Monday, December 24, 2018

itni mohbbat karo na (season 2) episode 1

itni mohbbat karo na (season 2)
By zeenia sharjeel
Epi # 1


رات کا آخری پہر تھا اسپتال کے کوریڈور میں اس وقت سناٹا تھا۔ تنہا بیٹھا ہوا وہ وجود ٹکٹکی باندھ کر آپریشن تھیٹر کی جلتی ہوئی لال بتی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس کا رواں رواں آپریشن تھیٹر کے اندر موجود زندگی کے لئے دعا گو تھا

"اگر اسے کچھ ہوجائے تو۔۔۔"
یہ سوچ ذہن میں آتے ہی، اس کو اپنی بھی سانسے تھمتی ہوئی محسوس ہورہی تھی وہ خود اپنے آپ کو زندگی اور موت کے بیج کسی جگہ محسوس کر رہا تھا۔۔۔اس کے کپڑے ابھی بھی خون سے رنگے ہوئے تھے، اس نے آپ اپنی پتھرائی ہوئی آنکھیں بندکیں تو کانوں میں فجر کی آذان کی آواز گونجی

"ہاں مجھے خدا سے اس کی زندگی مانگنی چاہیے بلکہ اس کی نہیں خود اپنے آپ کی زندگی"
یہ سوچ آتے ہیں وہ وجود وہاں سے اٹھ گیا

****

"حور کہاں رہ گئی ہوں یار جلدی کرو دیر ہو رہی ہوں آفس کے لئے"
زین نے کچن میں ناشتہ بناتی ہوئی حور کو آواز دی

"شاہ تھوڑا صبر تو کیا کرو آرہی ہوں ناشتہ لے کر۔۔۔ اس نسیمہ کو بھی فارغ کرونگی آئے دن چھٹیاں کرتی رہتی ہے"
حور ٹرالی میں ناشتہ لے کر آئی

"اوفوہ یہ اخبار تو سائڈ پر کروں"
حور نے ناشتے کے لوازمات ٹیبل پر سجاتے ہوئے کہا

"اور میری پرنسسز کہاں ہے"
اخبار ایک طرف رکھتے ہوئے زین نے حور سے پوچھا

"سو رہی ہے ابھی تمہاری پرینسیز کہہ رہی تھی تھوڑا لیٹ  کالج جائے گی۔۔۔ شاہ ویسے تم حیا کو بہت بگاڑ رہے ہو، اچھی خاصی بدتمیز ہوتی جا رہی ہے کتنی ضد آتی جا رہی ہے اس میں"
حور نے کیٹل سے چائے کپ میں نکالتے ہوئے کہا

"اب کیا ضد کر بیٹھی تم سے جو تم صبح صبح اس کی شکایتں لگا رہی ہوں"
زین نے پلیٹ آگے کھسکاتے ہوئے حور سے پوچھا

"کار لینے کا شوق چڑھا ہے تمہاری لاڈلی کو کہہ رہی تھی بابا میرا کہا کبھی بھی نہیں ٹالیں گے،، میں نے منع کیا تو ناراض ہو کر بیٹھ گئی۔۔۔ ڈرائیونگ آتی نہیں ہے اور کار لینا ہے،،، اگر اس نے تم سے فرمائش کی تو کوئی ضرورت نہیں ہے فضول فرمائشیں پوری کرنے کی، بتا رہی ہوں تمہیں"
حور نے آنکھیں دکھاتے ہوئے زین سے کہا

"اوکے سویٹ ہارٹ تم تو ناراض نہیں ہوں اب"
زین نے مسکراتے ہوئے ٹیبل پر حور کے رکھے ہوئے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا

"اور اب یہ تم مجھے فضول ناموں سے پکارنا بالکل بند کر دو، تمہارے ہر وقت سویٹ ہارٹ کہنے سے کس طرح دانت نکلتے رہتے ہیں تمہاری بیٹی کے شاہ۔ ۔۔زرا احتیاط کیا کرو حیا کے سامنے، بڑی ہو رہی ہے اب وہ"
حور نے اپنا ہاتھ زین کے ہاتھ کے نیچے سے نکال کر،  سنجیدگی سے زین کو سمجھانے کی کوشش کی

