وہ بے بسی سے رودی ۔۔
چھوڑ آؤں گا مگر پہلے اپنا تو بنا لوں۔ ۔۔۔"
ایک دفعہ تمہارے تمام حقوق اپنے نام لکھوالینے دو اس کے بعد تمہیں اتنی آزادی ضرور دوں گا کہ تم فی الحال واپس اپنے گھر چلی جاؤ ۔۔۔"
میری خود کی خواہش ہے کہ میں تمہیں مکمل رسم و رواج کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں تمہیں رخصت کروا کے لے کر جاؤ ۔۔۔۔"
مگر اس کے لیے میرا تم سے نکاح ہونا ضروری ہے تبھی تو رخصتی ممکن ہو گی اور اس کے بعد ہی تو تم میری سے سیج سجاؤگی ۔۔۔۔۔
وہ تھوڑا سا جھکا تھا اور اپنے ہاتھ کی پشت سے سوہا کے آنسووں سے بھیگتے سرخ وگلابی رخسار خشک کیے تھے ۔۔۔
سوہا اس کے لمس کی حدت کو محسوس کرکے مزید خوفزدہ ہوئی تھی آج مصطفی کے ہر ہر انداز اس کو بہت مختلف اور معنی خیز لگ رہے تھے اس کا دل آنے والے وقت کے متعلق سوچ سوچ کے بری طرح سے لرز اٹھا تھا۔
وہ چاہ کر بھی کچھ دیر قبل کی طرح بیڈ سے اٹھ نہ سکی تھی وجہ اس کا ہاتھ مصطفی کے ہاتھ میں سختی سے قید ہونا تھا ۔۔۔۔۔
وہ اس وقت صحیح معنوں میں مصطفی کے رحم وکرم پہ تھی ۔۔۔۔
اور وہ شاید کرم کرنے کے موڈ میں نہ تھا ۔۔۔
مصطفی پلیز آپ میری بات کو سمجھئیے۔۔"
آپ مجھ سے زیادہ تجربہ کار ہیں ۔۔۔۔۔"
وہ بہت مشکل سے اپنے اندر ایک دفعہ پھر سے اعتماد پیدا کرپائی تھی ۔۔۔یا شایدتابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔
میں تمہیں اچھی طرح سمجھتا ہوں۔۔۔ تو تمہارے دل و دماغ کو پڑھنے کا کام میرے لیے کون سا مشکل یا پھر نا ممکن امر ہے ۔۔۔۔؟؟
وہ جیسے ہر سوال کا جواب جانتا تھا فیصلہ کرکے آیا تھا اس کو اپنے نام لکھوانے کا ۔۔۔۔
اگر آپ مجھے پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں تو اس طرح مجھے تکلیف نہ پہنچاتے۔۔۔۔۔"
یہ جانتے بوجھتے بھی کہ میں آپکی نہیں ہوں بلکہ کسی اور کی امانت بن چکی ہو۔ ۔۔۔۔"
چند دنوں میں میری شادی ہو جانی ہے ۔۔۔"
ہاہاہا۔۔۔۔!سہی کہا۔ ۔۔!!
بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور بے شک تم نے اس رشتے کے لئے بہت خوش دلی سے ہاں بھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔"
سب کچھ میرے علم میں ہے۔ ۔۔۔۔۔"
نا چاہتے ہوئے بھی لہجے میں طنز گھلا تھا ۔۔۔
تمہاری غلطی پتا ہے۔ ۔۔۔؟
کیا ہے سوہا۔ ۔۔۔۔؟؟؟
وہ بیڈ سے اٹھا تھا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو پشت پہ لے جا کہ کمرے کا ایک چکر کاٹتے ہوئے واپس اس کی طرف گھوم کے آیا۔ ۔۔
مجھے کچھ نہیں سننا نہ کچھ معلوم کرنا ہے پلیز مصطفی مجھے جانے دیجئے مجھے اس طرح سے رسوا نہ کریں ۔۔۔۔"
میرے اپنوں کی نظروں میں مجھے مت گرائیں۔ ۔۔"
وہ گرگڑ آئی تھی ۔۔
میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے تمہیں بھی حق دوں گا بولنے کا۔۔۔۔۔۔"
مطلب۔۔۔۔؟
پہلے میری بات مکمل ہونے دو ۔۔۔۔ !
اشتعال آمیز لہجے میں ٹوکا تھا ۔
تمہیں پتہ ہے سوہا تم نے مصطفی کو سمجھنے میں بہت بڑی غلطی کردی ہے یا پھر تم مجھے ٹھیک سے سمجھ ہی نہیں سکتی ہو ۔۔۔ "
وہ ایک دفعہ پھر سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے غرانے کے انداز میں گویا ہوا ۔۔۔
صحیح کہا آپ نے!!
بالکل ٹھیک کہا واقعی مجھسے بہت بڑی بھول ہوئی ہے آپ کو پہچاننے میں ۔۔"
میں نے آپ کو سمجھنے میں غلطی کر دی وجہ میری نا سمجھی نہیں تھی بلکہ آپ کے چہرے پر چڑھا نقاب ہے جو آج میرے سامنے اترا ہے ۔۔۔۔"
لہجہ تمسخرانہ ہوا ۔۔۔جبکہ آنکھوں کی بارش میں مزید روانی پکڑچکی تھی ۔۔۔
بہت سوچ سمجھ کے اپنوں کے بارے میں ذہن میں کچھ بھی غلط سوچ لایا کرو ۔۔۔
سوچ سمجھ کے اپنوں سے روٹھا کرو سوہاڈیئر !!
اور آپنے بھی وہ جن میں تمہاری جان بستی ہے ۔۔
جو تمہارے لئے جیتے ہیں ۔۔۔
اپنوں کے لئے تو سوچ رہی ہو ۔انہی کے لیے اپنی محبت کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوں ۔ میں جانتی ہوں کس طرح میں نے اپنے دل کو مضبوط بنایا ہے ۔۔۔لہجے میں اداسی رقم تھی ۔۔۔
آخر کے دو جملے اس نے اپنے دل میں سوچا تھے اور پھر سے ایک دفعہ خود کو مصروف ہو کے سامنے بہت مضبوط بنانے کی کوشش کرتے ہوئے گویا ہوئیں ۔۔۔۔
میں جا رہی ہوں آج مجھے بہت افسوس ہے خود پہ کے میں نے آپ کو چاہا آپ اس طرح کی ہونگے میرے گمان تک میں نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔یہ وہی جانتی تھی کہ یہ چند الفاظ اس نے کس طرح سے ادا کئے ہیں کس طرح اس کا دل ریزہ ریزہ ہوا تھا ۔۔۔
چلی جانا بس دس منٹ کو نکاح خواں آجائیں نکاح پڑھوا لو پھر تم بے شک چلی جانا ۔۔۔۔
وہ جیسے وہ آپ اپنا فیصلہ تھوپ رہا تھا ۔۔۔۔
آپ نے سوچا بھی کیسے یہ کہ میں اپنے ماں باپ کا سر شرم سے جھکا دوں گی نا ممکن ہے میرے لیے ہر ایک چیز سے اہم میرے ماں باپ کی عزت اور ان کا مان ہے اور یاد رکھیں مصطفی صاحب محبت کی طبیعت میں زبردستی نہیں ہوتی یہ دلوں کی سوتے ہوتے ہیں مگر میرا دل آپ کے ساتھ کے لیے انکاری ہیں راستہ بدلنے کا خواہشمند ہے تو آپ مجھے تو خود سے زبردستی باندھنا چاہتے ہیں مجھے راستہ بدلنے سے اور محبت کی حدود کو توڑنے سے نہ روکے ۔۔اگر آپ واقعی مجھ سے محبت کرتے ہیں تو محبت کا میں آپ سے منتہا نمانتا مانگتی ہوں آپ کی محبت کا ۔۔۔۔۔۔؟؟؟
تو وہ سب کیا تھا کیوں مجھ سے محبت کے عہد و پیمان باندھے تھے ؟؟؟
کیوں مجھ سے محبت کی پینگیں بڑھائی تھی۔۔۔؟؟
میرے اقرار محبت پہ تم اسی وقت میری محبت کو ٹھکرا سکتی تھی۔۔۔۔؟؟؟
تو پھر کیوں سوہا ۔۔۔۔۔؟
کیوں۔ ۔۔۔۔؟؟!
وہ ہزیانی انداز میں دھاڈا۔ ۔
وہ ایک وقتی جذبات کاریلا تھا جو آ کہ گزر گیا ہے۔اور جس عمر کے حصے میں اس میں ہوں۔۔۔۔ اس عمر میں ایسے چھوٹے موٹے افیئرز ہو ہی جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔"
بہت بڑی بات کہہ گئی تھی وہ مصطفیٰ دم بخود گیا تھا اس کے اس قدر سفاکی سے کہے گئے انداز پہ ۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں یہ سب تم مجھے خود سے دور کرنے کے لیے کہہ رہی ہو ۔۔۔"
تمہیں صرف اور صرف اس وقت اپنے گھر والوں کا خیال ہے میری محبت کا تمہیں کوئی احساس نہیں لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ محبت تو تم بھی مجھ سے اتنی ہی کرتی ہو جتنی کہ میں تمسے اور بڑی شدت سے کرتی ہو جتنا میں تمہیں چاہتا ہوں اس سے بھی کئی زیادہ۔ ۔ ۔"
آپ جو بھی سمجھیں مگر میں آپ کو بہت واضح لفظوں میں یہ بات بتا رہی ہوں کہ وہ ایک وقتی جذبہ تھا اور میں اس کے زیر اثر آ گئی تھی آپ کی باتوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔"
وہ نظر جھکا کے بولی تھی نظریں ملانے کا اس میں حوصلہ نا رہا تھا مصطفی سے۔ ۔۔۔"
کیا کہا ابھی تم نے دوبارہ سے کہنا ۔۔۔؟؟؟؟
وقتی جذبہ ۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
میرے جذبات کو آنچ دیکے ، میرا دل کا سکون درہم برہم کر ڈالا اور اب جب کہ میں تمہاری محبت میں بہت آگے تک نکل آیا ہوں تو تم کہہ رہی ہوں کہ وہ سب ایکوقتی جذبہ تھا۔ کیا بات ہے سوہا تمنے تو آج واقعی کمال کردیا ۔،۔۔۔۔""
محبوب مجھ سے یہ کہہ رہا ہے کہ وہ ایک وقتی جذبہ تھا ۔۔۔!!
واہ واہ اتنی بڑی تم کب سے ہو گئی ۔۔۔؟؟؟
جس سوہاکو میں جانتا ہوں وہ تو بہت معصوم ہے۔ ۔۔
کہاں ہے میری سوہا۔ ۔۔؟؟؟
وہ غصے سے جیسے اپنا آپا کھو بیٹھا تھا اور سوہا کے شانوں کو سختی سے تھام کر اس کو بری طرح جھنجھوڑ ڈالا تھا ۔۔۔
ُاب تک وہ بہت نرمی سے پیش آ رہا تھا مگر سوہانے جیسے اس کے غصے کو ہوا دے ڈالی تھی ۔۔
میں بھی کتنا پاگل ہو اتنی دیر سے ایک سنگدل سے اپنے جذبات اور احساسات بیان کر رہا تھا ۔۔۔"
جنہیں احساس ہی نہ ہو ان کے ساتھ کیسے گلے کیسے شکوے ۔۔۔؟؟؟
وہ جارحانہ انداز میں سوھا کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔۔
سوہا کے چہرے پہ جیسے ہوائیاں اڑ گئی تھی مصطفی کو خطرناک طیور لیے اپنی طرف بڑھتا دیکھ وہ سہم کہ اپنے چند قدم پیچھے لے کے گئی تھی ۔۔۔۔
آ۔ ۔۔پ۔ ۔۔۔۔میرے قریب مت آئیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔
کھڑاتی آواز میں مصطفی کو روکنا چاہا جو خطرناک حد تک خطرناک ہو رہا تھا ۔۔۔
________
نہیں یہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔
اللہ میرے ساتھ ہی اتنے بڑے بڑے امتحان میرے مالک ۔۔۔۔۔"
وہ مسلسل آدھے گھنٹے سے الٹیاں کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
اس کو رات ہی اس بات کا علم میں آئی تھاکہ وہ امید سے ہے ۔۔۔۔
ساری رات اس کی آنکھوں ہی آنکھوں میں کٹی تھی۔۔۔۔
رات میں کئی دفعہ اس کو وامٹ آنے کی وجہ سے اٹھنا پڑا تھا عمر بھی پریشان تھا ۔۔۔
ساری رات اس کے ساتھ جاگتارہا ۔ہر ہر طرح سے اس نے لائبہ کا خیال رکھنے کی اپنی سی کوشش کر ڈالی تھی ۔
کئی دفعہ اس نے لائبہ سے پوچھا بھی۔اسکی بگڑی حالت کے بابت مگر کیا کہتی۔ ۔۔۔۔؟؟؟
رات میں تو وہ یہ کہہ کے ٹال گی کہ شاید کھانا نا ہضم ہونے کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔
مگر جب اگلے دن اتوار ہونے کی وجہ سے لائبہ کی طبیعت میں سدھار نہ آیا تو وہ صحیح معنوں میں وہ پریشان ہواٹھا۔ ۔۔۔
کیا ہوا تمہیں تم نے کچھ غلط تو نہیں کھا لیا جس کی وجہ سے تمہیں بد ہزمی ہو گئی ہو ۔۔۔؟؟؟
وہ اس کو واش روم سے لے کر آیا تھا لائبہ کا سر بری طرح چکرا رہا تھا ۔اس کی خود سے چلنے تک کی ہمت نہ رہی تھی وہ اس کو سہارا دے کے لے کر آیا تھا بیڈ تک ۔
مسلسل الٹیاں کرکے اس کا پورا وجود پسینے میں شرابور ہو چکا تھا وہ ہلکان ہو رہی تھی ۔۔
چلو لائبہ ڈاکٹر کو دکھالیتے ہیں ۔۔۔تمہاری میری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ۔۔۔"
عمر اس کے لیے پانی کی بوتل کھول کےگلاس میں پانی انڈیلتے ہوئے بولا ۔۔چہرے پر واضح لائبہ کے لئے پریشانی کے اعصار رقم۔ ۔۔
ڈ۔ ۔۔ ا۔ ۔۔۔۔ڈاکٹر نہیں ۔۔۔نن۔ ۔۔ مم۔ میں ٹھیک ہوں ۔۔۔
وہ لڑکھڑاتے ہوئے لہجے میں بولی تھی ۔۔
ڈاکٹر کا نام سن کر اس کا چہرہ لڑکی کی مانند لمحوں میں ہی سفید پڑا تھا ۔۔
کیا ہوگیا لائبہ کیوں بچوں جیسی حرکتیں کر رہی ہو یار تم تو ڈاکٹر سے ایسے ڈر رہی جیسے کوئی چھوٹا بچہ ڈر رہا ہوں انجکشن لگنے سے ۔۔۔۔"
عمر نے محبت بھری ڈانٹ پلائی ۔۔۔۔
مگر لائبہ کیا بتاتی وہ تو خود اب کسی کو کچھ بھی بتانے کے قابل نہ رہی تھی اس کے پاس صرف ایک راستہ بچا تھا جس پہ عمل کرنے کا سوچ کے اس کی روح اندر تک کانپ کے رہ گئی تھی ۔۔۔
کیوں زندگی اسی سے تمام امتحان لینے پر تلی ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔
کتنا خوش رہنے لگی تھی وہ مگر ایک دفعہ پھر طوفان نے اسکو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔۔۔
💔💔💔
"عمر اگر تمہیں پتہ چل جائےکہ میں امید سے ہو تو شاید تم مجھے قبول نہ کرو ۔۔۔"
شادی تک تو بات ٹھیک تھی ۔"
میں سمجھتی ہوں اس میں تمہارا بھی قصور نہیں ہوگا مگر ۔۔۔۔۔۔!
کسی اور کی اولاد کو پالنا وہ بھی ناجائز ۔۔۔۔۔۔۔"
ہا۔ ۔۔۔۔۔۔اپنا نام دینا اتنا آسان نہیں ہوتا ۔۔۔
ٹھنڈی آہ بھر کے رہ گئی ۔۔۔۔۔
رات کے کھانے کے بعد وہ سیدھا کمرے میں آ گئی تھی۔
اندھیرا گھپ کیے کمرے میں نجانے کب سے خود سے جنگ لڑ رہی تھی۔۔۔۔
یاد کرنے سے بھی بھولے سے اس کے ذہن میں زندگی میں کبھی کسی کا دل دکھانے یا کسی کو تکلیف پہنچانے کا واقعہ نہیں آرہا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ آخر اس کی زندگی ہی میں کیوں اتنے امتحان آخر ۔۔۔۔۔؟؟؟؟
وہ تھک چکی تھی خود سے لڑتے لڑتے اور طوفانوں کا سامنا کرتے کرتے وہ زچ ہو چکی تھی ۔۔۔
کیا کیا خواب نہ سجا لیے تھے اس نے عمر کے ساتھ زندگی گزارنے کے مگر قسمت نے ایسا کھیل کھیلا اس کے ساتھ کہ وہ ایک دفعہ پھر سے ٹوٹ کہ بکھر کر رہ گئی ۔
خدارا اپنی بیٹیوں کی حفاظت کرو۔۔۔"
بیٹیاں پھول ہوتی ہیں۔ وہ ناسمجھ ہوتی ہیں مت بھیجو ان کو تنہا اکیلا باہر درندے گھات لگائے بیٹھے ہیں شکارکو۔"
نا سمجھی میں وہ نادانی کر بیٹھتی ہیں اور وہ نادانی ان کے لیے زندگی بھر کا ناسور بن جاتی ہے ۔ہوس پرست لوگ ان کے وجود کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں ۔"
نازک نوخیزکلی کو بے دردی سے اپنے ہاتھوں سے مسل کر رکھ دیتے ہیں ۔
صرف اور صرف زرا سی کوتاہی اتنا اور تھوڑی سی نادانی ہمارے لئے زندگی بھر کی تباہی لے آتی ہے۔۔" سیاہی کا طوفان ہمارے سروں میں خاک سی بھر دیتا ہے ۔
برا وقت اور برے لوگ کبھی بھی کسی بھی وقت آپ سے ٹکرا سکتے ہیں ۔
کبھی اپنوں کی صورت میں توکبھی غیروں کی صورت میں ۔نہیں تو کبھی نامعلوم چوغوں۔ ۔۔ !!
اپنی معصوم کلیوں کی خود حفاظت کرو بے جا آزادی دیکہ خود سر نہ بناؤ۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ غلطی نہ ہونے کے باوجود بھی ہم گناہوں کی سزا جھیلتے ہیں وہ گناہ جو ہم سے سرزد ہی نہیں ہوئے ہوتے کبھی ۔۔۔۔!!!
وہ سوچ رہی تھی آنکھوں سے مسلسل اشک رواں تھے صرف اس کی ایک کوتاہی نے اس کو اتنی بڑی سزا کامر تکب ٹھرایا تھا ۔
عمر لاکھ مہربان سہی مگر کوئی بھی اتنے بڑے ظرف کا نہیں ہوتا کہ کسی اور کی اولاد کو اپنا نام دے سکے۔ ۔۔
وہیکدم پلٹی تھی اور اپنی سائڈٹیبل کی دراز کھول کے دو ا کے ڈبےمیں کچھ تلاش کرنے لگی۔۔
بہت جلد اس کو اپنی مطلوبہ شے مل چکی تھی ۔۔۔۔
_______
عمرہ کرنے کے بعد اگلے ہی دن وہ مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوگئے تھے ۔
چار گھنٹے کے سفر کے بعد وہ دونوں مدینہ منورہ کی حدود میں داخل ہو چکےتھے۔ الایمان رائل ہوٹل میں ان کا دو دن کا قیاما تھا اس کے بعد دبئی کے لئے روانگی تھی ۔بہت زیادہ طویل نہیں تھا ان کا پروگرام وجہ سوہا کی رخصتی اور عمر کا ولیمہ تھا۔ ٹوٹل سات دن کا تھا ان کا پورا ٹرپ۔۔۔
جن میں سے چار سے پانچ مکہ ، مدینہ اور دو دن دوبئی کے تھے ۔
شفا کا رویہ حمزہ کے ساتھ کافی بہتر ہو چکا تھا مگر ہلکی ہلکی سی تکلف کی دیوار اب بھی جانتے پوچھتے نہ چاہتے ہوئے بھی دونوں کے درمیان حائل تھی ۔
وہ اب حمزہ کو ایک سلجھا ہوا شخص اور نرم دل انسان کے روپ میں ابھارنا چاہتی تھی ۔حمزہ مسلسل اپنی پیاری پیاری باتوں اور شرارتوں سے اس کو موم کرنے کی تگ و دو میں تھا ۔۔۔
وہ دل ہی دل میں بہت خوش اور مطمعین تھی۔ حمزہ کے اندر پیدا ہوئی نئی تبدیلیوں کو دیکھ رہی تھی یہ اس کے لئے خوش آئندہ بات تھی ورنہ حمزہ جیسے خود سر اور انا پرست لوگ بہت مشکل سے اپنی عادات کو سنوارنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
💖
مدینہ میں دو دن کا قیام تھا۔ ان دونوں کو ایسا لگا جیسے دو منٹ میں پلک جھپکتے ہی وقت گزر گیا ہو۔
دونوں نے ہی جلد دوبارہ واپس آنے کا پروگرام بھی ترتیب دے ڈالا تھا اور وہ بھی پورے مہینے کا۔ مگر مدینہ اور مکہ ایسی جگہیں ہیں جہاں آپ جتنے بھی دن گزار لو آپ کو لگے گا جیسے پلک جھپکتے وقت گزر گیا ہو۔ وہاں سے واپس آنے کا دل ہی نہیں چاہتا ۔۔۔۔
دبئی پہنچ کے دونوں نے ہی فرش کہ نماز ظہر ادا کی تھی اس کے بعد کچھ دیر آرام کرنے کی غرض سے دونوں ہی ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کے لئے قیلولہ کرنے لیٹ گئے ۔۔۔
جان حمزہ اب اٹھ بھی جائو!
کیا سارا وقت سو کر ہی گزارنے کا ارادہ ہے؟؟؟
وہ شاور لے کر واش روم سے تازہ دم ہوکہ سر کو خشک کرکہ ٹاول کو گردن میں ڈالے اس کو جگا رہا تھا۔ اس کا پروگرام عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد دبٙئی مرینہ جانے کی کا تھا ۔۔۔
مجھے ابھی سونے دیں۔۔۔۔"
کیوں سونےدوں اٹھو فوری ۔۔۔"
بہت نیند آ رہی ہے۔۔۔۔۔۔"
وہ واپس چہرہ تکیہ میں چھپاگئ۔۔۔۔۔
سوچ لو ڈیر وائف پھر اچھی طرح کہیں ایسا نہ ہو تمہارا آف سونا تمہیں رات کو بھاری نہ پڑ جائے ۔۔۔۔"
معنی خیزی سے کہا گیا ۔
وہ جان کے کافی اونچی آواز میں شفا کے کان کے قریب جا کے بولا تھا ۔
ہاں ہاں کوئی بات نہیں میں جا گلونگی۔۔۔۔"
سوچے سمجھے بغیر بولی تھی ۔۔
ہیں۔۔۔۔۔واقعی۔۔۔۔۔؟؟؟
تو کیا آج کی رات میرء نام لکھدی ڈیئر۔۔۔۔۔۔؟؟؟
وہ شوخ ہوا۔۔
کہہ تو رہی ہو ہاں اب کیا سائن کروائوگے۔۔۔۔؟؟؟وہ اسکے اوپر نیند میں چڑھ دوڑی۔۔۔۔۔
ہمممم گریٹ ۔۔۔۔!!
مگر کیا ہے نہ مجھے اپنی ویمپ سے امید زرا اچھی نہیں ہے کیا پتہ اپنی بات سے ہی مکر جائو۔۔۔۔۔"
یاررررر۔۔۔۔۔۔۔۔کیا ہے مجھے سونے کیوں نہیں دے رہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟
وہ ان تکیہ سے چہرہ نکال کے باقاعدہ غرائی۔۔۔۔
آنکھیں نیند سے بوجھل ،خمار آلود لہجہ لمبے اسٹیپ کٹ کھلے ریشمی بال اور کٹاودار گلابی لب ۔۔۔۔۔۔!!
