Sunday, June 9, 2019

Basilsila e ta azal By zeenia sharjeel episode 1

🌹: Basilsila e Ta Azal
By zeenia sharjeel
Epi # 1

رات کے بارہ بجے کا وقت تھا سنسان سڑک پر پانچ سے دس منٹ بعد کسی گاڑی گزرنے کی آواز آتی۔۔۔۔ وہ ہاتھ بعد کسی اندیشے کے تحت پیچھے مڑ کر ایک نظر ڈال لیتی۔۔۔ پرانے اور بد رنگ کپڑے،، پیر میں موجود گھسی ہوئی چپل سے اس کی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا یقیناً وہ کسی کے گھر میں کام کرنے والی نوکرانی تھی جو گدے میں ایک بچے کو تھامے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار لیے بھاگنے کے انداز میں تیزی سے آگے قدم بڑھائے چلی جا رہی تھی۔ ۔۔۔۔ اس کی نظر راستے میں ایک ٹیلیفون بوتھ پر پڑی اس نے اپنے پاس موجود مطلوبہ نمبر پر فون ملایا

"صاب ام کام کرچکی ہے، بچہ امارے پاس ہے وعدے کے مطابق انعام تیار رکھو ام بچہ لے کر آتی ہے"

اپنی بات مکمل کر کے وہ ٹیلی فون بوتھ سے نکل کر دوبارہ بچے کو گود میں لیے اپنی منزل پر پہنچنا چاہ رہی تھی مگر شاید آج منزل پر پہنچنا اس کے نصیب میں نہیں تھا کیوکہ جو اس کے پیچھے تیز رفتار سے ٹرک آ رہا تھا اس کا ڈرائیور نشے میں تھا جو اسے کچلتا ہوا آگے بڑھ گیا مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چھکے

ٹرک سے ٹکرانے کے باعث بچہ اچھل کر سامنے کچرے کے ڈھیر پر گر پڑا مگر وہ کام کرنے والی گناہ کا کام کرتے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی 

****

درد سے اس کا پورا وجود پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا وہ بیڈ پر گٹری کی مانند لیٹی ہوئی رو رہی تھی خاموشی میں اس کے رونے کی آواز اس کی تکلیف کو بیان کر رہی تھی۔۔۔ اتنے میں بیڈروم کا دروازہ کھلا اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مڑ کر آنے والے کو دیکھتی مگر اور کون ہو سکتا تھا بھلا اس کے شوہر کے سوا

"کیا ہوا زیادہ درد ہو رہا ہے دکھاؤ ذرا" وہ بیڈ پر اس کے قریب بیٹھتا ہوا فکرمندی سے پوچھنے لگا ساتھ ہی اسکی شرٹ کی زپ کھولی۔۔۔۔ اسکی کمر جا بجا لال نشانات سے بھری ہوئی تھی

"کون سا تمہیں مار کر مجھے خوشی ہوتی ہے آخر ایسی حرکتیں کرتی ہی کیوں ہو جو میرا ہاتھ اٹھے"
وہ نرمی سے بولتا ہوا اس کی کمر پر موجود نشانات پر نرمی سے اپنی انگلیاں پھیر رہا تھا۔۔۔ رونا اب سسکیوں میں بدل چکا تھا کیوکہ اب وہ اپنے شوہر کے ہونٹوں کا لمس ان نشانات پر محسوس کر رہی تھی جس سے اسے راحت کی بجائے مزید تکلیف ہو رہی تھی،،، مگر وہ چاہ کر بھی اسے ایسا کرنے سے روک نہیں سکتی تھی۔۔۔ کیوکہ وہ اس کا انجام جانتی تھی

"تمہیں اپنے بھیا کو ہمارے بیڈروم کی باتیں نہیں بتانی چاہیے تھی جان، میاں بیوی کو تو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے۔۔۔ جانتی ہو اس بات کا مطلب تم نے اسے میرے بارے میں بتا کر آج مجھے ہی بے لباس کر دیا یہ اسی بات کی ایک چھوٹی سی سزا ہے تاکہ تم آئندہ احتیاط کرو"
وہ نشانات پر آئینٹمینٹ لگاتا ہوا اس سے مخاطب ہوا

"جانتی ہو نا تمہیں کتنا پیار کرتا ہوں میں۔۔۔ اس دنیا میں وہ تم ہی ہو جسے میں سب سے زیادہ چاہتا ہوں، زندگی مانتا ہو تمہیں اپنی"
اب وہ اس کا رخ اپنی طرف موڑ کر اپنی شرٹ اتار رہا تھا

"آج نہیں پلیز۔۔۔ مجھے درد ہو رہا ہے"
شوہر کی طلب کو سمجھتے ہوئے بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا،، اس سے پہلے وہ اپنی بات پر پچھتاتی اس کی ریشمی زلفیں،، محبت لوٹانے والے شوہر کی مٹھی میں تھی