"اوکے ڈن ہے، حیا کے سامنے احتیاط کرنی ہے اکیلے میں تو کوئی پابندی نہیں ہے نا"
زین نے مسکراتے ہوئے دوبارہ اس کا ہاتھ تھام لیا اور معنی خیزی سے پوچھا

"شاہ تمہیں واقعی اس عمر میں آکر بھی نہیں سدھرنا"
حور نے کوشش کرنے کے بعد اب افسوس کرتے ہوئے کہا

"ہاہاہا دل کا اور جذبات کو عمر سے کیا تعلق سویٹ ہارٹ، میرا دل اور جذبات تمہارے لئے ابھی تک جوان ہیں"  زین نے مسکراتے ہوئے حور کو دیکھ کر چائے کا کپ ہونٹوں سے لگایا۔۔۔ حور اس کو ابھی بھی گھور رہی تھی

"اچھا نہ یار اپنا موڈ تو ٹھیک کرلو سوبر بننے کی ایکٹنگ ویسے بھی حیا کے سامنے کرنی ہے ابھی حیا یہاں موجود نہیں ہے"
حور اٹھنے لگی تو زین نے اس کا ہاتھ تھام کر واپس بٹھا لیا

"چلو موڈ ٹھیک کرو اپنا ورنہ غصہ کی زیادتی سے شام تک بی پی ہائی ہو جانا ہے"

"تم حیا کی گاڑی والی فرمائش بالکل پوری نہیں کرو گے، میں بتا رہی ہوں شاہ تمہیں"
حور نے زین کو وان کرتے ہوئے کہا

"اوکے یار میں اس کو خود پیار سے سمجھا دوں گا ناشتہ کرو تم"
زین نے سینڈوچ کی پلیٹ حور کے آگے رکھتے ہوئے کہا

"بڑی ہو رہی ہے لیکن ذرا عقل نام کو نہیں ہے۔ اوٹ پٹانگ ڈریسنگ اوٹ پٹانگ حرکتیں۔۔۔ لڑکی زات ہے شاہ اتنا سر نہیں چڑھاؤ، ہر ضدیں پوری مت کیا کرو اسکی"

"حور حیا میری بیٹی ہے اکلوتی بیٹی۔۔۔ میرا بس چلے تو اس کے منہ سے نکلنے سے پہلے اس کی ہر خواہش پوری کر دو اور یہ کیا کہا تم نے کہ وہ بے عقل ہے بہت عقلمند ہے میری بیٹی۔۔۔ بچی ہے یار ابھی 18سال کی بھی نہیں ہوئی ہے جو تمہیں اس کی حرکتیں اور ڈریسنگ کی فکر ہونے لگ گئی ہے"
زین کی جان حیا میں تھی شادی کے 24 سالوں میں یہ فرق آیا ہے کہ حور کی جگہ مکمل نہیں مگر کافی حد تک حیا لے چکی تھی۔۔۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شادی کے چھ سال کے بعد جب وہ لوگ ناامید ہوگئے تھے تب ان کی زندگی میں حیا آئی۔ ۔۔ زین اور حور کی زندگی کو اپنی  معصوم باتوں اور شرارتوں سے مکمل بنا دیا، زین اس کو مسکراتا دیکھ کر جی اٹھتا۔۔۔۔ حور بھی اسکے لاڈ پورے اٹھاتی مگر عمر کے ساتھ ساتھ وہ اس کی اچھی بری عادتوں کے لئے اس کو روکتی ٹوکتی رہتی جبکہ زین کی طرف سے اس کو مکمل چھوٹ تھی