وہ بغیر پلک جھپکائے اسکے تکتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔
تو تم ایسے نہیں اٹھوگی؟؟؟؟؟وہ گرجا
نہیں۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔نہیں جو کرنا ہے کرلو۔۔۔۔۔۔۔"
وہ پنکھاری۔۔۔۔
اوکے پھلجڑی۔۔۔۔۔۔۔"تعبداری سے کہا گیا۔۔۔۔۔۔۔
ایسے نہیں تو ویسے سہی۔۔۔۔۔۔"دماغ میں شرارت بھرا خیال کونداشفا کو ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ وہ اب اہنے طریقےسے اسکو جگانے کیلئے بلکل تیار تھا جس کے بعد اسکو کو ننیانوے فیسد یقین تھا کہ وہ تیر کی طرح اٹھ کھڑی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔
لبوں پہ شریر سی مسکراہٹ لئے وہ اسکے اوپر جھکا
گردن اور سر سے تھام کے اسکو اپنی بانہوں میں لے کر تھوڑا سہ بیڈ پہ پرےکھسکا کرخود اس کی جگہ پہ اس کےبالکل قریب بغیر کوئی فاصلہ کی گنجائش چھوڑے!! اس کے نازک سراپہ کو اپنے بازووں کے حلقے میں لیے دراز ہو گیا ۔۔۔۔۔۔
کیا بیہودگی ہے یہ۔۔۔۔۔؟؟؟؟وہ اسقدر "جرت" پہ جیسے غصے سے بلبلا اٹھی۔۔۔۔
بیہودگی نہیں شافی ڈیئر یہ تو حلال رومانس ہے"۔۔دوبدو جواب حاضر ہوا۔۔۔۔
ہاں جائو اپنے" ٹائپ" کی کسی سےبگھارو یہ رومانس وومانس۔۔۔۔" وہ مسلسل اسکی گرفت سے آزادی کیلئے ہاتھ پیر مار رہی تھی۔۔۔
میری ٹائپ کی ابھی میسر نہیں اسلئےمجبوری میں تم سے ہی کام چلانا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔"لہجہ بلا کا غمگین ہوا چہرہ پہ بے بسی تھی۔۔۔۔۔
ہٹو میرے پاس سے ٹھرکی انسان شرافت سے۔۔۔۔۔۔"' وہ اسکی گرفت میں پھڑپھڑائ ۔۔۔۔۔
ٹھرکی بھی کہتی ہو تضاد شرافت کا مضاہرہ بھی چاہتی ہو ۔۔۔۔"۔
میرا خیال ہے آج بتا ہی دوں میں کتنا ٹھرکی ہو اپنی بیوی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔"لہجہ ڈرامائ ہوا۔
میں تمہیں ۔۔۔!!غصے میں جملہ ادھورا چھوڑا گیا ۔۔۔۔
میں اٹھ گئی ہو بولو کیا کرنا ہے؟؟ چلنا ہے چلو یار مجھے تنگ تو مت کرو ۔۔۔۔!!!
تم تو اٹھ گئی ہو مگر میرے تمام حواس مدہوش کرکہ۔ ۔۔۔۔وہ شرارتوں پہ کمر کس چکا تھا۔
یہ اس پورے عرصے میں پہلی دفعہ تھاجب وہ اپنے اور اس کے درمیان کی دوریاں نزدیکیوں میں بدل رہا تھا ۔ورنہ شفا بیڈ روم میں جنگلی بلی کی طرح اس سے پیش آتی تھی۔مگر اس سب میں قصور شفا کا بھی نہیں تھا۔ اس نے شفا کو بہت ٹھیس پہنچائی تھی۔۔۔ یہ سب اسی کا ری ایکشن تھا یہ وہ وہ بہت اچھی طرح سے جانتا تھا ۔۔۔۔
بہت تکلیف ہوتی تھی جب جب وہ شفا کے دکھوں کا سوچتا تھا وہ ہی تو قصور وار تھا۔
اس نے ہی تو ایک معصوم لڑکی کو آٹھ آٹھ آنسو رلایا تھا ۔
وہ بہت پشیمان تھا اپنی ایک ایک غلطی یاد کر کے وہ جیسے اپنے آپ کو ہر شب خوب ملامت کرتا رات سونے سے پہلے خدا سے گڑگڑا کر معافیاں طلب کرتا ۔
مگر وہ اب دل میں عہد کر چکا تھا کہ وہ اس لڑکی کواتنی محبت دے گا کہ وہ اس کے ساتھ ہوئی تمام زیادتیوں کو بھول جائے گی ۔۔۔
کتنی پرسکون نیند سو رہی ہومیرے جذبات کو بیدار کرکے۔۔۔۔۔"
اس کے بالوں میں اپنا چہرہ چھپا کہ سرگوشیان انداز میں کہنے لگا۔۔۔
شفاء ۔ نے بوکھلا کر کمرے میں ایک طائرانہ نظر ڈالی تھی روم میں لیمپ کی مدھم سی لائٹ روشن تھی۔ دبیز پردے شیشے کی کھڑکیوں پہ بخپڑے ہونے کے باعث وہ وقت کا درست اندازہ نہیں لگا پا رہی تھی۔
کمرے کا ماحول اسکو رات کا پتہ دے رہا تھا ۔
آپ۔۔۔۔۔ مم مجھ ۔۔۔ وہ اٹک اٹک کے کہتی شدید بوکھلاہٹ اور فطری شرم و حیا سے چور تھی ۔تمام تیزی اور تراری حمزہ کی آنچ دیتی قربت سے بلبلا کے فنا ہو ئی۔۔
نہیں۔۔۔۔؛!
ہم میں اور تم ایک روح دو کالب۔۔۔۔"
محترمہ اپنی بات کی تصیح کرلو ۔۔۔
و
ہ کہتے ہوئے مزید شرارتوں پر آمادہ ہوا ۔۔۔
شفاء پھٹی پھٹی آنکھوں سے خود پہ جھکے جسارتوں پہ کمر بستہ!! بغیر شرٹ کے اس کے پاس دراز حمزہ خود دیکھ رہی تھی ۔۔۔
حمزہ نے اپنا چہرہ اس کی زلفوں کی قید سے بڑی مشکل سے چھڑوا یا تھا ۔۔تھوڑا اونچا ہو کہ کوہنی کے بل نیم دراز ہو ا۔ ۔۔
وہشفا کے چہروں کو آنکھوں میں نرم گرم جذبات لیے تک رہا تھا۔۔۔
" اگر اس شام کو ہم دونوں محبت اور دوسرے میں الجھ کے گزاردیں تو ۔۔۔۔۔؟"
یہ مسحور کن شام اپنے اندر بہت پیاری یاد کو قید کر دے ۔۔اور بہت ہی یادگار ثابت ہو گی بس صرف تمہارے سچے دل سے مجھے قبول کرنے کی دیر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
زبردستی میں تم پہ اپنی خواہشات مسلط نہیں کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔"
وہ جیسے مکمل اس کی دلی عماد گی سے دوبارہ سے نئے رشتے کی شروعات کرنا چاہ رہا تھا ۔ ۔ ۔۔۔
وہ خاموش تھی کیا کہتی ؟؟
کس طرح اقرار کرتی کہ وہ اس کو بہت پہلے ہی دل سے معاف کر چکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
فطری حیا سے چور کانوں کی لوہ تک سرخ ہو چکی تھی۔۔۔۔
لب تھے کہ کچھ بھی کہنے کی خاطر وا ہونے سے گریزاں تھے ۔۔
وہ شوہر تھا اس کا اور پھر کئی دفعہ اس سے معافی بھی طلب کر چکا تھا۔۔۔! اس وقت بھی بغیر اس کی اجازت کے اپنا حق استعمال کرنے سے خود کو پابند کر رہا تھا۔۔۔ تمام حقوق کا مالک ہونے کے باوجود بھی یہی سب سے بڑی تبدیلی تھی جو اس وقت حمزہ میں اس کو نظر آئی تھی ورنہ وہ کہاں کسی کے کہے پہ چلنے والا شخص تھا ماضی میں ۔۔۔۔
وہ اس کے بازو میں کانچ کا پیکر معلوم ہو رہی تھی اور وہ جیسے اس حقیقت سے واقف تھا۔
اس شام کوئی خاص سلسلہ عشق تھا۔ ۔
شفاء کو اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی کشش محسوس ہو رہی تھی۔ حمزہ کی آنکھوں کی چمک اسکو اپنے ساتھ باندھ دی تھی ۔۔۔
وقت تھمنےلگا تھا ۔۔
خواہشوں کو جیسے اس نے بے لگام ہونے دیا۔۔۔
حمزہ کی آنکھوں کی چمک اس پل بہت خوبصورت پیغامات لئےہوئے تھی۔ ۔۔۔۔
وہ ہچکنچا کے نظریں چراگئ ۔۔۔۔۔ان بولتی آنکھوں کے پیغامات کو بہت اچھی طرح سے سمجھ رہی تھی۔۔۔۔
اس شب فزامیں ایک خاص قسم کا سحر طاری تھا جو ان دونوں کو ایک دوسرے کے اردگرد تاری ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔۔
وہ اسکی اٹھتی گرتی پلکوں کی جھالر کو دیکھتا مبہوت سہ اس کے گرد مزید اپنا حصہ تنگ کرتا چلا گیا ۔۔۔
دونوں کی دھڑکنوں میں اک تلاطم سہ برپا ہوا تھا۔۔۔۔۔
کیا مجھے دل سے قبول کر سکتی ہو؟؟؟
شفا کیا مجھے معافی مل سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟لہجہ امید بھرا تھا جیسے اپنی زندگی کے لیے سانسیں طلب کر رہا ہو۔۔۔۔
میں نے آپ کو سچے دل سے معاف کیا۔ ۔۔۔ "
یہ سچ ہے کہ میرے دل میں آپ کے لیے اب کسی قسم کا بھی میل باقی نہیں رہا ہے ۔۔"
اور میں آپ کو اسی دن سچے دل سے قبول کر چکی ہوں جب میرانکاح آپ سے ہوا تھا ۔۔۔
میں نے اسی روزآپکو اپنا دل و جان سے تسلیم کر لیا تھا جب آپ کے نام اپنے تمام حقوق لکھے تھے ۔۔۔۔"
وہ بگڑے تنفس سے اتنا ہی کہہ سکی تھی۔ لفظ تھے گویا جیسے زبان سے نلب تک کا راستہ بھول بیٹھے تھے ۔۔۔
تو گویا میں یہ تمہارا اقرار سمجھو ۔؟؟
تم جانتی ہو شفاء ؟؟؟وہ اس کے سر میں اپنی انگلیاں چلاتے ہوئے دھیمے سے بولا۔۔۔۔
میرے دل میں صرف ایک یہی چیز بہت تکلیف دے رہی تھی کسی پھانس کی طرح چھبتی رہی ہے کہ تم نے مجھے دل سے معاف ۔۔۔۔
بار بار اس ایک لفظ کی گردان مت کریں ۔۔آپ کے اس طرح پشیمان ہونے سے مجھے تکلیف ہورہی ہے۔۔۔۔
اس لفظ کا استعمال بھول جائیں کرنا۔ جو بھی گزر گیا اس کو بھول جائیں "۔۔۔
حال اور مستقبل ہمارے سامنے باہیں پھیلائے کھڑا ہے ۔۔
وہ اس کے لبوں پہ اپنا نازک مرمریں ہاتھ رکھ کر بولی تھی ۔۔
میں تم سے اقرار کرتا ہوں شفا کے میں تمہاری محبت میں پور پور بھیگ چکا ہوں اور میں نے تمہیں بہت خوش رکھنے اور زہنی سکون دینےکا خود سے وعدہ کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔"
یہ میں دعویٰ نہیں کرتا تھا مگر میں خود سے اس بات کا عہد کر چکا ہوں کہ میں تمہاری زندگی میں اتنی خوشیاں بھردوں گا ک پھر خوشیاں بھی تم سے شرمآۓ گی ۔
جانتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔!!!آپ مجھ سے دل و جان سے محبت کرنے لگے ہیں۔ ۔۔
وہ کہہ کے اس کے سینے میں سر چھپا گئی تھی۔۔ حمزہ کی آنکھوں میں صرف اور صرف اپنے جذبات کی سچائی نظر آئی تھی اپنے کہے پہ عمل کرنےکا عزم تھا ۔
کتنا خوبصورت اقرار محبت تھا دونوں کا۔ جس میں کسی بھی قسم کا کرب یا انتقام بیچ میں نہیں رہا تھا ۔۔
غم کے بادل چھٹ چکے تھے زندگی نے دونوں کے اردگرد پھولوں اور خوشیوں کی بارش کر ڈالی تھی شفا کے صبر کا صلہ قدرت نے کس قدر خوبصورت انداز میں اس کو دیا تھا ۔۔
صرف تھوڑا سا صبر انسان کی زندگی کو جنت بنا دیتا ہے اور ذرا سی بے صبری ہی انسان کو ڈبو دیتی ہے زندگی کو جہنم بنانے کے لیے کافی ہوتی ہے ۔۔۔
مرد کی وجہ سے عورت کی آنکھ میں آیا ایک آنسو صرف اور صرف ایک آنسو کا حساب اللہ پاک نے اس کے مرد سر کےرکھا ہے۔ جو اس کے شوہر نے خدا کو ضرور دینا ہے ۔
حمزہ یہ سوچ رہا تھا آدم کی کہی یہ بات اس کے دماغ میں گھر کر گئی تھی واقعی عورت کی آنکھ میں آنسو صرف ایک آنسو کا بوجھ اس کے شوہر کے لیے بھاری سل کے جتنا ہے ۔۔
_______
وہ پچھلے کئی گھنٹوں سے ہسپتال میں کی زندگی اور موت کی جنگ لڑرہی تھی ۔۔
عمر پاگلوں کی طرح آپریشن تھیٹر کےباہر ادھر سے ادھر کوریڈور میں چکر کاٹ رہا تھا۔
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے کوئی اس قدر بڑا اقدام اٹھا سکتا ہے ؟؟
آخر ایسا کیا ہوا تھا جو لائبہ کی حالت اس قدر بگڑی ہے ؟؟
۔وہ انتہا سے زیادہ پریشان تھا اتنا کہ کسی کو بھی جگائے بغیر گھر میں لائبہ کو ہسپتال لے آیا تھا فجرکی نماز سے کچھ دیر قبل۔یہ ان دونوں کا معمول تھا فجر کی نماز کے لیے اٹھنا اور پھر جوگنگ کرنا ۔
دل اور دماغ اس قدر الجھا ہوا تھا کہ وہ بس دیوانہ وار لائبہ کو بانہوں میں اٹھائے ہسپتال لیکہ بھاگا تھا۔
فجر کے وقت جب وہ لائبہ کو اٹھانے کے لئے جھکا تھا تو وہ کافی دیر تک نہ اٹھی اور جب وہ نہ جاگی تو عمر کو تشویش لاحق ہوئی ۔اس نے کئی دفعہ اس کو اٹھانا چاہا مگر وہ بے سدھ ہی رہی ۔۔۔
بس یہی لمحہ تھا جب عمر کو کسی گڑبڑ کا احساس ہوا اور وہ کسی سے بھی ملے یا بتائے بغیر اس کو ہسپتال لے کر بھاگا تھا ۔۔
کیسی ہے میری مسز ڈاکٹر؟؟؟
آپ کی وائف کا ہم نے معدہ واش کر دیا ہے مگر انہوں نے نشہ آور ادویات کچھ زیادہ ہی تعداد میں لے ڈالی تھی جس کی وجہ سے ان کی کنڈیشن اس قدر کرٹیکل ہو گئی ہے کہ وہ زندگی اور موت کے دوراہے پہ آ کھڑی ہوئیں ۔۔۔۔
تو پھر ڈاکٹر اب تو ٹھیک ہے نا میری وائف ۔۔؟؟!
ہاں اب وہ خطرے سے باہر ہیں مگر ایم سوری ہم آپ کے بچے کو نہیں بچا سکے ۔۔۔۔؟؟؟
کک۔ ۔۔۔کیا مطلب؟؟؟
عمر کو اپنی خود کی آواز جیسے کھائی سے آتی محسوس ہوئی ۔۔ اس کی ٹانگوں مزید کھڑا ہونے کی سکت نہ رہی تھی۔ وجود میں جیسے جان نکلی تھی ۔۔۔
جی ایم سوری مگر عرلی پریگنینسی میں ایسا کچھ ہونا مسڈ ابورشن کی وجہ بنتا ہے۔
ڈاکٹر کہہ کہ آگے بڑھ گئی تھی جب عمر اپنا سر تھام کے کوریڈور میں موجود کرسیوں میں سے ایک کو تھام کے بیٹھتاچلا گیا ۔۔۔
سر کو اپنے ہاتھوں پہ گرائےوہ اضطرابی انداز میں انگلیاں بالوں میں پھنسائے ہو ئےجیسے ضبط کے آخری مراحل میں تھا ۔۔
یہ وہی جانتا ہے کہ اس نے کس طرح لائبہ کو ایڈمٹ کروایا تھا ہسپتال میں ۔آپنے ایک اثر و رسوخ رکھنے والے دوست کو اعتماد میں لے کر اس نے پولیس کیس بننے سے روکا تھا ورنہ ہسپتال کی انتظامیہ سیدھا سیدھا پولیس کیس بنانے کو تیار کھڑی تھی۔۔۔۔
وہ خود بھی حیران تھاکہ لائبہ تو اب اپنے ساتھ ہوئے اس درد ناک حادثے سے خود کو کافی حد تک نکال چکی ہے۔ بھول رہی تھی آہستہ آہستہ وہ اس خوفناک یاد کو ۔
تو پھر ایسا کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ اتنا بڑا اقدام اٹھا گئی تھی ؟
اور اب ڈاکٹر نے جیسے تمام الجھی گر ہیں کھول ڈالی تھی ۔حقیقت اس کے سامنے آ چکی تھی ۔۔۔
"کاش تم مجھ پر اعتماد تو کر کے دیکھتیں ۔اتنا کمزور نہیں ہوں میں لائبہ جتنا تم نے مجھے سمجھ لیا ۔بچے تو پھول ہوتے ہیں ۔اس سب میں اس معصوم ننھی جان کا کیا قصور تھا ؟؟وہ تو ابھی اس دنیا میں آیا تک نہیں تھا اور تم نے اسی کو ۔۔۔۔!!
لائبہ تم اتنی ظالم کیسے ہو سکتی ہو ۔۔۔؟؟؟"
عمر کا دماغ بالکل سُن ہو رہا تھا اس کو اپنی سماعتوں پہ جیسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اس قدر بڑا قدم اٹھا گئی تھی صرف اور صرف اپنی ناداری میں ۔۔۔!!
آنے والا وہ بچہ صرف تمہارا اور میرا کہلاتا میں اسکو کبھی بھی خود سے الگ نہیں سمجھتا آخر وہ تمہاری کوک سے جناجاتا میں اس کو ویسے ہی پیار دیتا جیسے ایک باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے میں اس کو اتنی محبت دیتا کہ شاید میں خود بھی بیان نہ کر سکوں مگر تم نے شاید مجھے اپنا ہی نہیں سمجھا ۔۔۔۔۔"
وہ پورے قد سے جیسے زمین پر آگرا تھا اتنے عرصے کی محنت اس کی لائبہ پہ گویا اس نے لمحوں میں خاک کر ڈالی تھی ۔۔۔
🍁
تو تم اس بات سے انکاری ہو کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے۔۔۔۔۔؟؟؟؟
ہاں میں علانیہ کہتی ہوں یہ کہ وہ ایک وقتی جذبہ تھا اور کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔"
وہ قدم پیچھے لیتے ہوئے بے خوفی سے بولی تھی جبکہ اندر سے اس کا دل بہت بری طرح سے سہما ہوا تھا ۔اپنی محبت کو کھودینے کا دکھ اس کو اندر تک ڈس رہا تھا، کچوکے لگا رہا تھا ۔وہ بے بس و لاچار تھی مگر اپنے ماں باپ کی عزت کے لیے وہ اپنی محبت کی قربانی دے کہ ہی پر سکون ہو سکتی تھی ۔
۔
مصطفی اس کی زندگی میں آنے والا پہلا اور واحد شخص تھا جس نے اس کو محبت کے اصل معنوں سے آشنا کرایا تھا۔
وہ جانتی تھی کہ وہ بھی بالکل اسی کی طرح اس وقت بکھر رہا تھا جیسے وہ بس سانس لے رہی تھی مگر روح تو جیسے مصطفی کی روح کے ساتھ اس کا ہاتھ تھام کے آسمانوں میں اٹھکیلیاں کرتی اس کے وجود سے پرواز کرچکی تھی ۔۔
دونوں ہاتھوں کو دیوانہ وار مصطفی نےسوہا کے اپنے مضبوط ہاتھوں میں یک لخت جکڑا تھا اور دیوار سے لگایا تھا ۔ایسے جیسے وہ اس کا راستہ بالکل فرار کا بند کر چکا تھا ۔۔۔
اور میں بھی یہ بات تمہیں اپنی مکمل ہوش و حواس میں ہی کہتا ہوں کہ تم صرف اور صرف میری ہو ۔۔۔۔"
آنکھوں میں آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے لہجہ حد درجہ تند و تیز ی لئے ہوئے تھا ۔۔
اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے مزید بولا ۔۔۔
"بے شک راستے مشکل ہی سہی مگر مجھے اللہ رب العزت پہ یقین ہے کیونکہ وہی تو ہے جو ہماری خاموش التجاؤں کو جان بھی لیتا ہے اور مان بھی لیتا ہے۔ جو مشکل سے مشکل وقت اور تنہائی میں ہمارے ساتھ ہوتا ہے ۔ہمیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔ وہ کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکالے گا ۔۔۔۔۔۔۔"
یہ میں جانتا ہوں ۔۔۔۔!!
وہ بہت مضبوط لہجے میں کہہ رہا تھا ۔۔
خدا پہ یقین کامل اور ارادے کی پختگی اس کے ہر ہر انداز سے ظاہر ہو رہی تھی ،جھلک رہی تھی نہ جانے کیوں وہ مصطفی کی کہی بات سن کہ اندر تک پرسکون ہو گئی تھی ۔تمام خوف و وہم جیسے جھاگ کی طرح ہوا میں اڑ کے پھٹ پڑے تھے۔
نام و نشان تک نہ رہا تھا کسی بھی ڈر کا ۔کوئی خوف تک باقی نہ رہا تاسو ہاکے دل میں ۔۔۔۔
"تو بس پھر جن کا بھروسہ اللہ ہو۔ ان کی منزل کامیابی ہے ۔۔۔۔۔۔"
سوہاکا لہجہ اب بہت پراعتماد تھا ۔۔۔
وہ اب بھی اس کے ارد گرد دیوار پہ ہاتھوں کا گھیرا تنگ اور فرار کا راستہ مسدود کئے ہوئے تھا ۔۔۔
سوہا کی بات پہ بہت خوبصورت مسکراہٹ نے اس کے لبوں کا احاطہ کیا تھا ۔۔۔"
مگر انسان کو بھی کوشش کرنی چاہیے سوہا ڈیرہ ۔۔۔۔۔!!
وہ شعر تو تم نے سنا ہی ہوگا۔۔۔۔"
عمل سے زندگی بنتی ہے
جنت بھی جہنم بھی !!
اگر کوشش نہیں کریں گے خدا سے دوائیں نہیں مانگیں گے ۔گڑگڑائیں گے نہیں تو پھر کیسے سب آسان ہوگا ۔۔۔۔؟؟؟؟
اگر فریاد نہیں کریں گے اپنے رب سے تو بند راستے کھولنا مشکل ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔"
آپ اپنی سی کوشش کرکے دیکھ چکے ہیں۔ اب اپنا معاملہ اور محبت کا اصول اپنے اللہ رب العزت پہ چھوڑ دیں۔ اگر جو ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے بنائے گئے ہوں گے تو کسی نہ کسی طرح قسمت ہمیں ایک کرہی دیگی۔ ۔"
وہ بے خوفی سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی تھی۔ کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ چھوٹی سی سورہ ہے جس کو کل تک مصطفی سے بات تک کرنے کا فن نہیں آتا تھا ۔۔۔
"حیرت ہوتی ہے سو ہامجھے تمہارے طرز تخاطب پہ۔!! تم بہت کم عمر ہو کہ کیسے اتنی گہری باتیں کر لیتی ہو؟؟؟
بلاشبہ مجھ جیسے شخص کو بھی تم قائل کر سکنے کا ہنر جانتی ہوں۔۔۔۔۔۔"
مصطفی کی آنکھوں میں چمک سی ابھری تھی وہ اس کے ایک ایک نقوش کو اپنی آنکھوں میں بسآ رہا تھا ۔۔۔۔
"بس وقت اور حالات بہت بڑے استاد ہوتے ہیں مصطفی۔۔۔۔"
عمر سے آپ کی سوچ کا کوئی تعلق نہیں ۔کڑا وقت آپ کی سوچ اور آپ کی عمر سے بہت پہلے ہی بڑا کر دیتا ہےانسان کو ۔۔۔"
وہ چھوٹی سی لڑکی اپنے اندر کس قدر گہری تھی ۔معاملہ فہمی سے اب بھی و ہ اس بگڑی صورتحال کو سنبھالنے کی تگ و دو کر رہی تھی ۔کیسے اپنے ناتواں کندھوں پر وہ اس قدر بوجھ اٹھائے ہوئے تھی آخر ۔۔۔؟؟؟
سوچ کے رہ گیا ۔۔
آنکھوں سے ٹپ ٹپ عشک مسلسل رواں تھے سوہا کے جیسے اب آنسووں پہ اختیار ناممکن سا ہو گیا تھا اسکیلئے۔ ۔۔۔!!