"زور سے بولو مجھے آواز نہیں آئی"
وہ مٹھی میں اس کے بالوں کو جکڑے ہوئے نرمی سے پوچھ رہا تھا

"نہیں کچھ نہیں" اسے دوبارہ رونا آنے لگا۔۔۔ وہ رونے کے درمیان بولی

"شاباش اب چپ ہو جاؤ تمھارا رونا مجھے پریشان کر رہا ہے"
وہ اس کے بالوں کو چھوڑ کر اس کے آنسو پونچھتا ہوا اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں جکڑ کر،، اس کی گردن پر جھگ چکا تھا۔۔۔

وہ اس کی بات مانتے ہوئے اپنے آپ کو رونے سے باز رکھ رہی تھی مگر اس کے باوجود اپنی سسکیوں کو نہیں روک پا رہی تھی کمرہ ایک دفعہ پھر اس کی سسکیوں کی آواز سے گونج اٹھا مگر اسکی سسکیاں سننے والا اس کا شوہر اپنی ضرورت پوری کرنے میں مگن تھا

****

تقریباً رات کے دو بجے کا وقت تھا جب ناصر اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا گلی میں اندھیرے اور سناٹے کے باعث کتوں کی بھونکنے کی آواز ماحول کو مزید بھیانک بنا رہی تھی مگر وہ ان سب کا عادی تھا اس لیے بناء کسی خوف کے چلتا چلا جا رہا تھا

ویسے بھی آج دو دن کے بعد ایک اچھا 'شکار' اس کے ہاتھ لگا تھا اس لئے اس کے ہاتھ میں موجود تھیلی کھانے پینے کی چیزوں سے بھری ہوئی تھی۔۔۔ اب وہ دو دن بغیر کسی کا پرس مارے آرام سے بیٹھ کر کھا پی سکتا تھا،،،، کل ہی اس محلے کا گٹر بھر چکا تھا اور گندا پانی گٹر سے ابل کر باہر آچکا تھا،، گندے پانی سے بچ کر پھیلانگتا ہوا وہ اپنی منزل کے قریب پہنچ رہا تھا

جیسے ہی وہ گھر کے قریب آیا کتوں کے بھونکنے کی آوازوں کے ساتھ ساتھ اسے کسی بچے کے رونے کی آواز بھی آ رہی تھی سامنے کچرے کے ڈھیر پر جب اس کی نظر پڑی تو ایک چار ماہ کا بچہ کچرے کے ملبے کے اوپر اپنے گدے سمیت پڑا ہوا بلک بلک کر رو رہا تھا

"لوگ بھی حرام کر کے اپنا گند کچرے پر پھینک جاتے ہیں" وہ سوچتا ہوا اس بچے کو نظرانداز کرکے جانے لگا مگر سامنے سے تین چار کتوں کو اکھٹا دیکھ کر اس کے دل میں خیال آیا یہ کتے اس بچے کو بری طرح بھنبھوڑ کر رکھ دیں گے نہ جانے کس احساس کے تحت اس نے گدے میں موجود اس بچے کو گدے سمیت اٹھا لیا اور گھر کی طرف روانہ ہوا

****

"آگیا تو،، تجھے کچھ احساس ہے کب سے بھوکی مر رہی میں"
نسرین دروازہ کھولنے کے ساتھ ہی اس پر شروع ہو چکی تھی

"اور یہ کس کو اٹھا لایا ہے تو"
اب اس نے گدے میں موجود بچے کو دیکھ کر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ناصر سے کہا

"اری چپ بھی ہوجا اندر تو آنے دے اور اسکو پکڑ۔۔۔ بتاتا ہوں سب"
ناصر جھنجھلا کر بولا اور بچہ نسرین کو تھمایا نسرین نے بچے کو دیکھا تو کپڑوں سے وہ کسی اچھے گھرانے کا بچہ محسوس ہورہا تھا شاید بھوک کی وجہ سے وہ بری طرح رو رہا تھا نسرین نے تھیلی میں موجود کھانے پینے کی چیزوں میں سے دودھ کی تھیلی نکالی۔۔۔۔۔ اپنے گھر کی دیوار کے پار برابر میں شبو سے منے کی فیڈر تھوڑی دیر کے لئے مانگی

"اب بتا کہاں سے لایا ہے اس بچی کو"
دودھ پلا کر جب نسرین نے اس کو واش کرانے کے غرض سے ڈائپر اتارا تو اسے معلوم ہوا وہ بچی ہے

"یہ لڑکی ہے خیر جو بھی ہو،، صبح یتیم خانے میں دے آؤں گا۔۔۔ کچرے کے ڈھیر میں روتی ہوئی ملی تھی تو لے کر آگیا۔۔۔ جا اب میرے لیے کچھ کھانے کو لے آ"
ناصر نے سوتی ہوئی بچی کو دیکھ کر نسرین کو مخاطب کیا۔۔۔ بچی اب دودھ پی کر سو چکی تھی