"تین مہینے رہ گئے اسے 18سال کی ہونے میں، میں کوئی دشمن نہیں ہوں اس کی ماں ہوں کل کو اگلے گھر جائے گی تو کس قسم کے لوگوں سے پالا پڑے، شوہر کس طرح کا ہو، آگے کیا نصیب ہے کیا کہہ سکتے ہیں"
حور نے سنجیدگی سے کہا

"اچھا نصیب ہوگا میری بیٹی کا۔۔۔ جب میں نے کسی کی بیٹی کا دل نہیں دکھایا تو اللہ نے میری بیٹی کے لئے بھی اچھا نصیب لکھا ہوگا اور تم دیکھنا جو میری بیٹی کے نصیب میں ہوگا نہ وہ مجھ سے بھی زیادہ میری بیٹی کو چاہے گا اس لئے بلا وجہ پریشان مت ہوا کرو بس اچھا اچھا سوچا کرو چلو اب میں لیٹ ہو رہا ہوں تمہاری باتوں میں، خیال رکھنا"
زین اٹھتے ہوئے بولا اور باہر نکل گیا

زین بہت اچھا شوہر ثابت ہوا تھا حور کے لیے مگر وہ اس سے بھی کہیں زیادہ گناہ اچھا باپ تھا حیا کے لیے

****

"تم دونوں یہاں بیٹھی ہوئی ہو اور میں تم دونوں کو پورے کالج میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئی ہوں، اوپر سے میری کال بھی پک نہیں کر رہی ہوں کتنی ڈفر ہو تم دونوں"
حیا رجسٹر کینٹین کے ٹیبل پر زور سے رکھ کر ماہی اور فری پر شروع ہو چکی تھی

"خدارا حیا بیٹھ کر سانس بھی لے لیا کرو بس پندرہ منٹ کے بعد ہی کلاس ہے سر اسد کی اس لئے موبائل سائیلنٹ کیا تھا"
فری نہ حیا کو جواب دیا

"ویسے آج ایسی کون سی خاص بات ہوگی کہ مس حیا ہمہیں ڈھونڈ رہی ہیں"
ماہی نے حیرت زدہ ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا

"خاص بات کیا ہونی زرش ملی تھی تھوڑی دیر پہلے اپنی بہن کی شادی کے کارڈ مجھے تھما گئی تم دونوں کے بھی کارڈ مجھے ہی دے دیئے ہیں"
حیا نے چیئر کھسکا کر بیٹھتے ہوئے کہا

"یار دیکھو سب کی شادیاں ہو رہی ہیں پتہ نہیں میرا نمبر کب ائے گا"
ماہی نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا

"سیریسلی ماہی تمہاری زندگی میں اب یہی روگ رہ گیا ہے بس"
حیا نے آنکھیں گول گھماتے ہوئے کہا

"ہاں یار دور کے ڈھول سہانے ہوتے شروع میں تو سب اچھا اچھا دکھتا ہے بعد میں تو روز کی تو تو میں میں اسٹارٹ ہو جاتی ہے"
فری نے منہ بنا کر تبصرہ کیا

"ضروری نہیں ایسا ہو میرے مما بابا تو پرفیکٹ کپل ہیں ان کے بیچ میں نے کبھی بھی تو تو میں میں نہیں دیکھی۔۔۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ میرے بابا جیسا کوئی دوسرا انسان ہو ہی نہیں سکتا ایک اچھے شوہر والی ساری خوبیاں ہیں میرے بابا میں،،، بندے کو ایسے ہی ہونا چاہیے محبت کرنے والا کیئرنگ رحم دل پولائٹ"
حیا نے فخر سے زین کی تعریف کرتے ہوئے کہا

****

"مجھے چھوڑ دو صاحب میں بے قصور ہوں، مجھے کچھ نہیں پتہ"
وہ مسلسل ایک گھنٹے سے ڈنڈے کھانے کے بعد بھی کچھ اپنے منہ سے اگل نہیں رہا تھا