آپ کا فون مسلسل بج رہا ہے پلیز ریسیو کر لیں ہو سکتا ہے کوئی بہت ضروری بات کرنا چاہ رہا ہوں ۔۔۔۔"
وہ بے دردی سے اپنے ہاتھ کی پشت سے آنسو پونچھتے ہوئے بولی تھی ۔ لہجہ بےحد بجھا بجھا سا تھا ۔۔۔۔
مصطفی نے ایک نظر اس کو دیکھا تھا اور پھر پینٹ کی جیب میں بچتے اپنے فون کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔
ہاں کہوں؟؟؟
" نہیں بس اب ان کی ضرورت نہیں ہے معذرت کر دو ان سے"۔
مصطفی کا دوست کافی دیر سے فون کر رہا تھا مگر مصطفی جیسے ارد گرد سے بیگانہ ہوا صرف اور صرف سوہا تک محدود ہو چکاتھا۔ ۔
اس کا دوست قاضی صاحب کو لے کے آ چکا تھا اور ہوٹل کی لابی میں بیٹھا اس کے حکم کا منتظر تھا ۔۔۔۔۔
سوہا بس خاموشی سے اس کو سن رہی تھی ۔۔۔
"کیا کہہ رہے ہو تم ۔۔؟؟؟
تم نے ہی تو قاضی صاحب کو لانے کا کہا تھا۔۔۔" امجد کو تعجب ہوا ۔۔۔
"ہاں کہا تھا مگر بس یہ سمجھ لو کہ اب سے قسمت کا کھیل شروع ہونے کو ہے ۔۔۔۔۔"
اس سے آگے وہ بغیر کچھ بھی سنیں فون کاٹ چکا تھا ۔۔۔۔
پھر بہت آہستہ سے اس نے اپنی متائے حیات کے ہاتھوں کو اپنی گرفت سے آزاد کیا تھا ۔
مصطفی کے ہاتھوں کی انگلیاں سوھا کی کلائیوں میں پیوست ہو کہ نشان چھوڑ گئی ۔۔
یا شاید عمر بھر کی نشانی دی گئیں تھی اس کی ۔۔۔
💘
مصطفیٰ نے دو بجے کے قریب دن کے رحمان صاحب کے گھر کے سامنے گاڑی روکی تھی مسلسل گریہ و زاری سے سوہاکی آنکھیں سوجھ چکی تھیں۔
آ
ج وہ گھر واپس لوٹی ضرور تھی مگر بہت پرسکون تھی یہ سوچ کے کہ اگر مصطفی اس کی قسمت میں ہے تو وہ اس کو کسی نہ کسی طرح اللہ تعالی کے حکم سے ضرور ملے گا ۔۔
خدا حافظ۔۔۔۔!!وہ گاڑی سے اترتے ہوئے بہت آہستہ سے نم لہجے میں بولی تھی ۔۔
الوداع مت کہو!!
میں جانتا ہوں میں نے اپنا دل اللہ تعالی کے آگے کھول دیا ہے ۔وہ مجھے ضرور میری محبت مجھ تک پہنچائے گا ۔۔۔
"میں جانتا ہوں وہ مجھے مایوس نہیں لوٹائے گا ۔۔"
کس طرح یہ میں خود بھی نہیں جانتا تھا۔۔!!!
مگر بس مجھے یہ پتہ ہے کہ تم صرف میری ہو۔۔"
" آج نہیں تو کل ،۔۔"
کل نہیں توہو سکتا ہے صدیوں بعد مگر کبھی تو تم میری ہو بنو گی ۔۔۔۔"
میرے نام سے پہچانے جاؤ گی ۔۔۔"
آمین ۔۔۔۔"سوہاکے لبوں سے بے ساختہ نکلا تھا ۔۔
"میرا خدا میرے دل کا حال جانتا ہے"
" بے شک وہ ہر چیز پہ قادر ہے "
💕
فجر کی پریگنینسی کو تیسرا ٹرائمسٹر شروع ہو چکا تھا۔
ارمغان سب کچھ بھلا ئے بس اس کا خیال رکھنے میں مصروف تھا ۔گھر کا ہر ایک فرد اس کا سائے کی طرح خیال رکھتا ۔
غزل نے تو گویا اس کو ہتھیلی کا چھالا بنا ڈالا تھا ۔دوسری طرف دادی اس کو اپنے پروں میں سمیٹ اپنے لاڈلے مرحوم بیٹے اور بہو کی آخری نشانی مان کے سینے سے لگائے رکھتیں ۔
حماد صاحب روزانہ صدقے اور خیرات کرتے نظر آتے ۔۔۔۔
پلیز مان آپ مےجائیں نہ۔۔۔۔"
میرا دل بہت خراب ہو رہا ہے۔ طبیعت بھی اب بہتر نہیں ہے میری۔ کسی وقت بھی ہاسپیٹل ۔۔۔۔"
وہ کہتے ہوئے خاموش ہو گئی فطری حیاءنے نظریں جھکانے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔۔
تو یار میں کوئی بہت سارے دن کے لئے تھوڑی جا رہا ہوں ۔بس دو دن میں واپس آ جاؤں گا اور اگر تمہاری طبیعت ذرا سی بھی اونچ نیچ کاشکار ہو تو مجھے کال کر دینا شہر سے فوری بھاگا چلا آؤں گا ۔۔
وہ محبت سے اس کی پیشانی کو سہلاتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔
فجر پہلے سے اور بھی خوبصورت ہوگئی تھی جیسے جیسے پیروں تلے جنت نزدیک آ رہی تھی گویا وہ نکھرتی چلی جا رہی تھی وقت کے ساتھ ساتھ ۔
ارمغان کو لگ رہا تھا جیسے وہ حوروں کا سہ حسن چر ا رہی ہو جس کا وہ برملا اظہار بھی کیا کرتا
۔یا پھر شائد یہ مرحلہ ھی ایسا ہوتا ہے جب ایک مرد باپ کے رتبے پر فائز ہونے والا ہوتا ہے تو وہ اپنی اہلیہ کو دنیا کی سب سے حسین اور خوبصورت بیوی تصور کرنے لگتا ہے۔ ایک خاص کشش ہوتی ہے اولاد کی جو ایک شوہر کو اپنی زوجہ سے مزید قریب کر دیتی ہے ۔
دنیا میں وہاسکو واحد ہستی لگ رہی ہوتی ہے جس سے وہ دل اور جان سے محبت کرتا ہے اس کو چاہتا ہے ۔۔"
وہ سوچکی تھی اس کے بازو پر سر رکھ کےجبکہ ارمغان آنے والے دنوں کے بارے میں سوچتے سوچتے حسین خواب سجا رہا تھا۔
جس میں اپنی اولاد کے لئے بہت ساری خواہشات تھی ۔۔جاگتی آنکھوں سے اس نے ڈھیر سارے خواب دیکھ ڈالے تھے آپ نے آنے والے بچے کو لے کہ ۔۔۔
💖
کیا ہے مان آپ مجھے چھوڑ کہ کیوں جا رہے ہیں۔۔۔۔؟؟
میں ناراض ہوں آپ سے۔۔۔"
یہ تو غلط بات ہے آپ اکیلے ہی جا رہے ہیں مجھے بھی ساتھ لے جاتے کم از کم میں یوں پریشان تو نہ ہوتی ۔۔۔۔۔"
بابا اور بھائی سے بھی ملنے کا کتنا دل کر رہا ہے مگر آپ ہیں کہ ۔۔۔۔
وہ اس کا اینڈ کیری تیار کرتے ہوئے خفا خفا سے لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔
یار میں تو تمہیں لے جانے کے لیے تیار ہوں مگر دادو نےہی منع کردیا ہے کہ تم اس وقت ابھی سفر نہ کرو تو بہتر ہے ۔۔۔۔"
تم پریشان مت ہو میری جان گھر میں باقی سب لوگ ہیں نہ موجود سب تمہارا بہت خیال رکھیں گے
وہ نرمی سے سمجھانے لگا ۔۔۔
" جی اچھا "۔۔
وہی ایک دم خاموش ہوئی تھی آنکھوں میں ویرانی سی گھر کر گئی تھی ۔۔۔
"جانا بہت ضروری ہے کیا ؟؟''
ہاں ڈ یئر!! بہت ہی اہم میٹنگ ہے میری نہیں تو کبھی نہیں جاتا اور پھر بابا سائیں کا حکم تو ہر صورت ماننا ہی پڑے گا ۔۔۔"
وہ تفصیل سے بتانے لگا تھا تا کہ فجر کا دل مطمئن ہو سکے ۔اس کا خود کا دل بھی نہیں چاہ رہا تھا اس کو اس وقت چھوڑ کے جانے کا مگر بابا صاحب کا حکم تھا کہ یہ میٹنگ اسی نے اٹینڈ کرنی ہے مینیجر کے بس کا کام نہیں تھا ۔
جلدی آئے گا پلیز۔۔۔!!
وہ آنکھوں میں آئی نمی کو بڑی مشکل سے واپس آنکھوں میں اتارتے ہوئے آگے بڑھ کے اس کے گلے سے جا لگی ۔۔۔۔
وہ بہت بجھی مجھے دل سے مانی کو الوداع کہہ رہی تھی ۔۔
خداحافظ میری جان سے پیاری بیوی۔۔۔!
اپنا خیال رکھنا ۔۔۔۔۔اور میرے بےبی کابھی ۔۔۔۔۔"
تم میری زندگی کا حاصل ہو۔۔۔۔۔۔۔"
وہ اس کی پیشانی پر بوسہ دے کے چلا گیا تھا ۔۔۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ پھر فجر سے ملاقات ممکن ہوسکے گی زندگی میں یا نہیں ۔۔۔!!!!
💕
بیٹا ہم تمہاری دادی کے ساتھ پڑوسی گاؤں جا رہے ہیں ہمارے بہت ہی عزیز کی بیٹی کی شادی ہے تم اپنا خیال رکھنا زیادہ دیر نہیں لگائیں گے ہم بس دو سے تین گھنٹے میں واپس آجائیں گے ۔۔"
ایک گھنٹے بعد غزل اس کے کمرے میں آئی تھی اور اس کو اپنی روانگی کا بتا کہ اپنا چند گھنٹے کے لئے خیال رکھنے کا کہہ کر پیار کر کے چلی گئی ۔۔۔
ساتھ ہی ایک ملازمہ کو بھی اس کی دیکھ بھال کے لئے پابند کرکے گئی تھی ۔مگر کون جانتا تھا کہ وقت پہ کون کام آتا ہے اور کون نہیں ۔۔۔۔!
اسنے سکون کا سانس لیا۔۔۔۔
تو گویا وہ کچھ دیر کے لیے گھر میں سکون سے رہ سکتی ہے۔ ورنہ جب سے سب گھر والوں کو اس کی اصلیت پتہ چلی تھی وہ نجانے کن اندیشوں کا سوچ سوچ کے کمرے میں قید ہو کر رہ گئی تھی۔ خوفزدہ رہتی ہر پل ۔چہرے سے خوشی جیسے روٹھ گئی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی یہ سکون بس چند ہی منٹوں کا ہے ۔۔
وہ چہل قدمی کرنے کی غرض سے کمرے سے باہر لان کی طرف نکل آئی تھی۔ ابھی وہ راہداری سے گزر کر لان میں پہنچی بھی نہ تھی جب نہ جانے اس کو کسی کے قدموں کی دھمک سی اپنے سے کچھ فاصلے پر محسوس ہوئی تھی ۔۔۔
وہ یکایک پیچھے گھوم کے دیکھنے لگی جہاں حماد صاحب اس سے چند ہی قدموں کے فاصلے پہ کھڑے روزے اول کی طرح بالکل اسی دن جیسا طنطنہ اور حقارت آنکھوں میں لیے موجود تھے ۔۔
آ۔ ۔اا۔ ۔۔۔۔"وہ گھگھیا ئی ۔آنکھوں میں خوف اتر آیا ۔۔
"تم بیٹا یہاں کیوں ہو۔ تمہیں آرام کرنا چاہیے ما بچے۔ تمہارا آرام کرنا بہت ضروری ہے ۔۔۔۔۔"
اور پھر یہ تو تمہارے آرام کے دن ہیں۔ ۔۔"
لہجہ عجیب چھپتا ہوا اور معنی خیز سہ تھا ۔۔۔
آ۔ ۔۔۔۔آپ ۔۔۔۔۔!
گگ۔ ۔۔۔۔گئے نہیں۔۔۔۔۔؟؟؟
وہ سرا سیمہ ہوئ قدم پیچھے لینے لگی ۔خطرے کی گھنٹی جیسے اس کے دماغ میں بج اٹھی تھی۔۔۔۔
" نہیں میں نہیں گیا۔۔۔۔"
جانا تو تھا مگر پھر سوچا کہ کہیں میری بھتیجی اور بہو اکیلی نہ رہ جائے یا پھر کوئی حادثہ ہی نہ پیش آ جائے۔۔۔ "
کچھ ہو نہ جائے ۔۔۔۔۔۔!
لہجے میں بہت چبھن تھی ۔ تندوتیز لہجہ فجر کو اندر تک ہلا کے رکھ دیا تھا ۔
وہ لرز اٹھی تھی حماد صاحب کا یہ روپ دیکھ کہ۔ ۔وہ اتنے عرصے سے نیک اور پارسائی کا چوغا اوڑ ہے نظر آ رہے تھے ۔۔۔
یا پھر کوئی گہرا راز تھاجو صرف وہ جانتی تھی ۔۔۔۔۔!
وہ خوفزدہ ہو کے پیچھے قدم لینے لگی ۔۔۔
مم۔ ۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں اپنے کمرے میں ہی جا رہی ہو بس۔۔۔۔۔۔"
وہ خشک ہو رہے لبوں پہ زبان پھیر کے لبوں کو ترک کر کے بولی تھی۔
اس وقت وہ جس حال میں تھی بھاگنا اس کے لیے ناممکن تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔!!
تمہیں اپنے اما بابا اور بھائیوں کی یاد تم بہت آتی ہوگی نہ بیٹا ۔۔۔۔؟؟؟
جج۔ ۔۔۔۔جی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
وہ شدید خوفزدہ تھی ۔۔۔
تو کیا خیال ہے تمہیں ان کے پاس پہنچا دیا جائے ۔۔۔؟؟؟
تمہارا دل کر رہا ہو گا ان سے ملنے کا ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
وہ گہرے لہجے میں کہتے چند ہی قدموں میں فجر تک پہنچ چکے تھے ۔۔۔
____
حماد صاحب چند قدموں کا فاصلہ طے کرکے سہمی ہوئی فجر تک پہنچے تھے اور اس کے بالوں کو الٹے ہاتھ سے اپنی مٹھی میں قطع رحمی سے جکڑ کہ دوسرے ہاتھ سے کھینچ کر نرم و نازک چہرے پہ زوردار چٹا چٹ کئی تھپڑجڑڈالے تھے ۔۔۔
فجر اس افتاد کے لیے بالکل بھی تیار نہ تھی وہ تصور بھی نہیں کرسکتی تھی کہ حماد اپنا بھیڑیے نما چہرہ اس قدر جلدی دیکھا دینگے۔
وہ تو یہی سمجھ رہی تھی کہ جب تک اس کے وجود میں ان لوگوں کی امانت سانیں لے رہی ہے تب تک وہ اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا ۔مگر وہ تو شاید سفاک نہیں بلکہ انسان کے روپ میں درندہ و بھیڑیا تھا۔
" بے ضمیر شخص کسی کا نہیں ہو سکتا چاہے وہ اس کی اولاد ہو یا اولاد کی بھی اولاد ہو یا پھر اس کے سگے خونی رشتے!! چاہے بھائی کے روپ میں ہو یا اس کے بچوں کی شکل میں ۔"
فجر کو لگا جیسے وہ آج چپ نہیں رہ سکی گی ۔اپنے تئیں وہ ہماد صاحب کی طبیعت صاف کردی تھی مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ اب اس کا حشر کیا ہونے والا ہے ۔۔۔۔!!
Stay away from me i know your reality
very well ۔...."
دور رہو مجھ سے میں تمہاری اصلیت بہت اچھی طرح جانتی ہوں ۔۔۔"
میں ڈر گیا تم نے تو مجھے ڈرا دیا لڑکی ۔۔۔۔"
ہاہاہا۔ ۔۔۔۔۔"
بے ہنگم کہکہ برآمد ہوا ۔۔
حماد صاحب نے ڈرامائی انداز میں کہتے ہوئے فجر کا تمسخر اڑایا اور اس کے بالوں کو اپنی مٹھی میں بے دردی سے جکڑتے ہوئے فرش پہ گھسیٹتے گھسیٹتے اس کو نہ جانے کن تاریک راستوں سے گزار کرنیچے کی طرف ایک بڑی سی پینٹنگ کے پیچھے موجود چور دروازے کو کھول کہ وہ اس کو لیے تہ خانے کی طرف بڑھے تھے ۔۔۔۔۔۔
فجر کی حالت زمین پہ بری طرح گھسیٹنے کی وجہ سے جابجہ وجود پہ لگڑھ لگنے سےغیر ہو رہی تھی ۔۔
شدید قسم کی تکلیف اس کو اپنی کمر کے اردگرد ہوتی یکلخت محسوس ہوئی۔ٹیسیں سی اٹھ رہی تھی اس کو ۔
مم۔ ۔۔۔ مجھ کو ڈاکٹر کے پاس لیچلیں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے مجھے فوری ہسپتال جانا ہے ۔۔۔۔"
وہ بری طرح سے بچے کی ولادت پہ ہونے والے متوقع درد سے تڑپ اٹھی تھی ۔۔۔۔
اس وقت اس کو اپنی جان سے زیادہ اپنے اندر پلنے والی معصوم زندگی کی فکر لاحق تھی ۔جو کسی بھی وقت دنیا میں آنے کو تھی مگر اب ایسا لگ رہا تھا کہ تمام خوشیاں تمام بہار ملیامیٹ ہونے کو تھیں۔ آرزوؤں کے دیئے بہت زور کی کالی آندھی آنےسے بجھنے کو تھے ۔۔۔۔
میرا نہی تو اپنے آنے والے چشم وچراغ کا ہی سوچ لیں آپ خدارا ۔۔۔۔۔۔"
وہ جیسے اپنی اولاد کے لئے جنگ لڑنے کو ڈٹ کھڑی ہوئی ۔
فجر اپنے بالوں کو بے دردی سے جکڑے حماد کے آگے ہاتھ جوڑ کے گر گرا ئی ۔۔
رحم کرو مجھ پہ۔۔۔
اگر تجھ پہ رحم کھایا تو میں برباد ہوجاونگا۔۔۔
مم۔۔۔میں وعدہ کرتی ہوں کسی کو کچھ نہیں بتائونگی۔۔۔
تو بتانے کے قابل رہے گی تب نہ۔ ۔۔!!!
ھا۔ ۔۔ھا۔ ۔ھا۔ ۔۔
سفاکی سے کہتے ہوئے کہکہ لگایا گیا ۔۔
مم مطلبببب۔ ۔۔۔۔؟؟
وہ سسکیاں بھرتے ہوئے بڑی مشکل سے یہ الفاظ ادا کر پائی تھی۔۔
شام تک تیرہ کفن دفن بھی کروا دوں گا دھوم دھام سے فکر کیوں کرتی ہے ۔۔۔۔
اس سے مزید تو میرا نہیں خیال تجھے کچھ اور سمجھانا یا بتانا پڑے گا ؟؟
ویسے بھی تو خود کو بہت عقلمند سمجھتی ہے۔ ۔۔
وہ شاید دل کے بجائے انسان نہیں تھا درندہ تھا ۔۔
وہ اب بھی اس کو فرش پہ پوری طرح سے گھسیٹتا تہ خانے کے اندر موجود ایک بہت اندھیری اور گپت جگہ میں لے کر جا رہا تھے۔۔۔
گھسٹنے کی وجہ سے کئی چوٹیں اس کے پورے وجود کو درد سے مزید دوہرہ کر گئیں تھی ۔وہ تڑپ اٹھی تھی ۔۔۔۔وجود سے روح فنا ہونے کو تھی
🍂🍂🍂
اس کی قسمت اچھی تھی کہ وہ اس وقت حویلی کے ایک خاص وفادارملازم کے ساتھ فارم ہاوس کے باہر چیز لینے گئی ہوئی تھی ۔
اگر ارمغان ساتھ ہوتا فارم ہاوس میں تو وہ اس کے ساتھ جاتی مگر عین ٹائم پہ ہماد نے ارمغان کو جانے سے یہ کہہ کر روک لیا کہ۔۔۔
" تمہاری چھوٹی خالہ ناراض ہو نگی اگر تم ان کی بیٹی کو دیکھنے نہ گئے تو" ۔
ارمغان بچوں کا دیوانہ ننھی گڑیا کو دیکھنے کی چاہ میں ان کے ساتھ فام ہاؤس جانے سے انکار کر گیا۔ ۔۔۔
جب وہ ملازم کے ساتھ چیز لیکہ واپس لوٹی فارم ہاوس اس وقت وہ پورا تباہ ہو چکا تھا ۔ جل کے خاک ۔۔۔۔۔۔!!
