Tuesday, June 4, 2019

ek larki pagal si by paraish khan episode 3


ایک لڑکی پاگل سی۔۔۔۔

از آرزو۔۔۔۔پریشے خان۔۔۔۔

پارٹ 3۔۔۔۔۔

Dont copy and paste without my permission......

❤❤❤♡♡♡♡♡♡❤❤❤

بارات روانہ ہو چکی تھی کل پہنچنا تھا اور ایمان کا دل ڈوب رہا تھا ڈر سے برا حال تھا اس کا جب سے بارات کی روانگی کا سنا تھا۔

بارات کے آنے کا ٹائم ہوا ایمان اِسٹورروم میں جاکے چُھپ گئی آمینہ بیگم کب سے اسے ڈھونڈ رہی تھہیں پر وہ کہیں نہیں نظر آئی تو آروما سے کہا ایمان آپی کہا ہے آروما نے بھی کہا مما پتا نہیں بارات دروازے پہ ہے اور اس لڑکی کا کچھ پتا نہیں کیا کروں میں اس لڑکی کا۔۔
بارات آگئی تھی سب کا بہت اچھا استقبال ہوا تھا آمینہ بیگم مسلسل ایمان کو ڈھونڈ رہی تھیں لیکن وہ کیسی کو نہیں مل رہی تھی امان کی نظرین بھی ایمان کو ڈھونڈنے میں لگی تھیں۔
یہ کہا چُھپی ہے۔
امان یہاں وہان دیکھنے لگا۔۔
بیٹا کچھ چاہئے رشید چچا کی آواز پر چونکا۔
نہیں چاچو۔
ہان وہ پانی چاہیے۔
تم روکو میں بجھوتا ہوں۔
کیا بات کر رہے ہیں چچا اپنا گھر ہے خود
لے لوں گا۔
رشید صاحب نے خوش ہو کے کہا ٹھیک ہے بیٹا۔
اور انتظام دیکھنے چلے گئے۔
امان نے ہر جگہ دیکھا ایمان کہیں نہیں نظر آئی۔
امان نے سوچا آخر ایمان گئی کہاں۔
یہ تو اُسے پتا تھا اس سے چُھپی ہے لیکن کہاں؟
امان سوچتے سوچتے اسٹورروم تک پہنچا۔
ایمان اندر کونے میں بیٹھی تھی۔
امان کی ایمان کو ایسے بیٹھا دیکھ کے ہنسی نکل گئی۔
تو تم یہاں چُھپی ہو۔
ایمان نے جیسے امان کو دیکھا وہ بری طرح ڈر گئی جس سے چُھپ کے بیٹھی تھی۔
اس نے ڈھونڈ لیا تھا۔
اور اب وہ یہاں اکیلی تھی۔
امان کے ساتھ۔
ایمان نے جیسے امان کو دیکھا وہ بھاگنے لگی۔
امان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا کہاں جا رہی ہو۔
اتنی مشکل سے ہاتھ آئی ہو۔
اور ایسے بھاگ رہی ہو۔
ویسے ملاقات کے لیے اچھی جگہ چُنی ہے۔
امان نے شرارت سے کہا لیکن ایمان کی جان نکل ہی تھی۔
امان کو دیکھ کے۔
امان مجھے جانے دو ایمان رونے لگی۔
تم نے کیا رونے کا ٹھیکا لیا ہے۔
ہر وقت روتی ہو۔
چپ ایک دم۔
اور ایمان نے ایک دم منہ پہ ہاتھ رکھ لیا۔
گڈ اچھا بتاؤ چھپتی کیون ہو مجھ سے۔
آمی۔
ایمان زور زور سے رونی لگی۔
اور امی کا نام لینے لگی۔
امان نے ایک دم ایمان کے منہ پہ ہاتھ رکھا۔
یہ کیا پاگل پن ہے رشید چچا کو نہیں جانتی کیا تم جو میرے ساتھ یہاں سےپکڑوانے کے پروگرام بنا رہی ہو؟
میرا کچھ نہیں مسئلہ تمہیں ہی ہونا ہے۔
اور ایمان امان کی بات سن کے چپ ہو گئی۔
گڈ گرل۔
اب کام کی بات کریں۔
ک۔۔کیسی بات ایمان نے ڈرتے پوچھا۔
تہماری اور میری شادی کی۔
میں تم سے کبھی شادی نہیں کرونگی۔
ایمان نے فوراً جواب دیا۔
ھاھاھا۔۔
اچھا اور تمہیں یہ لگ بھی رہاہوگا کے میں تمہاری چلنے دونگا۔
تو اس غلط فہمی کو اپنی دل سے نکال دو میں شرافت سے کہ رہا ہون تو تم بھی شرافت کا مظاہرا کرو۔
مجھے نہیں کرنی تم سے شادی جانے دو مجھے۔
ایمان نے امان کی بات کاٹتے ہوے کہا۔
ایمان۔
امان نے غصے سے کہا ایمان بری طرح کانپ گئی۔
اچھا سوری ڈرو مت اِدھر آؤ میرے پاس۔
امان نے ایمان کو پاس کرنا چاہا پر وہ اُسے دور کرنے لگی۔
امان نے دبردستی ایمان کو گلے لگا لیا۔
ایمان تم میری جان میری ذندگی میراسب کچھ ہو۔
پلیز پچھلی باتیں بھول جاؤ۔
بہت پیار کرتا ہون میں تم سے۔
ایمان کو امان کی قربت سے نفرت ہو رہی تھی۔
وہ مسلسل خود کو چھوڑا رہی تھی جب یی باہر کسی کی آواز سنائی دی تو امان نے ایمان کو چھوڑ دیا اور وہ بھاگ گئی۔۔

💖💖

ایمان روشنی کے پاس گئی اسے سب بتایا اور رونے لگی۔
آپی میں کیا کروں؟
روشنی بھی پریشان ہو گئی۔
کل اس کی مہندی تھی۔
اور وہ کچھ کر بھی نہیں پا رہی تھی۔
اچھا ایمان رو مت دیکھو تم کہیں اکیلی مت جانا سب کے سامنے وہ تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔
ٹھیک ہے؟
روشنی نے ایمان کو تسلی دی۔
جی آپی۔
ایمان تمہیں آنٹی بولا رہی ہیں۔
میں آتی ہوں۔
ایمان مما کے پاس گئی تو مما نے اسے ڈانٹا۔
ایمان کہاں تھیں تم میں کب سے ڈھونڈ رہی ہوں۔
تمہاری بہن کی شادی ہے۔
سب کام تمہیں میرے ساتھ مل کے کرنا ہے اور تم پتا نہیں کہاں چھپ جاتی ہو۔
آمینہ بیگم اپنی دُھن میں کہے جا رہی تھی۔
جب اُنہون نے ایمان کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
آمینہ بیگم کے دل کو ایک دم سے کچھ ہوا۔
اُنہوں نے ایمان کو گلے لگایا اور پوچھا کیا ہوا ہے ایمان تم ڈری کیوں ہو؟
کسی نے کچھ کہا ہے؟
ماں کے گلے لگاتے ایمان رونے لگی اور کہنے لگی مما مجھے چُھپا لیں کہیں میں ایسے مر جاؤنگی۔
مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔
ایمان کیا ہوا ہے میری جان کس بات سے تمہیں ڈر لگتا ہے آخر بتاؤ مجھے ہوا کیا تھا اس رات؟
اور جب مما نے اُس رات کا ذکر کیا ایمان ایک دم سیدھی ہوئی۔
نہیں مما کچھ نہیں۔
یہ کہ کے ایمان بھاگ گئی۔
اور آمینہ بیگم پھر سوچ میں پڑ گیں انہیں ایمان کی بہت فکر رہتی تھی۔
اور اس دن کے بعد تو وہ اور بھی پریشان ہو گئی تھی۔
ایمان کے لیے۔
لیکن ایمان انہیں کچھ بتا نہیں رہی تھی وہ جانتی تھی بات کچھ بڑی ہے ورنہ ایمان کی ایسی حالت نہ ہوتی۔

