گیا 

"ماما وہ تو بس ایسے ہی بس میں نے یوں ہی اپ پلیز"
اسے اپنی چوری پکڑے جانے پر سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا بولے

"کیا یہ، وہ، میں، لگا رکھی ہے جو بات ہے آرام سے بولو میں حیا نہیں ہوں جو اتنا کنفیوز ہو رہے ہو تم"
فضا نے شرارت آنکھوں میں سمائے ہوئے اس سے بولا

"اس لئے تو کنفیوز ہو رہا ہوں آپ کے سامنے کیا بولوں  اگر حیا سامنے ہوتی تو کنفیوز تھوڑی ہوتا"
ہادی دھیرے سے منہ ہی منہ میں بڑبڑایا

"عمر بڑھنے کی وجہ سے تمہاری بڑبڑاہٹ مجھے صحیح سے سنائی نہیں دے رہی ذرا اونچا بولو"
فضا اس کے پاس آ کر بیٹھ کر کہنے لگی

"آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں حیا کے لیے لایا ہوں"
ہادی نے حیرت سے فضا سے پوچھا

"اس لیے کہ میں تمہاری ماں ہو"
فضا دونوں ہاتھ باندھ کر مسکرا کر کہنے لگی جس پر ہادی بھی ہنس دیا

"آپ کو کیا لگتا ہے آئی مین حیا مان جائے گی"
ہادی نے فضا سے ہچکچاتے ہوئے پوچھا

"کیوں نہیں مانے گی میرے بیٹے جیسا ہینڈسم اسے اس دنیا میں اور کوئی مل ہی نہیں سکتا"
فضا نے دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھامتے ہوئے کہا جس پر ایک بار پھر فضا اور ہادی دونوں مسکرا دیے

*****

اکثر ایسا ہی ہوتا تھا خضر اور معاویہ کے درمیان نارمل بات کا آغاز ہوتا مگر اختتام اس کا لڑائی پر ہوتا تھا، شروع شروع میں یہ دیکھ کر گھر کے نوکر سہم جاتے تھے مگر اب وہ بھی ان کی لڑائی کے عادی ہوگئے تھے۔۔۔۔ گھر میں صرف ایک ہی وجود تھا جو بچپن سے لے کر آج تک پہلے دن کی طرح خضر کے ناعیمہ اور معاویہ کے چیخنے نے پر بری طرح سہم جاتا تھا اور وہ وجود تھا صنم کا،،، یہی وجہ تھی اس کی شخصیت میں کانفیڈنس کی کمی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کافی ریزرو نیچر کی مالک تھی۔۔۔۔ آج اسے معاویہ سے ضروری بات کرنی تھی مگر ٹیبل پر موجود جو تماشہ ہو چکا تھا اس کے بعد وہ معاویہ کمرے میں جانے کا ارادہ ترک کرکے یونیورسٹی جانے کی تیاری کرنے لگی

****

معاویہ غصہ میں کمرے میں آیا اور اپنا یونیفارم پہن کر جانے کی تیاری کرنے لگا جبھی اس کے کمرے میں ناعیمہ آئی

"یہ کیا طریقہ ہے معاویہ اپنے ڈیڈ سے بات کرنے کا۔۔۔ تمہیں ذرا بھی احساس نہیں ہے گھر کے نوکر اور دوسرے کیا سوچیں گے میری تربیت کا ہی پاس رکھ لیا کرو تم کم ازکم"
ناعیمہ نے روم میں آتے ہی معاویہ سے ناراض لہجے میں کہا

"مام ریلکس کوئی کچھ نہیں سوچتا اور آپ بھی زیادہ نہیں سوچا کریں اور احساس کی کیا بات کر رہی ہیں آپ، کبھی انہوں نے زندگی میں ہمارا احساس کیا ہے جو آج میں ان کا احساس کروں،، آپ کی تربیت کا ہی پاس رکھا ہوا ہے میں نے نہیں تو میں"
معاویہ نے بات ادھوری چھوڑ کر اپنا سر جھٹکا

"نہیں تو کیا کرو گے تم جواب دو"
نائمہ نے گھور کر معاویہ کو دیکھتے ہوئے کہا

"ایسے بنٹے ہوئے انسان کو شادی ہی نہیں کرنی چاہیے تھی، نہ ہی وہ کبھی خود سکون سے رہے ہیں اور نہ انہوں نے کبھی ہمیں سکون دیا ہے،، نفرت ہے مجھے اپنے باپ سے اور اس سے بھی زیادہ نفرت اس عورت سے ہے جس کی وجہ سے آپ نے میں نے اور صنم نے  ساری زندگی محرومیوں میں گزاری"
معاویہ کو دیکھے بغیر ہی اپنے باپ کی اس کزن سے نفرت تھی جس کی وجہ سے اس کی ماں کو زندگی میں وہ مقام نہیں مل سکا تھا جس کی وہ مستحق تھی 

"اس میں حور کا کوئی قصور نہیں ہے اور پلیز معاویہ چپ ہوجاو اب زندگی بھر ایک ہی بات کے پیچھے لکیر پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا"
ناعیمہ نے آنکھوں میں آئی ہوئی نمی کو صاف کرتے ہوئے کہا

"کاش یہ بات آپ خضر مراد کو بھی سمجھا سکتی"
معاویہ کہتا ہوا اپنے روم سے نکل گیا

*****

خضر نے فاطمہ بیگم کے کہنے پر ناعیمہ سے شادی تو کر لی مگر وہ شادی کے بعد ناعیمہ کو لے کر امریکہ چلا گیا ماں باپ نے بہت چاہا کہ وہ واپس آجائے مگر وہ واپس نہ آیا۔۔۔۔ اس کے آنے کا انتظار کرتے کرتے فاطمہ بیگم اس دنیا سے چلی گئی تو وہ بیوی بچوں کے ساتھ ہمیشہ کے لئے پاکستان آگیا اور دو سال پہلے ہی ظفر مراد کا بھی انتقال ہوچکا

*****

بچپن میں جب وہ اپنے دوستوں کو ان کے باپ کے ساتھ کھیلتا ہوا بات کرتا ہوا اور شرارتیں کرتا ہوا دیکھتا تھا،، تو وہ چاہتا تھا کہ اس کا باپ بھی اس کے ساتھ ایسے ہی کھیلے،، اس نے کوشش بھی کرنی چاہی مگر خضر نے ہمیشہ اپنے بچوں سے فاصلہ قائم رکھا بچوں سے ہی نہیں بلکہ ناعیمہ سے بھی لیے دیے انداز میں بات کرتا تھا یا کوئی کام کی بات کرلی ورنہ افس کا غصہ اکثر چیخ و پکار کر کے لڑائی جھگڑے کرکے وہ گھر میں ہی نکالتا،،، پتہ نہیں اس کو کونسی فرسٹریشن تھی جو اتنی عمر گزرنے کے بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔۔ جب کبھی فاطمہ بیگم امریکا آتی تو اکثر اپنے بیٹے کو نصیحت کرتی رہتی جس کا خضر پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا،، ایک دن باتوں ہی باتوں میں فاطمہ بیگم نے حور کا ذکر کیا تب معاویہ کو پتہ چلا کہ اس کے باپ کی کوئی کزن تھی جس سے وہ محبت کرتا تھا مگر وہ شادی نہیں کر سکا یہی وجہ تھی کہ معاویہ کو اپنے باپ کے ساتھ ساتھ اس عورت سے بھی بغیر دیکھے نفرت ہو گئی