اس کی چیخیں آگ کو دیکھ کے بلند ہورہی تھیں فارم ہاؤس کا جلا ہوا اسٹرکچر اس کے سامنے مانو طنزیہ انداز میں موجود اس کے دکھ پہ مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔
وہ بری طرح چیختی چلاتی رہی۔بوڑھے ملازم کی گود میں مچلتی ر ہی ۔
زار و قطار رو رہی تھی ۔۔
چلو بیٹا اب یہاں رہنا ٹھیک نہیں ہے حویلی چلو تم میرے ساتھ ۔۔"
بورھا ملازم قمر اس کو حویلی لے کے پہنچا تھا مگر ابھی اس اس نے حویلی کا بڑا سا صحن عبورہی کیا تھا جب اس کی بیوی یکدم کوارٹر سے نکلی تھی اور اس کو کھینچنے کے انداز میں واپس اپنے کوارٹر میں لے کے گئی تھی ۔
کہاں تھے تم اتنے وقت سے؟؟؟
تمہیں پتا ہے حماد صاحب کب سےتمھیں ڈھونڈ وارہے ہے۔ ۔۔۔۔"
میرا کتنا برا حال تھا تمہیں پتا ہے داؤد صاحب اور عائشہ بی بی سمیت بچے سب ج۔ ۔جل۔ ۔۔۔۔
یہ تمہارے ساتھ عنایہ بٹیاکیسے ۔۔۔۔۔؟
اس کی چلتی ز بان کو یکدم بریک لگا تھا کیونکہ گدرمیں موجود بچی کوئی اور نہیں آنا یہ تھی۔۔۔
قمر کی بیوی سریا کا حیرت اور بے یقینی سے برا حال تھا ۔۔
اور یہ بی بی تمہارے ساتھ کیا کر رہی ہیں یہ تو مر گئی ہے نہ ۔۔۔؟؟
وہ پریشانی میں الٹا سیدھا ہی بھول گئی مگر قمر اس کی بات سمجھ چکا تھا اور بہت آہستہ سے بولا۔۔۔۔۔
"ہاں میں بتانا بھول گیا تھا کیونکہ داؤد صاحب نے مہلت ہی نہیں دی تھی اور مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے ۔۔داؤد کو یاد کر کے ملازم کی آنکھیں ایک دفعہ پھر سے نم ہوئیں ۔۔
"مجھ سے پوچھا تھا حماد صاحب نے تمہاری بابت تو میں نے ان کو کہہ دیا کہ تم گاؤں گئے ہو اپنے بھائی کے پاس۔ طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسکی "۔
"میں جھوٹ نہیں بولتی تجھے پتا ہے مگر چونکہ میں خود بھی نہیں جانتی تھی تم کہاں ہو لیکن حماد صاحب کا غصہ دیکھ کہ نہ جانے کیسے میرے یہ بات منہ سے نکل گئی اور میں نے جھوٹ کہہ دیا ۔۔
ہوسکتا ہےاس میں کوئی خدا کی مصلحت ہو۔ ۔۔۔۔"
قمر نے دوسرا صافہ سر پہ باندھے ہوئے کہا ۔۔
اب تم جاؤ اور جا کہ ہماد صاحب کو حاضری دو اور یہی کہنا کہ بھایاکے پاس گاؤں گئے تھے ان کی طبیعت ناساز ہے ۔۔
اچھا تم فکر نہیں کرو میں جاتا ہوں ۔۔یہ سو رہی ہے اس کو سونے دینا اٹھانا نہیں اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے بیچاری بچی رو رو کے ہلکان ہو گی اگر ابھی اس کو اٹھایا تو یہ اپنے ماں باپ کا دکھ برداشت نہیں کر سکے گی اس کو تھوڑا ٹائم دو جب اٹھ جائے گی تو میں اس کو حویلی چھوڑ آؤں گا اندر ۔۔۔۔
بیچاری بچی پہ غم کا پہاڑ بھی تو کتنا بڑا ٹوٹ پڑا ہے ۔۔۔۔"سوریا نے اپنی آنکھوں میں آئیں نمی کو پہنچتے ہوئے عنایہ کو دیکھا ۔۔۔
بوڑھا ملازم اپنے مالک کی ناگہانی موت سے بہت اداس تھا آہستہ سے چلتا ہوا وہ حماد صاحب کو اپنی حاضری دینے کے لئے ان کے کمرے کی طرف بڑھا تھا ۔۔
کمرے کے دروازے کے باہر پہنچ کہ وہ کھٹکا دے کر اندر جانے کو ہی تھا جب اندر سے آتی آوازوں اور ہونے والی گفتگو نے جیسے اس کے قدم ساقط کردیئے تھے ۔۔
"کھیل ختم ہوا ۔۔۔۔خس کم جہاں پاک ۔۔
"میں اپنے راستے میں آنے والی کسی بھی دیوار کو برداشت نہیں کروں گا چاہے وہ میرا بھائی ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔"
"ہاں یہی میں سوچ رہا ہوں کہ چار لوگوں کی لاشیں ملی ہیں مگر ایک لاش ابھی بھی نہیں مل سکی ہے"
خیر فارم ہاؤس کا جو حال ہوا ہے اس کے بعد چار لوگوں کی ڈیڈ باڈی بھی ملنا بہت حیرانگی کی بات ہے اور رہ گئی آخری تو ہو سکتا ہے وہ ہماری چھوٹی سی بھتیجی کی ہو۔۔۔۔"
" جو کہ نہ ملی ہو وہ تھی بھی تو دھان پان سی ایسے ہی جل کے خاک ہو گئی ہو گی ۔۔۔۔"
"ہاں بھئی جشن منائیں گے کیوں نہیں منائیں گے تم نے ہمارا اتنا بڑا کام جو کیا ہے۔۔۔"
" میرے بھائی کے خاندان کو ختم کرنا کوئی آسان کام تھوڑی تھا۔ تمہیں اس کا معاوضہ ضرور ملے گا تم پریشان مت ہو ۔۔۔
ھاہاہا۔ ۔۔۔!!
بے ہنگم کہ کا بلند ہوا تھا ۔۔حماد صاحب کسی سے فون پہ بات کر رہے تھے اس سے پہلے وہ باہر کھڑے ملازم کی طرف متوجہ ہوتے قمر بغیران کےکمرے کا دروازے بجائے باہر سےہٹ گیا۔۔
اس کی ہوائیاںاڑھ چکی تھیں ۔ وہ سراسیمہ سہ اپنے کوارٹر کی طرف بھاگا تھا کہ کہیں اس کی بیوی عنایہ بیٹی کو حویلی کے اندر ہی نہ لے آئے اور فجر کی جان کو ایک دفعہ پھر سے سولی پہ نہ چڑھا دے کیونکہ وہ ابھی تک اس سچ سے ناواقف تھی کہ ہنستے بستے خاندان کو ختم کرنے والا گھر میں ہی موجود تھا۔۔۔
وہ ایک حادثہ نہیں تھا بلکہ سوچی سمجھی سازش تھی ۔۔مگر قمر کے دل میں سوال ابھی بھی ایک گوندا تھا کہ آخر کیوں ۔۔۔۔؟
حماد صاحب نے کیوں اپنے بھائی کو منوں مٹی تلے سلا ڈالا ؟؟؟
کیوں اس کے خاندان کو نیست و نابود کر دیا ۔۔۔۔۔۔؟؟
مگر ان سب باتوں کا جواب اس کے پاس نہ تھا اور یہ شاید اب وقت سوال کا جواب ان کو دیتا ۔۔
وہ شکر ادا کر رہے تھے کہ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس روز داؤد صاحب نے ڈرائیور کو بھی اپنے ساتھ نہ لیا اور اس کو اشارہ کرکے کہا کہ تم ساتھ چلو۔
گھر میں سب کو یہی پتہ تھا کہ داؤد خود ڈرائیو کر کے فارم ہاؤس جا رہا ہے ۔۔
قمر ان ملازم میں سے تھا جنہوں نے داؤد اور حماد کو پالا پوسا تھا ۔
داؤد سے اس کی محبت مثالی تھی وہ بہت وفادار تھا اپنے مالک کے لیے ۔داؤد کا کہا وہ آنکھ بند کرکے سنتا تھا بہت پیار سے وہ اپنے مالک کو داؤد بابا کہہ کہ بلاتا ۔ اور آج اس کا وہ پیارا داؤد بابا ہی نہ رہا تھا اپنوں کے ہی ہاتھوں وہ چل بسا تھا ۔۔۔۔
وہ جلدی جلدی بھاگتا ہوا اپنے کوارٹر کی طرف آیا ۔
اپنی بیوی کو تمام تر قصہ کہہ سنایا اسی کے جیسا حال اس کی بیوی کا بھی تھا وہ بھی افسوس کے مارے جیسے کچھ بول ہی نہ سکی چند لمحوں تک ۔۔۔۔۔
وہ دونوں اس بات سے بے خبر تھے کہ عنایہ اٹھ چکی ہے۔۔۔
عنایہ ،ازما(قمرکی بیٹی)کا ہاتھ پکڑے کچن کہ دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی ان دونوں کی باتیں سن چکی تھی ۔۔۔
سات سے دس سال کی بچی کوئی ناسمجھ بچی نہیں ہوتی اس کو اتنی تو عقل اور تمیز ہوتی ہے کہ وہ اونچ نیچ اور حالات کی خرابی کو سمجھ سکے اور یہی عنایہ کے ساتھ ہوا تھا۔۔۔
بابا کی بتائی گئی اپنی بیوی کو ایک ایک بات وہ سن کے ایک دفعہ پھر اپنا آپا کھو بیٹھی تھی اور چیخنے کو تھی جب بابا اور ان کی بیگم نے زبردستی اسکو خاموش کروایا تھا اور اس کو سمجھایا کہ۔ ۔۔
"بیٹا تمہاری بھی جان جاسکتی ہے تم خاموش رہو ۔۔۔"
عظمیٰ نے بھی اس کو اسی کے انداز میں بہت کچھ سمجھایا تھا وہ سمجھی یہ نہیں سمجھی مگر خاموش ضرور ہوگئی تھی۔ ۔۔
اب کیا کرنا ہے کچھ حل نکالو جلد از جلد ہم عنایہ کو زیادہ دیر تک چھپا کے نہیں رکھ سکتے اور اگر ہماد صاحب کے یہ ہاتھ لگ گئی تو پھر اس کا بھی وہی حال ہوگا جو اس کے پورے خاندان کا ہوا ہے ۔۔۔"
سریا کا خوف کے مارے برا حال تھا وہ کسی نہ کسی طریقے سے ان آیات کو بچا لینا چاہتی تھی موت سے ۔۔
"میری تو خود بھی کو سمجھ میں نہیں آرہا میں کیا کروں۔۔۔۔۔"
قمر اپنے کوارٹر سے باہر جھانک رہا تھا گھر میں مہمانوں کا تانا بانا بن چکا تھا۔ لوگ جنازے میں شرکت کے لیے آنا شروع ہوئے تھے ۔۔
یکدم وہ چونکا تھا اور بغیر کچھ کہے بھاگتا ہوا کسی بہت خاص بندے کو پہچان کر اس تک جا پہنچا۔۔
وہ پہچان گیا تھا کہ آنے والا شخص داؤد کا بہترین دوست اور بچپن کا ساتھی تھا اس کے ساتھ اس کا ایک بیٹا بھی تھا ۔
قمر بابا اس کو اشاروں کنایوں میں بہت کچھ سمجھا کہ خاموشی سے بغیر حویلی کے اندر جانے دیئے اپنے کواٹر میں لے آئے تھے اور ان کو ایک ایک بات کہہ سنائی ۔۔۔
یہ سب کیسے ہوا اور اب کیا ہوگا مجھے تو کچھ نہیں سمجھ میں آرہا ۔۔۔؟؟
ملازم پریشان تھا رو رہا تھا اپنے مالک کی دردناک موت اس کو بھلائے نہیں دے رہی تھی۔
داود کی آخری نشانی جس کو وہ کسی طور بھی کھونا نہیں چاہتا تھا۔محفوظ ہاتھوں میں سونپنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔
اس کا ایک ہی حل ہے کہ میں انایہ کو لے کر جا رہا ہوں اپنے ساتھ اور عنایہ مر گئی ہےداؤد اور اس کے بیوی بچوں کے ساتھ ۔۔۔۔"
یہ بات آپ یاد رکھیں بس یہ اب ہماری بیٹی ہے فجر ۔۔"
۔۔۔۔۔مگر اندر ہی اندر ہوں جیسے وہ پل پل مررہی تھی۔ تمام سچ کو جانتی تھی۔۔۔۔
آگ سے ڈرنا اور لوگوں سے خوف زدہ ہونا اس کی عادت میں تھا۔۔
جیسے جیسے وہ بڑھتی گئی ویسے ویسے اس کے اندر ایک خوف سا بیٹھتا گیا ۔
مگر خوف کے ساتھ ساتھ ایک جنون بھی تھا اس کے دل میں کہ وہ یہ جاننا چاہتی تھی کہ آخر اس کے ماں باپ کا کیا قصور تھا۔ جو ان کو منوں مٹی تلے سلا دیا گیا اور وہ اس سوال کا جواب لینے وہ حویلی چلی آئی تھی ۔۔۔۔
🍁🍁🍁
حماد صاحب فجر کو تہ خانے کے بالکل آخری سرے پر بنے چھوٹے سے اسٹور نما جگہ پہ لے کر آئے تھے اس جگہ فجر کو پوری امید تھی کہ کوئی بھی اس کو بچانے کے لئے ہرگز بھی نہیں پہنچ سکے گا ۔۔
کیا تمہیں پتا ہے تمہاری ماں باپ اور بھائیوں کی موت حادثہ نہیں تھی ۔۔۔۔۔؟
میرے خیال سے تو وہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی اور شاید نہیں یقینا تمہارے بھی ۔۔۔۔
وہ زمین پر گری فجر کے ارد گرد چکر کاٹتے ہوئے تمسخر اڑاتے لہجے میں گویا ہوا ۔۔۔۔۔۔فجر کی ساری حسیات یکدم الرٹ ہوم ئی یہ سچ جاننے کے لئے تو وہ آج تک زندہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔
فجرخاموش رہی۔
اس وقت وہ صرف سننا چاہتی تھی جاننا چاہتی تھی کہ کیوں اس کے ماں باپ اور بھائیوں کو سوچی سمجھی سازش کے تحت موت کے گھاٹ اتارا گیا ۔۔۔۔؟؟"
خیر۔۔۔۔!!
جانتی تو تم ہو گی بہت اچھی طرح اسی لئے تو حویلی تک آئی تھیں مگر تم نےاپنے آپ کو اتنا خوش قسمت اور ہو شیار سمجھ کیسے لیا ۔۔۔۔۔؟؟؟
تم شاید یہ بھول گئی تھی کہ تمہارا واسطہ بھی تمہارے سگے تایا سے پڑا ہے ۔۔۔۔"
وہ اس کا چہرہ بے دردی کا مظاہرے کی آخری حد کرتے ہوئے تھوڑی سے پکڑ اونچا کرکے اسو اور وحشت سے بھری فجر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئےغرایا۔
تمہیں تو میں اسی روز پہچان گیا تھا جس روز تم اس حویلی میں آئی تھی۔ تمہارے بائیں رخسار پے جو برتھ مارک ہے یہ ہیں تمہارا دشمن ثابت ہوا کیوں کہ تم کو بہو اپنے ماں باپ کا مکسچر ہو ۔
بس پھر کیا تھا میں نے تمہاری معلومات کر وائی اگلے ہی روز ۔
پھر جو معلومات میرے سامنے آئی اور جو ایڈریس تمہارے گھر والوں کا تحفے تحائف پہچانے کیلئے ارمغان نے ڈرائیور کو دیا تھا وہ میرے مزید کام آیا ۔۔
کیوں کہ مجھے کوئی شوق نہیں تھا تمہارے گھر والوں کو شگن کے تحفے تحائف پہنچانے کا میرا اصل مقصد تھا تمہارے گھر والوں کا اتہ پتہ جان نا ان تک پہنچنا اور ارمغان بغیر میرا معصوم بچہ جیسے تمہارے بنے ہوئے جال میں پھنسا ویسے ہی خاموشی سےمیری بچھائی گئی بساط کا مہرہ بنا ۔۔۔۔۔۔۔ "
غزل اور اماں کے پہنچنے سے پہلے ہی میرے بندے نے تمہارے گھر والوں کو غائب کر دیا اور تمہاری دادی اور ساس کے سامنے میرے اسی بندے نے بھیس بدل کےڈرائیور اور ان دونوں کو یہ ظاہر کیا جیسے وہ بھوتیا بنگلہ ہےاور 37 سال سے بند پڑا ہے ۔یہ حقیقت جاننے کے بعد میری اماں جان تم سے کافی کھچی کی چیزیں رہنے لگی وہ سمجھ رہی تھی کہ تم وہ نہیں ہوں جو تم ظاہر کر رہی ہوں مگر میرے بچھائے ہوئے جال کا ستیاناس اس وقت ہوا جب تمہارے حاملہ ہونے کی خبر حویلی کے درو دیوار میں گونجی سب بہت خوش تھے میری اماں جان اور بیوی بھی وہ باتیں بھول گئی جو میں نے شک کا بیج ان لوگوں کے دماغ میں بو دیا تھا ۔۔۔
میں اس دن بہت اشتعال میں آ گیا تھا جس روز مجھے تمہاری طرف سے خوش ہوں میں موصول ہوئی تھی ۔میرا دل چاہا میں تمہیں اسی وقت آگ لگا کے اس دنیا سے تمہارے ماں باپ کی طرح رخصت کردوں مگر پھر میں نے پوری پلاننگ کے تحت بساط بچھائی اور جیسا میں نے چاہا تم انجانے میں ویسا ہی کرتی چلی گئی اور آج دیکھ لو تم قیصر میرے سامنے دن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپ رہی ہو ۔۔۔۔۔"
نہ تم یہاں آتی ہے اور نہ ہی تمہارا یہ حال ہوتا ۔۔۔"
اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں تھا اس وقت تو تمہارا تھا تم آئی اور خود ہی میرے لئے کھودے ہوئے گڈھے میں گر گئی ۔۔۔
اور تم جانتی ہو تمہارے وہ نقلی ابا اور بھائی کا ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
کک۔ ۔۔۔۔۔۔کیا کیا ہے تم نے ان کے ساتھ بتاؤ مجھے ۔۔۔۔۔؟؟؟؟
وہ ہذیانی انداز میں کہتی نہ جانے خود میں کیسے اتنی ہمت پیدا کر گئی تھی کہ تھوڑا سا اٹھ بیٹھی اور حماد صاحب کو پیروں سے جھنجوڑ ڈالا ۔۔۔
وہیں جہاں تمہاری اماں اور بھائی بابا موجود ہیں وہیں وہ دونوں بھی ان کے ساتھ مل کے شام کی چائے آسمانوں میں نوش فرما رہے ہونگے ۔۔۔۔
تت۔ ۔۔تم۔ ۔۔۔۔نے ا۔ ۔۔انکو بھ۔ ۔۔۔ی۔ ۔۔۔؟؟؟
مم۔ ۔مگر ولیمے والے دن تو میری انسے بات ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔
۔وہ جیسے خود سے گویا ہوئی۔۔
بجا فرمایا تمہاری بات ہوئی تھی بالکل ہوئی تھی ان دونوں سے مگر میرے آدمی کے سامنے ہوئی تھی اور وہی بس آخری سانس تھی جو ان دونوں نے تمہارے فون آنے اور بند کرنے تک لی۔۔۔"
وہ اپنی بات کہہ کہ فجر کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا جبکہ فجر کا تو جیسے وجود میں سے ساراخون سمٹ کے چہرے پہ آگیا ۔۔۔۔۔
ان دونوں معصوموں کا کیا قصور تھا ان کو کیوں تم نے ۔۔۔۔۔ ؟؟؟
وہ جیسے آب خود چاہتی تھی کہ اس کی زندگی کا چراغ بجھ جائے اس کے جان سے عزیز بس وہی تو دو رشتے تھے جو اس نے وہ بھی ختم کرڈالے ۔۔۔۔
"مت بھولو جب تک تمہاری خدا نے رسی دراز کر رکھی ہے ۔جب تک تم خوب عیاشی کرو۔ فرعون کی طرح زندگی گزارو مگر یاد رکھنا ۔جس دن میرے اللہ نے تمہاری رسی کو کھیںچا اس دن تمہارا حال اس فرعون سے بھی بدتر ہوگا جو آج عبرت کا نشانہ بنا پوری دنیا کے سامنے ہے۔ ۔۔۔"
وہ چیخی تھی اپنی پوری طاقت صرف کرکہ۔ وہ اپنی بات آخر کار کہ ہی گئی تھی ۔جبکہ اس چھوٹی سی بات کو کہنے میں فجر کی جان آدھی سے زیادہ نکل چکی تھی ۔۔
رسی جل گئی مگر تیرے ابھی تک بل نہیں گئے ۔۔"
حماد نے اس کے پیٹ پر بہت زور سے لات رسید کی تھی ۔اس کو لگا جیس سب ختم ہو گیا ۔۔۔
آ۔ ۔۔۔۔۔
وہ پیٹ پکڑکے بری طرح تڑپتی دوزانوبیٹھی زندگی اور موت کے درمیان بیچ میں لٹکی ہوئی تھی ۔۔۔
پوچھو گی نہیں کہ تمہارے ماں باپ کو کیوں مارا میں نے ۔۔۔؟؟
بب۔ ۔۔۔۔۔۔ب۔ ۔۔۔بتاؤ مجھے کیوں کیا تم نے تم بہت ہی ظالم ہو ۔۔۔۔۔؟؟؟
وہ بڑی مشکل سے خود کو سنبھال رہی تھی ورنہ اس وقت جو اس کی حالت تھی وہ اچھی طرح یہ بات جان گئی تھی کہ وقت بہت کم ہے اس کے پاس کسی بھی وقت موت کا فرشتہ اس کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آنے والا ہوگا ۔۔۔
وہ نڈھال سی فرش پہ گری درد سے تڑپتی مچلتی فجر سے مخاطب ہوا ۔۔
فجر بے ہوش نہیں تھی مگر اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ اٹھ کے اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے اور اپنے سامنے کھڑے اس مکروہ شخص کا منہ توڑ دے ۔
جسم نے جیسے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا ۔مگر حواس اب بھی برقرار تھے ۔۔
کک۔ ۔۔۔کیا قصور تھا میرے ماں باپ کا ۔۔۔؟؟
وہ ٹوٹے پھوٹے بےربط الفاظوں میں بہت مشکل سے کہہ سکی تھی۔ تکلیف پورے وجود میں پھیلی اس کو درد سے دہرا کر رہی تھی مگر آج وہ ہر سوال کا جواب جان لیناچاہتی تھی ۔کم سے کم اپنی موت سے پہلے۔۔۔
وہ جس راز کو جاننے کے لیے اس حویلی میں آئی تھی اور ہماد صاحب کو انکے انجام تک پہنچانا اس کی زد بن گئی تھی۔ ۔۔۔۔
وہ راز جاننا جس کے تحت اس کے ماں باپ اس کو تنہا چھوڑ گئے فجر کی زندگی کااولین مقصد تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر وہ یہ تو نہ کر سکی کیونکہ ہماد جیسا شاطر آدمی اس کو اسی کے جال میں پھنسا دیا تھا ۔۔۔
تو سنو ۔۔۔۔۔۔"
وہ شاید اب تک اسی لئے زندہ تھی تاکہ وہ راز تو جان لیتی۔ اس کے بعد بھلے ہی زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ۔زندگی کے اتنے برس اس نے اسی سوچ میں گزار دیے کہ آخر کیا وجہ تھی جو حماد صاحب نے اس کے ماں باپ کو مار دیا ان کی زندگی کا چراغ گل کر دیا ۔۔۔۔۔؟؟؟
ان کے ساتھ ساتھ اس کے بھائیوں کو بھی نہ چھوڑا پورا ہنستا کھیلتا خاندان ختم کردیا۔
تو پھر سنو ۔۔۔۔۔"
تمہارے دادا یعنی میرے اور داود کے والد صاحب نے تمہارے ماں باپ کے مرنے سے پہلے کچھ سال پہلے بڑا بیٹا اوربھائی ہونے کے حساب سے ایک وصیت مجھے دی تھی جس میں میرا اور داؤد کا آدھا آدھا حصہ تھا جائیداد میں ۔۔
میری بدقسمتی یہ تھی کہ میں نے جس شخص کے ساتھ اپنا نیا کاروبار شروع کیا۔ وہ شخص اور میں ہم دونوں کا سارا پیسہ کاروبار میں ڈوب گیا ۔
اباجی کو پیسہ ڈوبنے والی بات اس لیے نہ بتائی کیونکہ وہ سرے سے ہی حق میں نہ تھے میرا الگ سے کاروبار کرنے کہ ۔
بس پھر کیا تھا میرے پاس ایک ٹکہ تک نہ بچا پھر میرے اسی دوست جس کے ساتھ میں نے بزنس کیا تھا۔
اسی کے ساتھ پلان ترتیب دیا اور پھر وہی ہوا جو میں نے چاہا ۔
داؤد رہا ہی نہیں اور نہ اس کی اولاد ۔۔۔اس لحاظ سے وہ پوری جائیداد جو ابا جی نے اس کے حصے میں لکھی تھی وہ میرے حصے میں آ گئی ۔۔مگر تمہارے آنے سے یعنی داود کی اولاد کے زندہ بچنے سے وہ ساری کی ساری جائیداد اب تمہاری ہوگئی ہے قا نو ن کے مطابق ۔۔۔اور جو میرا دوست تھا اس کھیل میں شامل اس کو خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میں اوپر پہنچاتا ایک دن وہ خود ہی ٹرک کے نیچے آکر مرگیا وہ کس صحابی تمام ہوا ۔۔۔۔۔۔
بس اب ایک آخری باب کھلا رہ گیا ہے جس کو مجھے بند کرنا ہے۔۔۔
وہ نیم بے ہوشی میں فرش پر لیٹی فجر کی طرف معنی فیضی سے دیکھتے ہوئے جیب میں موجود پسٹل نکال کے بولا اور بغیر وقت ضائع کئے پسٹل کو لوٹ کی ۔۔۔
ٹھااااااک۔ ۔۔۔۔!!!