"دیکھ اگر تو نے مجھے بتا دیا، تو شاید تو بچ جائے لیکن یہ جو نیا اے- ایس-پی آیا ہے نا اگر تو اس کے ہتھے چڑھ گیا تو پھر تیری کوئی گارنٹی نہیں۔۔۔چل جلدی بتا کہاں لے کر جا رہا تھا دن دھاڑے زبردستی اس لڑکی کو"
انسپکٹر سعد نے بابر نامی آدمی سے پوچھا جسے تھوڑی دیر پہلے پکڑ کر وہ پولیس اسٹیشن لایا تھا کرسی پر بیٹھا کر رسی سے باندھ کر مسلسل ایک گھنٹے سے ڈنڈے مار کر اب وہ خود بھی تھک گیا تھا مگر اس کا منہ نہیں کھلوا سکا

"سعد بتایا اس نے کچھ"
انسپکٹر سعد نے مڑ کر اپنے پیچھے نئے اے-ایس-پی کو دیکھا جو حوالدار کو ہاتھ کے اشارے سے لاک اپ کھولنے کا کہہ رہا تھا

"نہیں سر جی بہت ڈھیٹ آدمی ایک گھنٹہ ہوگیا اس کی مرمت کرتے ہوئے مگر زبان نہیں کھول رہا ہے"
اسپیکٹر سعد نے سلوٹ کرتے ہوئے اے-ایس-پی کو جواب دیا

"یہ صرف 10 منٹ کا کام تھا جس میں تم نے ایک گھنٹے  ضائع کیا ہے سعد،  خیر کوئی بات نہیں یہ ڈنڈا مجھے دو"

اے-ایس-پی نے آستینوں کے کف اوپر فولڈ کرتے ہوئے ڈنڈا ہاتھ میں تھاما

اب وہ ڈنڈا اپنے ہاتھ پر ہلکے ہلکے بجاتا ہوا اس کرسی کے گرد چکر لگا رہا تھا جس پر بابر کو رسی سے باندھ کر بٹھایا ہوا تھا

"تمہیں پتا ہے بابر یہ پولیس کا ڈنڈا کوئی عام ڈنڈا نہیں ہے۔۔۔ اسے جادوئی ڈنڈا کہتے ہیں یہ صرف مار کھانے کے کام نہیں آتا ہے یہ ایسی ایسی جگہوں پر جاتا ہے کے سچ خود باہر نکل کر آتا ہے"
یہ کہہ کر اے-ایس- پی نے زور دار لات اس کی کرسی پر ماری بابر کرسی سمیت نیچے گر گیا

"اب دیکھو اس جادوئی ڈنڈے کا کمال دکھاتا ہوں"
یہ کہ کر اے-ایس-پی نے بابر کو سر کے بال پکڑ کر ڈنڈا اس کے منہ میں ڈال دیا

"اب بتاؤ کس گروہ سے تعلق ہے تمہارا اور کہاں لے کر جا رہے تھے اس لڑکی کو تم اور تمہارے ساتھی"
بابر کی آنکھوں میں آنسو وہ آنے لگے نفی میں سر ہلانے لگا
شاید آج اس کا دن خراب تھا ایک تو اس کے سارے ساتھی فرار ہو گئے اور وہ پکڑا گیا اور دوسرا وہ اس اے-ایس-پی کے ہتھے لگ گیا جو کہ نیا آیا تھا مگر تھوڑے ہی دن میں جلاد صفت انسان کے نام سے مشہور ہوگیا تھا
بابر نفی میں سر ہلانے لگا جیسے اسے کچھ نہیں پتا اے-ایس-پی نے ڈنڈا مزید اس کے منہ میں گھسایا جس سے بابر کی آنکھیں باہر ابل کر باہر آنے لگیں اور حلق سے عجیب و غریب آوازیں نکلنے لگیں

"شاید تمھیں اس جادوئی ڈنڈے کے اور بھی مظاہرے دیکھنے ہیں چلو ایسا ہی سہی"
یہ کہتے ہوئے اے-ایس-پی نے ڈنڈا اس کے حلق سے نکالا تو بابر بری طرح تڑپ کر چیخنے لگا