ناصر اور نسرین دونوں ہی اس پسماندہ علاقے میں رہنے والے میاں بیوی تھے۔۔۔ ناصر ایک سست، کام چور قسم کا انسان تھا جس سے محنت مزدوری نہیں ہوتی تھی پیٹ پالنے کے لیے چھوٹی موٹی چوری چکاری سے کام چلا لیتا تھا جس سے نسرین کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیوکہ اس کے نشیئ باپ نے اپنا بوجھ اتارنے کے لئے نسرین کو ناصر کے ساتھ بیاہ دیا تھا۔۔۔ باپ کے گھر میں آٹھ بہن بھائیوں کو دو وقت کی روٹی بہت مشکل سے میئسر ہوتی تھی اس لئے نسرین بھی فاقوں میں پلی بڑھی تھی شوہر بھی ایسا ملا تھا تو اسے کوئی رنج نہیں تھا۔۔۔ بس دوسرے بچوں کو دیکھ کر ایک ہوک سی دل میں اٹھتی کے کاش اس کے بھی کوئی اولاد ہوتی۔۔۔ جیسے اس کی ماں آٹھ بچے پیدا کرکے اولاد جیسی نعمت سے مالامال تھی مگر شادی کے دس سال گزرنے کے بعد بھی ناصر اور نسرین دونوں ہی اولاد سے محروم تھے۔۔۔ سوتی ہوئی بچی پر نسرین نے نظر ڈالی

"میں اس کو یتیم خانے میں نہیں دینے والی،،، یہ میں تجھے بتا دیتی ہوں اسے تو میں پالوں گی"
بچی کا ماتھا چوم کر وہ اونگھتے ہوئے ناصر سے بولی

****

"کون رہتا ہے بھائی اس گھر میں جو اتنے برے طریقے سے چیخ رہا ہے"
جنرل اسٹور پر راشن لیتے ہوئے گاہک نے دکاندار کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔ یہ اسی پسماندہ علاقے کا دوسرا گھر تھا جہاں سے روز معمول کے مطابق چیخنے چلانے لڑنے جھگڑنے کی آوازیں آرہی تھی

"یہ افتخار احمد کا گھر ہے اس محلے کا سب سے مشہور گھر،، یہاں تو ہر دوسرے دن لڑائیوں کی آوازیں آتی ہیں شاید آپ نئے آئے ہو اس محلے میں آئستہ آئستہ عادی ہو جاؤ گے"
دکاندار نے راشن سے بھرا ہوا شاپر گاہک کو تھماتے ہوئے کہا گاہک ایک نظر اس گھر پر ڈال کر اپنے راستے ہولیا جہاں سے پچھلے آدھے گھنٹے سے ایک عورت اور مرد کی چیخنے کی آواز سنائی دے رہی تھی

"روز روز آلو کی سبزی کیوں بنا لیتی ہے تو،، تنگ آگیا ہوں میں روز روز اس آلو سے سر پھوڑتے ہوئے"
افتخار اب کھانے کی پلیٹ کچن کے دروازے پر مارتے ہوئے زور سے چیخا

"اگر روز آلو منہ میں نہیں چلتے تو گوشت لا کر دیا کرو نا۔ ۔۔ اپنی بوٹیاں تو کاٹ کر، پکا کر تمہارا پیٹ بھرنے سے رہی"
فائزہ بھی اس کی طرح چیختے ہوئے افتخار سے بولنے لگی اور نیچے پڑی ہوئی پلیٹ کو اٹھا کر صبح ناشتے کے سنے ہوئے برتنوں میں پٹخ کر کچن سے نکل آئی۔۔۔ اسے یہ دو سوٹ سلائی کے آج بھی مکمل کرنے تھے،، اس لئے وہ افتخار کے کپڑے نہیں دھو سکی تھی جسکی وجہ سے افتخار زور زور سے چیخ رہا تھا۔۔۔۔۔ خیر یہ تو معمول کی بات تھی فائزہ جب اسکے سارے کام کر دیتی وہ تب بھی کوئی نہ کوئی موضوع اٹھا کر اس سے لڑتا۔۔۔۔ فائزہ اس بات کی عادی تھی  اس وقت گھر کی صفائی بھی نہیں ہوسکی ویسے بھی یہ دو کمروں کا سیلن زدہ اور بوسیدہ مکان،،، اس کی صفائی ستھرائی دو دن کے بعد ہی ہوتی تھی

"پچھلے ہفتے گوشت لاکر تو دیا تھا کونسی دعوت میں اڑا دیا تو نے،، یقیناً اپنی اس بھوکی بہن کے گھر بھجوا دیا ہوگا چوری چھپے"
افتخار بلند آواز میں چیختا ہوا اب اس کی بہن کو بھی اپنی لڑائی میں گھسیٹ رہا تھا