چند ہی لمحوں میں ٹھا کر کے گولی چلی تھی ۔۔
_______
آپ مجھ سے ناراض ہیں ؟؟؟
وہ عمر کے ہاتھ سے نوالہ لیتے ہوئے بغیر اس کی طرف دیکھے نظریں جھکائے شرمندہ شرمندہ سے لہجے میں بولی۔
۔
عمر اس کو اس وقت عشاء کی نماز کے بعد رات کا کھانا کھلا رہا تھا ۔
ہسپتال سے گھر آئے ہوئے اس کو تقریبا بارہ گھنٹے کا وقت گزر چکا تھا عمر اس کا ہر کام خود ذمہ داری سے کر رہا تھا ۔
اس کی یہی کوشش تھی کہ وہ لائبہ کے سارے کام خود ہی کرے کسی ملازمہ کے اوپر وہ ہرگز بھی لائبہ کو چھوڑنے کا قائل نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔
اپنے قیمتی وقت میں بہت مشکل سے وہ ٹائم نکال کہ ہر ممکن کوشش کر رہا تھا لائبہ کا خیال رکھنے کی ۔
وہ بالکل خاموش تھا ۔ لائبہ سے بات بالکل بھی نہیں کر رہا تھا اور یہی ایک چیز لائبہ کو اندر ہی اندر دل کومزید تکلیف سے دو چار کر رہی تھی۔
بتائیے نہ کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں۔۔؟؟
کیا میں نے بہت بڑا گناہ کر دیا ہے ۔۔؟؟؟
وہ رو دینے کو تھی۔
بہتر ہے کہ تم کھانا جلدی ختم کر لو اس سوال کا جواب مانگنے سے پہلے تمہیں شرم سے ڈوب مر جانا چاہیے تھا ۔۔۔"
اس کا لہجہ ہر قسم کی رعایت سے عاری تھا ۔ چہرے پہ کرختگی طاری کئے وہ اب دوسرا نوالا بنانے کے بعد اس کو خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے کھلانے لگا ۔۔۔
تم بہتر جانتی ہو یہ گناہ ہے جو تم سے انجانے میں نہیں بلکہ اپنے مکمل ہوش و حواس میں سرزد ہوا ہے ۔۔۔۔"
اس کا دل پگھلنے لگا لائبہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے موتیوں کو دیکھ کہ مگر پھر یکدم اس کو اس معصوم ننھی جان کا خیال غالب آگیا ۔۔
"عمر آپ میری بھی تو سنیے۔۔۔
کیا سنو میں تمہاری ۔۔۔۔؟؟؟
بس ایک قصور بتا دو تو مجھے اس معصوم جان کا ۔۔۔۔؟؟؟
میں معاف کر دوں گا تمہیں مگر مجھے قصور بتاؤ جس کی وجہ تم نے اس کو دنیا میں آنے نہ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔"
وہ تند و تیز لہجے میں کہتا لائبہ کو مزید سہما گیا تھا ۔۔
"یہ ضروری تھا "۔۔۔
کیوں ضروری تھا اگر ضروری تھا تو بتاؤ مجھے ۔۔۔۔؟؟؟
وہ اس پر بری طرح سے گرجا ۔۔۔۔۔
ابھی آپ کو میرا یہ فیصلہ غلط لگ رہا ہے مگر میں آپ کے اوپر کیسے کسی اور کا گناہ مسلط کر سکتی ہو ۔۔۔؟؟؟؟
وہ اس کا مضبوط ہاتھ تھام کہ رحم طلب نگاہوں سے دیکھنے لگی مگر عمر تو جیسے اس وقت اپنے غصے پر قابو ہی نہیں رکھ پا رہا تھا جھٹکے سے اپنا ہاتھ لائبہ کے ہاتھ سے کھیچ لینے کے انداز میں جدا کیا ۔۔۔
عم۔ ۔۔۔۔عمر ۔۔۔آ۔۔۔۔آپ ۔۔۔۔۔۔!!!
وہ باقاعدہ سسکیاں بھر رہی تھی عمر کا سرد رویہ اس کی جان لینے کوکافی تھا ۔۔۔
شادی کے بعد سے جس شخص کو محبت نچھاور کرتے دیکھا تھا آج وہ پہلی دفعہ اس پہ بری طرح سے غصے میں گرج رہا تھا ۔۔۔
وہ جانتی تھی کہ وہ اس وقت اسی کے لئے فکر مند ہے اور اسی کی وجہ سے اس قدر اشتعال میں ہے۔ لائبہ کی پوری کوشش تھی کہ وہ عمر کا غصہ نرمی سے ٹھنڈا کر سکے مگر عمر جیسےجیسے وقت گزر رہا تھا اس کو مزید سہمائے دے رہاتھا ۔عمر کا قطعی لہجہ لائبہ کو وحشت میں مبتلا کر رہا تھا ۔۔۔
"ایک معصوم کی جان لی ہے تم نے ۔۔۔"
"معصوم بھی وہ جو ابھی اس دنیا میں آیا تک نہیں تھا۔ ایک ذرہ برابر وجود تھا جو کل تک تمہارے
وجود میں پنپ رہا تھا ۔سانس لے رہا تھا لائبہ ۔۔۔۔"
"ہا۔ ۔۔۔مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس سے جینے کا حق اس کی ماں نےہی چھین لینا ہے وہ بھی دنیا میں آنکھ کھولنے سے پہلے ہی۔ ۔۔۔۔۔"
"آپ مجھے غلط سمجھ رہے ہیں آپ میری جگہ خود کو ایک دفعہ سوچ کے تو دیکھیں آپ کو میری یہ چھوٹی سی غلطی پھر اتنی بڑی ہرگز نہ لگے گی ۔۔۔۔"
کیا کہا چھوٹی سی غلطی ۔۔۔؟؟؟
یہ چھوٹی سی غلطی قتل کے زمرے میں آتی ہے لائبہ ڈیٙر۔۔۔۔۔۔"
کس دنیا میں ہیں آپ ۔۔۔۔۔؟؟؟؟
وہ بری طرح سے اس کو مزید تپاگئی ۔۔۔۔۔۔
لاِئبہ عمر کے اس طرح سے کہنے پہ مزید شرم سے پانی پانی ہوئی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے ۔۔۔۔
آج شاید عمر خاموش ہونے کے موڈ میں آنا تھا ۔۔۔۔۔
"تم نے لمحہ تک نہیں لگایا اس کی زندگی کا چراغ گل کرنے میں ۔ اور اس کو اتنی مہلت بھی نہ دیں کے وہ دنیا میں آکے آنکھ کھول سکتا تم ۔۔۔۔۔!!
تم کیسی ماں ہو؟ ؟؟؟؟
عمر نے غصے میں اٹھا کر شیشے کا گلاس زمین پر دے مارا تھا ۔۔۔۔۔
گلاس فرش کے کرکٹ چکنا چور ہو چکا تھا ۔۔۔۔
عمروہ ناجائز تھ۔ ۔۔۔۔۔"
لائبہ شٹ اپ ۔۔۔"
جسٹ کیپ یور ماؤتھ شٹ۔ ۔۔!!
اس کو اس وقت لائبہ سے ہمدردی بالکل بھی محسوس نہ ہوئی ۔۔۔۔
"وہ میرا اور تمہارا بچہ تھا ۔۔۔۔بس میرا اور تمہارا ۔۔۔۔۔۔"
لائبہ اس کو دیکھ کر رہ گئی وہ کتنا عظیم شخص تھا کہ ابھی اس کے اور لائبہ کے درمیان ایسا کوئی تعلق ہی نہ بنا تھا اور وہ ایک درندے نما شخص کی اولاد کو اپنی اولاد کہہ رہا تھا ۔۔۔۔
جانتی ہو لائبہ میرے نزدیک تم گنہگار ہو ۔۔۔"
تم نے بہت بڑا گناہ کیا ہے ۔۔۔۔!!
"پلیز عمر کیا مجھے معافی نہیں مل سکتی۔۔؟"
" مجھے معاف کر دیں ۔۔۔"
"لائبہ میرے بجائے اللہ رب العزت سے معافی طلب کرو ۔۔۔۔"
مجھ سے معافی مت مانگو میں اپنے خدا کا ایک بہت ہی ادنہ سا بندہ ہوں ۔۔۔۔۔۔"
اپنے گناہوں کے لیے اللہ سے معافی مانگو ۔۔۔"
کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری گود زندگی بھر کے لیے ہیں خالی رہ جائے ۔۔۔۔"
عمر ایسا تو مت کہیں ۔۔۔۔۔"
وہ اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے بری طرح سے سسک اٹھی تھی عمر کے اس سنگدلانہ انداز میں کہی گئی بات کو سن کہ۔ ۔
"اگر جو مجھے ذرا سا بھی علم ہوتا کہ تمہاری خرابی طبیعت کی وجہ یہ ہے۔۔۔۔"
" توخدا کی قسم میں اس بچے کو دنیا میں لانے کے لیے اگر تمہیں زنجیروں سے بھی باندھ کر رکھنا پڑتا تو میں وہ بھی کرتا کیونکہ بچے پھول ہوتے، فرشتوں کی طرح ہر گناہ سے پاک بس نور ہی نور ہوتے ہیں ان کو جائز اور ناجائز کہنے والے ہم ہی گنہگار لوگ ہیں "۔۔۔۔۔۔
"عمر بے شک میرا گناہ معافی کے قابل نہیں ہے مگر میں اس قدر سنگدل نہیں ہوں کہ آپ کی گود میں کسی اور کا گناہ ڈال دیتی ۔۔"
و
ہ اب بھی اپنی بات پر ڈٹی ہوئی تھی اتنا عمر کے سمجھانے کے باوجود بھی وہ جیسے بس وہی سوچ رہی تھی جو اس کا دل و دماغ اس کو سوچنے پر مجبور کر رہا تھا ۔یا شاید یہ وقت کا تقاضہ تھا جو وہ اس طرح سے ری ایکٹ کر رہی تھی ۔۔۔
مگر اس لمحے جو شخص اس کے سامنے بیٹھا تھا وہ کسی طور بھی اس کی بات کو سننے کے لیے راضی نہ تھا ۔۔۔۔
"بالکل صحیح کہا تم نے بے شک تم سنگل نہیں ہو مگر لائبہ تم رحم دل بھی تو نہیں ہوں ۔۔"
وہ اس کو شانوں سے پکڑ کہ غصے میں بری طرح جھنجوڑ کے بولا ۔
لائبہ کا وجود جیسے سن سہ ہو گیا تھا وہ عمر کے اس قدر شدید ردعمل کی توقع نہیں کر رہی تھی ۔۔"
کاش لائبہ۔۔!!
کاش تم ایک مرتبہ صرف ایک مرتبہ مجھے اعتماد میں لے کے تو دیکھتی۔ ۔۔۔۔۔۔"
مگر شاید تم نے مجھے اور مردوں کی طرح ہی سمجھا اور جانا جو خود غرض اور انتہائی درجے کے سطحی سوچ کے مالک ہوتے ہیں ۔۔ "
"یاد رکھنا آئندہ اچھی طرح یہ بات کہ میں ان مردوں میں سے نہیں ہیں ۔۔۔"
میرے دماغ میں تو اس وقت بھی یہ خیال تک نہیں آیا تھا کہ جس بچے کا تم نے چراغ گل کیا ہے وہ میرا نہیں ہے۔ ۔ جب ڈاکٹر نے مجھے آ کر بتایا کہ میں اپنا بچہ کھو چکا ہوں تمہارے سوسائیڈ کا اٹیمپ کی وجہ سے ۔۔۔"
"تم جانتی ہو جب مجھے خبر ملی تھی مجھے ایسا لگا تھا کہ مطلب میرے جسم سے تم نے روح کھینچلی چلی ہے۔ تم نے میری اولاد کو ختم کر دیا۔ ۔۔"
"اور تم کہتی ہو کہ وہ میری اولاد نہیں تھی تف ہے تم پر لائبہ۔ ۔۔۔۔۔"
وہ جیسے اب تھک چکا تھا اپنا سر دونوں ہاتھوں میں گرائے وہ اپنے بالوں کو بے دردی سے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں میں دبوچے غصے سے سرخ ہو رہا تھا ۔۔
"میں قدر کرتی ہوں عمر آپ کے خیالات کی میرے نزدیک آپ واقعی ایک عظیم آدمی ہیں ۔۔"
'بہت شکریہ تمہاری ایسی قدر کرنے کا ۔۔۔۔۔"
بھرپور طنز یہ نظروں سے اس کو دیکھ کے وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
وہ مزید اگر اب لائبہ کے سامنے بیٹھا رہتا تو نہ جانے غصے میں کیا کر بیٹھتا ؟؟؟
اس لیے وہ وقت ضائع کیے بغیر اٹھ کھڑا ہوا اس پل وہ اپنے حواس کھو رہا تھا ۔۔۔۔
بس نہیں چل رہا تھا کہ لائبہ کی عقل کو ٹھکانے لگانے میں ایک منٹ بھی ضائع نہ کرے ۔۔۔
وہ دروازہ کھول کے باہر جانے ہی والا تھا جب لائبہ بغیر فرش پہ بکھرے کانچ ٹوٹنے کی پرواہ کیے اس تک پہنچی تھی اور اس کے سینے سے زاروقطار لپٹ کے رو پڑی تھی ۔۔
____
گولی چلی تھی مگر فجر کے اوپر نہیں بلکہ حماد صاحب کے اوپر پیر پہ! !!
حماد صاحب درد سے کراہتے ہوئےلڑکھڑا کہ منہ کے بل زمین بوس ہوئے۔ ۔۔
آپ اتنے ظالم کیسے ہو سکتے ہیں۔۔۔؟
حماد آ۔ ۔۔آپ۔ ۔۔۔۔!!
اپنے بھائی اور میرے پیارے عزیز ازجان بھائیوں سے بڑھکہ مجھے عزیز میرے دیور کے خاندان کو کیسے ختم کر دیا آپ نے۔۔۔؟؟؟
غزل چند قدموں کے فاصلے پر کھڑی الصلح سے مزین گارڈز کے ساتھ موجود تھی اور قمر کا بیٹا ک
چونکہ گارڈ بن گیا تھا بڑے ہونے کے بعد حویلی کا اسلئے حماد صاحب کی ہر ہر اصلیت سے واقفیت رکھتا تھا اور یہ گولی اسی کی ہی بندوق سے چلی تھی جو ہماد صاحب کی اک ٹانگ کے اندر بری طرح گھپ چکی تھی۔ ۔
فجر کو فرش پہ بے ہوش پڑا دیکھ کے وہ اندھادھند اس کی طرف بھاگ گی تھی اور اب اس کو ہوش میں لانے کی تگ و دو کر رہی تھی ۔۔
غزل کو ملازمہ عظمی جوکہ ملازم قمر کی بیٹی تھی۔ اسی نے فون کر کے سب کچھ بتا دیا تھا ۔ عظمی کو فجر کا خیال رکھنے کے لیے کل وقتی مقرر کر دیا گیا تھا ۔۔۔۔
تم۔۔۔۔۔!
تم نے مجھے مارا ۔۔۔۔۔اپنے شوہر کو؟ ؟؟؟
تم نے مجھ پہ گولی چلائیں اپنے شوہر کے اوپر ۔۔۔۔؟؟؟
حماد صاحب کراہتے ہوئے بولے درد سے زمین پہ پڑے وہ دوہرے ہو رہے تھے۔ بس نہیں چل رہا تھا کہ اگر گولی نہ لگی ہوتی تو غزل کو گدی سے دبوچ کے اس کا سر پھوڑدیتے دیوار سے مار کہ۔۔۔
"اللہ نہ کرے میں کبھی اپنے ہاتھوں کو ناپاک کرو اس انسانوں کی جان کے دشمن بنے عالے سے ۔۔"
"تم نے اپنے عزیز رشتوں کی زندگیاں چھین لی ہے تمہیں احساس تک نہیں ہے؟؟؟"
"او۔ ۔۔میں بھول گئی تمہیں احساس کیسے ہو گا تم تو دولت کے نشے میں چور اپنے ہوش و حواس سونے چاندی سمیت تجوری میں بند کر چکے ہو۔۔"
"تو تمہیں کیسے احساس ہو گا تم تو بے حس ہو۔۔۔۔۔"
"افسوس ہے مجھے کہ میرا ہمسفر اس قدر گھٹیا انسان ہے ۔۔۔۔۔"
وہ روتے ہوئے داڑھی تھی فجر کی حالت دیکھ کے اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا ۔۔۔
" احساس سے عاری شخص ہو تم حماد صاحب سمجھے ۔"
تم نے اپنی قبر کو خود آگ کا ایندھن بنایا ہے اب تم پچھتاؤ گے ساری عمر پچھتاؤ گے ۔۔"
وہ جیسے پھٹ پڑی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنے شوہر کی شکل آئندہ وہ زندگی میں دیکھے ۔اس کو نصیب نہ ہو اس درندے نما شخص کا دیدار کرنا آئندہ زندگی میں کبھی بھی ۔۔۔۔
صحیح کہہ رہی ہیں ماما بابا ۔۔
شکریہ اماں آپ کا جو آپ نے مجھے ابھی راستے میں ہی فون کر دیا ۔۔
دونوں ماں بیٹے حواس باختہ ہوئے فجر کے اوپر جھکے اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔
فجر بالکل ہوش و خرد سے بیگانہ یخ بستہ فرش پہ گری ہوئی تھی ۔ارمغان نے اس کو ایک جھٹکے سے اٹھا کہ اپنے بازوؤں میں بھرا تھا اور بغیر کچھ کہے اپنے باپ کے چہرے پر حقارت زدہ نظر ڈال کہ آگے بڑھ گیا ۔۔
"سنبھالیں اب آپ یہ سب دھن دولت ۔"
"مگر یاد رکھیئے گا اگر جو میری بیوی بچے کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔۔۔۔"
" میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا ۔۔۔۔"
"آپکا انجام میرے ہاتھوں ہوگا انقریب۔۔۔۔۔۔۔۔"
"وہ تند و تیز لہجے میں کہتا فجر کو اپنے بازوؤں میں بھر کر ہسپتال لے جانے کے لئے دوڑا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ "
حماد صاحب کے گولی لگے پیر کی اس کو کوئی پروا نہ تھی ۔اس کے نزدیک یہ سب ان کے کرما تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"ایک منٹ ملکانی بی بی جی میں آپ کو ہسپتال لے کر چلتا ہوں مگر پہلے آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔"
احمر نے ارمغان اور فجر کے پیچھے قدم بڑھاتی ہسپتال جانے کے لیے ان دونوں کے ساتھ غزل کو روکا۔۔۔۔۔۔۔
"کہو احمر بیٹے کیا کہنا چاہتے ہو "۔۔۔
"ایک سچ آپ اور بھی نہیں جانتی مالکن صاحبہ "
قمر کا بیٹا(گارڈ) احمر آہستہ آہستہ چلتا ہوا غزل اور حماد کی طرف آیا۔۔۔
وہ کیونکہ ہمیشہ حماد کے ساتھ سائے کی طرح رہتا تھا ۔اس کا رازدار خاص بندہ تھا ۔ ہماد کے ہر ایک غلط اور صحیح فعل سے وہ واقفیت رکھتا تھا مگر یہ کسی کو بھی نہیں پتا تھا کہ وہ ایک مشن پہ ہے مشن بھی وہ جو اس کے باپ نے اس کو سونپا تھا تاکہ وہ حماد کو بے نقاب کر سکے اور اسکا مکروہ چہرہ سب لوگوں کے سامنے لانے میں اس کی اور اس کی بیٹی کی مدد کر سکے۔ ۔۔"
عائشہ اور داؤد کو انصاف دلانا احمر نے اپنا جنون بنا لیا تھا ۔بہت رازداری اور ہوشیاری سے وہ حماد صاحب کے قریب ہوا تھا اتنا قریب کہ حماد صاحب اس کو ہر بات ہر ایک راز میں شریک کرنے لگے۔
کک۔ ۔۔۔کیا ۔۔۔۔؟؟
احمر بیٹا کیا کچھ اور بھی بچا ہے میرے ان گناہ گار کانوں کو سننے کے لیے اپنے شوہر نامدار کا کوئی اور عمدہ اور اعلی کارنامہ بھی ہے بیٹا کیا۔ ۔۔۔؟؟؟
غزل نے نڈھال سی ہو کہ بولی تھی ۔۔
"بند کرو اپنا منہ تمہیں تو میں دیکھ لونگا" ۔۔۔۔
ھماد صاحب پیر میں گولی لگنے کے باوجود اب بھی اپنے خاص مغرورانہ انداز میں احمر کو دھمکانے سے باز نہ آئے ۔۔۔۔۔
"ضرور ضرور آپ مجھے دیکھ لیے گا مگر اس سے پہلے آپ کو حوالات دیکھنا ہو گی "۔۔۔۔
وہ تلخی سے کہتا و آپس غزل کی طرف متوجہ ہوا
"حماد صاحب نے فجر بی بی کو پال پوس کہ بڑا کرنے والے بابا اور بھائی کو بھی مروا دیا ہے "۔
کک۔ ۔۔۔کیا مطلب وہ بھی ۔۔؟
غزل کو لگا جیسے اب بھی بہت سے راز باقی ہیں جن سے پردہ اٹھنا باقی ہے اس کے لبوں سے بہت مشکل سے یہ چند الفاظ ادا ہوئے ۔۔۔بولنے کی سکت اب اس میں باقی نہ رہی تھی
"جی مالکن صاحبہ وہ بھی جب آپ دونون ان شگن لے کے گھر پہنچی تھیں تب ان کو حماد صاحب نےہی وہاں سے اٹھ وا لیا تھا غائب کروا دیا تھا تاکہ آپ لوگ فجر بی بی کو مشکوک سمجھیں۔۔۔"
کس نے مارا ان کو۔۔۔۔؟
تم نے ۔۔۔؟؟
غزل کو لگا جیسے اب وہ خود پہ مزیدقابو نہیں رکھ پائے گی ۔۔
جی ہاں میں نے۔۔۔۔۔"
مگر صرف حماد صاحب کی نظر میں وہ مر چکے ہیں لیکن وہ زندہ ہیں آج بھی ۔۔۔۔"
"شکر اللہ" کا۔۔۔۔۔!