****


"کیا اس نے تمہارا راستہ روکا"
فریحہ نے حیرت سے آنکھیں کھول کر کہا

"وہ تو شکر ہے سامنے سے سر امجد آگئے اور انہوں نے مجھے آواز دے کر بلا لیا"
 صنم نے ساحر والی حرکت فریحہ کو بتائی

"میں نے پہلے ہی کہا تھا تم سے اپنے بھائی کو بتاؤں وہ پولیس میں ہے اچھی طرح درگت بنائے گا اس گھٹیا انسان کی"
فریحہ نے ساتھ چلتے ہوئے صنم کو مشورہ دیا

"فریحہ تمہیں بھائی کا غصے کا اندازہ نہیں ہے وہ اس کی درگت نہیں بلکہ قیمہ بنادیں گے اور میں نہیں چاہتی کہ بات زیادہ بڑھے"
صنم نے پریشان ہوتے ہوئے کہا

"دیکھو صنم ایسے تو یہ مسئلہ ختم نہیں ہونے والا ہے، اس ساحر کے باپ کو کوئی چھوٹا موٹا آدمی نہیں سمجھو اس لئے بھی یونیورسٹی کی انتظامیہ کوئی ایکشن نہیں لیتی اس کے خلاف اور تمہیں یاد ہے باٹنی کی جو مریم تھی کتنا تنگ کیا تھا اسے ساحر نےاس بیچاری کو،،، اس کی وجہ سے مریم نے اپنی اسٹیڈیز تک چھوڑ دی تھی۔۔۔ تم کیا چاہتی ہو ساحر کوئی اور قدم اٹھائے گا تب سوچوں گی، میری مانو تو اپنے بھائی کو سب بتاؤں"
فریحہ نے اسے مخلصانہ مشورہ دیتے ہوئے کہا

"شاید تم ٹھیک ہے رہی ہوں مجھے بھائی سے بات کرنی چاہیے"
صنم اور فریحہ باتیں کرتے ہوئے یونیورسٹی کے گیٹ سے باہر آئی

"چلو یار میں تو چلی تمہارا ڈرائیور نہیں آئی ابھی تک" فریحہ نے صنم سے پوچھا

"ہاں آنے والا ہے تم جاو،، کل ملتے ہیں" صنم نے گھڑی میں ٹائم دیکھتے ہوئے کہا

فریحہ کے جانے کے بعد وہ وہیں کھڑی ہو گئی ڈرائیور کا ویٹ کرنے لگی۔۔۔ جب اچانک ساحر نے اس کی قریب اپنی گاڑی آ کر روکی اور اترتا ہوا اس کے سامنے آ کر کھڑا ہوگیا

"آئیے میں صنم آج ہمہیں خدمت کا موقع دیں،، میں آپ کو آپ کے گھر تک چھوڑ دیتا ہوں"
اس نے مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے صنم سے کہا

"میرا ڈرائیور آنے والا ہے آپ کو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے" صنم نے ساحر کو بولا اور وہاں سے جانے کے لئے قدم آگے بڑھائے

"سمجھنے کی کوشش کریں میں زیادہ وقت نہیں لوں گا آپ کا"
ساحر نے صنم کو جاتا دیکھ کر اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا

ہاتھ چھوڑو میرا پلیز"
اس کی حرکت پر وہ رو دینے والی ہوگی اور مدد طلب نظروں سے آنے جانے والوں کو دیکھنے لگی

"سیدھی طرح چل کے گاڑی میں بیٹھ جائے ورنہ تماشہ صرف آپ کا ہی بنے گا"
ساحر نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا
ایک دم ساحر کی گاڑی کے پیچھے دوسری گاڑی آ کر رکی

"چھوڑو اس لڑکی کا ہاتھ"
ہادی نے گاڑی سے نکلتے ہوئے ساحر سے کہا

"کیوں کیا تمہیں پکڑنا ہے"
ساحر خباثت سے مسکراتے ہوئے بولا

"غلطی ہو گئی مجھے پہلے تمہارا منہ توڑنا چاہیے تھا اور پھر اس کے بعد تم سے بات کرنی   چاہیے تھی"
یہ کہتے ہوئے ہادی نے زوردار تھپڑ ساحر کے منہ پر مارا
اسی اثناء میں صنم فورا ہادی کے پیچھے جا کر کھڑی ہوگئی

جائیے گاڑی میں بیٹھے آپ"
ہادی نے صنم کو کہا وہ فورا اس کی گاڑی کی طرف بڑھی

"تو نے مجھے تھپڑ مارا ہے تو جانتا نہیں ہے مجھے ساحر نے غصے میں ہادی سے کہا

"تم جیسے کمینوں کی کیٹگری کو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔۔۔۔ آئندہ کسی بھی لڑکی کو چھیڑنے سے پہلے تھپڑ ضرور یاد رکھنا"
ہادی اس کو بولتا ہوا وہاں سے چلا گیا اور جا کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی سٹارٹ کردی

"آپ پریشان مت ہوں اب وہ آپ کو تنگ نہیں کرے گا،، آپ مجھے اپنے گھر کا ایڈریس بتائے میں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ دیتا ہوں"
ہادی نے صنم کو دیکھتے ہوئے کہا جو بس روئے جا رہی تھی۔۔۔۔ روتے ہوئے اس نے اپنے گھر کا پتہ بتایا

"آپ رونا بند کریں پلیز یہ لیجئے"
ہادی نے گاڑی میں رکھی ہوئی پانی کی بوتل صنم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا جیسے صنم نے تھام لیا اور تھوڑا سا پانی پیا

"یہ لیجیے آگیا آپ کا گھر"
ہادی نے گاڑی روکتے ہوئے کہا

"آپ کا بہت بہت شکریہ اگر آپ آج نہ ہوتے تو"
صنم نے بھولنا چاہا

"تو میری جگہ کوئی اور ہوتا"
ہادی نے مسکراتے ہوئے صنم سے کہا صنم بھی اس کو دیکھ کر مسکرائی

آپ پلیز اندر آئے" صنم نے جھجکتے ہوئے کہا
وہ ہر کسی سے بات نہیں کرتی تھی مگر وہ اس کا محسن تھا

"نہیں میںم اب مجھے اجازت دیجئے"
ہادی نے مسکراتے ہوئے کہا

"تھینکیو مجھے گھر تک ڈراپ کرنے کے لیئے"
گاڑی سے اتر کر صنم گاڑی کے اندر جھانکتے ہوئے ہادی کو بولی

ہادی نے سر ہلکا سا خم کیا اور گاڑی اسٹارٹ کردی عدیل کے لیے ٹیوٹر کا کسی اور دن کا سوچتے ہوئے گاڑی اس نے گھر کی طرف موڑ لی