آمینہ بیگم نے ایمان کو روشنی کے ساتھ اس کے کمرے میں بیٹھا دیا وہ جانتی تھیں ایمان ڈر رہی ہے کیسی چیز سے اور یہی حل تھا وہ روشنی کے ساتھ رہتی ایمان کو بخار ہو گیا تھا وہ ماں تھیں اتنا جان گیں تھیں وہ اس شادی میں کیسی سے ڈر رہی تھی پر کس سے اور کیوں؟
اس لیے انہوں نے ایمان کو سب سے دور روشنی کے پاس بیٹھا دیا۔

آج روشنی کی مہندی تھی اور آمینہ بیگم اور آروما کام میں لگیں تھیں امان ایمان کو ڈھونڈتا رہا پر وہ نہیں ملی۔
یہ ایمان تو کل سے غایب ہو گئی ہے۔
امان سوچنے لگا۔
چچی ایمان کہاں ہے امان نے آمینہ بیگم سے پوچھا۔
پتا نہیں بیٹا ہوگی یہیں کہیں کیوں کوئی کام تھا۔
آمینہ بیگم اب کسی کو ایمان کا نہیں بتا رہیں تھیں کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھیں کسی کی بھی وجہ سے ان کی بیٹی کو تکلیف ہو۔
آمینہ بیگم کے جواب پہ امان کو حیرت ہوئی پر کچھ کہا نہیں۔
چچی بس ویسے دیکھا نہیں تو پوچھ لیا۔
تو اب ماں تمہیں سپورٹ کر رہی ہے پر ڈونٹ وری اس کا حل بھی ہے میرے پاس امان نے سوچا۔
اور وہ سیدھا اپنے بابا کے پاس گیا۔
بابا آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔
امان نے سریس ہوتے کہا۔
ہاں بیٹا بولو۔
آپ آئیں۔
امان انہیں الگ روم میں لے گیا۔
بابا آج تک میں نے آپ سے جو مانگا آپ نے مجھے دیا۔
ہاں بیٹا پر اس بات کا ابھی کیا ذکر۔
بابا مجھے ایمان چاہیے امان نے فوراً بول دیا۔
بابا پہلے اسے دیکھتی رہے پھر کہا بس اتنی بات؟
امان نے کہا جی بابا۔
ٹھیک ہے میں رشید سے کرتا ہوں بات۔
آج ہی کریں بابا اور شادی کا بھی کہیں روشنی کے ساتھ کردیں۔
امان نے سارے فیصلے کر ڈالے۔
بیٹا یہ بہت جلدی ہوگا میں بات کرونگا رسم کرلیں ابھی شادی کچھ ٹائم میں۔
ٹھیک ہے بابا امان کہ کے باہر چلا گیا۔

امان کے بابا نے جب رشید صاحب نے بات کی تو وہ بہت خوش ہوئے سارے خاندان میں ایسا رشتہ کہیں نہیں تھا انہوں نے فوراً ہاں کردی اور کہا روشنی کی شادی کے بعد ایمان کی شادی کرینگی ابھی ایمان اتنی سمجھدار نہیں انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔

رشید صاحب نے ایمان کے رشتے کی بات جا کے آمینہ بیگم سے کی تو انہیں پہلے حیرت ہوئی پھر انہوں نے کہا۔
میں ایمان کی شادی اتنی جلدی نہیں کرونگی اور ان دنوں اس کی طبیعت ویسے بہت خراب ہے۔
میں اس پہ کوئی اسٹریس نہیں ڈالنا چاہتی۔
اس بات پہ رشید صاحب بگڑ گئے۔
میری زبان کے کوئی اھمیت نہیں ہے میں نے ہاں کردی ہے اور میرا فیصلا اٹل ہے جا کے کہ دو ایمان کو تیاری کری روشنی کی شادی کے بعد اس کی انگیجمیٹ ہوگی امان کے ساتھ اور اب میں کوئی بحث نہ سُنوں۔
آمینہ بیگم چپ کر کے وہان سے چلی گئیں۔
لیکن وہ ابھی ایمان کو کچھ نہیں بتانا چاہتی تھیں۔

مہندی کا فنکشن شروع تھا ایمان کو بخار تھا پر مما کہ کہنے پہ وہ تھوڑا تیار ہو گئی تھی اور بہت خوبصورت لگ رگی تھی۔
فنکشن اوپر چھت پہ تھا اور ایمان اب تک نیچی تھی روشنی کے ساتھ پھر آمینہ بیگم آئیں ایمان سے کہا آؤ بیٹا اوپر چلیں برا لگتا ہے بہن کا فنکشن ہے سب باتیں کریں گے میں کچھ دیر میں تمہیں یہاں چھوڑ جاؤنگی۔
ٹھیک ہے مما ایمان ان کے ساتھ چل دی۔

ایمان بہت پیاری لگ رہی تھی۔
وہ جیسے اوپر گئی سب اسے دیکھنے لگے امان بھی اسے دیکھے جا رہا تھا۔
ایمان کی نظر جب امان پہ پڑی تو اس کی ہاتھ کی گرفت مما کے ہاتھ پہ سخت ہو گئی۔
اور مما نے دیکھا کے وہ امان کو دیکھ کے ڈر رہی تھی۔
وہ ایمان کے آگے آگیں تا کے امان اسے نہ دیکھ پائے۔
اور پھر پورےفنکشن میں آمینہ بیگم ایمان کے ساتھ رہیں امان کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا۔
ایمان کب تک چھپوگی مجھ سے آخر سمجھتی کیوں نہیں بہت پیار کرتا ہوں تم سے نہیں رہا جاتا تمہارے بغیر اور اب تمہاری مما مجھے بہت پریشان کر رہی ہیں ایک منٹ تمیہں اکیلا نہیں چھوڑا۔
امان کو سوچ سوچ کے غصہ آرہا تھا۔

❤❤❤

آج شادی تھی روشنی کی اور وہ پارلر گئی ہوئی تھی ایمان کو آمینہ بیگم نے اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا کہیں اکیلا نہیں چھوڑ رہی تھیں اور ایمان بھی اس بات سے ریلکس تھی۔
وہاں امان کا غصے سے برا حال تھا اسے ایک موقع نہیں ملا تھا ایمان سے بات کرنے کا۔
پوری شادی میں امان کی نظرین ایمان پر تھیں اور جب ایمان دیکھتی تو مما کے پیچھی چھپ جاتی اور مما یہ سب نوٹ کر رہیں تھی جس بات کا علم نا ایمان کو تھا نا امان کو۔