تو بیٹا وہ کہاں ہیں پھر کدھر ہیں وہ لوگ۔۔۔؟؟
غزل بیتابی سے پوچھنے لگی ۔۔۔
" وہ میں نے ان کو غائب کر دیا تھا گاؤں سے بہت دور کراچی شہر سے ان کو ایبٹ آباد روانا کردیا تاکہ وہ ہماد صاحب کی نظروں میں نہ آسکیں اور حماد صاحب کو یہی بولا کہ میں نے ان کا کام تمام کر دیا ہے ۔۔۔۔۔"
"اللہ تمہیں خوش رکھے میرے بچے تم بہت بہترین مرد ہو۔اللہ تمہارے دل میں ہمیشہ اپنے بندوں کے لئے رحم اور مدد کا جذبہ قائم رکھے۔تمہاری عمر دراز ہو "۔۔۔
" آمین یا رب العالمین "
احمر نے با آواز بلند بھی ساختہ کہا ۔۔۔
"جن لوگوں کا دھن کالا ہوتا ہے نہ۔۔۔۔۔"
" ان کا من خود بخود کالا ہو جاتا ہے بس میرے بچے میری بات ہمیشہ یاد رکھنا کبھی دھن کو کالا مت ہونے دینا نہیں تو من کالا ہو جائے گا "۔۔
"فجر کے بابا اور بھائی کا سن کے غزل کے دل میں سکون پیدا ہوا تھا وہ جیسے بہت ہلکی پھلکی ہوگی لمحوں میں ۔۔۔ "
🍁🍁🍁🍁
حمزہ مجھے نہیں بیٹھنا بوٹ میں پلیز۔۔
ایسا کرتے ہیں واپس چلتے ہیں ۔۔۔۔۔
وہ حمزہ کا مضبوطی سے ہاتھ پکڑے ہوئے صرف مستقل ایک ہی بات کی گردان کر رہی تھی ۔۔
وہ دونوں اس وقت بردبئی سے ڈیرہ دبئ بوٹ میں بیٹھ کے جانے کو تھےمگر شفا کافی خوفزدہ نظر آ رہی تھی گہرے پانی کو دیکھ کہ وہ قطعی انکاری تھی بوٹ میں بیٹھنے کہ۔ ۔۔۔
حمزہ نے اس کو بوٹنگ کرانے کا اس لئے سوچا کہ تھوڑی بہت آؤٹنگ بھی ہو جائے گی اور پھر وہ ڈیرہ میں جاکہ اچھا سا ڈنر بھی نوش فرما لیں گے ۔۔۔
پہلی تو وہ بڑے آرام سے تیار ہوگئی مگر جیسے ہی ان لوگوں نے بورڈ میں جانے کے لیے فلور پر قدم رکھا شفاء پانی پر تیرتا ہوا فلور دیکھ کے شدید خوفزدہ ہوئی اور اب بوٹ میں اترنے سے انکاری تھی ۔۔
"یار تم تو نہ بس بہت ہی ڈرپوک قسم کی لڑکی ہو ویسے تو ہر وقت میرے سامنے جنگنجو قسم کی بنی پھرتی رہتی ہو اور اب چیونٹی کی طرح جان نکل رہی ہے ۔۔۔"
وہ شریر سے لہجے میں کہتا اس کو تنگ کرنے پر کمر کس چکا ۔
"کہو تو اپنی بانہوں میں بھر کے بوٹ تک لے جاؤں کیا خیال ہے ۔۔۔۔؟؟"
"خبردار جو مجھے یہاں پہ اٹھایا یا پھر کسی قسم چھچورا پن کیا تو ۔۔۔"
"تو میرے کوئی بھی چھچوراپن کرنے سے پہلے تم اپنی شرافت دکھاؤ اور بی کو بوٹ میں ۔۔۔"
"نہیں تو مجبوراً مجھے تمہارا منہ پھر کسی اور طریقے سے بند کروا کہ بوٹ کے اندر لانا ہوگا۔۔۔۔۔"
"سوچ لو جاناں اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔۔۔"
"جو تم کہو گی مجھے منظور ہے سویٹ ہارٹ ۔۔۔۔۔"
وہ بوٹ کے اندر کھڑا جان کے اس کے سراپہ کا پر شوخ نظروں سے مکمل جائزہ لے کہ معنی خیز لہجے میں گویا ہوا ۔
حمزہ کافی دیر سے ہاتھ دے رہا تھا بوٹ کے اندر آنے کے لیے شفاءمگر وہ مستقل اس کو زچ کیے دے رہی تھی ۔۔
ارد گرد کھڑے لوگ ان دونوں کی طرف لمحے بھر کو متوجہ ہو کہ واپس اپنے اپنے راہ کو ہو لیتے مگر شفا کو تو جیسے بوٹ میں نہ بیٹھنے کی دھن سوار ہوچکی تھی ۔۔۔
"بہت ہی کوئی فضول قسم کے انسان ہو تم "۔۔۔
اس کا غصہ عود کرآیا۔
بے ہودگی اور چھچور پائی میں تو تم نے ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررکھی ہے ۔۔۔۔"
چند گھنٹوں کے قبل والا پیاراورمحبت اس وقت اس نو بہاتہ جوڑے میں کہیں سے بھی کسی اینگل میں دیکھنے کے باوجود بھی نظر نہیں آ رہا تھا ۔۔
شفا جنگلی بلی کی طرح پنجے تیز کیے اس پہ چھپٹنے کو پر تول رہی تھی اور حمزہ مستقل اس کو زچ کرنے میں خود کو مسٹر بین تصور کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاں تو چھچوراپن تمہارے ساتھ ہی کر رہا ہوں نہ ویسے آپس کی بات ہے تمہارے شوہر کی ڈیشنگ پرسنیلیٹی پہ لڑکیاں جان دینے کو تیار رہتی ہیں بس میرے ایک اشارے کی دیر ہے ۔۔۔۔
"اور یہاں تو میں تم سے رومینس بھگار رہا ہوں میرا نہیں خیال کہ پھر یہ چھچھورے پن کے زمرے میں آتا ہے۔۔۔۔"
دونوں بازوؤں پہ گھیرا تنگ کر کے وہ آہستہ آہستہ اس کو بوٹ کے اندر اتا رہا تھا ۔۔۔
"یہ تو حلال رومانس کہلائے گا مائٹ ڈئیروووووووو وائف !! اپنی بیوی سے فری ہو رہا ہوں نہ کہ کسی گرل فرینڈ سے رومینس کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہا ۔۔۔
اس کو باتوں میں الجھا کہ آخر کار بوٹ کے اندر تک لے ہی آیا ۔۔۔۔
رات کے دس بجے وہ دونوں وہاں پہنچے تھے ۔۔
"ہوٹل کے کمرے سے نکلتے وقت ہی حمزہ نے اس کو کہہ دیا تھا کہ اس کا آج فل انجوائے کرنے کا پلین ہے برائے مہربانی تم نیند کا رونا مت رونا ۔۔۔۔"
"شفا برے برے منہ بنا کے رہ گئی اس کو گھومنے پھرنے کا کچھ زیادہ شوق ہی نہ تھا ۔۔۔۔۔"
💞💞💞
تم سے منزل کا نہیں
رشتہ سفر کا ہے میرا
یہ ضروری تو نہیں
کے ساتھ چلا بھی جائے
تم سے ملا بھی جائے
عشق دیدار کا
محتاج نہیں ہوتا جاناں!!
ایک احساس کا رشتہ ہے
یہ خوشبو کی طرح
دیکھنے چھونے سے عاری
کسی جادو کی طرح
بس آواز ہی کافی ہے
محبت کے لیے
سب کچھ اضافی ہے
ابھی ابھی سوہا کو مصطفی کی طرف سے یہ میسج موصول ہوا تھا ۔۔
سائیڈ ٹیبل پر موبائل چارج پر لگا ہونے کی باعث وہ کھڑی ہو کے میسج پڑھتے پڑھتے یکدم بے بس سی ہو کر رونے لگی اور فرش کے اوپر بچھے کارپٹ پہ بیٹھی چلی گئی ۔۔۔۔
نہ جانے اس کو کیا ہوا تھا ایک دم سے۔۔۔؟؟
اس نے اپنا موبائل سائڈ ٹیبل پر لگے چارجر میں سے جدا کیا اور موبائل کانٹیکٹ میں جاکہ مصطفی کے نمبر پہ کال ملانے لگی ۔۔
کیسی ہو سو ہا؟ ؟؟
بھاری اور گھمبیر لہجے میں استفسار کیا گیا۔ ۔۔
کیسی ہو سکتی ہوں۔ ۔ ؟
سسکیوں کے درمیان جواب دینے کے بجائے وہ سوال کر بیٹھی۔
جانتا ہوں تمہارا حال بھی میرے حال سے مختلف نہیں ہے۔۔۔۔"
مت کرو خود کو ہلکان یہ فیصلہ تمہارا ہی ہے ۔۔۔"
"تو آپ مجھ سے کیوں تمام رابطے نہیں توڑ دیتے"
"رابطے ٹوٹنے کے لیے بنتے ہی نہیں ہے "
وہ نہ سمجھی پہ مسکرایا اس کی اور گہرے لہجے میں گویا ہوا ۔۔۔
"میں کوئی تعلق آپ سے وابستہ نہیں رکھنا چاہتی آج سے ٹھیک چوتھے دن میری مہندی ہے۔ ۔۔۔۔"
"بہت مبارک ہو تمہیں "
"تیاری رکھو اپنی شادی کی ۔۔۔"
جانتا ہوں بہت خوش ہوں گی تم مگر آخری دفعہ میں نے تمہیں ایک میسج کیا ہے یہ حال دل تھا میرا جو میں نے تمہیں لفظوں میں کی ڈالا آج کے بعد میں تمہیں تمہارا تنگ نہیں کروں گا جب تمہیں اس رشتے کے لیے بخوشی حامی بھر چکی ہو پھر میں کون ہوتا ہوں تمہیں بار بار اپنی محبت کا احساس دلانے والا ۔۔
دعا کرنا کہ آج کے بعد تم ہی میری کبھی کال تو دور کی بات شکل دیکھنا بھی نصیب نہ ہو ۔۔۔"
"خدا حافظ ۔۔۔۔۔"
مصطفی کہہ کر فون رکھ چکا تھا ۔
رات کے ڈھائی بجے کا وقت تھا وہ ڈیفنس کی سڑکوں کونآپتہ انتہائی بدترین انداز میں تیز ترین ڈرائیونگ کرنے میں مصروف تھا ۔
سگریٹ پہ سگریٹ سلگا تا جیسے خود کو بے موت مار نے کی تگ و دو میں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔"
💔💔💔
ہم بے وفا ہرگز نہ تھے
پر ہم وفا کر نہ سکے
ہم کو ملی اس کی سزا
جو ہم خطا کر نہ سکے
کتنی اکیلی تھیں وہ راہیں
ہم جن پر اب تک چلتے رہے
تجھ سے بچھڑ کہ بھی
اوہ بے خبر !!
تیرے ہی ہم چلتے رہے
تو نے کیا جو شکوہ
ہم وہ گلا کر نہ سکے
تم نے جو دیکھا سنا
سچ تھا مگر ۔۔۔
کتنا سچ یہ کس کو پتہ ؟
جانے تمہیں میں نے کوئی دھوکا دیا ؟
یاجانے تمہیں کوئی دھوکا ہوا ؟
اس پیار میں سچ جھوٹ کا
تم فیصلہ کر نہ سکے !!
ہم بے وفاہر گز نہ تھے
پر ہم وفاء کرنہ سکے
وہ فرش پہ بیٹھی بیٹھی رو رہی تھی فجر کا وقت ہو چکا تھا مگر وہ اسی جگہ پہ بیٹھی ٹس سے مس نہ ہوئی تھی۔ جس جگہ پہ اس نے مصطفی سے بات کی تھی فون پربیٹھ کے۔
مصطفی کا غمزدہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار لہجہ سوہا کو رہ رہ کے یاد آ رہا تھا بیچین کر گیا ۔۔۔
اس کو تکلیف دے رہا تھا اس کا اس قدر مایوس انداز ۔۔۔
وہ دونوں کتنا ایک دوسرے کو چاہتے تھے کیا کیا خوبصورت خواب ایک دوسرے کے لئے آنکھوں میں سجا ڈالے تھے مگر جدائی ان دونوں کو مار ڈالنے کے لیے بیچ میں آن پہنچی تھی۔
سائیڈ ٹیبل کے دراز میں رکھی
مصطفی کی رسٹ واچ کو سینے سے لگائے لبوں سے چھومتی اور بار بار آنکھوں سے بوسہ دیتی وہ زاروقطار رو رہی تھی۔۔
اپنی محبت کے لیے بار بار بس اللہ کے حضور دعائیں مانگ رہی تھی ۔۔
گڑگڑا رہی تھی ۔۔
"اے میرے پروردگار تو مجھے میری محبت دے دے میرے اللہ تو میرے مصطفی کو جیتا جاگتا رکھنا۔۔
یا رب العزت اس کی حفاظت کرنا اس کو ہر طرح کہ سرد اور گرم سے بچانا ۔ میرے مالک اس کو کوئی تکلیف نہ ہونے دینا زندگی میں" ۔
"تو مجھ سے میری ساری خوشیاں لے لیں اور بس وہ ساری خوشیاں میرے مصطفی کی جھولی میں ڈال دے۔ اس کو تو خوش اورمطمئن رہنے والا سچا ہونے مسلمان بنا دے میرے مالک ۔۔۔۔"
"چاہے اس کی قسمت میں!!میں لکھی ہوں یا نہیں۔ بس میرے مالک تو میرے مصطفی کو اپنے حفظ و امان میں رکھ۔۔۔۔"
" پروردگار عالم تو مہربان ہے۔۔"
تو اس کو ایسی شریک حیات عطا فرما جو اس کو ٹوٹ کے چاہے ۔۔۔۔۔
"آمین یا رب العالمین ۔۔۔۔"
یکدم اسکی سمعتوں میں کہیں دور سے بہت پہلے کہی آئمہ کی بات ٹکرائی تھی۔ ۔۔۔۔۔
"جب کوئی کام تمہاری مرضی کے مطابق ہو جائے تو شکر ادا کیا کرو کہ خدا نے تمہاری مرضی کو اہمیت دی " اور " اگر تمہاری مرضی کے خلاف ہو تو اور بھی زیادہ شکر ادا کرو کہ اب وہ کام اللہ رب العزت کی رضا سے انجام پائے گا ۔جو ہماری مرضی سے بہتر اور بے حد افضل
________
بروقت ہسپتال پہنچنے سے ڈاکٹروں نے فجر کی بگڑی حالت کو دیکھ کہ آپریشن کا فیصلہ کیا تھا ۔
سر آپ ان پیپرز پہ سائن کردیں "
نر س نےمان کے سامنے اجازت نامہ رکھا آپریشن کے لیے ۔۔۔
اپنے سامنے رکھے کاغذات ارمغان کو اس وقت ایسے لگ رہے تھے جیسے اس کی خود روح کا پروانہ اس کے سامنے رکھ دیا ہو۔
وہ ایسا محسوس کر رہا تھا جیسے جان کنی کا وقت سامنے آن پہنچا تھا اس کے ۔۔
"کیا یہ ضروری ہے ۔۔۔۔؟؟"
وہ ایک مضبوط اعصاب کا مالک مرد ہوتے ہوئے بھی ۔ خود کو بے بسی کی انتہا کو چھوتا محسوس کر رہا تھا ۔
خود کو سنبھالتے سنبھالتے بھی بے تکا سا سوال پوچھ بیٹھا۔ سامنے کھڑی جہاندیدہ نرس نے چونک کہ مان کو دیکھا اور پھر اس کی پریشانی بھانپ کر نرمی س بولی ۔
"سر یہ بہت ضروری ہے "
"اس کے بغیر ہم اوپریشن سٹارٹ نہیں کرسکتے آپ براہ کرم جلد از جلد اس پہ دستخط کردیں تاکہ تمام کارروائی پوری ہوسکے اور پھر مریضہ کی حالت بھی ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔"
"جی اچھا"
"کیا مجھے دس منٹ کا ٹائم دےسکتی ہیں پلیز ۔۔۔""
وہ بے بسی سے بولا تھا دل چاہا کہ زور زور سے پھوٹ پھوٹ کر رو دے۔
سامنے رکھا کاغز پڑھتے ہوئے ارمغان کی جیسے روح فنا ہونے کو تھی۔
ان پیپرز میں بڑے واضح لفظوں میں لکھا ہوا تھا کہ۔۔
" ضرورت پڑنے پہ آپ ہمیں کس کی جان بچانے کی اجازت فراہم کریں گے "۔
" بیوی کی جان بچائی جائے یا بچے کی جان ؟؟؟"
ایک کڑا امتحان تھا، بہت ہی مشکل وقت اس کے سامنے کھڑا منہ چڑا رہا تھا جیسےاس کا تمسخر اڑانے میں پیش پیش ہو ۔
اس کے باپ کی کیے کی سزا ارمغان کو اپنے کسی بہت بڑے خسارے کی آمد کی خبر دے رہی تھی ۔ قیامت سے پہلے قیامت کی صدائیں اس کے کانوں میں گونجتی محسوس ہو رہی تھی ۔۔
"سر وقت کم ہے "
"دس منٹ کا مطلب یہ ہے کہ آپ مزید اپنی وائف اور بچے کی جان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔ "
"آپ مزید رسک کی طرف جارہی ہیں "۔۔۔
نرس ارمغان کے چہرے کو افسوس سے دیکھ کہ گویا ہوئی وہ بکھر رہا تھا ۔رنج اس کے چہرے کی ویرانی سے واضح ظاہر تھا ۔۔۔
"اے میرے خدا میری مدد فرما ۔۔۔۔"
پھر یکدم ما نی نے کاؤنٹر پر رکھے پیپرز کے اوپر دھرے قلم کو اپنے لرزتے ہاتھوں کی پوروں میں جکڑا تھا ۔۔۔۔
بیوی کو بچانے والے خانے میں اس نے اپنے دستخط کئے تھے۔
آنکھیں بند تھیں اسکی مگر ایک ننھا سا موتی آنکھوں سے لڑھکا ۔
وہ بغیر کچھ بولے خود پہ ضبط کے کڑے پہرے بٹھاتے ، لب بھینچے وہ کاغذات نرس کی طرف بڑھا گیا ۔۔۔
"شکریہ سر!!
" اللہ سب بہتر کرے گا ۔۔"
"پلیز میری وائف اور میرے بچے دونوں کو بچانے کی کوشش کیجئے گا"۔
" مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہے یہ دونوں ۔۔۔۔"
وہ جیسے نرس کو اس وقت اپنا محسن تصور کر رہا تھا۔کرب سے چور لہجے میں گزارش کی گئی ۔۔
"انشااللہ سر "
"جو اللہ کا حکم ہوا مگر ہماری سب کی پوری کوشش ہوگی کہ کچھ ہی دیر میں آپ کی بیوی اور آپکا بچہ جیتا جاگتا آپ کے سامنے ہو ۔۔۔۔۔ "
"آپ کے ہاتھوں میں ہو ہنستا کھیلتا "
"آمین ثم آمین ۔۔۔۔"
ارمغان نے بآواز بلند آمین کہا ۔۔
نرس اس کو دلاسہ دیکہ جا چکی تھی ۔۔
❤
مان ننھی گل گوتھنی کو فجر کی طرف بڑھاکہ خود پائنتی پہ ٹک گیا۔
" تمہیں بہت بہت مبارک ہو"
" اللہ نے ہمیں بیٹی کی رحمت سے نوازا ہے بالکل تمہارے جیسی ہے یہ دیکھو اس کو ۔۔۔۔"
غم کے بادل چھٹ چکے تھے اللہ نے ان پر اپنی رحمت کا در وا کردیاتھا ۔
وہ خوشی سے چہک رہا تھا ۔
"اللہ آپ کو بھی مبارک کرے اور ہماری بیٹی کانصیب اللہ رب العزت بہت اچھا ہو ۔۔"
فجر نے مامتا سے چور لہجے میں کہا اور ساتھ ہی اپنے ہاتھ بڑھا کہ ننی پری کو مان کے شفیق بازؤں میں سے اپنی گود میں لیا ۔۔۔۔
ننھی گڑیا کو اپنے چہرے کے قریب لے جا کہ فجر نے مامتا سے چور و جذبات سے حد درجہ نڈھال سی ہو کہ اپنی بیٹی کے چہرے پہ بوسہ دے ڈالا تھا جبکہ کچھ دیر پہلے وہ ارمغان کو سختی سے منع کر رہی تھی کہ ۔۔۔
"اس کے چہرے پہ پیار مت کرو "
مگر مان نے اس کی ایک نہ سنی اور چٹا چٹ اپنی گڑیا کے چہرے پہ شفقت بھری محبت کی ڈھیر ساری مہریں ثبت کر ڈالی تھی۔۔۔
فجر کے احساسات بہت ہی مختلف تھے اس کو ایسا لگ رہا تھا کہ زندگی میں جتنے دکھ اس نے اٹھائے ہیں ۔ اس کی اولاد نے اس کے تمام دکھوں کا مداوا کر دیا ہو۔
ان دونوں کے چہروں پر اس وقت صرف اپنی اولاد کے دنیا میں آنے کی خوشی رقصاں تھی ۔
کوئی غم کوئی دکھ ڈھونڈنے سے بھی چہرے کے کسی بھی نقوش میں موجود نہ تھا ۔۔۔
"مان ہم اپنی بیٹی کا خیال بہت رکھیں گے۔ یہ ہماری گڑیا ہے میں اپنی بیٹی کے معاملے میں کسی سگے رشتے پر بھی اعتماد نہیں کر سکتی ۔"
"یہ کانچ کی گڑیا ہے ی میری "
ذرا سی خراش لگنے سے بھی ٹوٹ جائے گی پلیز مان مجھ سے وعدہ کریں کچھ بھی ہو جائے ہم اپنی بیٹی کے سائے کی طرح اس کے پاس ہمیشہ رہیں گے۔ اس کو کبھی بھی بھری دنیا میں تنہا نہیں چھوڑیں گے ۔۔۔۔''
"بلکل فجر !!
تب ہی تو اللہ نے تمہیں زندگی دی ہے وہ یہی چاہتا ہے کہ تم اپنی بیٹی کی پرورش اپنے ہاتھوں سے کرو ورنہ تمہاری جو حالت تھی گزرے ہوئے وقت چار گھنٹے آپریشن تھیٹر میں تم زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی ۔ تم نہیں جانتی کہ میں کس طرح پل پل مرا ہو اس پورے وقت میں "۔۔
وہ اس کے آنسووؤں کو اپنی انگلیوں کی پوروں پہ سمیٹتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں گویا ہوا
"میں اپنے باپ کے کیے پر بہت شرمندہ ہوں مجھے معاف کردو ۔۔۔"
وہ نادم سہ فجر کے سامنے ہاتھ جوڑنے کو تھا جب یکدم فجر نے اپنے بائیں ہاتھ سے اس کے معافی کے لئے بڑے ہوئے ہاتھوں کو تھاما۔
"شرمندہ مت ہو اس سب میں تمہارا کیاقصور؟"
" مگرمان پلیز اس شخص کو اس کے انجام تک پہنچا دو"۔۔۔
" یہ میری التجا ہے اگر تم مجھے زندگی میں کبھی پرسکون دیکھنا چاہتے ہو تو اس ظالم شخص کو میری نظروں سے دور کر دو ۔۔۔۔"
"فجر تم جانتی ہو بابا کی ٹانگ میں گولی لگ گئی تھی ان کے وفادار گارڈ نے ہی ان کے پیر میں گولی ماری ہے اور وہ اس وقت اسی ہسپتال میں موجود ہیں مگر اب وہ پہلے کی طرح مکمل نہیں رہے ان کا ایک پیر ڈاکٹروں نے کاٹ دیا ہے کیونکہ بروقت ہسپتال نہ لانے کے باعث ڈاکٹر کچھ نہ کر سکے اور پاؤں کاٹنے کی نوبت آگئی ۔۔۔۔"
"جب اللہ تعالی نافرمانوں کی دراز رسی کو کھینچتا ہے تب بے شک اس کا قہر نازل ہوتا ہے "۔
"برائی کا خاتمہ ایک نا ایک دن ہو کے ہی رہتا ہے خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔۔۔"
"میرا کامل ایمان ہے اپنے خدا پہ اور مجھے پتا تھا کہ ایک نہ ایک دن ظالم کو اس کئےکی سزا ضرور ملےگی اس کا انجام دردناک ہوگا"
"باقی کی زندگی اب وہ تنہا گزارے گیں۔ ایک اپاہج بن کے ۔ماما نے فیصلہ کیا ہے کہ اس ظالم شخص کو پولیس کے حوالے کردیا جائے ۔مگر ماما سزائے موت نہیں چاہتی بابا کو ۔"
مان کیوں سزائے موت کیوں نہیں؟۔۔
" وہ شخص اسی کے قابل ہے۔۔"
وہ ایک دفعہ پھر سے بھڑک اٹھی ۔۔
جانتی ہو کیوں۔۔۔؟؟؟
" کیونکہ میں اور ماما چاہتے ہیں کہ سزائے عمر ان کو ہو"۔۔۔۔
"تا کہ جب خود پہ گزرے تو تب پتہ چلے کہ دوسروں کے اوپر ڈھائے گئے مظالم کیا ہوتے ہیں ۔۔۔۔"
اچھا یہ بتاؤ کہ میری بیٹی کا نام کیا رکھو گی؟ ؟؟
وہ جیسے ماحول میں تاری سرد فزا کو ہلکا پھلکا کرنے کے لیے موضوع بدل گیا ۔۔۔۔
"جو آپ کو پسند ہو "
فجر کا دھیان ایک دفعہ پھر اپنی بیٹی پہ مبذول ہو چکا تھا ۔۔
"یہ تمہارا حق ہے صرف اور صرف تمہارا "۔۔
نہیں مان میں نے تو ہمیشہ دیکھا ہے کہ اولاد پر پہلا حق اس کے باپ اور پھر ددھیال والوں کا ہوتا ہے ۔
نہیں!!
" میرے نزدیک ایک ماں کا سب سے پہلا حق اس کی اولاد پہ ہے ۔۔"
"ماں جتنی تکلیف اٹھا کہ اس تکلیف دہ مرحلےسے گزرتی ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اسی لیے ماں کے پیروں تلے خدا نے جنت رکھی ہے ۔۔"
"یہ حق تمہارا ہے بلکہ ہر ماں کا ہے ۔۔"
فجر حیرت سے ارمغان کو دیکھا تھا جس کے شفاف خیالات اس کے باطن کے خوبصورت ہونے کی چھٹی کے گواھی دے رھے تھے ۔ دنیا میں دو طرح کے مرد ہوتے ہیں ایک حماد جیسے اور دوسرے اور مغان جیسے ۔۔۔۔
وہ سوچ کے رہ گئی ۔۔۔
فجر فوری ہی خدا کا شکر بھی بجا لائی کہ ۔۔
"اس نے اس کے نصیب میں نیک اور بہترین شریک حیات لکھا ۔"
یکایک اس کے دل سے تمام لڑکیوں کے لیے ایک دعا نکلی کہ ۔۔۔۔
"اللہ رب العزت !! کل کائنات کے مالک سب لڑکیوں کو محبت کرنے والا ،احساس کرنے والا ہمسفر عطا فرما "۔۔۔
" آمین "۔
بتاؤ کیا نام رکھنا چاہتی ہوں اس کا ؟؟
مان نے اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی وجہ کے جیسے خیالوں کی دنیا سے جگایا ۔۔
"کائنات "۔۔۔!!
