Sunday, June 9, 2019

Basilsila e ta azal By zeenia sharjeel episode 1

🌹: Basilsila e Ta Azal
By zeenia sharjeel
Epi # 1

رات کے بارہ بجے کا وقت تھا سنسان سڑک پر پانچ سے دس منٹ بعد کسی گاڑی گزرنے کی آواز آتی۔۔۔۔ وہ ہاتھ بعد کسی اندیشے کے تحت پیچھے مڑ کر ایک نظر ڈال لیتی۔۔۔ پرانے اور بد رنگ کپڑے،، پیر میں موجود گھسی ہوئی چپل سے اس کی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا یقیناً وہ کسی کے گھر میں کام کرنے والی نوکرانی تھی جو گدے میں ایک بچے کو تھامے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار لیے بھاگنے کے انداز میں تیزی سے آگے قدم بڑھائے چلی جا رہی تھی۔ ۔۔۔۔ اس کی نظر راستے میں ایک ٹیلیفون بوتھ پر پڑی اس نے اپنے پاس موجود مطلوبہ نمبر پر فون ملایا

"صاب ام کام کرچکی ہے، بچہ امارے پاس ہے وعدے کے مطابق انعام تیار رکھو ام بچہ لے کر آتی ہے"

اپنی بات مکمل کر کے وہ ٹیلی فون بوتھ سے نکل کر دوبارہ بچے کو گود میں لیے اپنی منزل پر پہنچنا چاہ رہی تھی مگر شاید آج منزل پر پہنچنا اس کے نصیب میں نہیں تھا کیوکہ جو اس کے پیچھے تیز رفتار سے ٹرک آ رہا تھا اس کا ڈرائیور نشے میں تھا جو اسے کچلتا ہوا آگے بڑھ گیا مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چھکے

ٹرک سے ٹکرانے کے باعث بچہ اچھل کر سامنے کچرے کے ڈھیر پر گر پڑا مگر وہ کام کرنے والی گناہ کا کام کرتے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی 

****

درد سے اس کا پورا وجود پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا وہ بیڈ پر گٹری کی مانند لیٹی ہوئی رو رہی تھی خاموشی میں اس کے رونے کی آواز اس کی تکلیف کو بیان کر رہی تھی۔۔۔ اتنے میں بیڈروم کا دروازہ کھلا اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مڑ کر آنے والے کو دیکھتی مگر اور کون ہو سکتا تھا بھلا اس کے شوہر کے سوا

"کیا ہوا زیادہ درد ہو رہا ہے دکھاؤ ذرا" وہ بیڈ پر اس کے قریب بیٹھتا ہوا فکرمندی سے پوچھنے لگا ساتھ ہی اسکی شرٹ کی زپ کھولی۔۔۔۔ اسکی کمر جا بجا لال نشانات سے بھری ہوئی تھی

"کون سا تمہیں مار کر مجھے خوشی ہوتی ہے آخر ایسی حرکتیں کرتی ہی کیوں ہو جو میرا ہاتھ اٹھے"
وہ نرمی سے بولتا ہوا اس کی کمر پر موجود نشانات پر نرمی سے اپنی انگلیاں پھیر رہا تھا۔۔۔ رونا اب سسکیوں میں بدل چکا تھا کیوکہ اب وہ اپنے شوہر کے ہونٹوں کا لمس ان نشانات پر محسوس کر رہی تھی جس سے اسے راحت کی بجائے مزید تکلیف ہو رہی تھی،،، مگر وہ چاہ کر بھی اسے ایسا کرنے سے روک نہیں سکتی تھی۔۔۔ کیوکہ وہ اس کا انجام جانتی تھی

"تمہیں اپنے بھیا کو ہمارے بیڈروم کی باتیں نہیں بتانی چاہیے تھی جان، میاں بیوی کو تو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے۔۔۔ جانتی ہو اس بات کا مطلب تم نے اسے میرے بارے میں بتا کر آج مجھے ہی بے لباس کر دیا یہ اسی بات کی ایک چھوٹی سی سزا ہے تاکہ تم آئندہ احتیاط کرو"
وہ نشانات پر آئینٹمینٹ لگاتا ہوا اس سے مخاطب ہوا