❤❤

رخصتی کے وقت آمینہ بیگم رو رہی تھی۔
ایمان بھی رو رہی تھی۔
اس وقت ان کا دِھیان ایمان کی طرف نہیں روشنی کی طرف تھا۔
جو بری طرح روئے جا رہی تھی۔
اسی وقت کی تلاش امان کو بھی تھی۔
ایمان رو رہی تھی جب کسی نے اس کا یاتھ پکڑ کے منہ پے ہاتھ رکھ کے اسے سائیڈ میں لے گیا۔
ایمان آنکھیں پھاڑی دیکھ رہی تھی
اندھیرے کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آیا۔
پر جیسے امان کا چہرا قریب آیا وہ چیخنے لگی تھی کے امان کا ہاتھ اس کے منہ پہ تھا۔
چپ کر کے ٹہری رہو ایمان ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔

ایمان ایک دم سہم گئی اور خوف زدہ آنکھوں سے امان کو دیکھنے لگی۔
امان نے ایمان کا چہرا ہاتھ میں لیا تو اس نے جھٹک دیا پر امان نے دوبارہ پکڑ لیا۔
بہت خوبصورت لگ رہی ہو دل تو کرتا ہے تمھیں ابھی لے جاؤ۔ایمان رو رہی تھی۔
امان نے ایمان کے آنسو صاف کئے۔
یار کتنا روتی ہو تم۔
دیکھو ذرا اپنی حالت بخار ہے تمہیں پھر بھی روئی جا رہی ہو۔جانے دو پلیز مجھے ایمان بس یہی کہ پائی۔
کیوں؟
پاگل دیکھائی دیتا ہوں؟
اتنی مشکل سے ہاتھ آئی ہو اور جانے دونگا ایک توآج کل آمینہ چچی کو پتا نہیں کیا ہوا ہے تمھاری گارڈ بنی ہوئی ہیں۔
امان مجھے چھوڑ دو۔
ایمان نے پھر ایک بار لاچاری سے کہا۔
ایک شرت پہ۔
امان نے ایمان کے ہاتھ دیوار سے لگائے۔
ک۔۔کیا شرط؟
ایمان پریشان ہوئی۔
تمہیں تمہارے یہ پیارے ہونٹ میرے گال پہ رکھنے ہوں گے۔ایمان کی آنکھیں پھٹ گیں
ک۔۔کبھی نہیں کرونگی میں ایسا۔
ایمان نے چہرا دوسری سائیڈ کیا۔
جو امان نے اسے وقت اپنی طرف کرتے ہوئے کہا ٹھیک ہے پھر میں کرونگا۔
اور میری تو گارنٹی بھی نہیں ہے کے گال سے کہاں چلا جاؤں؟
امان نے شرارت سے کہا اور ایمان کے اور قریب آگیا۔
چھوڑو امان مجھے جانے دو ایمان تڑپنے لگی۔
امان اس کے قریب آیا اور اپنے ہونٹ ایمان کے گال پہ رکھ دیے ایمان کی سانس رک گئی۔
اس نے ٹرپ کے امان کو دھکا دیا اور رونے لگی امان ہنسنے لگا۔
اچھا رو مت اب جانے دیتا ہوں پر ایک بار گلے مل لوں اور پھر امان نے ایمان کو گلے لگایا اور کہا آء لو یو سو مچ۔
تم جانتی نہیں ایمان تم میری زندگی ہو۔
امان پوری شدت کے ساتھ کہ رہاتھا جبکہ ایمان بس وہان سے جانا چاہتی تھی۔
اور امان نے اسے جانے دیا۔

❤❤

آمینہ بیگم نے جب ایمان کو غایب دیکھا تو پریشان ہو کے اسے ڈھونڈنے لگی۔
جب ایمان انہیں روتی ہوئی آتی دیکھائی دی۔
آمینہ بیگم ایک دم اس کی طرف لپکیں۔
ایمان کیا ہوا ہے تمہیں کسی نے کچھ کہا ہے؟
اور ایمان ان کے گلے لگ گئی ایمان امان نے تمیہں کچھ کہا ہے؟
امان کے نام پے ایمان ایک دم سیدھی ہو گئی اور مما کو دیکھنے لگی وہ ماں تھیں سمجھ گیں کے مسئلہ امان کا ہی ہے وہ چپ ہوگیں اور ایمان کو چپ کروا کے اندر لے گیں روشنی کی رخصتی کروا کے ذرینہ چچی کے گھر لے گئے تھے کیونکہ رات کے وقت بارات نہیں روانہ ہو سکتی تھی۔
اور ارسلان صاحب نے سب کو روکا تھا کے امان کی انگیجمینٹ کے بعد سب جائیں گے۔

❤❤

آمینہ بیگم نے پھر سے رشید صاحب سے بات کی ایمان کے رشتے کے بارے میں لیکن وہ نہیں مانے انہون نے کل کی ڈیٹ رکھ دی انگیجمینٹ کی۔
ایمان اس بات سے بے خبر تھی اور آمینہ بیگم پریشان تھیں کے یے بات اسے کیسے بتائیں گی۔
جب رشید صاحب کی آواز ان کے کانوں میں گونجی۔
سنیں آپنے ایمان کو بتا دیا ہے؟
آمینہ بیگم نے نفی میں سر ہلایا۔
کیا کرتی ہیں آپ بیگم کل اس کی منگنی ہے اور اسے یی نہیں پتا۔
بلائیں اسے۔
نہیں میں بتا دونگی خود۔
آمینہ بیگم نے فوراً کہا۔
آپ نے بتانا ہوتا اب تک آپ بتا دیتیں۔
اب بلائیں اسے یا میں خود جاؤ اس کے روم میں۔
میں بلاتی ہوں یہ کہ کے آمینہ بیگم ایمان کے روم میں اسے بلانے گیں اور اسے اپنے ساتھ لے کے آئیں اور وہ نہ سمجھی کی کیفیت میں اپنے مما بابا کو دیکھ رہی تھی۔
رشید صاحب نے ایمان کو ساتھ بیٹھنے کا کہا وہ اپنی مما کو دیکھ رہی تھی۔
جو اس وقت خود بہت پریشان تھیں۔
ایمان میں نے تمہارا رشتہ تے کردیا ہے۔
یہ سن کے ایمان کے ہوش اڑ گئے۔
آنکھون میں آنسو آگئے پر اپنے بابا کے سامنے کچھ کہ نہیں پائی۔
بس بے بسی سے اپنی مما کو دیکھ رہی تھی۔
جو خود بے بس تھیں۔
لڑکا بہت اچھا ہے تمہیں بہت خوش رکھے گا۔
رشید صاحب کی آواز پر ایمان کا سختہ ٹوٹا بابامیں۔
ابھی اس نے یہی کہا تھا کے رشید صاحب پہلے بول اُٹھے۔۔خبردار ایمان کوئی فضول بات کی ہے شادی نہ کرنے کی۔
میں بردشت نہیں کرونگا اتنا اچھا رشتہ گوانا۔
پتا نہیں کیسے ارسلان بھائی نے امان کے لیے تمہارا رشتہ مانگا میری تو اس وقت خوشی سے حالت ہو گئی۔
جس کے لیے پورا خاندان آس لگائے بیٹھا تھا۔
وہ خود ہمارے پاس آئے رشید صاحب بولے جا رے تھیں اور ایمان نے امان کا نام سن کے صدمے کی حالت میں ماں کو دیکھ رہی تھی۔
مما بابا کیا کہ رہے ہیں؟
ایمان نے بے بسی سی مما سے پوچھا۔
مما میں کبھی امان سے شادی نہیں کرونگی پلیز بابا سے کہیں نہ آپ ماں کو چپ دیکھ کے ایمان بابا کی طرف لپکی۔
بابا میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں پلیز مجھے امان سے شادی نہیں کرنی۔
پلیز بابا ایمان بابا کےآگے ہاتھ جوڑے کھڑی رو رہی تھی۔
ایمان جاؤ یہاں سے میں اپنی زبان سے نہیں مکرتا۔
جا کے تیاری کرو۔
مما پلیز بابا سے کہیں مجھے اپنے ہاتھوں سے مار دیں پر امان سے شادی نہ کریں۔
ایمان بہت رو رہی تھی رشید صاحب کے دل کو کچھ ہوا۔
پر وہ جانتے تھی ارسلان بھائی کو ہاں کر کے منع کرنا بہت مہنگا پڑ جائیگا۔
اس لیے انہوں نے ایمان کو کہا جاؤ اپنے کمرے میں اور کل تیار رہنا انگیجمینٹ کے لیے اب کوئی بحث نہ سُنوں میں۔
بابا۔۔
ایمان تڑپ کے رہ گئی اور وہیں بے ہوش ہو کے گر گئی۔
ایمان رشید صاحب اور آمینہ بیگم دونوں اس کی طرف لپکے۔۔