یہ ہماری کل کائنات ہے اس کا نام کائنات کیسا رہے گا ؟؟؟؟
وہ اپنی بیٹی کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔
"بہت پیارا بہت خوبصورت "
" میری بیٹی کی ماں نے رکھا ہے اسلئےاس سے بہترین نام کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا "۔۔۔۔۔
"ارے محترمہ آپ جلدی سے صحیح ہوجاؤ کچھ ہی دنوں میں سوہا کی شادی اور عمر کا ولیمہ ہے "
مان نے یاد آنے پہ اپنےسر پہ ہاتھ مارکے اس کو بتایا ۔۔۔۔
ہیں۔ ۔۔۔؟؟
کیا بواقعی؟ ؟
جی ہاں بلکل اب آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں تاکہ پھر زور و شور سے ہم اپنی بیٹی کے ساتھ ان دونوں کی شادی کو انجوائے کرسکیں اور خود بھی ۔۔۔۔۔
وہ معنی خیزی سے کہتا آنکھوں میں شرارت لیے جملہ ادھورا چھوڑ دیا
آج مہندی کا فنکشن تھا سو ہا اور خزیمہ کی۔
عمر لائبہ کو بیڈروم میں لینے آیا تھا مگر لائبہ کو بخار میں تبتا دیکھ کہ یکدم ٹھٹک گیا۔
وہ نفیس سے گوٹے کے کام والی کاہی گرین کلر کی پشواس پہ مہرون رنگ کا بنارسی چوڑی دار پاجامہ اور اس پہ پیلا ،ہرےاور محرون کے امتزاج کا نفیس سے پھلکاری کہ کام ہوا دوپٹہ ساتھ میچنگ کھسہ پہنے غضب ڈھا رہی تھی ۔لمحے بھر کے لیے عمر اس کو دیکھ کر مبہوت سہ رہے گیا ۔
"بس میں تیار ہوں ۔۔۔"
لائبہ ڈریسنگ ٹیبل پر جھکی ہوئی تھی شیشے میں دیکھ کے میک اپ کے نام پہ لبوں پہ ہلکے گلابی رنگ کی لپ گلوس لگا رہی تھی۔
عمر کا گھمبیر مگر اسکی طبعیت کے لئے حددرجہ فکرمندانہ لہجے کو محسوس کرکہ وہ قدرے بوکھلائی اور پھر عمر کا اس کے سجے سنورے سراپہ پر پہلی نظر ڈال کہ یکدم ٹھٹک کر تھم جانا لائبہ کو حیاء سے پلکوں کی جھالر گرانے پہ مجبور کر گیا ۔۔۔
دلہن کی طرح سر پہ پھلکاری کا دوپٹہ اوڑھے وہ جیسے ہوروں کا سہ حسن چورائے ہوئے تھی۔
وہ عمر کو اس طرح محبت لٹآتی نظروں سے خود کو دیکھتا پاکہ اپنی نازک مخروطی انگلیوں کو مروڑ نے لگی عمر کی موجودگی اس کو بے طرح بوکھلائی دے رہی تھی کیونکہ وہ اتنا کبھی بھی تیار ہو کہ عمر کے سامنے نہیں آئی تھی آج تک اور پھر دوسرا یہ کہ عمر کی اس کو لے کر حد درجہ احساس فکرمندی والی عادت۔ ۔۔۔۔!!
وہ عمر کو دیکھ کہ اس قدر بوکھلائی کہ آئی لائنر کے لیے بڑا ہوا ہاتھ بے دھیانی اور گڑبڑاہٹ میں دوبارہ سے لب گلوس کو اٹھا گیا۔ ۔۔
لائبہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اگر عمر ابھی ذرا سی بھی اس کے وجود میں بخار کی وجہ سے ہونے والی حرارت کو محسوس کر لے گا تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کہ اس کی تیمار داری میں لگ جانا پسند کرتا۔ ابھی وہ اپنی غیر ہوتی کیفیات کو ٹھیک طرح سے اپنے اختیار میں کر سنبھال بھی نہ سکی تھی کہ دوسرا جھٹکا اس کو تب لگا جب عمر اس کو اپنی نظروں کے حصار میں لیے ڈریسنگ ٹیبل کے طرف بڑھا تھا۔
پچھلے کئی دنوں سے وہ لائیبہ سے بالکل بھی بات نہیں کر رہا تھا سوائے ضروری بات کہ!!
جیسے دوائیں اور طبیعت کے متعلق دریافت کرنا اس کے علاوہ کوئی فالتو بات وہ لائبہ سے کرنے سے مکمل طور پر گریزاں تھا ۔
جس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ لائبہ کو سزا دے رہا تھا اس کے کیے کی۔۔۔۔
ناراضگی جتارہا تھا اس سے شدید ۔۔!!
کئی دفعہ وہ اس کو منانے کی کوشش کر چکی تھی مگر جب وہ کوشش کرتی یا تو عمر کروٹ بدل کہ سوج جاتا دوسری طرف یا پھر کمرے سے واک آوٹ کر جاتا ۔۔۔
وہ اس کو موقع ہی نہیں دے رہا تھا ایکسکیوز کرنے کا ۔ عمر کی بے رخی اور ناراضگی سہہ سہہ کہ وہ جیسے تھک چکی تھی ۔
کئی دنوں سے عمر کا رواں رکھا روکھا پھیکا سہ رویہ اس کو بے انتہا تکلیف دے رہا تھا پھر بھی وہ ہر طرح اس کو منانے کی کوششیں کر چکی تھی مگر عمر کسی طور بھی اس سے وابستہ ناراضگی ختم کرنےکے لئے تیار نہ تھا ۔
اتنے دن کی ٹینشن کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اب صبح سے بخار میں پھک رہی تھی مگر شادی کے ہنگاموں کی وجہ سے عمر آج پورے دن میں صرف 1سے 2 دفعہ ہی بیڈروم کا چکر لگا سکا تھا۔
جن اوقات میں وہ عمر کی متوقع آمد کو محسوس کرتی اس پل خود کو سوتا ظاہر کرکہ اس سے ہم کلام ہونے سے گریز کرتی رہی ۔نہیں چاہتی تھی کہ مزید عمر اس کی کسی بات پہ اس سے ناراض ہو جائے اور پھر کل ان کا ولیمہ بھی ہونا تھا ۔رہ رہ کے اس کو رونا آ رہا تھا کتنا کچھ نہیں سوچا تھا اس نے آج کے دن کے لیے اور کل ولیمے والے دن کے لیے مگر اس کی خوشیوں کو نجانے خوشیاں ملنے سے پہلے ہی کیوں نظر کھا جاتی ۔۔۔۔
کیا ہوا کمفرٹیبل فیل نہیں کر رہی ہو ۔۔۔؟؟؟
تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے ۔۔۔
نن۔۔نہیں میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔"
"دکھ رہا ہے کتنی ٹھیک ہو ۔۔۔"
عمر بالکل اس کے مقابل آن کھڑا ہوا اور اس کے چہرے کواپنی نظروں کے حصار میں قید کرتا ٹھہر ٹھہر کر گھمبیر لہجے میں گویا ہوا ۔۔
جانتی ہو لائبہ !!
"ہم جن سے محبّت کرتے ہیں ان کی کوئی چھوٹی سی بات اور بے اعتباری دل توڑ بھی دیتی ہے اور زرا سی محبت و احساس ریزہ ریزہ ہوا دل جوڑبھی دیتی ہے "
میں کیسی لگ رہی ہو ۔۔؟
میری آنکھوں میں اگر تم ایک دفعہ دیکھ لو تو پھر یہ شاید سوال تم آئندہ نہ کرو ۔۔۔۔۔"
"میں سمجھی نہیں کیا میں اچھی نہیں لگ رہی ؟؟"
وہ ہراساں ہوئی
عمر نے اس کو شانوں سے تھام کہ اس کا رخ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف موڑا۔
لائبہ نے بے اختیار سفید کرتا شلوار زیب تن کئے عمر کو دیکھا ۔ہلکی بڑی ہوئی شیو، سنہرا گندمی رنگ اس پر تضاد اونچا لمبے ڈیلڈول کا حامل وہ بہت وجیہہ لگ رہا تھا ۔بلا شبہ وہ ایک ڈیشنگ مرد تھا۔ ۔
ہو گیا میرا سر سے پیر تک معائنہ ۔۔۔؟
شرارتی لہجے میں کہتا وہ اس کے شانے پہ اپنی تھوڑی رکھ کہ ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں جھلملاتے اپنے اور اس کے عکس کو محبت پاش نظروں سے دیکھنے میں مصروف ھوا۔
اس وقت کہیں سے بھی ڈھونڈے سے بھی لائبہ کو عمر کے چہرے پہ پچھلے دنوں والی ناراضگی کا ہلکا سہ عنصر تک نظر نہ آیا ۔
"جج۔ ۔جی نن۔ ۔نہیں۔ ۔میں تو آپ کا کرتا شلوار دیکھ رہی تھی بہت اچھا ہے ۔۔۔"
لائبہ بری طرح گڑبڑائی ۔پہلے ہی عمر کی بولتی نظریں اس کو حد درجہ پزل کر رہی تھی اس پر تضاد اس کا مدھم آنچ دیتا لہجہ!!
۔لائبہ سے حیاء کے مرےاپنی پلکیں اٹھانا دوبھرہوگیا۔
عمر کے سامنےاتنے سجے سنورے انداز میں موجود رہنا اس کودنیا کا سب سے مشکل ترین کام محسوس ہو رہا تھا ۔۔
"بہت شکریہ تعریف کیلئے ۔۔۔"
"مگر بلکل سادھے سفید کرتے شلوار میں میری بیوی کو بھلا کیا آچھا لگا زرا ہمیں تو پتو چلے۔۔۔۔"
"کیا ہے مجھے ستائے تو مت آپ۔۔۔"چہرے پہ حیا کی لالی پھوٹ پڑی۔۔۔
وہ مزید شوخ ہوا اسکے چہرے پہ بکھرے قوس و فزح کے رنگوں کو دیکھ کہ اور اسکو ڈریسر کی چئیر کھینچ کے اسپہ بٹھا کر خود لائبہ کے مقابل دوزانو فرش پہ بیٹھ گیا۔۔۔
"اگر ایک نظر سامنے میرے اور اپنے جھلمل کرتے آئینے میں نظر آتے عکس کو دیکھ لو تو خود کو کبھی ادھورا محسوس نہیں کروں گی ۔۔۔۔"
اس کے مرمری ہاتھ کو اپنے مضبوط ہاتھ کےحصار میں لیتا اور ساتھ ہی دوسرے ہاتھ سے اس کی تھوڑی اونچی کر کے شیشے میں اس کا اپنے ساتھ دو آتشہ دمکتا ہوا روپ سروپ دکھا گیا ۔۔
آئینہ عمر اور لائبہ کو ایک مکمل فریم میں ڈھال گیا تھا ۔۔۔
"ماشااللہ ۔۔۔"یکدم بولی
"میں نہیں دیکھنا چاہتی آپنے اور آپ کے عکس کو شیشے میں !!مجھے ڈر لگتا ہے ۔۔۔"
'آئینہ دیکھنے سے ہمیں کبھی ڈرنا نہیں چاہیے لائبہ "
"نہیں عمرہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہی میری نظر ہی خدا ناخواستہ ہماری خوشیوں کو نہ کھانا چاہیے ۔۔"
"مت ڈرو ان بے جا دھڑکوں سے ۔۔"
"اچھا چلو مجھے ایک بات بتاؤ ہم کون ہیں ۔۔۔۔؟؟"
وہ بغور اسکو دیکھتے ہوئے حددرجہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔ ۔
"ہزبینڈ اینڈ وائف "۔۔۔
نہ سمجھیں سے جواب موصول ہوا ۔
"اس سے پہلے ہم کیاہیں ؟؟ ہماری پہچان مطلب ہمارا مذہب کیا ہے ۔۔۔؟"
اس کی معصومیت سے دئے گئے جواب پر مسکرایا اور پھر واضح کیا آپنے پوچھے گئے سوال کو ۔
یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے بھلا؟ ؟
"بے شک ہم مسلمان ہیں "۔۔۔
"بالکل صحیح اب یہ بتاؤ کہا۔ ۔۔۔"
ہم مسلمان الحمدللہ اور ہم کس کی امت سے ہے ۔۔؟
وہ اس کے چہرے کے تاثرات جانچ رہا تھا لائبہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ ان سوالات کا اس وقت مقصد کیا تھا عمر کے پوچھنے کا ۔۔۔؟؟
"ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم "کی امت سے ہے اور ہمارا ایمان کل کائنات کے مالک اللہ رب العزت پہ ہے ۔۔۔۔۔۔!!
اب کی دفعہ وہ عمر کو نہ سمجھی ضرور دیکھتے ہوئے مگر اس کے سوال کو اچھی طرح سمجھ کہ جواب دہ ہوئی۔۔۔
۔
"بالکل ٹھیک کہا ۔۔۔"
"اب میری بات بہت خور سے سننا۔۔۔۔۔"
" لائبہ یہ بھی ہو سکتا ہے میری بات کو سننے کے بعد تمہارا دل بدل جائے اور تمہارے اوپر تاری بے جا اداسی یا پھر ڈپریشن کہلو دور ہو ہو جائے مگر اس کے لیے تمہیں میری بات کو سمجھنا ہوگا غور سے ۔۔"۔
"ٹھیک ہے عمر میں آپ کی ہر بات کو غور سے سنو گی بلکہ کوشش کروں گی کے سمجھ بھی سکوں" ۔۔۔۔
"ہم مسلمان ہیں"۔۔
" پیارے نبی کی امت میں سے ہے "
ہمارا کامل یقین اللہ رب العزت پہ ہے جو وحدہ و لاشریک ہے۔ "
بولو لائبہ!! کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔؟؟
"مجھے گناہ گار مت کریں بے شک اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔۔۔"
وہ آنکھیں بند کرکے ایسے بولی جیسے اپنے دل میں ایمان تازہ ہوا ہو ۔۔۔
"تو پھر جو ہو رہا ہے وہ بھی اللہ رب العزت کے حکم سے ہو رہا ہے "۔۔۔
"جو ہوگا وہ بھی اسی کے حکم سے ہوگا "۔۔۔۔
"اور جو ہوچکا ہے وہ بھی اس کے حکم سے ہوا تھا" ۔۔۔۔۔۔
"میری اس بات کو سمجھنا "۔۔۔۔
'یقین مانو تمہارا سارا ڈپریشن ہر پریشانی ختم ہو جائے گی۔ ۔۔"
"جتنی الجھنے ہیں جو بھی تناؤ ہے تمہارے دل و دماغ پہ سب جھاگ کی طرح اڑ جائے گا ۔۔۔"
" اگر تم میری ایک چھوٹی سی بات سمجھ لو کہ جو بھی کچھ ہوگا اور ہونے والا ہے یا ہو چکا ہے وہ سب اللہ کے حکم سے ہی ہے ۔وہ ہر چیز پہ قادر ہے یہی نہیں چلو ایک چھوٹی سی مثال تمہیں دیتا ہوں کہ ایک پتہ بھی تب ہی ہلتا ہے جب میرے رب کا حکم ہوتا ہے ورنہ بڑے سے بڑا طوفان بھی اس بے ضرر سے پتے کو ہلانے کی خود میں طاقت نہیں رکھتا ۔۔۔۔۔"
"یہ سب فضول قسم کی باتوں کو تم ذہن سے نکال دو ٹھیک ہے میں مانتا ہوں نظر اور جادو برحق ہے لیکن اس چیز کو اپنا مرض مت بناؤ ۔"
'بس یہ اپنے دماغ میں رکھو کہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ہر مرض کا ایلاج بتا دیا ہے کوئی مرض لا علاج نہیں ہے ۔"
'وہم انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا لائبہ اپنے دل و دماغ میں سے ہر قسم کے وہم و وسوسوں ،ڈر اور خوف اور پریشانیوں کو نکال باہر کرو ۔۔۔'
اور بس اپنے آپ کو پرسکون کرو اللہ تعالی کی پاک ذات پہ یقین کامل رکھو اور یہ سوچ لو کہ ۔۔۔
"ہو سکتا ہے جو ہم نے سمجھا اور مانگا اس رب سے اس میں ہمارے لیے بہتری نہ ہو اور بہتری ہمارے لئے اس چیز میں ہوں جو اللہ نے ہمارے لیے منتخب کر رکھی ہو ۔"
اس کل کائنات کا مالک اللہ رب العزت ہے جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والاہے ہم سے تو پھر وہ ہمارے ساتھ کبھی بھی غلط نہیں ہونے دے گا " ۔۔
"وقت وقت کی بات ہے اللہ تعالی کے ہائے ری کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں پتہ چلتا رہتا ہے ۔۔"
"یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تمہارے ساتھ جو بھی کچھ ہوا اس میں بھی کوئی نہ کوئی مصلحت ہواللہ تعالی کی اور تم دیکھنا لائبہ میں تمہیں یہ بات لکھ کے دے رہا ہوں تمہارا مجرم ایک نہ ایک دن تمہاری سامنے ضرور آئے گا بس تھوڑا سا انتظار اور خدا پہ یقین رکھو ۔۔۔۔"
عمر آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں واقعی اگر ہم انسان اس بات کو صرف ایک دفع ہی سمجھنے کی کوشش کر لیں کہ جو بھی کچھ ہو رہا ہے یا ہو چکا ہے یا آئندہ ہوگا وہ سب اللہ تعالی کے حکم سے ہے اور اسی کے اختیار میں ہےسب کچھ تو واقعی ہم میں سے کبھی کوئی بھی پریشان یا ڈپریشن کا شکار نہ ہو۔۔"
" اللہ پہ توکل رکھنا ہی ایک سچے مومن مسلمان کی نشانی ہے ۔۔۔۔"
"آپ کی تمام باتیں سننے اور سمجھنے کے بعد آپ کو میں بتا نہیں سکتی لفظوں میں بیان نہیں کر پا رہی کہ میرا دل کتنا پر سکون ہوا ہے ۔"
اے میرے اللہ !
"اے میرے پاک پروردگار !!وہ معاملات جن میں میرا اختیار نہیں جہاں میں بے بس ہوں ان میں میری مدد فرما اور مجھے اکیلا نہ چھوڑ ۔۔۔۔"
آمین ثم آمین۔۔!!!
کیا خیال ہے اب چلیں ۔۔۔۔؟؟
وہ اٹھتے ہوئے اپنی چوڑی ہتھیلی لائبہ کے سامنے پھیلاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
جی بالکل ۔۔ "
وہ سچے دل سے کھلکھلا ئی۔ ۔
دل و دماغ پہ طاری مایوسی کے بادل جیسے کہ تم چھٹے تھے ۔۔۔
تو پھر اس سے دوستی پکی ۔۔۔۔؟؟؟
______
"کہاں چلا گیا صبح ھی تو استری کرکہ یہاں رکھا تھا!! سب لوگ حال پہنچ چکے ہیں ایک میں ہی ہوں جو ابھی تک گھر میں نظر آ رہی ہوں"۔۔
وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے ادھر سے ادھر اپنا مہندی کے فنکشن میں پہننے والا ڈریس تلاش کر رہی تھی جو آج صبح ہی تو شفاء نے استری کرکہ سوٹ ادھر ہی استری اسٹینڈ پہ رکھ دیا تھا ۔
۔
"اف ایک تو ڈریسنگ روم کا دروازہ بھی لاک ہے! !حمزہ دیکھ تو لیتے جاتے وقت کے ڈریسنگ روم کا دروازہ بند کر کہ جا رہے ہو "
۔بہت ہی لا پرواہ ہو تم ۔۔۔!!
ہونہہ۔
اب میں کیا کروں اورکیا نہ کرو۔۔۔؟
وہ اپنے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کہ بے بسی سے اپنے ہونٹوں کو کچل رہی تھی۔ پریشانی اس کے چہرے سے ہویدا تھی حمزہ بھی نہیں تھا جو اس کے ساتھ مل کے ڈھونڈ والیتا۔
وہ کچھ دیر پہلےہی سوہا کو لے کہ گیا تھا حال !!رحمان صاحب نے حمزہ کو فون کرکہ سوہا کے سسرالیوں کا مہندی لے کر ہال میں پہنچ جانے کا بتا کہ سوہا کو فوری حال لانے کا حکم صادر کیا تھا چونکہ شفا تیار نہ تھی اس لیے حمزہ کو سوہا کو چھوڑکہ گھر واپس آکر خود بھی تیار ہوناتا اور شفاء کو بھی لے کر جانا تھا ۔
وہ اب آنے ہی والا تھا اس کو لینے۔ ادھر وہ تیار تو تب ہوتی نہ جب ڈریس موجود ہوتا!! فی الحال تو پہننے والا ڈریس ہی ندارد تھا ۔
"کہاں چلا گیا منہوس! ! زمین نگل گئی یا آسمان ہڑپ کر گیا "۔
"کتنے چاہ سے میں نے وہ ڈریس لیا تھا اب کیا کروں؟"
اففففف۔ ۔۔۔!