جاری ہے

Thursday, December 27, 2018

itni mohbbat karo na (season 2) episode 4

Itni mohbbat karo na 2
By zeenia sharjeel
Epi # 4


"ارے سنبھل کے میرے بچے"
حیا جیسے ہی گرنے لگی زین نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا

"مجھے تو یہ سمجھ میں نہیں آرہی ہے آج سے پہلے جب کبھی غرارہ تم نے پہنا نہیں۔۔۔ تو اب کیا ضرورت تھی اس کو پہننے کی سنبمالا تم سے جا نہیں رہا"
حور نے حیا کو دیکھتے ہوئے کہا جو کہ ڈل گولڈن کلر کے غرارے میں تیار کھڑی تھی ایک نظر دل بھر کے دیکھو اور دل ہی دل میں ماشا اللہ کہا اور نظریں ہٹالیں

"مما زرش کی بڑی بہن کی مہندی کا فنکشن ہے آج سب فرینڈز نے غرارہ ہی ڈیسائڈ کیا تھا۔۔۔ اس لئے تو ہادی کے ساتھ جا کر چار گھنٹے دماغ کھپا کر یہ غرارہ لے کر آئی ہوں اور آپ کہہ رہی ہیں کیا ضرورت تھی پہننے کی"
حیا نے حور سے ناراض ہوتے ہوئے کہا

"تو بیٹا ایسا کرو پھر اپنے بابا کو ساتھ ہی لے جاؤ تاکہ جب جب تم گرو وہ تمہیں سنبھال لیں"
حور کے بولنے پر زین مسکرا دیا

"بابا کی کیا ضرورت ہادی ہوگا نہ وہاں پر"
حیا کے منہ سے نکلا تو بے ساختہ زین نے چونک کر حیا کو دیکھا

"ارے دیکھیں نام لیا اور کال آگئی ہادی کے بچے کی"
حیا نے کال کاٹتے ہوئے کہا

"حیا تمیز سے بات کیا کرو وہ بڑا ھے تم سے"
حور نے اس کو ٹوکا

"مما باقی کی نصیحتیں آنے کے بعد اوکے بابا بائے"
حیا زین اور حور سے مل کر، دونوں ہاتھوں سے غرارہ سنبھالتی ہوئی باہر نکل آئی

"کیا ہوا کیا سوچ رہے ہو شاہ"
حور نے زین کو کھویا ہوا دیکھا تو پوچھا

"کچھ نہیں ایسے خیال آیا کتنی بڑی ہوگئی ہے نا ہماری بیٹی،، کتنی سی تھی آج سے 18 سال پہلے جب ہماری زندگی میں آئی تھی اور اب دیکھو ماشااللہ"
آخری الفاظ کہتے ہوئے زین کا لہجہ تھوڑا بھیگا جیسے اس نے اپنے آنسوؤں کو ضبط کیا ہو مگر حور کی آنکھیں نم ہوگئیں

"شاہ اس وقت تم مجھے ایک جوان بیٹی کے باپ لگ رہے ہو اور تھوڑے بوڑھے بوڑھے بھی"
آخری کی بعد میں حور نے مذاق کا رنگ دیتے ہوئے کہا تاکہ افسردگی کا اثر زائل ہوسکے جس میں وہ کامیاب ہوگئی کیوکہ زین اسکی بات پر مسکرا دیا

*****

"گاڑی سے اترنے کے بعد وہ ہادی کا ہاتھ تھام کر چل رہی تھی کیوکہ غرارہ بار بار اس کے پیر میں آرہا تھا اور اوپر سے اونچی پینسل ہیل وہ کافی اپنے آپ میں الجھی ہوئی لگ رہی تھی

"جب اتنے مسئلے تھے تو یہ شامیانہ پہننے کی ضرورت کیا تھی"
ہادی نے اس کو پریشان حال دیکھ کر کہا

"تمہیں میرا ہاتھ پکڑنا اگر اتنا برا لگ رہا ہے تو صاف بولو میں نہیں پکڑتی میں تمہارا ہاتھ"
حیا نے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا

"بس بن گیا تمہارا منہ، اچھا لاؤ دو اپنا ہاتھ"
ہادی نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا

"نہیں اب مجھے تمہارا ہاتھ نہیں تھامنا پیچھے ہٹاو اپنا ہاتھ۔۔۔۔ کوئی اور مدد کو تیار ہوجائے گا تو اس کا ہاتھ تھامو گی میں" 
حیا نے اسکا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا

'کوئی اور تھام کر تو دیکھائے تمہارا ہاتھ بتاؤں گا اس کو بھی اور تمہیں بھی۔۔۔۔ تمہیں پریشان دیکھ کر بولا تھا میں اور یہ ہاتھ میں ساری زندگی کے لئے تھام سکتا ہوں"
ہادی نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا

ہادی کے ایک دم اس طرح کہنے سے حیا نے حیرت سے ہادی کو دیکھا وہ اسی کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا حیا نے جھینپ کر اپنی پلکیں نیچے جھکائی


*****

اتفاق سے حیا کی دوست کا بھائی ہادی کا بھی دوست تھا اس لئے وہ دونوں ہی فنکشن میں انوائٹ تھے۔۔۔ دونوں وہاں پہنچ کر اپنے اپنے فرینڈز کے ساتھ بیٹھ گئے

"یار زرش کے بہنوئی کو دیکھو کیا پرسنالٹی ہے"
سوہنی نے ان دونوں سے کہا

"ہاں یار لوگ تو بڑا ڈیشنگ رہا ہے"
فری نے بھی اس کی بات کی تائید کی

"میں نے سنا ہے یہ موصوف پولیس میں ہیں"
سوہنی نے ان دونوں کی معلومات میں اضافہ کیا

"کیا پولیس میں" حیا نے برا سا منہ بنا کر کہا

"اب اس میں ایسا منہ بنانے کی کیا بات ہے بھلا"
فری نے حیا سے کہا

"زہر سے بھی زیادہ زہریلے لگتے مجھے پولیس والے چڑ ہے مجھے ان لوگوں سے"
حیا نے مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا

"غنڈے اور چور تو پکڑے جاتے نہیں ہیں ان لوگوں سے عام عوام پر ہی ان کا سارا رعب چل رہا ہوتا ہے۔۔۔ جلاد جیسی صفت ہوتی ہے ان لوگوں کی اور مجھے یقین ہے رومینس میں بھی بالکل ٹھس ہوتے ہونگے"
حیا کی کہنے کی دیر تھی پچھلی سیٹ پر سے ایک زور دار قہقے کی آواز آئی۔۔۔حیا سمیت ان دونوں نے بھی اپنے پیچھے مڑ کر ٹیبل پر دیکھا جس پر بہت سارے مرد بیٹھے ہوئے تھے اور دلچسپ نظروں سے حیا کو دیکھ رہے تھے کیونکہ تازہ تازہ تبصرہ اسی نے کیا تھا۔۔۔ ایک دم ان سب کے دیکھنے پر وہ بری طرح گھبرا گئی۔۔۔ مگر اس کی نظریں دوبارہ ہٹنا بھول گئی کیونکہ وہ مال والا نوجوان بھی اسی ٹیبل پر موجود تھا جو اسی کو بہت سنجیدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا

"سر جی یہ تو وہی میڈم ہے جو ہمیں مال میں ملی تھی"
سعد نے ہنستے ہوئے کہا

"سعد کیا تمہیں اپنے دانتوں سے پیار ہے"
معاویہ نے سنجیدگی سے اس سے پوچھا

"جی سر جی بالکل ہے"
سعد نے گڑبڑاتے ہوئے کہا

"تو اب یہ مجھے باہر نکلتے ہوئے نظر نہ آئے"
معاویہ نے اس کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا

"جی سر جی سمجھ گیا"
سعد نے اپنے دانت اندر کرلیے

سب کی نظریں اپنے اوپر پڑنے سے وہ اہک دم گھبرا کر اٹھی اور زرش کے پاس اسٹیج پر جانے لگی تبھی ایک دم معاویہ اس کے سامنے آیا۔۔۔۔ اس کے اچانک سامنے آنے سے حیا دو قدم پیچھے ہوئی،، غرارہ اس کے پاؤں کے نیچے آیا اس سے پہلے وہ نیچے گرتی، معاویہ نے ہاتھ بڑھا کر اس کا بازو تھام لیا اور اسے گرنے سے بچایا

"پولیس کی جاب ایک مشکل ترین جاب ہے ہر کوئی عام بندہ یہ جاب نہیں کرسکتا۔۔۔ ایک پولیس والا ہر دن اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنی ڈیوٹی انجام دیتا ہے ہر دن ہی اس کا رسک میں گزرتا ہے تاکہ تم لوگوں کو پروٹیک کیا جاسکے اور اپنے ملک کی حفاظت کی جاسکے۔۔۔ پولیس والوں کی کوئی اپنی پرسنل لائف نہیں ہوتی وہ اپنی فیملی کو ہر عام بندے کی طرح ہر وقت ٹائم نہیں دے سکتے مگر کبھی کبھی ہماری جاب کی وجہ سے ہماری فیملی کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مانا کے چند پولیس والوں کی وجہ سے پورا محکمہ بدنام ہے مگر تم ان چند لوگوں کی وجہ سے سب کو ایک پلرے میں نہیں تول سکتی اور رہی تمھاری آخر والی بات کا جواب۔۔۔ تو وہ میں صہیح موقعے پر تم کو دوں گا"
معاویہ حیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے سنجیدگی سے بولے جا رہا تھا

"ایکسکیوز می آپ کی تعریف"
حیا نے آبرو اوپر چڑھاتے ہوئے اس سے پوچھا

"ایک پولیس والا"
معاویہ بول کر روکا نہیں وہاں سے چلا گیا اور اس کی تعریف سن کر حیا کا حلق تک کڑوا ہو گیا

"کیا کہہ کر گیا ہے تم سے"
سوہنی نے تجسس سے پوچھا

"ایوئی ڈائیلاگ مار کر گیا ہے"
حیا نے سر جھٹک کر کہا اور اسٹیج کی طرف بڑھ گئی جہاں زرش اسے اشارے سے بلا رہی تھی

تھوڑی دیر بعد ساری ینگ پارٹی ڈانس فلور پر جمع ہوگئی جہاں پر سب ہی ڈانس کررہے تھے، زرش نے بھی ساری فرینڈز کو بلایا سب مل کر ڈانس کر رہی تھی حیا کا بھی بہت دل چاہ رہا تھا ان سب کے ساتھ مل کر انجوائے کریں مگر وہ اپنے غرارے کی وجہ سے کنفیوز ہوکر ایک سائڈ میں کھڑی ہوکر مسکرا کر مسلسل تالیاں بجا رہی تھی تیز میوزک کی آواز پر آہستہ آہستہ اس کے شولڈر بھی ہل رہے تھے۔۔۔ ڈانس فلور سے تھوڑی دور معاویہ کی نظر ایک لڑکے پر پڑی تو معاویہ چیئر سے اٹھ کر اس لڑکے کے پاس گیا وہ لڑکا کافی دیر سے حیا کو زوم کرکے اس کی ویڈیو بنانے میں مصروف تھا،،، معاویہ نے اس کے برابر میں کھڑا ہو کر اپنا ہاتھ اس کے گلے میں ڈالا اور دوسرے ہاتھ سے اس کا موبائل لےکر ویڈیو ڈیلیٹ کی اور موبائل of کرکے اس کی پاکٹ میں رکھ دیا وہ لڑکا بالکل چپ کرکے اس کی کاروائی دیکھ رہا تھا

"اب یہ موبائل گھر جاکر on کرنا"
معاویہ کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ وہ لڑکا سر ہلا کر رہ گیا معاویہ نے ایک نظر حیا پر ڈالی پھر اس لڑکے کے گال تھپتھپاتا ہوا وہاں سے چلا گیا

*****

"اف یہ ہادی کہا گیا"
حیا چاروں طرف نظریں دوڑا کر اس کو ڈھونڈ رہی تھی کیونکہ حور کی کال آنا شروع ہو گئی تھیں کہ وہ کب گھر آ رہی ہے اسی اثنا میں حیا کے پیر میں کچھ اٹکا اس سے پہلے وہ لڑکھڑا کر گرتی ایک بار پھر معاویہ نے اس کو تھام کر بچایا

"انسان کو عقل کا اور آنکھوں کا اتنا بھی اندھا نہیں ہونا چاہیے خیر اپنی کم عقلی کا ثبوت تو تم پہلی ملاقات میں دے چکی ہوں اور آج تم نے واضح ثبوت دے دیا ہے کہ تمہارا اوپر والا فلور بالکل خالی ہے" معاویہ نے اس کے سر پر انگلی رکھ کر اشارہ کرتے ہوئے کہا،، پتہ نہیں کیوں مگر اسے اچھا نہیں لگا تھا جب وہ ہادی کا ہاتھ تھام کر آرہی تھی اور ڈانس فلور کے پاس کھڑی ہوئی ڈانس کر رہی تھی آیا تو وہ امریکہ سے تھا مگر ناعمہ نے ان دونوں بچوں کی تربیت ایسی کی تھی کہ وہ اپنی تہذیب اور قدریں نہ بھولیں۔۔۔۔ یہی وجہ تھی معاویہ اور صنم دونوں کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ آزاد ملک کی پیداوار ہیں

"ہاو ڈیئر یو، تم خود کو سمجھ کیا رہے ہو؟ کیا چیز ہو تم، جب سے ملے ہو باتیں ہی سنائے جا رہے ہو۔۔ تم دو ٹکے کے پولیس والے"
حیا نے اپنی شہادت کی انگلی اس کے سینے پر رکھ کر اسے پیچھے کرتے ہوئے کہا جس سے وہ ایک انچ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا

حیا کو پہلی نظر میں وہ پسند نہیں آیا تھا کتنی زور سے اس کی کلائی پکڑی تھی اس نے، اور آج سامنا ہوا تو باتیں ہی سنائے جا رہا تھا اوپر سے نکلا بھی پولیس والا