ڈاکٹر کیا ہوا ہے ایمان کو رشید صاحب نے ڈاکٹر سے پوچھا۔اِنہیں کس بات کا اتنا اسٹریس ہے؟
ڈاکٹر کے سوال پہ رشید صاحب چپ ہو گئے۔
جس پہ ڈاکٹر نے انہیں کہا دیکھیں انہیں ہر اسٹریس سے دور رکھیں۔
یہ کہ کےڈاکٹر چلے گئے اور رشید صاحب سوچ میں پڑ گئے کے ارسلان بھائی کو کیسے منع کرینگے۔
ایمان دوائوں کے ذیرے اثر سو رہی تھی آمینہ بیگم اس کہ پاس بیٹھیں تھیں۔

رشید صاحب ارسلان صاحب کے پاس گئے وہ اِس وقت ہوٹل میں تھے۔
امان بھی ان کے ساتھ تھا۔
اور باقی ساری بارات ذرینہ بیگم کے گھر تھی۔
کل تک بارات کو وہیں رکنا تھا۔
کیونکہ امان اور ایمان کی منگنی کی بات چل رہی تھی۔
بھائی صاحب مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔
رشید صاحب کی نظریں نیچے کرتے کہا۔
اس سے پہلے وہ کچھ کہتے ارسلان صاحب نے کہا۔
رشید ایسا کچھ مت کہنا کے مجھے اپنا لہجہ سخت کرنا پڑے ایمان میرے بیٹے کی خوشی ہے اور میں اپنے بیٹے کی کبھی کوئی خواہش ادھوری نہیں رہنے دیتا میں تم سے اس بات کا وعدہ کرتاہوں ایمان کو بیٹی بنا کے رکھوں گا اب تم کہو کیا کہنے آئے ہو۔
رشید صاحب بہت پریشان ہو گئے۔
بھائی صاحب اصل میں ایمان کی طبیعت بہت خراب ہے وہ بے ہوش ہے۔
اور جب تک وہ ٹھیک نہیں ہوتی ہم منگنی کی بات روک سکتے ہین سب آپس میں ہے۔
امان بھی ساری بات سُن رہا تھا۔
اور وہ جو اتنا خوش تھا ساری خوشی دھری کی دھری رہ گئی تھی۔
وہ غصے سے اٹھ کےچلا گیا۔
ارسلان صاحب امان کے لیے پریشان ہوئے پر اگر ایمان بے ہوش تھی تو منگنی ہو نہیں سکتی تھی اس لیے چپ ہو گئے۔۔۔کیونکہ امان کی فرمائش تھی کے وہ ایمان کو سب کے سامنے رِنگ پہنائے۔
اب وہ خالی رسم نہیں کر سکتے تھے اس لیے اتنا کہا ایمان ٹھیک ہو تو بتائیں ہم آجائیں گے پھر رسم کرینگے۔
اور رشید صاحب جی کہ کے چلے گئے۔

بارات کو جانے کا کہ دیا ارسلان صاحب نے۔
یہ کہ کے ایمان کی طبیعت کی وجہ سے کچھ وقت کہ لیے ملتوی کر دی گئی ہے منگنی کی تقریب۔
اور بارات بھی روانا ہوگئی۔
امان کا غصے سے برا حال تھا۔
اسے پتا تھا ایمان کی طبیعت کیوں خرا ب ہے۔
ارسلان صاحب امان کے پاس آئے اور کہا بیٹا ہم بھی چلیں میں ڈرائیور کو کال کردوں۔
نہیں بابا امان فوراً بولا آپ جائیں میں ابھی نہیں جاؤنگا۔
بیٹا ایمان ٹھیک ہو جائے ہم آئیں گے پھر کیوں پریشان ہو رہے ہو میرا وعدہ ہے ایمان کی شادی تم سے ہی ہوگی۔
بابا ایمان کی شادی مجھ سے ہی ہوگی لیکن یہ لوگ شرافت سے نہیں مانیں گے۔
غلط بات ہے بیٹا رشید نے مجھے ہان کہ دی ہے اور ہمہارے پاس ہان کے بعد نہ نہیں ہوتی۔
اس لیے تم فکر مت کرو۔
بابا آپ نہیں جانتے بچوں کے لیے انسان نہ بھی کرتا ہے جیسے آپ میرے لیے سب کر سکتے ہیں اس کے ماما بابا بھی کریں گے۔
ارسلان صاحب سمجھ گئے تھے لیکن وہ چپ اس لیے تھے کے ایمان ٹھیک ہو جائے پھر بات کریں گے۔
بابا آپ اور مما جائیں میں کچھ دن تک آونگا پر کسی کو پتا نہ ہو کے میں یہاں ہوں۔
آپ سب سے یہی کہنا میں آپ کے ساتھ جا رہا ہوں۔
کیوں بیٹا کیا کرنے کا اِرادہ رکھتے ہو آپ؟
کچھ نہیں بابا آپ بس وہی کریں جو کہا ہے اور ارسلان صاحب کی بیٹے کے آگے بلکل نہیں چلتی تھی اس لیے ٹھیک ہے کہ کے چلے گئے امان کی مما کے ساتھ۔