" میرے خدایا میری مدد کر۔۔۔
وہ اپنا سر تھام کہ صوفے پر بیٹھ چکی تھی اسکو اپنی بے بسی پہ ٹوٹکے رونا آیا اس پل ۔
ایسا نہیں تھا کہ اور کپڑے نہیں تھے کپڑے بہت تھے ایک سے ایک بہترین لباس اس کی بورڈ گروپ میں موجود تھا مگر مہندی کے فنکشن کے لیے اس نے بہت چاہ سے بازار میں 2 گھنٹے کی خواری کے بعد ڈریس لیا تھا جو کہ اب غائب تھا بیڈروم میں سے ۔۔۔
"کیا ہوا تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی ہو؟"
' اور یہ منہ کیوں اس قدرگول گپا بنا ہوا ہے جیسے کسی نے ٹھیک ٹھاک تواضع کر ڈالی ہو ؟؟؟''
حمزہ کمرے میں آ کے اس کےسو جھے ہوئے چہرے اور ہاتھوں میں سر تھامے دیکھ کہ اچھمبے سے بولا اس کے مطابق تو اب تک وہ تیار اس کا انتظار کرتی نظر آنی تھی مگر یہاں تو کوئی آثار ہی نہیں تھے مہندی میں جانے کے ۔
کیسے تیار ہوتی ۔۔؟؟؟
پلکیں اٹھا کر لاچار سی شکل بنا کہ کہا گیا چہرے پہ ہنوز بارہ بج رہے تھے۔
کیا مطلب کیسے تیار ہو ں ؟؟
کپڑے تبدیل کرو ہلکا ہلکا میک اپ کرو اور تیار بس !!۔۔۔
وہ تیوری چڑھا کہ بولا جیسے اس وقت وہ شفا سے اس قسم کے بے تکے سوال کی توقع ہرگز نہ کر رہا تھا ۔اسکو جلدی تھی ابھی خود اسنے بھی تیار ہونا تھا۔ ۔
"کپڑے نہیں ہے میرے پاس"۔
منہ بسور کہ کہا گیا ساتھ ہی دل سے منسلک کو
انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی سے چھیڑ چھاڑ جاری تھی ۔۔
"کیوں کپڑے نہیں ہیں بنایا تو تھا تم نےوہ عجیب سہ گولے گنڈے نما سوٹ آج پہننے کے لئے ۔۔"
وہ تنک کے بولا چہرے پہ شفا کو محسوس ہوا جیسے اس کے غصہ منڈلانے لگا تھا ۔۔
"ہاں بنایا تھا مگر وہ اب کہیں بھی نہیں ہے کمرے میں پورا کمرہ چھان مارا میں نے ایک ایک کونا دیکھ لیا ۔۔۔۔
شفاء بچوں کی طرح رو دینے کو تھی ۔۔
ڈریسنگ روم میں دیکھا ؟؟
وہاں تو نہیں ہے ؟؟
بیزاری سے کہا گیا بار بار گھڑی کو دیکھتا وہ دیر ہوجانے کی وجہ سے زچ ہو رہا تھا۔ساتھ ہی ڈریسنگ ٹیبل کے اوپر رکھا ہیئر برش اٹھا کے جلدی جلدی بالوں میں چلانے لگا ۔
شفا کو اس کے ہر انداز سے جلد بازی ظاہر ہو رہی تھی ۔وہ اب صحیح معنوں میں خود کو بے بسی کی انتہاؤں کو چھوتا محسوس کر رہی تھی ۔۔
"کہاں سے دیکھتی آپ لاک جو کر گئے تھےڈریسنگ روم کے دروازے کو "۔
اپنی لاچاری پہ دل خون کے آنسو رونے لگا ۔
"ہوسکتا ہے غلطی سے کردیا ہو جلدی جلدی میں چلو وہاں چلکر دیکھلیتے ہیں" ۔
ہونہہ۔ ۔
شفا کا چہرہ رونا ضبط کرنے سے سرخ پڑتا دیکھ وہ قدرے نرم پڑا اور ہنکارا بھرتا اس کی کلائی کو تھام کے اپنے ساتھ لیے ڈریسنگ روم کے دروازے کے سامنے آ روکا اور جیب میں پہلے سے موجود درواز
ے کی چابی نکال کے کھٹ سے دروازہ کھول دیا ۔
"یہ کیا بات ہوئی بھلا کیا پورے گھر کی چابیاں آپ جیب میں لئے گھومتے ہیں ہر جگہ؟؟؟"
اس کا دماغ شدید بھنوٹ ہو رہا تھا ۔ایک تو حمزہ کا سابقہ رویہ اس کو دلبرداشتہ کر رہا تھا اوپر سے اپنا پسندیدہ ترین لباس آنکھوں میں بار بار گھوم کر اس کا منہ چڑا رہا تھا ۔بڑی مشکل تھی وہ تو ہر طرف سے تھک چکی تھی ۔
"پہلے نہیں رکھتا تھا چابیاں مگر جب سے میرے روم میں ایک عدد ڈاکو رانی کا اضافہ ہوا ہے تب سے چوکس رہنے لگا ہوں کیا پتا میرے دل پر ڈاکہ ڈالنے کے بعد تمہارا اگلا شکار میری ذاتی استعمال کی اشیاء ہو" ۔
"لاحول ولا قوۃ میں کیوں آپ کی ذاتی اشیاء کو ضبط کرنے لگی "۔۔۔
وہ شرارت سے پرمعنی خیز لہجے میں بولا اور شفا کا ہاتھ چھوڑ کے چلتا ہوا اس کو دروازے کی چوکھٹ کے بیچ و بیچ پیچ و تاب کھاتا چھوڑ کہ وارڈ روب کھول کر نہ جانے کیا نکالنے لگا اور پھر جیسے کچھ ہی لمحوں میں اس کو اپنی مطلوبہ اشیاء مل ہی گئی تھی یا پھر وہ دانستہ دیر لگا رہا تھا جیسے کچھ اندر موجود ہونے کے باوجود اس کو نہیں مل کے دے رہا تھا ۔
ہٹو اب میری الماری کاکیوں بھیڑیا بنا رہے ہو ؟؟
کیا تلاش کر رہے ہو ؟
کیوں سردیئے کھڑے کو اتنی دیر سے۔۔۔؟؟؟
شفاء تنفر کرتی آگے بڑھئی اور جیسی ہی الماری کا پہلے سے وا پٹ دھکیل کر الماری کے اندر جھانکا وہ دنگ رہے گئی۔ حیرت سے چکرا کے رہ گئی آنکھوں کے سامنے ستارے ناچ اٹھے تھے ۔۔۔
یہ۔۔۔۔۔۔ یہ کس کا ہے۔۔۔؟؟
شفا ء دیدہ زیب سامنے جھلملاتا اورینج رنگ کا انگرکھا دیکھ چکرا گئ جو بہت نفیس مگر بھاری کندن اور نگینوں سے سجا بے حد پیارے سے کام والا تھا ۔جس کا دوپٹہ ڈارک پرپل اورماتھا پٹی اورنج اور ہلکے دھانی رنگ کی تھی۔ دوپٹہ تاروں سے بھرا ہوا تھا جبکہ پلازو دھانی رنگ کا بنارسی فرشی اسٹائل خوبصورتی سے کلی دار سلا ہوا تھا ۔۔۔
"میرا ہے"
یہ میں پہنونگا آج اور دیکھو اس کے ساتھ میچنگ جیولری اور سینڈل بھی لی ہے میں نے بس اب ایک مسئلہ ہے جو تم بخوبی حل کر سکتی ہو۔۔۔۔"
"بس میرا میک اپ تم کر دینا کیسا لگونگا نا پھر میں ۔۔""
وہ اس کے بے تکے سوال پہ شدید چڑھ چکا تھا۔
" ظاہر سی بات ہے یہ میرا تو نہیں ہوسکتا تمہارا ہی ہے نا ۔۔۔۔"
جھنجھلا کہ کہتا وہ واپس پلٹنے لگا جب شفاء کسی جنگلی شیرنی کی طرح اس کے اوپرجھپٹی تھی ۔۔
"اس کا مطلب ہے کہ میرا سوٹ کھویا نہیں تھا بلکہ اس کو تم نے غائب کر دیا ہے کہیں ۔۔۔"
تم ہضم کر گئے ہو نہ میرے ڈریس کو بغیر ڈکار مارے ۔ ۔۔۔؟؟؟؟؟؟
نہیں چھوڑوں گی میں تمہیں بچو گےنہیں تم مجھ سے ۔۔!!!
وہ اب جا کہ اس کی شرارت کو سمجھی تھی ۔آپنے اتنی آرام سے بیوقوف بنائے جانے پہ اس کا دماغ بالکل ہی بھک سے اڑ گیا جبکہ دوسری طرف کچھ دیر پہلے طاری ہوئی مصنوعی سنجیدگی کا شائبہ اب حمزہ کے چہرے پہ ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آرہا تھا ۔۔
بچے !!
کون سے بچے ؟
کس بچوں کا ذکر کر رہی ہو بھئی؟؟
اتنی بڑی خوشی کی خبر تم نےمجھ سے چھپائی۔۔۔۔؟؟
وہ آنکھیں پھاڑے لہجے میں حیرت لیے بتیسی کی نمائش کر نے لگا ۔حمزہ کی آنکھیں اس وقت شرارتوں پہ امادہ تھیں۔ ۔
"تم بہت خراب ہو بہت پریشان کرتے ہو مجھے !!کوئی خوشخبری نہیں ہے۔۔۔"
" اب مزید مت پکاؤ میرا دماغ چلو نکلو یہاں سے "۔۔
"یار ایک تو تمہاری پرابلم حل کر دی ہے میں نے بیٹھے بیٹھائے کتنا دیدہ زیب ڈریس مل گیا تمہیں اور تم ہو ایک ناشکری ۔۔۔"
دو اسے اور شکریہ کرتی ہے میری جوتی !!!!
وہاس کے ہاتھ سے سوٹ جھپٹتے ہوئے بولی ۔
"یار وہ جو تم نے لیا تھا وہ مجھے کچھ خاص تو کیا ذرہ برابر بھی پسند نہیں آیا تھا اس لئے میں وہ واپس کر آیا اور یہ دیکھو میری زبردست قسم کی چوائس کتنا خوبصورت ڈریس میں تمہارے لئے لایا ہوں بالکل پریوں جیسا ۔۔۔
"اور پتہ ہے میں نے یہ واردات دوپہر میں کی تھی جب تم پالر میک اپ کروانے گئی ہوئی تھی ۔"
"میک اپ کروانے نہیں بدھو !! مہندی لگوانے اور فیشل وغیرہ کروا نے ۔۔"
اس کے چہرے پہ انتہائی معصومیت رقصاں تھی ۔۔
شفاء اس کے اس طرح سے کہنے پر کھلکھلا کے ہنس پڑی تھی ۔اتنی محبت ملنے پہ وہ خدا کی بے حد مشہور تھی یہ ایک معجزہ ہی تھا کہ وہ ستمبر مہرباں بن بیٹھا تھا اس کیلئے ۔۔۔۔۔!!
💖
مصطفیٰ تم کیوں جا رہے ہو ؟؟
تمھیں نہیں جانا چاہئے وہاں۔۔۔۔۔۔۔"
کیوں خود کو اذیت دینے کے لیے وہاں جا رہے ہو ؟؟؟
۔سوائے تکلیف کے تمہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا میری مجبوری ہے جو مجھے جانا پڑرہا ہے ورنہ تمہارے بابا کو دیکھو وہ کس قدر تمہاری وجہ سے دلبرداشتہ ہوئےہے کہ انہوں نے صاف انکار کردیا سوہا کی شادی کو اٹینڈ کرنے کے لئے مگر میرا جانا تو ضروری ہے میرے بیٹے!! میرا ایک ہی بھائی ہے لے دے کے بڑا بھائی تو دنیا میں ہی نہیں رہا ۔۔۔۔"
میں اب ایک ماجائے سے منہ نہیں موڑ سکتی مگر میرے بچے میں تمہاری ماں ہوں تمہارا بھی مجھے اتنا ہی خیال ہے جتنا کہ اپنے بھائی کا ۔۔"
زینب اپنے بیٹے کی اجڑی حالت دیکھ کے شدید غم زدہ تھی۔کوشش کر رہی تھی اس کو سمجھانے کی مگر وہ بس ایک ہی بات پر بضد تھا کہ وہ سوہا کی شادی میں جائے گا ہر قیمت پہ اس کو اسکی شادی اٹینڈ کرنا مقصود تھا!!!
اس وقت بھی مصطفی خاموشی سے لب بھینچے ڈرائیو کر رہا تھا مہندی میں پہنچنے کی اس کو نہ جانے کیوں اتنی جلدی تھی کہ انتہائی ریش قسم کی ڈرائیونگ کرتا جلد از جلد لان پہنچنے کی تگ و دو میں تھا ۔۔۔۔
"میں آپ کا بیٹا ہوں امی !!خود پہ اختیار ہے مجھے میں بس یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ اس شادی کو کتنی خوشی ہے اور کتنا سکون ملا ہے اس کو مجھ سے بے وفائی کرکہ۔ ۔ ۔۔۔"
آخری جملہ وہ ماں کے سامنے نہیں بولا تھا بلکہ خود سے دل میں گویا ہوا ۔۔۔
❤
خزیمہ اور اس کے گھر والے مہندی لے کے آ چکے تھے ہال میں ۔۔
خزیمہ اسٹیج پر بیٹھا ہوا سوہا کے انتظار میں تھا اور اس کے گھر والے ہال میں موجود مہمانوں سے علیک سلیک میں مصروف تھے ۔۔۔
سمیرا مجھے رحمان کا فیصلہ نہیں سمجھ میں آرہا ۔۔"
آئمہ سٹیج پر بیٹھے خزیمہ کو دیکھ کر بولی ۔۔۔
"کیوں آپی اتنا اچھا رشتہ ہے ہر لحاظ سے سوھا کے لیے بہترین ھے اور پھر رحمان صاحب کی پسند ہے ۔۔۔۔۔۔"
میں آج پہلی دفعہ خزیمہ کو دیکھ رہی ہوں جس روز یہ لوگ اچانک مٹھائی لے کے آئے تھے اس روز میں نہیں تھی نہ اسلئے ۔۔"
"مگر آپی آپ کی بھی تو مجبوری تھی آپ کا انایہ کے پاس جانا بھی ضروری تھا کیونکہ وہ عائشہ آپی کی بیٹی جو نکلی ہے اس لیے ۔"
ہاں مجھے بہت خوشی ہوئی ہے فجر کو آپنی بانجی انایہ کے روپ میں دیکھ کہ بے شک ۔۔"
آئمہ کو جیسے ہی پتہ چلا تھا کہ فجر ہی ان کی عنآیہ ہے اور خیر سے اب اس کی ننھی گڑیا بھی دنیا میں آنکھیں کھول چکی ہے وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کہ فوری ہسپتال روانہ ہوئی تھی ۔جبکہ سمیرا نہیں جا سکی تھی اس کے ساتھ کیوں کہ خزیمہ کے گھر والے مٹھائی لے کر آ رہے تھےاس دن۔ ۔۔!!
وہ اگلے دن گئی تھی رحمان صاحب کے ساتھ یہی وجہ تھی کہ آئمہ خزیمہ کو پہلی دفعہ دیکھ رہی تھی ۔۔
اس کی عمر کیا ہے ۔۔۔؟
آئمہ خزیمہ کو دیکھتے ہوئے سمیرا سے استفسار کر رہی تھی وہ عجیب سے شش و پنج کا شکار ہوئی خزیمہ اس کو سوہا سے کافی بڑا لگ رہا تھا ۔۔
"آپی 30 سے 35 سال کے درمیان اس کی عمر بتائی تھی مجھے رحمان نے میں نے اس آگے پھر کچھ پوچھا نہیں آپ کو پتہ ہے ان کا پتہ ہی نہیں لگتا کب ہتھے سے اکھڑ جائیں ۔۔"
"پتہ نہیں سمیرا مجھے یہ 35 سال سے بھی بڑی عمر کا پختہ مرد لگ رہا ہے ۔ اس کو لڑکا تو کہیں سے بھی نہیں کہیں گے ۔۔"
نہیں آپی دیکھیں کتنا اسمارٹ سہ دبلا پتلا ڈیشنگ سہ توہے خزیمہ ۔۔"
"پتہ نہیں تمہیں کہاں سے ڈیشنگ لگ رہا ہے اس کی کاٹھی ایسی ہے مگر اس کے چہرے پہ موجود پختگی اور سختی گواہی دے رہی ہے کہ یہ 35 سے اوپر کا ہی ہے !!پتا نہیں رحمان کو ہماری بچی کیلئےیہی بر کیوں ملا تھا ۔۔"
"مصطفی میں کیا برائی تھی کتنا پیارا بچہ ہے کتنی خوبصورت جوڑی لگتی دونوں کی چاند سورج کی ۔۔۔"
آئمہ کو رحمان کے اوپر اٹھ کے غصہ آیا تھا ۔۔
"چلیں آپ بھی اپنا دل نہ جلائیں چوسوہا کا "
نصیب ۔۔۔"
ارے آج غزل اور ارمغان وغیرہ کے آنے کا ہے ؟؟؟؟
ائمہ نے یاد آنے سے پوچھا ۔۔۔۔۔
"نہیں غزل آپیا سے میری بات ہوئی تھی انہوں نے کہا ہے وہ کل صبح عنایہ کا ڈاکٹر سے اپوائنمنٹ ہے اس کو دکھا کہ پھر سیدھا یہیں پہنچیں گے اور پھر ولیمہ کرکے ہی جائیں گے ۔۔۔۔۔"
"چلو یہ بھی ٹھیک ہے ڈاکٹرسے ہر بات کا اطمینان کر لینے کے بعد آئینگے تو دل بھی مطمئن رہے گا "
وہ دیکھیں مصطفی اور آپیا بھی آ گئی ۔۔۔
ہال کے اندر داخل ہوتے مصطفی اور زینب کو دیکھ کہ وہ دونوں خوشی سے کھل اٹھیں۔
امید نہیں تھی کہ مصطفی آئے گا مگر اس وقت مصطفی نے آکے واقعی بہت بڑے ظرف مظاہرہ کیا تھا ۔
سمیرا کی پلکیں بےساختہ نم ہوئیں تھی مگر وہ بڑی خوبصورتی سے اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو واپس اندر اتار دی ۔۔۔
آئمہ کو تو اس نے بہلا دیا تھا مگر اپنے دل کو کیسے بہلاتی ؟؟؟؟
وہ اندر سےاپنی بیٹی اور مصطفی کے دکھ میں گھل رہی تھی ۔
دونوں محبت میں گرفتار ہو کہ اپنی منزل کو چھو نہ سکے تھے منزل پہ پہنچ کے بھی ۔۔۔!!!
سیراب نہ ہو سکے تھے دونوں کے دلوں میں ایک تشنگی سی اپنے پنجے گاڑ کے رہ گئی تھی ۔۔۔
💔
تم لوگ کس کے انتظار میں ہو جاؤ اور سوہا کو کوئی اسٹیج پہ لے کر آؤں خزیمہ کتنی دیر سے انتظار کر رہا ہے اس کا ۔۔۔"
رحمان صاحب نے اپنا حکم جاری کیا ائمہ اور سمیرا کو دیکھ کہ۔۔
ہمیں کیا پریشانی ہوگی ہم تو بس عمر اور ہمزہ !!سوہا کے دونوں بھائیوں کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ اس کو پالکی میں بٹھا کہ اس کو چلاکر لے کہ جائیں اسٹیج تک۔۔۔
"رکو میں عمر کو فون کرتا ہوں "۔۔
رحمان صاحب جھلس کے بولے ۔۔
کہاں ہو یار تم ابھی تک کیوں نہیں آئے پتہ بھی ہے کتنا لیٹ ہو گئے ہو ۔۔؟؟
"دھت تیری ساری مصیبتیں ابھی نازل ہونی تھی ۔۔"
وہ غصے میں فون کاٹ کہ بولے۔ ۔۔
کیا ہوا رحمان سب ٹھیک ہے نا ؟؟؟
"ہاں سب ٹھیک ہے آپ کے بیٹے کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا ہے ان کو مزید ایک گھنٹہ لگے گا اب دوسرے شیر دل کو فون کرتا ہوں وہ کیا کہتے ہیں ذرا ان کی بھی تو سن لو ۔۔"
رحمان صاحب چڑھ چکے تھے اور ساتھ ہی حمزہ کی موبائل پے کال کرنے لگے ۔
۔
حمزہ بیٹا تم کہاں ہو ابھی تک کیوں نہیں پہنچے ہو؟؟؟
" شا باش!! چلو تم بھی اپنا ٹائم لو جتنی دیر میں پہچنا چاہو پہنچ سکتے ہو ۔۔"
کیا ہوا حمزہ کیوں نہیں آیا سمیرہ نے اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا کیوں کہ دوسری طرف ہونے والی گفتگو کا اندازہ دونوں کو ہی رحمان صاحب کے آگ بگولا تاثرات سے ہو چکا تھا ۔۔
"گجر ےلینے کے چکر میں آپ کے بڑے موصوف جو ہیں وہ سگنل میں بری طرح پھنس چکے ہیں ان کو پونا گھنٹہ لگے گا پہنچنے میں تقریباً بقول انکے ۔۔۔"
رحمان صاحب ٹائم کے پابند شخص تھے گھر میں ان کو چھپکے سوہا اور شفاف میجر صاحب کا لقب دیتی تھیں۔
جس ٹائم کا وہ حکم جاری کرتے ٹھیک اس ٹائم پہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے مگر ان کو گھر کا ایک ایک فرد بھی دیرکرتا نہیں ملنا چاہیے ۔۔
کیا میں آپ لوگوں کی مدد کر سکتا ہوں ۔۔؟؟؟
بھاری گھمبیر آواز ان تینوں کی سماعتوں میں ٹکرائی تھی ۔تینوں نے چونک کے ایک دم پیچھے پلٹ کے دیکھا تھا جہاں مصطفی بڑھی ہوئی شیو۔کالا کرتا صفید شلوار اور گلے میں لال مفلر ڈالے چہرے پہ ہزن لیے ان کے جواب کا منتظر تھا ۔۔
رت جگے اسکی آنکھوں میں رقم تھےاور آنکھوں کے نیچے حلقے اس کی کئی دنوں سے بے خوابی کی چغلی کھا رہے تھے ۔۔۔
سمیرا کو اپنا دل جیسے سکڑتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔
"برخوردار تم کیا مدد کر سکتے ہو میری میرے بچوں نے ہی مجھے فی الحال رسوا کرنے پر کمر کسی ہوئی ہے ۔۔"۔
رحمان صاحب اس وقت سب کچھ بھلائے صرف اور صرف اس فکر میں تھے کہ سوہا کو اسٹیج تک پالکی میں کون لے کے جائے گا ۔۔۔
ظاہر سی بات تھی وہ لوگ تو لے کر جانے سے رہی یہ کام تو بھائی بھابھی یا پھر دوستیں ، کزنز کیا کرتے ہیں مگر یہاں پر تو سرے سے ہی کوئی موجود نہیں تھا ادھر امجد گوندل صاحب شور مچا رہے تھے جلدی جلدی کا دونوں ایک جیسے ٹکرائے تھے میجر صاحب ۔۔۔!!!
سوہا کو پالکی میں اسٹیج تک لے کے جانا ہے ۔!!
سمیرا نے افسردگی سے کہا ۔۔
"میں لے کر آتا ہوں سوہا کو آپ لوگ اسٹیج پہ انتظار کریں ہمارا ۔۔۔"
وہ کہہ کے رکا نہیں تھا لمحہ زایہ کئے بغیر پلٹ گیا تھا ۔۔۔
❤
چہرے پہ مرے زلف کو بھکر آؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن
رازوں کی طرح اُترو مرے دل میں کسی شب
دستک پہ مرے ہاتھ کی کھُل جاؤ کسی دن
پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہا لوں
بادل کی طرح جھوم کے گھر آؤ کسی دن
خوشبو کی طرح گزرو مری دل کی گلی سے
پھولوں کی طرح مجھ پہ بکھر جاؤ کسی دن
گزرے جو میرے گھر سے تو اڑھ جائیں ستارے
اس طرح مری رات کو چمکاؤ کسی دن
میں اپنی ہر اک سانس اسی رات کو دے دو
سر رکھ کے میرے سینے پہ سو جاؤ کسی دن !!
وہ آخری دفعہ مصطفی کا بھیجا ہوا خوبصورت میسج پڑھ کے ڈیلیٹ کرنا چاہ رہی تھی مگر کئی دفعہ ڈریسنگ روم میں پڑھ لینے کے بعد بھی اس کا دل ہی نہیں کر رہا تھا سوہا اس کو ڈلیٹ کرنے کا۔
چاہت بھری نظم اس کے دل میں جیسے مصطفی کو بسآ گئی تھی ۔
وہ خوابوں خیالوں میں کھوئی ہوئی ماضی کی حسین یادوں میں قید مصطفی کے ساتھ گزارے گئے خوبصورت لمحات کو یاد کر کے مسکرا رہی تھی ۔بہت پیاری سے مسکان اس پل اس کے لبوں پے رقصاں تھی ۔۔۔
اس کو پتہ ہی نہ چلا جب کوئی بغیر دستک دیئے دروازہ کھول کے ڈریسنگ روم کے اندر داخل ہوا تھا ۔۔۔۔
اس کے لبوں ہنوز ماضی کی حسین یادوں پہ مسکرا رہے تھے ۔۔۔۔۔
"مبارک ہو تمہیں سوہامیری طرف سے "۔۔۔۔۔
مصطفی مغرورانہ چل چلتا ہوا اس کے بالکل مقابل آن کھڑا ہوا ۔۔۔
"میری زندگی کو برباد کرکہ تم کتنی خوشی خوشی کسی اور کی سیج سجانے کے لیے تیار ہوں ۔۔۔"
"خزیمہ کی حسین سوچوں میں گم مسکرایا جا رہا ہے ۔۔"
آمیزینگ! !!
"کیا بات ہے مان گیا تمیں آج مجھے یقین ہو گیا سوہا کہ تم نے مجھ سے کبھی محبت کی ہی نہیں تھی ۔۔۔"
وہ حیران پریشان سی ڈریسنگ روم کے اندر موجود مصطفی کو دیکھ رہی تھی پوری آنکھیں اور منہ اس کا کھلے کاکھلا رہ گیا۔
وہ یقین ہی نہیں کر پا رہی تھی کہ سامنے کھڑا شخص مصطفی ہے۔ وہ اس کی سن ہی کہاں رہی تھی اس کو بس ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بہت پیارا خواب دیکھ رہی ہے سوتے میں ۔وہ تو جیسے کھو چکی تھی مصطفی کے سحر میں گم ہو چکی تھی ۔۔۔۔
میں تمہیں لینے آیا ہوں چلو میرے ساتھ ۔۔۔
کک کہاں۔ ۔۔؟؟؟
مصطفی نے اچٹتی سی نظر سے کچھ دیر قبل مسکراتے چہرے پر ڈالی تھی جہاں اب ہوائیاں اڑ رہی تھیں ۔۔۔
جہاں تم کو ہونا چاہیے ۔۔۔۔!!
مصطفی نے اس کی کلائی کو بے دردی سے اپنی مضبوط ہتھیلی میں جکڑا تھا ۔۔۔
کئی چوڑیاں ٹوٹکے سوہا کی کلائی میں کھب چکی تھی مگر وہ مصطفی کے آتش فشاں جلوے سے بھرےروپ کو دیکھ کہ اتنی تکلیف میں بھی کراہ نہ سکی اور خاموشی سے کھینچی چلی اس کے ساتھ ڈریسنگ روم کے باہر چلی آئی ۔۔۔۔
ڈریسنگ روم ہال کی پچھلی طرف تھا جہاں پر لوگوں کی موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی ۔مصطفی نے ادھر ادھر دیکھنے کے بعد سوہا کو اپنے بازوؤں میں بھر کے پالکی میں بٹھایا اور تیزی سے پالکی کو دھکیلتا ہوا حال کے اندرونی حصے میں بڑھنے لگا جہاں پہ مہمان موجود تھے ۔۔
"بہت مکمل تیاری کی گئی ہے خزیمہ کی دلہن بننے کے لیے ۔۔۔"
وہ لبوں پہ زخمی مسکراہٹ سجائے طنز کے تیر چلانے سے باز نہ آیا اور سوہاکو شرمندگی کے گہرے سمندر میں دھکیل گیا ۔۔۔