"جانتی ہو نا تمہیں کتنا پیار کرتا ہوں میں۔۔۔ اس دنیا میں وہ تم ہی ہو جسے میں سب سے زیادہ چاہتا ہوں، زندگی مانتا ہو تمہیں اپنی"
اب وہ اس کا رخ اپنی طرف موڑ کر اپنی شرٹ اتار رہا تھا

"آج نہیں پلیز۔۔۔ مجھے درد ہو رہا ہے"
شوہر کی طلب کو سمجھتے ہوئے بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا،، اس سے پہلے وہ اپنی بات پر پچھتاتی اس کی ریشمی زلفیں،، محبت لوٹانے والے شوہر کی مٹھی میں تھی

"زور سے بولو مجھے آواز نہیں آئی"
وہ مٹھی میں اس کے بالوں کو جکڑے ہوئے نرمی سے پوچھ رہا تھا

"نہیں کچھ نہیں" اسے دوبارہ رونا آنے لگا۔۔۔ وہ رونے کے درمیان بولی

"شاباش اب چپ ہو جاؤ تمھارا رونا مجھے پریشان کر رہا ہے"
وہ اس کے بالوں کو چھوڑ کر اس کے آنسو پونچھتا ہوا اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں جکڑ کر،، اس کی گردن پر جھگ چکا تھا۔۔۔

وہ اس کی بات مانتے ہوئے اپنے آپ کو رونے سے باز رکھ رہی تھی مگر اس کے باوجود اپنی سسکیوں کو نہیں روک پا رہی تھی کمرہ ایک دفعہ پھر اس کی سسکیوں کی آواز سے گونج اٹھا مگر اسکی سسکیاں سننے والا اس کا شوہر اپنی ضرورت پوری کرنے میں مگن تھا

****

تقریباً رات کے دو بجے کا وقت تھا جب ناصر اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا گلی میں اندھیرے اور سناٹے کے باعث کتوں کی بھونکنے کی آواز ماحول کو مزید بھیانک بنا رہی تھی مگر وہ ان سب کا عادی تھا اس لیے بناء کسی خوف کے چلتا چلا جا رہا تھا

ویسے بھی آج دو دن کے بعد ایک اچھا 'شکار' اس کے ہاتھ لگا تھا اس لئے اس کے ہاتھ میں موجود تھیلی کھانے پینے کی چیزوں سے بھری ہوئی تھی۔۔۔ اب وہ دو دن بغیر کسی کا پرس مارے آرام سے بیٹھ کر کھا پی سکتا تھا،،،، کل ہی اس محلے کا گٹر بھر چکا تھا اور گندا پانی گٹر سے ابل کر باہر آچکا تھا،، گندے پانی سے بچ کر پھیلانگتا ہوا وہ اپنی منزل کے قریب پہنچ رہا تھا

جیسے ہی وہ گھر کے قریب آیا کتوں کے بھونکنے کی آوازوں کے ساتھ ساتھ اسے کسی بچے کے رونے کی آواز بھی آ رہی تھی سامنے کچرے کے ڈھیر پر جب اس کی نظر پڑی تو ایک چار ماہ کا بچہ کچرے کے ملبے کے اوپر اپنے گدے سمیت پڑا ہوا بلک بلک کر رو رہا تھا

"لوگ بھی حرام کر کے اپنا گند کچرے پر پھینک جاتے ہیں" وہ سوچتا ہوا اس بچے کو نظرانداز کرکے جانے لگا مگر سامنے سے تین چار کتوں کو اکھٹا دیکھ کر اس کے دل میں خیال آیا یہ کتے اس بچے کو بری طرح بھنبھوڑ کر رکھ دیں گے نہ جانے کس احساس کے تحت اس نے گدے میں موجود اس بچے کو گدے سمیت اٹھا لیا اور گھر کی طرف روانہ ہوا

****

"آگیا تو،، تجھے کچھ احساس ہے کب سے بھوکی مر رہی میں"
نسرین دروازہ کھولنے کے ساتھ ہی اس پر شروع ہو چکی تھی

"اور یہ کس کو اٹھا لایا ہے تو"
اب اس نے گدے میں موجود بچے کو دیکھ کر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ناصر سے کہا