امان کو یہاں ایک ہفتہ ہو گیا تھا وہ اسی انتظار میں تھا ایمان باہر نکلے۔
ایمان اب ٹھیک تھی اور خوش بھی کے اس کے بابا نے اس کی بات مان لی تھی اور وہ واپس دبئی چلے گئے تھے اور یہاں سب کو یہی پتا تھا امان چلا گیا ہے واپس۔
ایمان خوش تھی اور اسے دیکھ کے اس کی مما بھی خوش تھیں۔۔۔
❤❤

ایمان آپی آپکی کال آرہی ہے۔
آروما نے ایمان کا موبائل لا کے ایمان کو دیا۔
سونیہ کی کال تھی۔
سونیہ ایمان سے لڑنے لگی کے وہ اسے ملتی نہیں آج رات سونیہ کی انگیجمینٹ تھی اور وہ ایمان کو بلا رہی تھی ایمان کی اسے اچھی دوستی تھی اس لیے وہ منع نہیں کر پائی۔۔

ایمان تیار ہو رہی تھی اس کی مما اسے پیار سے دیکھ رہی تھیں انہون نے آروما کو کہا ساتھ جانے کا وہ سو گئی اور وہ اسے اکیلے چھور کے نہیں جا سکتی تھیں اس لیے انہیں اب فکر تھی کے ایمان اکیلی کیسے جائی گی جب ایمان نے کہا مما پریشان مت یوں میں چلی جاؤنگی پچھلی گلی میں تو ہے گھر۔
بیٹا خیال سے جانا۔
جی۔
مما کہ کے ایمان گھر سے نکل گئی۔

ایمان اپنی دپھن میں جا رہی تھی جب کسی نے پیچھے سے اس کے منہ پہ رومال رکھا اور اس کے بعد وہ ہوش کی دنیا سے بیگانہ ہو گئی۔
امان جو کتنے وقت سے موقع کی تلاش میں تھا وہ موقع اسے آج ملا تھا۔
اور اس نے ایمان کو غایب کردیا تھا۔
امان نے وہاں ایک فارم ہاوس لے لیا تھا وہ ایمان کو وہیں لے گیا۔
ایمان بے ہوش تھی امان نے احتیاط سے ایمان کو بیڈ پہ لیٹایا اور خود باہر چلا گیا ڈور لاک کر کے۔

ایمان 8 بجے گئی تھی اب رات کا ایک بج رہا تھا۔
وہ اب تک گھر نہیں آئی تھی۔
آمینہ بیگم کو فکر ہونے لگی چلو دوست ہے پر اتنی دیر نہیں کرنی چاہے ہے بھی اکیلی۔
انہوں نے کہا تھا ایمان سے کے واپسی میں سونیہ کی امی سے کہنا تمیں گلی پار کروا دیں۔
اس نے کہا تھا ٹھیک ہے۔
اور اب تک وہ نہیں آئی تھی اس کا فون بھی نہیں لگ رہا تھا آخر انہون نے سونیہ کی مما کو کال کی اور ان کا جواب سن کے تو آمینہ بیگم کے ہوش اُڑ گئے کے ایمان منگنی میں آئی ہی نہیں۔
ان کے ہاتھ سے فون چھوٹ گیا۔
وہ خود کو کوسنے لگیں کے انہیں ایمان کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔
اور وہ رونے لگیں۔
لیکن کس سے بات کرتیں کس سے مدد ما گتیں۔
انہیں پتا تھا ایمان کو غایب کرنے میں امان کا ہی گاتھ ہوگا انہون نے سیدھا امان کو کال کی۔
آمینہ بیگم کی کال دیکھ کے امان کے چھرے پہ خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
ہیلو۔
ساسو ماں اس وقت کیسے یاد کیا۔
امان ایمان کہاں ہے۔
کون ایمان امان نے ایکٹنگ کی۔
اووو اچھا آپکی بیٹی میری ہونے والی بیوی۔
وہ مجھے کیا پتا میں ملتان ہوں پر جلد آونگا لینے اسے۔
امان کی بات پہ آمینہ بیگم حیران رہ گیں کے اگر ایمان امان کے پاس نہیں تو کہاں ہے پھر۔

ایمان کو ہوش آیا تو اس نے خود کو ایک کمرے میں پایا جہاں لائٹ کے نام پے ایک ذیرو کا بلب جل رہا تھا۔
اسے پہلے تو کچھ سمجھ نہیں آیا پھر جب مکمل ہوش آیا تو اُٹھ کے دروازے کی طرف بھاگی اور زور زور سے بجانے لگی۔کھولو کون ہے نکالو مجھے یہاں سے۔
مجھے گھر جانا ہے۔
وہ کتنی دیر ایسے بجا تی رہی۔
بجاتے بجاتے اس کی ہاتھوں میں درد پڑ گیا اور امان جو ساتھ والے کمرے میں سو رہا تھا دروازہ کھول کے اندر آیا۔
ایمان تمہیں سکون نہیں ہے رات کے 4 بجے لوگوں کو اُٹھا تی ہو۔
امان کو دیکھ کے ایمان کانپ گئی۔
اور ایک دم پیچھے ہوکے کھڑی ہو گئی۔
اب پلیز رونا مت صبح بات کریں گے۔
ابھی مجھے نیند آرہی ہے۔
اور تمھارے لیے یہ بہت بہتر ہوگا کے تم میری نیند نہ خراب کرو۔
امان یہ کہ کے واپس سونے چلا گیا اور ایمان وہیں دروزے کے پاس بیٹھ گئی۔

💖💖💖

امان جب صبح اُٹھا تو اسے یاد،آیا وہ کل ایمان کو لے آیا تھا اور یہ احساس اسے خوشی دے رہا تھا کے وہ اب ایمان کو پا لیگا ایمان اب اس کی ہوگی۔
اور وہ اُٹھ کے ایمان کے روم کی طرف گیا۔
جیسے دروازہ کھولا ایمان دروازے سے ٹیک لگئے سوئی ہوئی تھی۔
امان وہیں نیچے بیٹھ کے ایمان کو دیکھنے لگا۔
کتنا مس کیا تمہیں۔
تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے یہ امان تمہارے لیے پاگل ہوتا جا رہا ہے۔
امان نے ایمان کے چہرے پہ آئے بالوں کو ہٹایا تو ایمان اُٹھ گئی اور امان کو خود کے اتنے پاس دیکھ کے ایک دم سمٹ کے بیٹھ گئی۔
امان اسے دیکھ رہا تھا ایمان بہت ڈری ہوئی تھی۔
ایمان۔
امان نہ پُکارا۔
ایمان نے اسے نہیں دیکھا بس ڈر سے نظریں نیچے کیے بیٹھی تھی۔
ایمان۔
امان نے ایک بار پھر پُکارا۔
اور اس کا چہرا اوپر کرنے لگا تو ایمان نے ہاتھ جھٹک دیا۔
مجھے گھر جانا ہے ایمان نے کانپتی آواز میں کہا۔
نہیں جا سکتی۔
امان نہ دلچسپی سے ایمان کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
ایمان نے تڑپ کے امان کو دیکھا۔
آ۔آپ کیون لائے ہو مجھے یہاں۔
ایمان نے کہا۔
تمہیں سچ میں نہیں پتا کے میں تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں
امان نے حیرت سے ایمان کو دیکھا۔
مجھے کچھ نہیں پتا بس مجھے جانے دیں پلیز۔
ایمان دیکھو میں وہی ہوں۔
جس سے تمہیں محبت ہوئی تھی۔
پلیز دیکھو میں معافی مانگتا میں غلط تھا پلیز مجھے اب معاف کردو۔
میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔
مجھے اس بات کا احساس تھوڑا دیر سے ہوا۔
ورنہ کبھی میں تمھارے ساتھ وہ سب نہیں کرتا۔iam very sorrryyy
یار پلیز مجھے معاف کردو۔
ایمان امان کی ساری باتیں سن کے چُپ رہی اسے امان پہ اب بھروسہ نہیں رہا تھا۔
کیونکہ معافی وہ پہلے بھی مانگ چُکا تھا۔
اور اس کے بعد جو اس نہ کیا اس کا آج بھی ایمان سوچ کے کانپ جاتی ہے تو وہ اب کیسے امان کو معاف کر سکتی تھی۔
امان کے اتنا سب کہنے کے بعد ایمان نہ بس اتنا کہا مجھے گھر جانا ہے۔
امان کو غصہ آگیا۔
نہیں جانے دیتا کرلو اب جو کرنا ہے یہ کہ کے امان باہر چلا گیا دروازہ لوک کر کے۔