"شرم کرو افتخار جب تم جوئے میں اپنی آدھی تنخواہ ہار کر آ جاتے ہو تو وہی میری بھوکی بہن تمہمارے گھر پر راشن ڈلواتی ہے،، میں بھلا کیا اس کے گھر میں تمہاری چند بوٹیاں چوری چھپے دونگی۔۔۔۔ یہ جو دو سنپولے پیدا کر کے میری سینے پر ڈالے ہیں نہ تم نے ان کا پیٹ بھی بھرنا ہوتا ہے مجھے تمہارے ساتھ"
فائزہ اپنی بہن کا نام سن کر ثوبی اور کاشی کو کوسنے لگی ایسا نہیں تھا کہ وہ اپنے دونوں بیٹوں سے پیار نہیں کرتی تھی۔۔۔۔ ایک انہی کی وجہ سے تو وہ اس شخص کے ساتھ گزارا کر رہی تھی۔۔۔ مگر جب افتخار اپنی لڑائی میں اس کے گھر والوں کو گھسیٹا تو وہ بھی پھر کسی کا لحاظ نہیں کرتی

"جواب دے گی آگے سے مجھے"
افتخار کا زور دار تھپر ایک لمحے کے لئے فائزہ کا منہ بند کر گیا

"ذلیل انسان ہاتھ کیوں اٹھایا تم نے مجھ پر"
فائزہ نے زور سے چیختے ہوئے افتخار سے کہا

"زبان چلائے گی،، گالی دی گی تو مجھے"
اب وہ لاتوں اور مکّوں سے فائزہ کو مارتا ہوا غصہ ٹھنڈا کر رہا تھا

****

"ثوبی کاشی کیسے ہو تم دونوں"
یہ گورنمنٹ اسکول کا کچا میدان تھا جہاں دھول آڑاتے ہوئے بچے کھیل رہے تھے وہی قریب چبوترے پر لنچ بریک ٹائم میں وہ دونوں بھائی گھر سے لائے ہوئے اپنا ٹفن نکال کر پراٹھا کھا رہے تھے تبھی سیرت ان کے پاس آئی

"میں ٹھیک ہوں لیکن میں اپنا پراٹھا تمہیں ہرگز نہیں دوں گا"
کاشی نے سنجیدگی سے پراٹھا کھاتے ہوئے سیرت کی بات کا جواب دیا جس پر اس نے برا سا منہ بنایا

"تم سے بات کون کر رہا ہے دن بدن اونٹ  کی طرح لمبے ہوتے جا رہے ہو اور تمیز نام کو نہیں"
وہ اپنی چھوٹی سی ناک سکھیڑتی ہوئی کاشان کو دیکھ کر بولی۔۔۔۔ معصوم وہ صرف شکل سے تھی عادتاً  تو وہ ایک دم کاٹ کھانے کو دوڑ جائے 

"دن بدن تمہارے بھی پر نکلتے جا رہے ہیں،، ناصر کے نقش قدم پر چل کر ہمارے محلے کا نام روشن کروں تم" کاشان نے اس کو ایسے انداز میں دیکھ کر کہا جیسے وہ اس کے سارے کارناموں سے باخبر ہوں

"خبردار جو تم نے آبا کو کچھ کہا تو ورنہ میں لحاظ نہیں کرونگی اس پتھر سے تمہارا سر پھاڑ دوں گی" سیرت نے اسے دھمکی دی جس پر کاشان ہنسا

"تم ذرا یہ پتھر اٹھا کر تو دیکھو پھر دیکھنا میں تمہارا کیا حشر کرتا ہوں" کاشان نے بغیر لحاظ کے اسے بولا تبھی سیرت پتھر اٹھانے کو آگے بڑھی مگر ثوبان نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا

"کیا ہوگیا ہے سیرت فوراً غصہ آجاتا ہے تمہیں۔۔۔ آو میرا پراٹھا کھالو"
ازلی رحمدلی کے باعث ثوبان نے بیچ بچاؤ کرایا کیوکہ وہ اپنے جنگجو بھائی سے بھی واقف تھا اور ناصر کی اس افلاطون بیٹی سے بھی

"تمہیں معلوم ہے ثوبی میں نے اور اماں نے کل رات سے کچھ بھی نہیں کھایا،، اب آبا کو کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ملتا تو اس میں میرا یا اماں کا کیا قصور"
سیرت روتے ہوئے اس سے پوچھ رہی تھی کاشان سے اس کی نوٹنکی برداشت نہیں ہوئی اس لیے وہ وہاں سے اٹھ کر اپنا ٹفن لے کر چلا گیا۔۔۔ وہ اس تین گھنٹے کی فلم سے اچھی طرح واقف تھا شکل سے وہ جتنی معصوم لگتی تھی اندر سے وہ اتنی ہی میسنی تھی

"اچھا رونا بند کرو کہہ تو رہا ہوں تم میرا پراٹھا کھالو" ثوبان نے اپنا ٹفن سیرت کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا

"مجھے اچھا نہیں لگ رہا ہے ایسے، تم کیا کھاؤ گے آؤ مل بانٹ کر کھاتے ہیں اس محبت بڑھتی ہے"
وہ معصومیت سے کہتے ہوئے اکثر ثوبان کو یہی جملہ چپکا جاتی تھی اور اس کے حصے کا آدھے سے زیادہ کھا جاتی تھی

"بھوک نہیں ہے مجھے تم کھالو" ثوبان جھوٹ کا سہارا لیتا ہوا سیرت کے معصوم چہرے سے نظریں ہٹا کر میدان میں کھیلنے والے بچوں کو دیکھنے لگا

13سالہ ثوبان اور کاشان جوکہ ایک ساتھ دنیا میں آئے، 8ویں جماعت کے طالبعلم تھے جبکہ 8 سالہ سیرت تیسری جماعت میں پڑھتی تھی مگر ایک محلے میں رہنے کی وجہ سے وہ لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے اس محلے میں سارا نچلا (لور) کلاس طبقہ بستا تھا مگر ناصر اپنی چوری چکاری کی وجہ سے جبکہ افتخار کا گھر لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے مشہور تھا

جاری ہے

Tuesday, June 4, 2019

ek larki pagal si by paraish khan episode 3


ایک لڑکی پاگل سی۔۔۔۔

از آرزو۔۔۔۔پریشے خان۔۔۔۔

پارٹ 3۔۔۔۔۔

Dont copy and paste without my permission......

❤❤❤♡♡♡♡♡♡❤❤❤

بارات روانہ ہو چکی تھی کل پہنچنا تھا اور ایمان کا دل ڈوب رہا تھا ڈر سے برا حال تھا اس کا جب سے بارات کی روانگی کا سنا تھا۔

بارات کے آنے کا ٹائم ہوا ایمان اِسٹورروم میں جاکے چُھپ گئی آمینہ بیگم کب سے اسے ڈھونڈ رہی تھہیں پر وہ کہیں نہیں نظر آئی تو آروما سے کہا ایمان آپی کہا ہے آروما نے بھی کہا مما پتا نہیں بارات دروازے پہ ہے اور اس لڑکی کا کچھ پتا نہیں کیا کروں میں اس لڑکی کا۔۔
بارات آگئی تھی سب کا بہت اچھا استقبال ہوا تھا آمینہ بیگم مسلسل ایمان کو ڈھونڈ رہی تھیں لیکن وہ کیسی کو نہیں مل رہی تھی امان کی نظرین بھی ایمان کو ڈھونڈنے میں لگی تھیں۔
یہ کہا چُھپی ہے۔
امان یہاں وہان دیکھنے لگا۔۔
بیٹا کچھ چاہئے رشید چچا کی آواز پر چونکا۔
نہیں چاچو۔
ہان وہ پانی چاہیے۔
تم روکو میں بجھوتا ہوں۔
کیا بات کر رہے ہیں چچا اپنا گھر ہے خود
لے لوں گا۔
رشید صاحب نے خوش ہو کے کہا ٹھیک ہے بیٹا۔
اور انتظام دیکھنے چلے گئے۔
امان نے ہر جگہ دیکھا ایمان کہیں نہیں نظر آئی۔
امان نے سوچا آخر ایمان گئی کہاں۔
یہ تو اُسے پتا تھا اس سے چُھپی ہے لیکن کہاں؟
امان سوچتے سوچتے اسٹورروم تک پہنچا۔
ایمان اندر کونے میں بیٹھی تھی۔
امان کی ایمان کو ایسے بیٹھا دیکھ کے ہنسی نکل گئی۔
تو تم یہاں چُھپی ہو۔
ایمان نے جیسے امان کو دیکھا وہ بری طرح ڈر گئی جس سے چُھپ کے بیٹھی تھی۔
اس نے ڈھونڈ لیا تھا۔
اور اب وہ یہاں اکیلی تھی۔
امان کے ساتھ۔
ایمان نے جیسے امان کو دیکھا وہ بھاگنے لگی۔
امان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا کہاں جا رہی ہو۔
اتنی مشکل سے ہاتھ آئی ہو۔
اور ایسے بھاگ رہی ہو۔
ویسے ملاقات کے لیے اچھی جگہ چُنی ہے۔
امان نے شرارت سے کہا لیکن ایمان کی جان نکل ہی تھی۔
امان کو دیکھ کے۔
امان مجھے جانے دو ایمان رونے لگی۔
تم نے کیا رونے کا ٹھیکا لیا ہے۔
ہر وقت روتی ہو۔
چپ ایک دم۔
اور ایمان نے ایک دم منہ پہ ہاتھ رکھ لیا۔
گڈ اچھا بتاؤ چھپتی کیون ہو مجھ سے۔
آمی۔
ایمان زور زور سے رونی لگی۔
اور امی کا نام لینے لگی۔
امان نے ایک دم ایمان کے منہ پہ ہاتھ رکھا۔
یہ کیا پاگل پن ہے رشید چچا کو نہیں جانتی کیا تم جو میرے ساتھ یہاں سےپکڑوانے کے پروگرام بنا رہی ہو؟
میرا کچھ نہیں مسئلہ تمہیں ہی ہونا ہے۔
اور ایمان امان کی بات سن کے چپ ہو گئی۔
گڈ گرل۔
اب کام کی بات کریں۔
ک۔۔کیسی بات ایمان نے ڈرتے پوچھا۔
تہماری اور میری شادی کی۔
میں تم سے کبھی شادی نہیں کرونگی۔
ایمان نے فوراً جواب دیا۔
ھاھاھا۔۔
اچھا اور تمہیں یہ لگ بھی رہاہوگا کے میں تمہاری چلنے دونگا۔
تو اس غلط فہمی کو اپنی دل سے نکال دو میں شرافت سے کہ رہا ہون تو تم بھی شرافت کا مظاہرا کرو۔
مجھے نہیں کرنی تم سے شادی جانے دو مجھے۔
ایمان نے امان کی بات کاٹتے ہوے کہا۔
ایمان۔
امان نے غصے سے کہا ایمان بری طرح کانپ گئی۔
اچھا سوری ڈرو مت اِدھر آؤ میرے پاس۔
امان نے ایمان کو پاس کرنا چاہا پر وہ اُسے دور کرنے لگی۔
امان نے دبردستی ایمان کو گلے لگا لیا۔
ایمان تم میری جان میری ذندگی میراسب کچھ ہو۔
پلیز پچھلی باتیں بھول جاؤ۔
بہت پیار کرتا ہون میں تم سے۔
ایمان کو امان کی قربت سے نفرت ہو رہی تھی۔
وہ مسلسل خود کو چھوڑا رہی تھی جب یی باہر کسی کی آواز سنائی دی تو امان نے ایمان کو چھوڑ دیا اور وہ بھاگ گئی۔۔