"یہ دو ٹکے کا پولیس والا اگر چاہے تو دو منٹ سے بھی کم وقت میں تمہاری عزت دو ٹکے سے بھی کم کرسکتا ہے، اس لئے آئندہ اپنی لینگویج اور باڈی لینگویج کو کنٹرول میں رکھنا۔۔۔ وارننگ میں صرف ہر ایک کو ایک دفعہ ہی دیتا ہوں"
یہ کہہ کر وہ رکا نہیں حیا اس کو جاتا دیکھتی رہ گئی

****

ارسل کے فنکشن میں آکر وہ بور ہو رہا تھا کیونکہ مہندی کا فنکشن ٹیپیکل لڑکیوں والا فنکشن تھا۔۔۔ تیز میوزک کی وجہ سے وہ ایک ضروری کال نہیں سن پارہا تھا اس لئے باہر آگیا، اس نے سوچا تھا ارسل سے excuse کر کے وہ جلد یہاں سے چلا جائے گا یہی سوچتا ہوا وہ فون پر بات کر رہا تھا جب اس کی نظر enterence پر پڑی۔۔۔ جہاں سے وہی چلتی ہوئی آرہی تھی جس کو دیکھ کر اسے اس پاس کچھ نظر نہیں آیا معاویہ جوکہ ضروری کال کرنے آیا تھا موبائل دوبارہ پاکٹ میں ڈالا اور حیا کو دیکھنے لگا، مسکراہٹ اس کے چہرے پر آگئی لیکن اس کے پیچھے نوجوان آیا یہ وہی لڑکا تھا جسے وہ مال میں حیا کے ساتھ دیکھ چکا تھا حیا نے اس کا ہاتھ تھام لیا تو معاویہ کے چہرے پر سے مسکراہٹ مدھم ہو کر ختم ہو گئی۔۔۔ پھر حیا نے اس لڑکے کا ہاتھ جھٹکا مگر تھوڑی باتوں کے بعد دوبارہ اس لڑکے نے حیا کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔۔ یہ سب دیکھ کر معاویہ کو اچھا نہیں لگا مگر ڈل گولڈن ڈریس میں اس کو وہ بہت اچھی لگ رہی تھی،، وہ اسکا حسین روپ اپنی آنکھوں میں جذب کر لینا چاہتا تھا

پھر اتفاق سے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ جس ٹیبل پر بیٹھی اس کی پیچھے والی ٹیبل پر ہی وہ اپنے کولیکز کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا جو کہ زیادہ تر پولیس میں تھے اور حیا کی آواز اتنی ہلکی بھی نہیں تھی سب نے اس کا تبصرہ سنا ہو اور انجوائے بھی کیا اور اس کی آخر والی بات پر سعد کے زوردار قہقہے سے حیا کی آواز کو بریک لگا

معاویہ کو اچھا نہیں لگا حیا کا اس طرح پولیس والوں پر تبصرہ کرنا جبھی معاویہ نے سامنے آ کر وہ سب بولا اور آخر میں جتا بھی دیا کہ وہ پولیس والا ہے۔۔۔۔۔ ان دو ملاقاتوں میں معاویہ نے اس بات کا تو اندازہ اچھی طرح لگا لیا کہ وہ ایک لاابالی نیچر کی لڑکی ہے بلکہ ناصرف لاوبالی وہ اچھی خاصی بدتمیز بھی ہے خیر یہ کوئی معاویہ کے لئے اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا اس کا کام ہی ایسے ٹائپ کے لوگوں کو سیدھا کرنا تھا۔۔۔۔ مگر وہ اپنی پہلی نظر میں ہونے والی محبت کو اپنی ضد نہیں بنانا چاہتا تھا ورنہ یہ حیا کے لئے بہت برا ہوتا مگر وہ اپنی حماقتوں سے پوری طرح ثابت کر رہی تھی کہ وہ واقعی کام عقل ہے۔۔۔ گاڑی چند قدم کے فاصلے سے دور روک کر اب وہ حیا کو گیٹ سے اندر جاتا ہوا دیکھ رہا تھا اور اس سے پہلے وہ لڑکا اپنی گاڑی لے کر آگے جاتا معاویہ نے اپنی گاڑی آگے بڑھا دی


جاری ہے

Wednesday, December 26, 2018

Muhabbat barsadena tu by Aymen nauman episode 6

Muhabbat barsadena tu..❤
By Aymen Nauman
Epi 6..
🌹🌼🌹

یس سر آپ نے بلایا حکم کریں بندہ حاضر ہے ۔۔۔

سامنے کھڑا شخص میر حنید کو سلوٹ پیش کرنے کے بعد مئو دب کھڑا اس کے حکم کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔
میر حنید بڑے سے ہال نما کمرے میں
اپنے شہانہ لاکھوں روپے کے صوفے نما تخت پر نیم دراز ساتھ میں رکھی سلور ٹیبل کے اوپر سجے پیور  چاندی سے بنائے گئے اینٹک ٹچ کےحقے سے کش پہ کش لگا رہا تھا  ۔۔۔۔۔۔

پورا ہال کمرا خوبصورتی اور بہت ہی نفاست سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا ۔۔

پورے ایک منٹ اور چھ سیکنڈ تم لیٹ آئے ہو ۔۔
خیر پہلی اور آخری غلطی سمجھ کر معاف کیا۔۔

 کیونکہ آج میر حنید بہت خوش ہے۔ ۔۔
معافی سر آئندہ غلطی نہیں ہو گی ۔۔
سامنے کھڑے شخص کے چہرے پر خوف کے سائے واضح طور پر منڈلا رہے تھے ۔۔
جاؤ جا کر 20 کلو مٹھائی  اور 20کلو پھل کے ٹوکرے بنوا کر لاؤ ۔۔
آج میر حنید اپنا رشتہ خود لے کر جا رہا ہے اپنی محبت کے کوچے میں ۔۔
اس کے پیروں میں اپنے نام کی بیڑیاں ڈالنے کیلئے ۔۔
ججی ۔۔جی سر۔ ۔
اسد بہت حیران ہوا تھا کیومکہ اسکا مالک شادی کے نام سے بھی الرجک تھا کجا کہ اپنا رشتہ لیکر جانا۔ ۔
پہلے اسکا باپ انکا خاص وفاءشعارملازم تھا اور پھر باپ کی وفات کے بعد وہ اپنے باپ کی ہی طرح وفاء شعاری سے اپنے فرائض سر انجام دےرہاتھا۔۔
اس طویل عرصے میں وہ میر حنیر کو بہت اچھی طرح سے سمجھ چکا تھا۔ ۔
آسد کو بخوبی اندازہ ہورہا تھا کہ جس لڑکی کی معلومات میر حنید  جس شدت  سے حاصل کرواچکا تھا اس سے وہ کوئی معمولی لڑکی نہیں ہوسکتی۔ ۔۔
اور ہونا ہو اسکا مالک اسی کے گھر رشتہ لیکر جارہا تھا اپنا۔ ۔
اسد اپنےمالک کی خوشیوں کیلئے دل سے دعاء گوتھا۔ وہ ان میں سے تھا جو اپنے مالک کیلئے اپنی جان کی قربانی بھی دیدے۔ ۔
اورمیر حنید یہ محبت ڈزرو بھی کرتا تھا۔ ۔