"اری چپ بھی ہوجا اندر تو آنے دے اور اسکو پکڑ۔۔۔ بتاتا ہوں سب"
ناصر جھنجھلا کر بولا اور بچہ نسرین کو تھمایا نسرین نے بچے کو دیکھا تو کپڑوں سے وہ کسی اچھے گھرانے کا بچہ محسوس ہورہا تھا شاید بھوک کی وجہ سے وہ بری طرح رو رہا تھا نسرین نے تھیلی میں موجود کھانے پینے کی چیزوں میں سے دودھ کی تھیلی نکالی۔۔۔۔۔ اپنے گھر کی دیوار کے پار برابر میں شبو سے منے کی فیڈر تھوڑی دیر کے لئے مانگی

"اب بتا کہاں سے لایا ہے اس بچی کو"
دودھ پلا کر جب نسرین نے اس کو واش کرانے کے غرض سے ڈائپر اتارا تو اسے معلوم ہوا وہ بچی ہے

"یہ لڑکی ہے خیر جو بھی ہو،، صبح یتیم خانے میں دے آؤں گا۔۔۔ کچرے کے ڈھیر میں روتی ہوئی ملی تھی تو لے کر آگیا۔۔۔ جا اب میرے لیے کچھ کھانے کو لے آ"
ناصر نے سوتی ہوئی بچی کو دیکھ کر نسرین کو مخاطب کیا۔۔۔ بچی اب دودھ پی کر سو چکی تھی

ناصر اور نسرین دونوں ہی اس پسماندہ علاقے میں رہنے والے میاں بیوی تھے۔۔۔ ناصر ایک سست، کام چور قسم کا انسان تھا جس سے محنت مزدوری نہیں ہوتی تھی پیٹ پالنے کے لیے چھوٹی موٹی چوری چکاری سے کام چلا لیتا تھا جس سے نسرین کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیوکہ اس کے نشیئ باپ نے اپنا بوجھ اتارنے کے لئے نسرین کو ناصر کے ساتھ بیاہ دیا تھا۔۔۔ باپ کے گھر میں آٹھ بہن بھائیوں کو دو وقت کی روٹی بہت مشکل سے میئسر ہوتی تھی اس لئے نسرین بھی فاقوں میں پلی بڑھی تھی شوہر بھی ایسا ملا تھا تو اسے کوئی رنج نہیں تھا۔۔۔ بس دوسرے بچوں کو دیکھ کر ایک ہوک سی دل میں اٹھتی کے کاش اس کے بھی کوئی اولاد ہوتی۔۔۔ جیسے اس کی ماں آٹھ بچے پیدا کرکے اولاد جیسی نعمت سے مالامال تھی مگر شادی کے دس سال گزرنے کے بعد بھی ناصر اور نسرین دونوں ہی اولاد سے محروم تھے۔۔۔ سوتی ہوئی بچی پر نسرین نے نظر ڈالی

"میں اس کو یتیم خانے میں نہیں دینے والی،،، یہ میں تجھے بتا دیتی ہوں اسے تو میں پالوں گی"
بچی کا ماتھا چوم کر وہ اونگھتے ہوئے ناصر سے بولی

****

"کون رہتا ہے بھائی اس گھر میں جو اتنے برے طریقے سے چیخ رہا ہے"
جنرل اسٹور پر راشن لیتے ہوئے گاہک نے دکاندار کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔ یہ اسی پسماندہ علاقے کا دوسرا گھر تھا جہاں سے روز معمول کے مطابق چیخنے چلانے لڑنے جھگڑنے کی آوازیں آرہی تھی

"یہ افتخار احمد کا گھر ہے اس محلے کا سب سے مشہور گھر،، یہاں تو ہر دوسرے دن لڑائیوں کی آوازیں آتی ہیں شاید آپ نئے آئے ہو اس محلے میں آئستہ آئستہ عادی ہو جاؤ گے"
دکاندار نے راشن سے بھرا ہوا شاپر گاہک کو تھماتے ہوئے کہا گاہک ایک نظر اس گھر پر ڈال کر اپنے راستے ہولیا جہاں سے پچھلے آدھے گھنٹے سے ایک عورت اور مرد کی چیخنے کی آواز سنائی دے رہی تھی