💖💖

ایمان روشنی کے پاس گئی اسے سب بتایا اور رونے لگی۔
آپی میں کیا کروں؟
روشنی بھی پریشان ہو گئی۔
کل اس کی مہندی تھی۔
اور وہ کچھ کر بھی نہیں پا رہی تھی۔
اچھا ایمان رو مت دیکھو تم کہیں اکیلی مت جانا سب کے سامنے وہ تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔
ٹھیک ہے؟
روشنی نے ایمان کو تسلی دی۔
جی آپی۔
ایمان تمہیں آنٹی بولا رہی ہیں۔
میں آتی ہوں۔
ایمان مما کے پاس گئی تو مما نے اسے ڈانٹا۔
ایمان کہاں تھیں تم میں کب سے ڈھونڈ رہی ہوں۔
تمہاری بہن کی شادی ہے۔
سب کام تمہیں میرے ساتھ مل کے کرنا ہے اور تم پتا نہیں کہاں چھپ جاتی ہو۔
آمینہ بیگم اپنی دُھن میں کہے جا رہی تھی۔
جب اُنہون نے ایمان کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
آمینہ بیگم کے دل کو ایک دم سے کچھ ہوا۔
اُنہوں نے ایمان کو گلے لگایا اور پوچھا کیا ہوا ہے ایمان تم ڈری کیوں ہو؟
کسی نے کچھ کہا ہے؟
ماں کے گلے لگاتے ایمان رونے لگی اور کہنے لگی مما مجھے چُھپا لیں کہیں میں ایسے مر جاؤنگی۔
مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔
ایمان کیا ہوا ہے میری جان کس بات سے تمہیں ڈر لگتا ہے آخر بتاؤ مجھے ہوا کیا تھا اس رات؟
اور جب مما نے اُس رات کا ذکر کیا ایمان ایک دم سیدھی ہوئی۔
نہیں مما کچھ نہیں۔
یہ کہ کے ایمان بھاگ گئی۔
اور آمینہ بیگم پھر سوچ میں پڑ گیں انہیں ایمان کی بہت فکر رہتی تھی۔
اور اس دن کے بعد تو وہ اور بھی پریشان ہو گئی تھی۔
ایمان کے لیے۔
لیکن ایمان انہیں کچھ بتا نہیں رہی تھی وہ جانتی تھی بات کچھ بڑی ہے ورنہ ایمان کی ایسی حالت نہ ہوتی۔

آمینہ بیگم نے ایمان کو روشنی کے ساتھ اس کے کمرے میں بیٹھا دیا وہ جانتی تھیں ایمان ڈر رہی ہے کیسی چیز سے اور یہی حل تھا وہ روشنی کے ساتھ رہتی ایمان کو بخار ہو گیا تھا وہ ماں تھیں اتنا جان گیں تھیں وہ اس شادی میں کیسی سے ڈر رہی تھی پر کس سے اور کیوں؟
اس لیے انہوں نے ایمان کو سب سے دور روشنی کے پاس بیٹھا دیا۔