💖💖

آمینہ بیگم کا رو رو کے برا حال تھا انہوں نے رشید صاحب کو بھی بتا دیا تھا وی بھی روانہ ہو گئے تھا ایمان کل رات سے غایب تھی اور آمینہ بیگم کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔

❤❤

امان واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی۔
جس میں وہ اپنا اور ایمان کا ناشتا لایا تھا۔
ایمان اب تک وہیں بیٹھی تھی۔
امان نے ناشتا ٹیبل پہ رکھا اور ایمان کے پاس آیا۔
ایمان اُٹھو آؤ ناشتا کرو۔
ایمان نے کوئی جواب نہیں دیا۔
امان نہ غصہ سے کہا۔
ایمان تمہیں سنائی نہیں دیا کیا بکواس کی ہے میں نے؟
اور خبردار جو مجھ سے کوئی فضول بحث کرنے کا سوچا بھی ہے تو۔
شرافت سے چل کے ناشتہ کرو ورنہ تم جانتی ہو تمہارے ساتھ دبردستی کرنے میں مجھے ایک منٹ بھی نہیں لگے گا۔
اور یہ سب سن کے ایمان اپنی جگہ سہم گئی۔
ایمان؟
امان نہ غصے میں کہا تو ایمان ایک دم اٹھ گئی۔
مممجھے بھوک نہیں ہے۔
امان کا پارہ چڑھ گیا۔
امان جیسے ایمان کے پاس آنے لگا ایمان فوراً بولی نہیں میں کھاتی ہوں۔
اور امان کو ہنسی آنے لگی پر اس نے ظاہر نہیں کیا۔
ایمان ناشتہ کرنے بیٹھی امان بھی اس کے ساتھ بیٹھا ایمان سے کھایا نہیں جا رہا تھا۔
اس نہ ایک دو لقمے کے بعد بس کردی۔
تو امان نے اسے جوس دیا۔
یہ پی لو ایمان نے دبردستی آدھا گلاس پیا۔
امان جانتا تھا اس وقت ایمان سے کھایا نہیں جائیگا۔
اس لیے اسے جوس پلا دیا تھا۔
امان نے جب ناشتہ کمپلیٹ کیا تو وہ برتن خود باہر لے گیا۔
وہ میڈ رکھ کے کوئی رسک نہیں لیناچابتا تھا۔

❤❤

امان واپس آیا تو ایمان نیچے بیڈ کے پاس بیٹھی تھی۔
تمہیں بیڈ پہ بیٹھنے سے منع کیا ے کسی نے؟
کبھی دروازے پر بیٹھی ہوتی ہو۔
کبھی بیڈ کے پاس۔
مطلب تم نے اوپر نہیں بیٹھنا۔
ایمان چپ رہی۔
امان پاس آیا اور کہا۔
ایمان۔۔
ایمان نے سر اُٹھا کے کہا۔
مجھے گھر جانا ہے۔
اففففف۔۔
امان نے سرد آھ بھری۔
چلی جانا بس پہلے ایک کام ہو جائے۔
ک۔۔کیا کام ایمان ڈر گئی۔
ھاھاھا۔۔
ایسا کچھ نہیں میری جان اب غلط کچھ نہیں کرونگا۔
پھر مجھے جانے دو نہ پلیز۔
ایمان نے آس سے کہا۔
جانے دونگا پہلے آج ہمارا نکاح ہو جائے۔
پھر تمہیں خود چھوڑ آؤنگا۔
نکاح کی بات پہ ایمان کی آنکھیں کھلی رہ گئی۔
ن۔۔نکاح؟
ایمان ہکلائی۔
ہان میری جان۔
میں نہیں کرونگی تم سے شادی کبھی بھی۔
اچھا تو پھر ایسے رہنا ہے یہاں؟
ہمیشہ کے لیے اور زیادہ دن تو میں بھی شرافت کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔
یہ تم بھی جانتی ہو۔
تو اچھا ہوگا تم شرافت سے نکاح کرلو مجھ سے۔
میں نے سارے انتظام کرلیے ہیں۔
میں ایسا کبھی نہیں کرو گی امان۔
میں تمھارے ہاتھ جوڑتی ہون پلیز مجھے جانے دو۔
ایمان زور زور سے رونے لگی۔
امان کے دل کو کچھ ہوا۔
پر وہ پتھر بنا رہا۔
ایمان تم لگتا ہے کوئی بات شرافت سے نہیں مانو گی۔
تم نکاح کروگی یا میں تمہیں نکاح کے بغیر ہی پالوں۔
امان کی بات پہ ایمان تڑپ اُٹھی امان پلیز۔
ٹھیک ہے جیسی تمھاری مرضی۔
آج رات میں تمہیں نہیں چھوڑونگا اگر شام تک تم نے مجھ سے نکاح نہیں کیا تو۔
اور اگر نکاح کرلوگی خو تمہیں گھر چھوڑ آونگا۔
ورنہ پوری زندگی اپنے گھر والوں کی شکل تک تم دیکھ نہیں پاؤگی۔
امان کہ کے جانے لگا۔
تو ایمان نے کہا۔
مجھے منظور ہے ایمان نے بے بسی سے کہا لیکن امان بہت خوش ہوا۔
💖💖❤