"روز روز آلو کی سبزی کیوں بنا لیتی ہے تو،، تنگ آگیا ہوں میں روز روز اس آلو سے سر پھوڑتے ہوئے"
افتخار اب کھانے کی پلیٹ کچن کے دروازے پر مارتے ہوئے زور سے چیخا

"اگر روز آلو منہ میں نہیں چلتے تو گوشت لا کر دیا کرو نا۔ ۔۔ اپنی بوٹیاں تو کاٹ کر، پکا کر تمہارا پیٹ بھرنے سے رہی"
فائزہ بھی اس کی طرح چیختے ہوئے افتخار سے بولنے لگی اور نیچے پڑی ہوئی پلیٹ کو اٹھا کر صبح ناشتے کے سنے ہوئے برتنوں میں پٹخ کر کچن سے نکل آئی۔۔۔ اسے یہ دو سوٹ سلائی کے آج بھی مکمل کرنے تھے،، اس لئے وہ افتخار کے کپڑے نہیں دھو سکی تھی جسکی وجہ سے افتخار زور زور سے چیخ رہا تھا۔۔۔۔۔ خیر یہ تو معمول کی بات تھی فائزہ جب اسکے سارے کام کر دیتی وہ تب بھی کوئی نہ کوئی موضوع اٹھا کر اس سے لڑتا۔۔۔۔ فائزہ اس بات کی عادی تھی  اس وقت گھر کی صفائی بھی نہیں ہوسکی ویسے بھی یہ دو کمروں کا سیلن زدہ اور بوسیدہ مکان،،، اس کی صفائی ستھرائی دو دن کے بعد ہی ہوتی تھی

"پچھلے ہفتے گوشت لاکر تو دیا تھا کونسی دعوت میں اڑا دیا تو نے،، یقیناً اپنی اس بھوکی بہن کے گھر بھجوا دیا ہوگا چوری چھپے"
افتخار بلند آواز میں چیختا ہوا اب اس کی بہن کو بھی اپنی لڑائی میں گھسیٹ رہا تھا

"شرم کرو افتخار جب تم جوئے میں اپنی آدھی تنخواہ ہار کر آ جاتے ہو تو وہی میری بھوکی بہن تمہمارے گھر پر راشن ڈلواتی ہے،، میں بھلا کیا اس کے گھر میں تمہاری چند بوٹیاں چوری چھپے دونگی۔۔۔۔ یہ جو دو سنپولے پیدا کر کے میری سینے پر ڈالے ہیں نہ تم نے ان کا پیٹ بھی بھرنا ہوتا ہے مجھے تمہارے ساتھ"
فائزہ اپنی بہن کا نام سن کر ثوبی اور کاشی کو کوسنے لگی ایسا نہیں تھا کہ وہ اپنے دونوں بیٹوں سے پیار نہیں کرتی تھی۔۔۔۔ ایک انہی کی وجہ سے تو وہ اس شخص کے ساتھ گزارا کر رہی تھی۔۔۔ مگر جب افتخار اپنی لڑائی میں اس کے گھر والوں کو گھسیٹا تو وہ بھی پھر کسی کا لحاظ نہیں کرتی

"جواب دے گی آگے سے مجھے"
افتخار کا زور دار تھپر ایک لمحے کے لئے فائزہ کا منہ بند کر گیا

"ذلیل انسان ہاتھ کیوں اٹھایا تم نے مجھ پر"
فائزہ نے زور سے چیختے ہوئے افتخار سے کہا

"زبان چلائے گی،، گالی دی گی تو مجھے"
اب وہ لاتوں اور مکّوں سے فائزہ کو مارتا ہوا غصہ ٹھنڈا کر رہا تھا

****

"ثوبی کاشی کیسے ہو تم دونوں"
یہ گورنمنٹ اسکول کا کچا میدان تھا جہاں دھول آڑاتے ہوئے بچے کھیل رہے تھے وہی قریب چبوترے پر لنچ بریک ٹائم میں وہ دونوں بھائی گھر سے لائے ہوئے اپنا ٹفن نکال کر پراٹھا کھا رہے تھے تبھی سیرت ان کے پاس آئی

"میں ٹھیک ہوں لیکن میں اپنا پراٹھا تمہیں ہرگز نہیں دوں گا"
کاشی نے سنجیدگی سے پراٹھا کھاتے ہوئے سیرت کی بات کا جواب دیا جس پر اس نے برا سا منہ بنایا