"بتاتا ہو سب بتاؤں گا جو جو پتہ ہے وہ سب بتاؤں گا پلیز مجھے چھوڑ دو معاف کر دو"
بابر کا حلق چھل چکا تھا اس کی آواز بہ مشکل منہ سے نکل رہی تھی

"انسپیکٹر سعد اس کا بیان نوٹ کرو"
اے-ایس-پی نے اٹھ کر اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے کہا اور حوالدار کو لاک اپ کھولنے کا اشارہ کیا اور باہر چلا گیا

انسپیکٹر سعد نے گھڑی میں ٹائم دیکھا تو واقعی دس منٹ ہوئے تھے اس نے بابر کا بیان لینا شروع کیا

****

"ارے واہ بھئی  میری بیٹی آئی ہے"
بلال نے حیا کو آتا دیکھ کر خوش ہو کر کہا

"کب آئے آپ اور مجھے بتایا بھی نہیں آنے کا" 
حیا نے بلال کے پاس بیٹھتے ہوئے شکوہ کیا

"بیٹا آج صبح ہی تو پہنچا ہو تم سناو تمہارے بابا مما کیسے ہیں تھوڑی دیر میں آنے ہی والا تھا زین کے پاس، اچھا ہوا تم خود آگئی یہ بتاؤ زین گھر پر ہی ہے نا"
بلال آفس کے کام سے تین دن کے لئے دوسرے شہر گیا ہوا تھا وہ ابھی بھی زین کے ساتھ کام کرتا تھا مگر اب وہ دونوں اچھے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ بزنس پارٹنرز بھی تھے اتنے سالوں میں ان کی دوستی مزید گہری سے گہری ہوتی چلی گئی تھی  اس کا گھر بھی زین کے گھر سے ایک گلی چھوڑ کر ہی پورش ایرے میں تھا

"بابا تو گھر میں ہی موجود ہیں یہ بتائیں فضا آنٹی اور ہادی کہاں ہیں آپ کو پتہ ہے کتنا بدتمیز ہے ہادی، اس نے مجھ سے پرامس کیا تھا کہ مجھے شاپنگ پر لے کر جائے گا مگر اس کو یاد بھی نہیں ہے،، نہ ہی فون اٹھا رہا ہے اس لئے مجھے خود چل کر آنا پڑا"
حیا نے منہ بنا کر ہادی کی شکایت کی

"بھلکڑ ہے ہادی تو ابھی اس کو بلوا کر اس کے کان کھینچتا ہوں تم فکر نہ کرو"
حیا زین کی ہی نہیں بلال اور فضا کی بھی لاڈلی تھی وجہ یہ تھی کہ بلال اور فضا کے دو بیٹے تھے ہادی اور عدیل
ہادی جو کہ چند مہینوں پہلے اسٹیڈیز سے فارغ ہوا تھا۔۔۔۔ زین اور بلال کے ساتھ اس نے افس جانا شروع کر دیا تھا جبکہ عدیل حیا سے بھی دو سال چھوٹا تھا اور کافی پڑھاکو ٹائپ بچہ تھا جو اپنے اسٹیڈیز میں ہی گم رہتا تھا۔۔۔ 

بلال اور فضا کی بیٹی کی خواہش حیا نے پوری کر دی تھی اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس گھر کا بھی ہر ایک فرد حیا کو چاہتا تھا وہ تھی ہی اس قابل کے اس کو چاہا جائے مقابل اگر ایک نظر دیکھ لے تو دوبارہ ضرور پلٹ کر دیکھتا تھا شکل و صورت میں وہ ہو بہو حور کی کاربن کاپی تھی صرف ایک تل کا فرق تھا جو دونوں کو نمایاں رکھتا تھا