اسی شام ایمان مسسز امان بن گئی۔
ایمان کا دل جانتا تھا اس نے قبول ہے کیسے کہا۔
لیکن وہ گھر جانا چاہتی تھی۔
اور اسے پتا تھا امان کبھی ایسے اسے نہیں جانے دیگا۔
ایمان رو رہی تھی۔
جب امان روم میں آیا۔
اسے روتا دیکھ کے اس کے پاس آیا اور کہا۔
اتنا کیسے رو لیتی ہو یار تم۔
مطلب اگر تمہارے آنسو جمع کیے جائیں تو ملک میں سیلاب آجائے۔
اب جانے دو مجھے جیسا تم نے کہا میں نے ویسا کیا ہے۔
اب کیسے جانے دوں اب تو تم میری بیوی ہو۔
ایمان ایک دن سہم گئی۔
امان تم نے کہا تھا تم چھوڑ آوگے مجھے۔
مذاق کیا تھا میری جان ورنہ تم نکاح نہیں کرتیں۔
اور ایمان آنکھیں پھاڑے امان کا دھوکا دیکھ رہی تھی۔
اچھا اب ایسے بھی نہ دیکھو کچھ کچھ ہوتا ہے۔
اور اب تو تم سے جائز رشتہ بھی ہے امان نے شرارت سے کہا لیکن ایمان کی سانس رُک گئی۔
امان مجھے گھر جانا ہے وہ پھر رونے لگی۔
اچھا کچھ شرطوں پہ تمہیں گھر چھوڑوں گا۔
امان نے کہا۔
کیا شرط۔
ایمان نے امان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
ابھی اس نکاح کا تم کسی کو نہیں بتاؤگی۔
پراپر شادی ہوگی ہماری اور تم اب شادی کے لیے منع نہیں کروگی۔
اور دوسرا یہ جب بھی میں تمہیں کال کروں تم بات کروگی آئی بات سمجھ میں؟
جی۔۔
ایمان بس اتنا کہ پائی۔
قربان جاؤن ابھی سے بیوی والی انداز امان ہنسنے لگا۔
مجھے جانے دیں اب۔
اور ایک بات اور تم گھر ایسے نہیں جاؤگی تم میرے پلان کے تحت جاؤگی۔
پلان؟
ایمان نے حیرت سے امان کو دیکھا۔
ہاں تم سب کو یہ بتاؤگی کے تمہارا اس رات اکسیڈینٹ ہوا تھا اور تم 2 دن بے ہوش تھی۔
آج ہوش میں آئی ہو تو گھر کا ایسڈریس بتایا ہے۔
اور میری ایک میڈ ہے وہ کہے گی کے وہ تمہیں ہاسپیٹل لائی ہے۔
اور سنو اگر کوئی چالاکی کی تو میں پھر تمہیں اُٹھا کے لے جاؤنگا۔
اور تمہارے گھر والون کا بھی بہت برا حشر کردونگا۔
میں جیسا تم کہ رہے ہو ویسا کرونگی پلیز انہیں کچھ مت کرنا۔
اب پلیز مجھے جانے دو۔
ایک آخری بات۔
پاس آو ہگ کرو اور میرے گال پہ اپنے ہونٹ رکھو۔
پھر تمہیں چھوڑ آونگا۔
نہیں پلیز ایسا نہیں کرنا مجھے ایمان دور ہوئی۔
کرنا تو پڑیگا۔
اور اب تو اور بھی بہت کچھ کرنا پڑیگا اب تو تم بیوی ہو میری۔
سوچو جب میں پہلے تمہیں نہیں چھوڑتا تھا اب چھوڑونگا۔ایمان ڈر کے دور ہونے لگی۔
ایمان کوئی فائدہ نہیں جلدی آو یہان میرے پاس۔
ایمان اور دور ہو گئی امان اس کے قریب گیا اور اسے اپنی باہون کے گھیرے میں لے لیا۔
ایمان تڑپنے لگی۔
اب ڈرنہ چھوڑو میری جان پیار کرنا سیکھو۔
امان نے ایمان کو پیار کیا ایمان رونے لگی۔
امان نے سرد آہ بھری۔
اوووففففف۔۔
اچھا چلو ہاسپیٹل۔
اور وہ دونوں ہا سپیٹل کے لیے روانہ ہو گئے۔
💖💖

امان اپنے پلان کے مطابق ایمان کو اپنی میڈ کے ساتھ ہاسپیٹل چھوڑ کے چلا گیا۔
اور وہاں سے اس میڈ نے گھر کال کی تو ایمان کے مما بابا اورآروما سب آگئے۔
ایمان ماں کو دیکھ کے ان سے لپٹ گئی۔
ماں بھی رو رہی تھیں اور بابا بھی ساتھ کھڑے ایمان کے سر پہ ہاتھ رکھے تھے۔
آروما اپنی بہن کے گلے لگی تھی۔
وہ سب گھر آگئے تھے۔
ایمان سو رہی تھی اور مما اس کے ساتھ بیٹھیں تھیں اور شکر کر رہیں تھی کے ایمان کو چوٹیں نہیں آئیں۔
کیونکہ ڈاکٹر نے انہیں کہا تھا ایمان ڈر سے دو دن بے ھوش تھی اسے چوٹیں نہیں آئیں اور وہ اس بات سے خوش تھیں لیکن وہ نہیں جانتیں تھیں کے ان کی بیٹی اندر سے کتنی چوٹیں برداشت کر کے آرہی ہے۔

💖💖

امان کو اوپس مالتان جانا تھا۔
اور وہ چاہتا تھا ایمان سے مل کے جائے۔
اس نے ایمان کو کال کی جو اس نے دو بار رسیو نہیں کی تیسری رنگ پہ کال رسیو کی۔
ہیلو۔
ایمان نے کہا۔
ہیلو کی بچی کہاں تھی؟
کال کیوں نہیں اُٹھا رہی تھی؟
پتا نہیں۔
ایمان نےروکھا سا جواب دیا۔
تم نے قسم کھا رکھی ہے میرا دل جلانے کی۔
امان نے تپ کے کہا۔
مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔
ایمان نہ کہ کے کال رکھ دی۔
امان نے پھر کال کی ایمان نے نہیں اُٹھائی۔
امان نہ مسیج کیا ایمان شرفت سے کال اُٹھاؤ ورنہ تمہیں اُٹھا کے لے جاؤگا۔
اور پھر کال کی جو ایمان نے اُٹھا لی۔
کیوں کاٹی کال۔
مجھے نہیں کرنی آپ سے کوئی بھی بات۔
پلیز بخش دین مجھے اب۔
نہیں بخش سکتا۔
اب کام کی بات کریں؟
امان نے سختی سے کہا۔
ایمان چپ رہی میں ملتان جا رہا ہوں۔
امان کہ کے چپ ہو گیا۔
ایمان کے دل میں خوشی کی لہر دوڑی۔
ذیادہ خوش نہ ہو ایک ہفتے بعد بابا مما آئیں میں اور سب آئیں گے منگنی کرنے۔
اور اس بار کوئی بھی غلطی مت کرنا ایمان ورنہ قانونن تم میری بیوی ہو میں تمہیں اسی وقت لے جاؤگا۔
نہیں اتنی جلدی کیوں کر رہے ہیں آپ یہ سب۔
ایمان نہ کہا۔
یہ جلدی ہے مجھے سمجھ نہیں آرہا میں یہ وقت کیسے گذاروں گا۔
اور تمہیں جلدی لگ رہی ہے؟
امان پلیز ابھی نہیں ایمان نے مننت کی۔
ایمان چپ رہو ایک دم جتنا کہا ہے اتنا کیا کرو۔
اور ابھی باہر آو گھر سے میں گاڑی میں ہوں۔
مجھ سے ملو آ کے۔
میں تم سے مل کے جانا چاہتا ہوں۔
نہیں میں نہیں آسکتی۔
ایمان کے چھرے پہ خوف کے سائے دوڑ گئے۔
تم آتی ہو یا میں آوں پولیس کے ساتھ؟
امان آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ؟
میں نے آپکا کیا بگاڑا ہے؟
یہ بات تم آو تمہیں سامنے سے بتاتا ہوں کے کیا کیا بگاڑا ہے تم نے۔
آو جلدی۔
اور ایمان بے بسی سے رونے لگی۔
اس کی آنکھیں سرخ یو گیں۔
باہر گئی تو امان کی گاڑی سامنے نظر آئی۔
مرتے قدموں کے ساتھ ایمان گاڑی کی طرف بڑھی۔
امان نے گاڑی کا دروازہ کھول کے ایمان کو بیٹھنے کا کہا ایمان نے منع کردیا۔
امان خود باہرآیا اور ایمان کو دیکھنے لگا۔
کتنے نخرے ہیں آپ کی میڈم۔
مجھے کوئی جب کسی بات کا منع کرتا میرا خون کھول جاتا ہے۔
امان ایمان کو دیکھ رہا تھا امان کی بات پہ ایمان نے ڈر کے امان کو دیکھا۔
نہیں تمہیں کچھ نہیں کرتا ڈرو مت۔
ایمان مجھے کہو نہ کے تم مجھ سے پیار کرتی ہو؟
میں نہیں کرتی ایمان نے فوراً کہا۔
امان نے ایمان کا ہاتھ پکڑا اور کہا۔
شوہر ہون تمہارا کچھ تو خیال کرو۔
ایمان ہاتھ چُھڑانے لگی
امان نے گرفت اور سخت کردی ایمان کی آہ نکل گئی۔
امان نے گرفت پھر ڈھیلی کردی۔
امان نے ایمان کو گلے لگایا اور بائے کہ کے چلا گیا۔
ایمان گھر چلی گئی۔