"گولی نہیں مارو نگا سالے تجھے "۔۔
تیری پوری فوج کے سامنے ڈنکے کی چوٹ پر اپنا نام لکھوا کر دلہن بنا کر لاؤں گا اسے۔ ۔
ایسی نس دبائونگا تیری کہ چیخیں آسمان تک گونجینگی۔ ۔۔۔
وہ زید کو اپنے شعور میں مخاطب کرتے ہوئے بولا ۔
مجھ سے ہوشیاری کرنے والے ابھی پیدا نہیں ہوئے۔ ۔
ہاہاہا۔ ۔
اور تجھ جیسے گیس کے بھرے غباروں کی ہوا پھس کرنا تو میر حنید کا بچپن کا شوق ہے۔ ۔۔۔

سامنے استادہ اسد آنکھوں میں حیرانی لیے بس سر کو ہلا کے ہاں بول پایا تھا ۔۔
خیر۔ ۔۔

میں نے تمہیں جس جگہ کی معلومات حاصل کرنے کے لئے بولا تھا کچھ رپورٹ ملی وہاں کی ؟۔۔
جی سر میں نے بہت ساری معلومات اکھٹی کر لی ہے ۔۔۔
آپ کاشک بالکل درست تھا اس کو ٹھےکو چلانے میں صرف اس عورت چندہ بائی کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ یہ پوری چین ہے اور چندہ بائی کے اوپر کچھ خاص لوگوں کے ہاتھ ہیں ۔۔
جس کی وجہ سے ہم ایک دم سے کوئی ایکشن نہیں لے سکتے ۔۔
 مجھے تم یہ بتاؤگے کہ میں کیا ایکشن لے سکتا ہوں اور کیا نہیں ۔۔
میں میر حسن سعدان کا بیٹا ہوں مجھے کوئی بھی کہیں بھی کچھ بھی کرنے سے روک نہیں سکتا ۔۔۔

ٹھیک ہے کتنی لڑکیاں اب تک کوٹھے سے بیچی جا چکی ہے بہار ممالک میں ؟؟
سر باہرممالک میں کوئی 146 کے قریب لڑکیاں بیچی گئی ہیں جبکہ اندرون ملک میں سے جمع کی گئی 81 لڑکیوں کے ساتھ کوٹھے کے اندر ہی زیادتی کی گئی ہے ۔۔
جن میں سے چند ایک حاملہ بھی تھیں ۔۔
میر حنیدکی آنکھوں میں خون اتر آیا ۔۔
 تفصیل جاننے کے بعد ۔۔
سر جی آگے کا حکم؟ ؟؟
آئی جی سے کہو سب کو ہلا کے رکھ دے ۔۔
مگر۔ ۔۔
گھمانے کا کام میں خود کروں گا ۔۔

میر حنید آنکھوں میں چمک اور برہمی لیے کہہ رہا تھا ۔۔۔
جی سر بہتر۔ ۔
سامنے کھڑا شخص تعبداری سے گویا ہوا ۔ ۔۔


وہ اور زید  رات کے دس بجے ڈاکٹر سے بینڈیج کروانے کے بعد گھر لوٹے تھے واپس ۔
وہ دونوں گھرکے سیٹنگ ایریا  میں داخل ہو ئے ہی تھے۔۔
جب د ادا سامنے سنگل صوفے پہ بیٹھے ریڈیو سنتے نظر آئے  تھے۔۔
وہ ساتھ ساتھ اونگھ بھی  رہے تھے۔۔
جبکہ دادی جا ئے نماز  پہ بیٹھی عشاء کی نماز ادا کر کے دعاء مانگ رہی تھیں ۔۔۔
اسلام علیکم دادا ۔۔۔!
اسلام علیکم دادی۔۔۔ !
دونوں نے ساتھ سلام کیا ۔۔
وعلیکم اسلام بچوں۔۔۔!
 جیتے رہو خوش رہو اللہ تم لوگوں کی جوڑی سدا سلامت رکھے ۔۔
دادی نے ہاتھ کے اشارے سے دونوں کو اپنے پاس بلا کے دم کیا اور دعا دی ۔۔
یہ کیا ہو گیا ہے زائد کے ہاتھ کو ؟؟
جبکہ دادا زید کے ہاتھ کو دیکھ کر ایک دم چونکے تھے۔ ۔
 جو وہ دادی کی وجہ سے کمر کے پیچھے چھپایا ہوا تھا ۔۔
زید خاموش رہا اور دادا کے بالکل سامنے رکھے تھری سیٹر صوفے پر دراز ہو گیا ۔۔
جبکہ زمل دادی کی گود میں سر رکھے وہیں ڈھے سی  گئی ۔۔۔
کچھ نہیں دادو بس زمل نے میرے ہاتھ پہ گاڑی کا دروازہ زور سے بند کر دیا تھا اور وہ بھی جان بوجھ کر کیوں کہ میں زمل کو اسکے فیورٹ ریسٹورانٹ نہیں لے کر گیا تھا۔۔
زید چہرے پے بلا کی معصومیت طاری کئے دادا سے کہنے لگا۔۔
ہیں میں نے ؟؟؟
میں نے کبھی سب کیا تمہارے ساتھ؟؟؟
زمل آنکھوں میں حیرانی لیے زید سے استفسار کر رہی تھی ۔۔
چلو بہت ہوگیا مذاق اب بند کرو الٹی سیدھی ہانکنا  اور سیدھے طریقے سے بتاؤ یہ کیا ہوا ہے یہ بینڈیج کیوں چھوڑی ہوئی ہے ہاتھ پہ ؟؟؟
دادی پریشانی سے پوچھ رہی تھیں ۔۔
دادی میں بتاتی ہوں اصل وجہ کہ یہ سب  کیوں ہوا ہے ۔۔۔
وہ نجانے کیا بولنے کو تھی جب زید جلدی سے بولا ۔۔۔
زمل میں نے دادا کو جو سچ تھا وہ بتا دیا ہے ۔
وہ زمل کو آنکھیں دکھاکراور دانت پیستے ہوئے تنبیہی انداز میں کہنے لگا ۔۔
اسکی قینچی کی طرح چلتی زبان کو زید کی خطرناک گھوری نے ایک دم بریک لگائے تھے
سامنے کچن سے نکلتی حناء اور زارا کو بھی وہ آتا دیکھ چکی تھی ۔۔
ورنہ وہ دونوں دادا اور پوتی ایک دوسرے کے بیسٹ فرینڈ تھے اپنے دل کی ہر چھوٹی سے بڑی بات ایک دوسرے کے ساتھ بہت آرام سے ڈسکس کر لیا کرتے تھے ۔۔
تم نے مجھے دادو کو سب کچھ سچ سچ بتا نے کیوں نہیں دیا آخر ؟؟؟
زمل نے اس کو رات کے بارہ بجے آج ہوئے واقعے کی وجہ سے  بہت زیادہ پریشان ہو کر میسج کیا اور کہا کہ باہر لان میں آئو میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں ہماری فیورٹ جگہ پہ۔ ۔۔
زمل خفا خفا سی پوچھ رہی تھی وہ دونوں لون میں لگے بڑے سے جھولے پر بیٹھے تھے جو بہت خوبصورت سندھی انداز میں بنا ہوا تھا۔۔۔
خاص آدم کی پسند تھا جو اس نے بہت پیار سے جورم  کو ڈیرھ سال پہلے اس  کی سولہویں سالگرہ پہ گفٹ کیا تھا ۔۔
اچھا تم مجھے خود ہی بتاؤ کہ آخردادا اور دادی کو بتا کر کیا فائدہ ہوتا ؟؟
وہ دونوں پریشان ہو جاتے اور اپنی اپنی طبیعت خراب کر بیٹھتے ہماری وجہ سے ۔۔۔
 تم پریشان کیوں ہوتی ہو؟؟
تمہیں مجھ پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اطمینان رکھو اس بات کا کہ  تمہارے شوہر کے زورِ  بازو میں اتنی ہمت ضرور ہے کہ وہ تمہاری حفاظت کرسکے۔۔۔
مگر زید آپ نے دیکھا نہیں تھا وہ شخص کس قسم کی باتیں کر رہا تھا عجیب و غریب انداز میں اپنی اپنی سو کالڈ محبت کے دم بھر رہا تھا ۔۔۔
مجھے بہت خوف آ رہا تھا اس شخص کی باتوں سے ۔۔۔
دیکھو زمل میری بات سنو اپنے زہن سے ہر قسم کی پریشانی کو بالکل ہٹادو ریلکس ہو جاؤ تم ۔۔
وہ اس کے من موہنے چہرے کو اپنے  دونوں ہاتھوں کےپیالےمیں لےکر کہنے لگا ۔۔۔
یاد رکھنا میری ایک بات ہمیشہ ۔۔
"محبت کرنے کا دم تو ہر کوئی بھرسکتا ہے "۔
مگر میرے جیسی شدید انتہاؤں کو چھوتی محبت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے "۔۔
کیونکہ تم جیسی مقدس لڑکی ہر کسی کے پاس جو نہیں ہے ۔
وہ اسکے کان کے قریب جا کے بہت آہستہ سے بولا ۔۔
زمل کو اس کی نرم گرم سانسیں اپنی گردن پہ محسوس ہو رہی تھیں۔ ۔
زیدپلیز۔۔
 اس طرح نہ کریں کوئی آجائے گا میں ویسے ہیں بہت پریشان ہوں ۔۔
وہ سٹپٹا کر بولی حیاء سے اس کے خوبصورت گلابی رخصار کچھ اور بھی حیاء کی لالی سے سرخ ہو چکے تھے ۔۔
یار تم تو بس زرہ بھی رومینٹک نہیں ہونے دیتیں بند ے کو اب تو ہمارا نکاح ہو چکا ہے یار تم میری شرعی بیوی ہو ۔۔
اتنا تو حق بنتا ہے نہ میرا ۔۔
وہ چڑھ کر بولا ۔۔
زیدپلیز تھوڑی دیر کے لئے  سیرئیس ہوجاؤ۔۔
 تمہیں پتا ہے یہ شخص کون تھا جس نے آج اس قدر بدتمیزی کی ہے ۔۔
ارے یار دفعہ کرو نہ اس شخص کو تم کیوں اس بدتمیز،بدکردار اور اخلاق سے عاری شخص کے بارے میں سوچ سوچ کر خود کو ہلکان کر رہی ہوں ؟؟؟