"بلال انکل اس بھلکڑ کے کان میں خود ہی کھینچ لیتی ہوں آپ رہنے دیں میں ابھی آئی"
حیا نے اٹھتے ہوئے کہا

"بالکل تم زیادہ اچھی شامت لاوگی مجھے تمہاری صلاحیتوں پر پورا بھروسہ ہے"
فضا نے کمرے میں آ کر مسکراتے ہوئے کہا

"فضا آنٹی کیسی ہیں آپ"
حیا فضا کے گلے لگتے ہوئے بولی

"میں ٹھیک ہوں تم اپنی بتاؤ کہ کہاں تھی اتنے دنوں سے چکر کیوں نہیں لگایا اور حور کیسی ہے"
فضا نے اس کو جوس کا گلاس تھماتے ہوئے پوچھا

مڈ ٹرم کے چکر میں گھن چکر بنی ہوئی تھی آج ہی پیپر ختم ہوئے ہیں اور مما بھی ٹھیک ہیں۔۔۔ یہ تو میں بالکل بھی نہیں پیوں گی ورنہ مجھ سے باہر ڈنر نہیں کیا جائے گا ہادی مجھے ڈنر بھی کروائے گا اور پینلٹی ہے طور پر آئسکریم کی کھلائے گا"
حیا نے جوس کا گلاس واپس رکھتے ہوئے کہا۔۔۔ بلال اور فضا نے مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھا

"جاو اپنے روم میں بیٹھا ہے لیپ ٹاپ پر کچھ کام میں مصروف ہے،، صرف ڈنر اور آئسکریم پر ہی اس کو نہیں بخشنا بلکہ شاپنگ بھی اسی کے پیسوں سے کرنا"
فضا نے حیا کو مشورہ دیا

"وہ تو آپ فکر ہی نہ کریں یہ بھی میرے پلان میں پہلے سے ہی شامل تھا ذرا خبر لے کر آتی ہوں اس ہیرو کی"
حیا نے کہتے ہوئے ہادی کے کمرے کی طرف قدم بڑھائے

"رونق ہے یہ زین کے گھر کی"
بلال نے مسکرا کر فضا سے کہا

"تم فکر نہ کرو اس رونق کو ہم وقت آنے پر اپنے گھر کی رونق بنالیں گے"
فضا نے مسکراتے ہوئے بلال سے کہا

"کیا مطلب"
بلال نے حیرت سے فضا سے کہا

"ایک تو بلال جوانی سے یہ وقت آ گیا تمہیں ہر بات کا مطلب سمجھاتے سمجھاتے"
فضا نے بلال کو دیکھ کر افسوس سے کہا

"میرا کہنے کا مطلب ہے تمہارے دماغ میں یہ بات آئی کیسے مطلب ہمارا ہادی اور حیا"
بلال ابھی بھی فضا کی بات سن کر حیرت میں ڈوبا ہوا تھا

"بلال مسعود تم نے کبھی بھی ہادی کی آنکھوں میں حیا کے لیے پسندیدگی نہیں دیکھی حیرت ہے۔۔۔ ویسے تم سے توقع بھی نہیں رکھ سکتے کسی اچھے کام کی"
فضا نے بلال کو کہا

"فضا اگر ایسی بات ہے یعنی ہادی حیا کو پسند کرتا ہے تو اس سے بڑھ کر میرے لئے کوئی خوشی کی بات ہو ہی نہیں سکتی مگر حیرت ہے مجھے خبر کیوں نہیں ہوئی اس بات کی"
 بلال ابھی بھی خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات میں گم تھا

"تمہیں کب کسی بات کی خبر ہوتی ہے بلال اب میں نے تمہارے لئے مزید تعریفی جملے بولوں گیں تو تمہیں آگ لگ جانی ہے چھوڑو چائے پیو"
فضا نے چائے گا کپ بلال کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا جو اس نے گھور کر فضا کے ہاتھ سے تھام لیا اور فضا اس کو دیکھ کر مسکرا دی

جاری ہے

0 comments:

Post a Comment