💖💖

امان ملتان پہنچ گیا تھا اور آرام کر رہا تھا۔
ایمان نے سکون کا سانس لیا تھا۔
اس کی مما نے بہت بار اسے پوچھا کے وہ کیوں پریشان ہے پر اس نے نہیں بتایا۔
❤❤

بابا میں چاہتا ہوں آپ رشید چچا سے اب بات کریں ایمان ٹھیک ہے اب۔
ہاں بیٹا میں کرتا ہوں۔
امان نے اسی وقت موبائل نکالا اور کہا لیں بابا ابھی کریں ارسلان صاحب کو امان کی اس حرکت پہ بہت ہنسی آئی۔
بہت چاہتے ہو ایمان کو؟
انہوں نے پوچھا۔
بہت سے بھی ذیادہ بابا اب بات کریں۔
ھاھاھا۔۔
اچھا میرا بیٹا میں ابھی کرتا ہوں۔
انہوں نے کال ملائی تو رشید صاحب نے کال نہیں اُٹھائی۔انہوں نے کئی بار کال کی پر انہون نے نہیں اُٹھائی۔
ارسلان صاحب کو بہت غصہ آیا۔
امان کی بھی یہی حالت تھی۔
اس نے اسی وقت روم میں جا کے ایمان کو کال ملائی۔
ایمان نے پہلی بار میں نہیں اُٹھائی۔
امان کا غصہ ساتوں آسمان پر پہنچ گیا۔
پھر اس نے ایمان کو کال کی ایمان نے اس بار کال اُٹھا لی۔
ایک بار میں کال کیوں نہیں اُٹھاتی تم۔
میں باہر تھی ایمان نے بس اتنا کہا۔
تمہارے یہ سارے بھانے ایک منٹ میں ٹھیک کر دینے ہیں میں نے۔
مجھے برائی پہ مت اُکساؤ ایمان۔
ورنہ تم سے بہتر اور کون جانتا ہے اگر اس رات روشنی نہ آتی تو میں تمہارے ساتھ کیا کر چُکا ہوتا۔
ایمان پوری طرح سہم گئی۔
اب چپ کیوں ہو امان نے غصے سے کہا۔
وہ وہ میں۔
کیا وہ میں؟
بابا کہاں ہیں تمہارے؟
تم نے اب تک بابا کو رشتے کی ہاں نہیں کی۔
ایمان تم سے کچھ پوچھ رہا ہون میں۔
ن۔نہیں میں ایسا کچھ نہیں کرونگی۔
واٹ؟
امان کا غصہ اور بڑھ گیا۔
کیا کہا تم نے؟
امان کو ایمان کی عقل پہ شُبع ہوا۔
امان مجھے تم سے شادی نہیں کرنی۔
ایمان نے پوری ہمت جمع کرتے کہا۔
شادی ہو چکی ہے تمہاری مجھ سے۔
امان نے چیخ کے کہا۔
وہ۔۔وہ تو ذبردستی تھا۔
میں اس کو نہیں مانتی۔
مجھے تم اُسے آذاد کردو۔
امان کو گہرا جھٹکا لگا۔
ایمان مجھے لگتا ہے مجھے تب تک تمہیں آزاد نہیں کرنا تھا جب تک تم میرے 2 بچون کی ماں نہ بن جاتیں۔
پر دونٹ وری اب تمیں میں ایسے ہی لے جاؤنگا اور پھر کبھی تم اپنے بابا مما سے نہیں مل پاؤگی۔
نہیں تم ایسا نہیں کر سکتے ایمان رونے جیسے ہوگئی۔
تم نے خود مجبور کیا ہے مجھے یہ سب کرنے میں اب تم دیکھو میں کیا کیا کرتا ہوں تمہارے ساتھ۔
نہیں امان میں جیسا تم کہو گے ویسا کرونگی۔
ایمان رونے لگی جاؤ ابھی اپنے بابا سے کہو تمہیں یہ رشتہ منظور ہے۔
پر۔۔
ایمان منمنائی۔
جاؤ۔۔
امان نے زوردار آواز میں کہا۔
ایمان سہم گئی۔
ج۔۔جا رہی ہوں۔
ایمان ڈرتے ہوئی بابا کے پاس گئی۔
بابا مجھے کچھ بات کرنی ہے۔
ہاں بیٹا آؤ کرو۔
بابا مجھے رشتہ منظور ہے۔
آپ نے جہان بھی کیا ہے۔
رشید صاحب نے ایمان کی طرف دیکھا اور پھر آمینہ بیگم کی طرف۔
ان کی حیرت کا عالم نہ تھا۔
بیٹا اچانک یہ فیصلہ۔
بابا بس آپ پلیز رشتہ کے لیے ہاں کردیں۔
بیٹا مجھے تو پہلے بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔
آمینہ بیگم ایک دم ایمان کی طرف لپکی ایمان سچ بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے۔
تم نے اچانک ہاں کیوں کہی ہے۔
مما مجھے کبھی تو شادی کرنی ہے تو باباکی پسند میں کیا غلط ہے اور آپی بھی وہیں ہیں آمینہ بیگم چپ کر کے ایمان کو دیکھنے لگیں جب کے رشید صاحب بہت خوش ہوئے۔
میں آج ہی ارسلان بھائی سے بات کرتا ہوں۔۔

0 comments:

Post a Comment