ذید وہ کوئی معمولی بندہ نہیں ہے بلکہ وہ میر حسن ۔۔
ملک کے مشہور سیاستدان کا اکلوتا بیٹا ہے جو ابھی کچھ دن پہلے ہی لندن سے واپس آیا ہے ۔۔
زمل کی بات سنکر زید بھی صحیح معنوں میں اب پریشان ہواٹھا تھا ۔۔
وہ بہت زیادہ ڈسٹرب تھی میر حنیدکی باتوں سے ۔۔۔
اور آج جب وہ سونے سے پہلے  اپنے بیڈ پر لیٹی فیس بک چیک کر رہی تھی۔۔
 تو اس میں زمل نے میر حنید کومیر حسن کے بازو کے حصار میں  کھڑے دیکھا تھا اور نیچے تحریر رقم تھی کہ ۔۔
میر حسن کا اکلوتا بیٹا پندرہ سال بعد لندن سے ہمیشہ کے لئے اپنی اسٹیڈیز کمپلیٹ کر کے واپس آ گیا ہے اور اپنے باپ کی کرسی سنبھال چکا ہے  ۔۔۔

یار تم پریشان نہ ہو میں اس سے خود ہی نمٹ لوں گا۔۔
 ہوگا بڑے آدمی کا بیٹا اپنے گھر  ۔۔
میری نظر میں تو اسکی کوئی اوقات ہی نہیں ہے دفعہ کرو اس کو ۔۔
مگر زید اگر اس نے واقعی جو کہا ہے اس پر عمل کرکے دکھایا تو ۔۔؟
زمل کی آنکھوں میں انجانا سا خوف ہچکولے لے رہا تھا  ۔۔
ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا وہ  بہت ہی فضول قسم کا شخص ہے ۔۔
وہ محض سب کی انٹینشن اپنی طرف کھینچنے کے لیے ایز اے تھرل یہ۔ سب کچھ کر رہا تھا ۔۔
اور ابھی تو تم نے بتایا کہ وہ ملک کے مشہور سیاستدان کا بیٹا ہے بس اسی لیے وہ اپنی ویلیو بڑھا رہا تھا اس کو کوئی پہچانتا تو ہے نہیں ہے ۔۔