آج روشنی کی مہندی تھی اور آمینہ بیگم اور آروما کام میں لگیں تھیں امان ایمان کو ڈھونڈتا رہا پر وہ نہیں ملی۔
یہ ایمان تو کل سے غایب ہو گئی ہے۔
امان سوچنے لگا۔
چچی ایمان کہاں ہے امان نے آمینہ بیگم سے پوچھا۔
پتا نہیں بیٹا ہوگی یہیں کہیں کیوں کوئی کام تھا۔
آمینہ بیگم اب کسی کو ایمان کا نہیں بتا رہیں تھیں کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھیں کسی کی بھی وجہ سے ان کی بیٹی کو تکلیف ہو۔
آمینہ بیگم کے جواب پہ امان کو حیرت ہوئی پر کچھ کہا نہیں۔
چچی بس ویسے دیکھا نہیں تو پوچھ لیا۔
تو اب ماں تمہیں سپورٹ کر رہی ہے پر ڈونٹ وری اس کا حل بھی ہے میرے پاس امان نے سوچا۔
اور وہ سیدھا اپنے بابا کے پاس گیا۔
بابا آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔
امان نے سریس ہوتے کہا۔
ہاں بیٹا بولو۔
آپ آئیں۔
امان انہیں الگ روم میں لے گیا۔
بابا آج تک میں نے آپ سے جو مانگا آپ نے مجھے دیا۔
ہاں بیٹا پر اس بات کا ابھی کیا ذکر۔
بابا مجھے ایمان چاہیے امان نے فوراً بول دیا۔
بابا پہلے اسے دیکھتی رہے پھر کہا بس اتنی بات؟
امان نے کہا جی بابا۔
ٹھیک ہے میں رشید سے کرتا ہوں بات۔
آج ہی کریں بابا اور شادی کا بھی کہیں روشنی کے ساتھ کردیں۔
امان نے سارے فیصلے کر ڈالے۔
بیٹا یہ بہت جلدی ہوگا میں بات کرونگا رسم کرلیں ابھی شادی کچھ ٹائم میں۔
ٹھیک ہے بابا امان کہ کے باہر چلا گیا۔

امان کے بابا نے جب رشید صاحب نے بات کی تو وہ بہت خوش ہوئے سارے خاندان میں ایسا رشتہ کہیں نہیں تھا انہوں نے فوراً ہاں کردی اور کہا روشنی کی شادی کے بعد ایمان کی شادی کرینگی ابھی ایمان اتنی سمجھدار نہیں انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔

رشید صاحب نے ایمان کے رشتے کی بات جا کے آمینہ بیگم سے کی تو انہیں پہلے حیرت ہوئی پھر انہوں نے کہا۔
میں ایمان کی شادی اتنی جلدی نہیں کرونگی اور ان دنوں اس کی طبیعت ویسے بہت خراب ہے۔
میں اس پہ کوئی اسٹریس نہیں ڈالنا چاہتی۔
اس بات پہ رشید صاحب بگڑ گئے۔
میری زبان کے کوئی اھمیت نہیں ہے میں نے ہاں کردی ہے اور میرا فیصلا اٹل ہے جا کے کہ دو ایمان کو تیاری کری روشنی کی شادی کے بعد اس کی انگیجمیٹ ہوگی امان کے ساتھ اور اب میں کوئی بحث نہ سُنوں۔
آمینہ بیگم چپ کر کے وہان سے چلی گئیں۔
لیکن وہ ابھی ایمان کو کچھ نہیں بتانا چاہتی تھیں۔

مہندی کا فنکشن شروع تھا ایمان کو بخار تھا پر مما کہ کہنے پہ وہ تھوڑا تیار ہو گئی تھی اور بہت خوبصورت لگ رگی تھی۔
فنکشن اوپر چھت پہ تھا اور ایمان اب تک نیچی تھی روشنی کے ساتھ پھر آمینہ بیگم آئیں ایمان سے کہا آؤ بیٹا اوپر چلیں برا لگتا ہے بہن کا فنکشن ہے سب باتیں کریں گے میں کچھ دیر میں تمہیں یہاں چھوڑ جاؤنگی۔
ٹھیک ہے مما ایمان ان کے ساتھ چل دی۔

ایمان بہت پیاری لگ رہی تھی۔
وہ جیسے اوپر گئی سب اسے دیکھنے لگے امان بھی اسے دیکھے جا رہا تھا۔
ایمان کی نظر جب امان پہ پڑی تو اس کی ہاتھ کی گرفت مما کے ہاتھ پہ سخت ہو گئی۔
اور مما نے دیکھا کے وہ امان کو دیکھ کے ڈر رہی تھی۔
وہ ایمان کے آگے آگیں تا کے امان اسے نہ دیکھ پائے۔
اور پھر پورےفنکشن میں آمینہ بیگم ایمان کے ساتھ رہیں امان کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا۔
ایمان کب تک چھپوگی مجھ سے آخر سمجھتی کیوں نہیں بہت پیار کرتا ہوں تم سے نہیں رہا جاتا تمہارے بغیر اور اب تمہاری مما مجھے بہت پریشان کر رہی ہیں ایک منٹ تمیہں اکیلا نہیں چھوڑا۔
امان کو سوچ سوچ کے غصہ آرہا تھا۔