"تم سے بات کون کر رہا ہے دن بدن اونٹ  کی طرح لمبے ہوتے جا رہے ہو اور تمیز نام کو نہیں"
وہ اپنی چھوٹی سی ناک سکھیڑتی ہوئی کاشان کو دیکھ کر بولی۔۔۔۔ معصوم وہ صرف شکل سے تھی عادتاً  تو وہ ایک دم کاٹ کھانے کو دوڑ جائے 

"دن بدن تمہارے بھی پر نکلتے جا رہے ہیں،، ناصر کے نقش قدم پر چل کر ہمارے محلے کا نام روشن کروں تم" کاشان نے اس کو ایسے انداز میں دیکھ کر کہا جیسے وہ اس کے سارے کارناموں سے باخبر ہوں

"خبردار جو تم نے آبا کو کچھ کہا تو ورنہ میں لحاظ نہیں کرونگی اس پتھر سے تمہارا سر پھاڑ دوں گی" سیرت نے اسے دھمکی دی جس پر کاشان ہنسا

"تم ذرا یہ پتھر اٹھا کر تو دیکھو پھر دیکھنا میں تمہارا کیا حشر کرتا ہوں" کاشان نے بغیر لحاظ کے اسے بولا تبھی سیرت پتھر اٹھانے کو آگے بڑھی مگر ثوبان نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا

"کیا ہوگیا ہے سیرت فوراً غصہ آجاتا ہے تمہیں۔۔۔ آو میرا پراٹھا کھالو"
ازلی رحمدلی کے باعث ثوبان نے بیچ بچاؤ کرایا کیوکہ وہ اپنے جنگجو بھائی سے بھی واقف تھا اور ناصر کی اس افلاطون بیٹی سے بھی

"تمہیں معلوم ہے ثوبی میں نے اور اماں نے کل رات سے کچھ بھی نہیں کھایا،، اب آبا کو کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ملتا تو اس میں میرا یا اماں کا کیا قصور"
سیرت روتے ہوئے اس سے پوچھ رہی تھی کاشان سے اس کی نوٹنکی برداشت نہیں ہوئی اس لیے وہ وہاں سے اٹھ کر اپنا ٹفن لے کر چلا گیا۔۔۔ وہ اس تین گھنٹے کی فلم سے اچھی طرح واقف تھا شکل سے وہ جتنی معصوم لگتی تھی اندر سے وہ اتنی ہی میسنی تھی

"اچھا رونا بند کرو کہہ تو رہا ہوں تم میرا پراٹھا کھالو" ثوبان نے اپنا ٹفن سیرت کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا

"مجھے اچھا نہیں لگ رہا ہے ایسے، تم کیا کھاؤ گے آؤ مل بانٹ کر کھاتے ہیں اس محبت بڑھتی ہے"
وہ معصومیت سے کہتے ہوئے اکثر ثوبان کو یہی جملہ چپکا جاتی تھی اور اس کے حصے کا آدھے سے زیادہ کھا جاتی تھی

"بھوک نہیں ہے مجھے تم کھالو" ثوبان جھوٹ کا سہارا لیتا ہوا سیرت کے معصوم چہرے سے نظریں ہٹا کر میدان میں کھیلنے والے بچوں کو دیکھنے لگا

13سالہ ثوبان اور کاشان جوکہ ایک ساتھ دنیا میں آئے، 8ویں جماعت کے طالبعلم تھے جبکہ 8 سالہ سیرت تیسری جماعت میں پڑھتی تھی مگر ایک محلے میں رہنے کی وجہ سے وہ لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے اس محلے میں سارا نچلا (لور) کلاس طبقہ بستا تھا مگر ناصر اپنی چوری چکاری کی وجہ سے جبکہ افتخار کا گھر لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے مشہور تھا

جاری ہے

2 comments:

  1. Do this hack to drop 2lb of fat in 8 hours

    More than 160000 women and men are hacking their diet with a easy and secret "liquid hack" to lose 2 lbs every night while they sleep.

    It's easy and it works with anybody.

    Just follow these easy step:

    1) Hold a drinking glass and fill it up half the way

    2) Now use this weight loss HACK

    and be 2 lbs thinner in the morning!

    ReplyDelete