وہ۔ زمل کو ہر صورت مطمئن کرنا چاہ رہا تھا مگر اندر سے وہ خود ہی صحیح معنوں میں پریشان ہو چکا تھا ۔۔
اس شخص کے انداز و اتوار خالی خولی بھرم والے نہیں لگ رہے تھے ۔۔
زیدنے چند ہی لمحوں میں ایک اٹل فیصلہ کیا تھا اور اب اس فیصلے سے بس اس نے صبح سب گھر کے بڑوں کو آگاہی فراہم کرنی تھی ۔۔۔
 ❤
اگلے دن گل رعنا فجر کے وقت ہی اٹھ گئی تھی وضو کر کے نماز ادا کرنے کے بعد آپنے اللہ کے سامنے اپنا ہر دکھ ہر درد بیان کر رہی تھی ۔۔
اے میرے پیارے اللہ میاں مجھ پر رحم کر دے۔۔ مجھے اس گناہوں کی دلدل میں دھنسنے سے بچا لے۔۔
 اے میرے رب جس طرح تو نے میری اب تک اس عزت و آبرو کی حفاظت کی ہے آگے بھی مجھے اپنے حفظ و امان میں رکھ ۔۔
مجھے کسی بھی نامحرم شخص کے سامنے بے پردہ ہونے سے بچا لے یا اللہ پاک مجھے ایک محفوظ سائباں عطا فرمادے میرے مالک ۔۔۔
وہ روروکے اللہ سے فریاد کر رہی تھی۔۔
ابھی وہ دعا مانگ کے اٹھی ہی تھی جب ایک خیال اس کے دماغ میں بجلی کی سی تیزی سے کوندہ تھا ۔۔۔
اس نے ٹائم دیکھا گھڑی صبح کے ساڑھے چار بجا رہی تھی وہ آہستہ سے اٹھی اور بہت ہلکے سے دروازے کا لاک کھول کر ب باہر جھانکا  ۔۔
حسام سامنے بڑے سے لاؤنج میں تھری سیٹر صوفے پے دراز بے ترتیب سا سو رہا تھا ۔۔۔
گل کو ایسا لگا جیسے اللہ نے اس کو ایک موقع فرا ہم کیا ہو خود کو محفوظ کرنے کا ۔۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی حسام تک پہنچی اور ٹیبل پر رکھی اس کی گاڑی کی چابی اور وولٹ اٹھا کر  بہت آہستہ سے چلتی رہداری میں بنے دو راستوں میں سے اللہ کا نام لیکر ایک راستے پر چل پڑی تھی ۔۔۔
گاڑی کی چابی اس نے اس لیے لی تھی کہ اگر حسان جاگ جائے اور اس کا پیچھا کرنے کی کوشش کرے تو کچھ دیر تک وہ اس تک پہنچ نہ پائے ۔۔
اتنی دیر میں وہ اس جگہ سے بہت دور نکل چکی ہوگی اور حسان کی پہنچ سے بھی ۔۔۔
وہ کسی نہ کسی طرح سے آخرکار باہر تک پہنچ ہی گئی تھی ۔۔
بس اب اس کی آزادی کے بیچ میں ایک بڑا سا لوہے کا بنا  مین گیٹ تھا۔ ۔
وہ راستہ صاف دیکھ کر مین گیٹ کو عبور کرنے ہی والی تھی خوشی سے یہ سوچ کر کہ چوکیدار بھی عدم موجود ہے ۔۔
اچانک اس کو اپنے پیچھے تھوڑا فاصلے پر سرسراہٹ سی محسوس ہوئی ۔۔۔


آج وہ پورے ایک ہفتے بعد یونیورسٹی آئی تھی مگر اس کی ہمت نہ تھی کے باہر کھڑی ہوکر اپنے محبوب کی ایک جھلک دیکھ لےتی۔۔
 جبکہ اندر سے اس کا دل شرجیل کے ایک دیدار کے لئے مچل رہا تھا ۔۔
وہ بے دلی سے لیکچر سن رہی تھی ۔۔
مس حنا بتائے ابھی میں نے کیا کہا ہے تھوڑی دیر پہلے ؟؟
سامنے کھڑے سر آفتاب اس کی غیر دماغی کافی دیر سے نوٹس کر رہے تھے ۔۔
وہ سر میں ۔۔
مس حنا اگر آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو آپ کلاس اف کر سکتی ہیں ۔۔
تھینک یو سو ویری مچ سر۔ ۔۔
حنا خاموشی سے کلاس سے باہر نکل آئی اور چلتی چلتی جب تھک گئی تو قدرے سنسان جگہ تلاش کرکے وہاں کونے میں درختوں کے بیچ تھنڈی گھانس پر جا بیٹھی ۔۔
وہ درخت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھی تھی زہریلی سوچیں اس کے دماغ  پہ قابض تھیں۔۔۔
کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں ؟؟
حنا نے جانی پہچانی آواز سن کر جھٹ جسے آنکھیں کھول دی تھیں۔ ۔۔
حنا کے بالکل سامنے کھڑا شرجیل اس کو بہت گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔
حنا اپنی محبت کو اتنا بالکل قریب ہاتھ بھر کے فاصلے پر دیکھ کر تم سی رہ گئی تھی ۔۔



خالہ جانی میں آگیا۔ ۔۔
خالہ جانی کہاں ہے آپ؟؟؟۔۔
وہ بھاگ رہا تھا پورے گھر میں اپنی چہیتی خالہ کو ڈھونڈ رہا تھا  ۔۔
اب وہ سامنے بنے گول سے زینے چڑھ رہا تھا بھاگنے کے انداز میں ۔۔
بچاو ہنی میری مدد کرو ۔۔
مجھے بچا لو ہنی آو اپنی خالہ کے پاس جلدی۔۔۔
نہیں تو یہ مجھے مار دے گا ۔۔
اس کو سیڑھیوں پہ اپنی خالہ کی روتی چلاتی آواز گونجتی محسوس ہوئی ۔۔
زینا گھپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا بس سامنے ایک کمرہ تھا اس میں سے لال اور ہری روشنی پھوٹی پڑ رہی تھی   ۔۔
وہ بھاگ بھاگ کر تھک گیا تھا مگر زینا تھا کہ ختم ہی نہیں ہوکے دے رہا تھا وہ ہانپ رہا تھا ۔۔
مگر پھر بھی خالہ جانی تک پہنچ نہیں پا رہا تھا ۔۔
آخرکار وہ خوفناک زینا ختم ہوا اور وہ ٹھیک بالکل اپنی خالہ کے کمرے کے سامنے کھڑا تھا ۔
میں آگیا خالہ جانی ۔۔
چھوڑ دو میری خالہ کو چھوڑ دو میں تمہیں مار دوں گا چھوڑ دو میری خالہ کو ۔۔
وہ زور زور سے اپنے تکیے پر سر پٹخ رہا تھا ۔۔
وہ بری طرح سے پسینے میں شرابور تھا ۔۔
وہ چیخ مار کے ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا ۔۔
میں اس شخص کو نہیں چھوڑوں گا اگر وہ جہنم میں بھی ہو گا تو میں اس کو وہاں سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا ۔۔
وہ نیند سے جاگ چکا تھا اور اب خوف و ہراس کی جگہ انتقام نے لے لی تھی ۔۔
خالہ جانی میں آپ کو انصاف دے لا کر رہوں گا ۔۔۔
چاہے اس کے لئے مجھے اپنی جان کی بازی ہی کیوں نہ لگانی پڑے ۔۔
وہ ہذیانی انداز میں چیخ رہا تھا ۔۔

💕
سب لوگ ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے جب حورم چائے پیتے ہوئے بولی ۔
ماما میں آج گھر لیٹ آونگی ونیورسٹی سے اپنی دوست کے ہاں جاؤں گی ۔۔
کونسی دوست کے گھر۔ ۔
حناکے پوچھنے سے پہلے ہی آدم پوچھ بیٹھا تھا ۔۔
ماتھے پہ چڑھی تیوریاں واضح تھی ۔۔
وہ مجھے اپنی دوست کی اسٹیڈی کرنے جانا ہے سارا کے گھر۔۔۔
حورم نہ چاہتے ہوئے بھی چھڑ کہ بولی ۔۔
وجہ ۔۔۔؟؟
میری پریزنٹیشن ہے اس کی وجہ سے مجھے جانا ہے ۔۔
حورم کے لہجے میں غصہ اور ناراضگی واضح تھی ۔۔۔
شام کو میں جلدی آ جاؤ گا 8 بجے ٹھیک میرے او سوری ہمارے  کمرے میں آ جاؤ میں خود پریزنٹیشن کی تیاری کروائونگا۔۔
وہ ایک جگاتی ہوئی نظر وہاں بیٹھے سب نفوس پر ڈال کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔


جاری ہے۔ ۔۔