❤❤❤

آج شادی تھی روشنی کی اور وہ پارلر گئی ہوئی تھی ایمان کو آمینہ بیگم نے اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا کہیں اکیلا نہیں چھوڑ رہی تھیں اور ایمان بھی اس بات سے ریلکس تھی۔
وہاں امان کا غصے سے برا حال تھا اسے ایک موقع نہیں ملا تھا ایمان سے بات کرنے کا۔
پوری شادی میں امان کی نظرین ایمان پر تھیں اور جب ایمان دیکھتی تو مما کے پیچھی چھپ جاتی اور مما یہ سب نوٹ کر رہیں تھی جس بات کا علم نا ایمان کو تھا نا امان کو۔

❤❤

رخصتی کے وقت آمینہ بیگم رو رہی تھی۔
ایمان بھی رو رہی تھی۔
اس وقت ان کا دِھیان ایمان کی طرف نہیں روشنی کی طرف تھا۔
جو بری طرح روئے جا رہی تھی۔
اسی وقت کی تلاش امان کو بھی تھی۔
ایمان رو رہی تھی جب کسی نے اس کا یاتھ پکڑ کے منہ پے ہاتھ رکھ کے اسے سائیڈ میں لے گیا۔
ایمان آنکھیں پھاڑی دیکھ رہی تھی
اندھیرے کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آیا۔
پر جیسے امان کا چہرا قریب آیا وہ چیخنے لگی تھی کے امان کا ہاتھ اس کے منہ پہ تھا۔
چپ کر کے ٹہری رہو ایمان ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔

ایمان ایک دم سہم گئی اور خوف زدہ آنکھوں سے امان کو دیکھنے لگی۔
امان نے ایمان کا چہرا ہاتھ میں لیا تو اس نے جھٹک دیا پر امان نے دوبارہ پکڑ لیا۔
بہت خوبصورت لگ رہی ہو دل تو کرتا ہے تمھیں ابھی لے جاؤ۔ایمان رو رہی تھی۔
امان نے ایمان کے آنسو صاف کئے۔
یار کتنا روتی ہو تم۔
دیکھو ذرا اپنی حالت بخار ہے تمہیں پھر بھی روئی جا رہی ہو۔جانے دو پلیز مجھے ایمان بس یہی کہ پائی۔
کیوں؟
پاگل دیکھائی دیتا ہوں؟
اتنی مشکل سے ہاتھ آئی ہو اور جانے دونگا ایک توآج کل آمینہ چچی کو پتا نہیں کیا ہوا ہے تمھاری گارڈ بنی ہوئی ہیں۔
امان مجھے چھوڑ دو۔
ایمان نے پھر ایک بار لاچاری سے کہا۔
ایک شرت پہ۔
امان نے ایمان کے ہاتھ دیوار سے لگائے۔
ک۔۔کیا شرط؟
ایمان پریشان ہوئی۔
تمہیں تمہارے یہ پیارے ہونٹ میرے گال پہ رکھنے ہوں گے۔ایمان کی آنکھیں پھٹ گیں
ک۔۔کبھی نہیں کرونگی میں ایسا۔
ایمان نے چہرا دوسری سائیڈ کیا۔
جو امان نے اسے وقت اپنی طرف کرتے ہوئے کہا ٹھیک ہے پھر میں کرونگا۔
اور میری تو گارنٹی بھی نہیں ہے کے گال سے کہاں چلا جاؤں؟
امان نے شرارت سے کہا اور ایمان کے اور قریب آگیا۔
چھوڑو امان مجھے جانے دو ایمان تڑپنے لگی۔
امان اس کے قریب آیا اور اپنے ہونٹ ایمان کے گال پہ رکھ دیے ایمان کی سانس رک گئی۔
اس نے ٹرپ کے امان کو دھکا دیا اور رونے لگی امان ہنسنے لگا۔
اچھا رو مت اب جانے دیتا ہوں پر ایک بار گلے مل لوں اور پھر امان نے ایمان کو گلے لگایا اور کہا آء لو یو سو مچ۔
تم جانتی نہیں ایمان تم میری زندگی ہو۔
امان پوری شدت کے ساتھ کہ رہاتھا جبکہ ایمان بس وہان سے جانا چاہتی تھی۔
اور امان نے اسے جانے دیا۔

❤❤

آمینہ بیگم نے جب ایمان کو غایب دیکھا تو پریشان ہو کے اسے ڈھونڈنے لگی۔
جب ایمان انہیں روتی ہوئی آتی دیکھائی دی۔
آمینہ بیگم ایک دم اس کی طرف لپکیں۔
ایمان کیا ہوا ہے تمہیں کسی نے کچھ کہا ہے؟
اور ایمان ان کے گلے لگ گئی ایمان امان نے تمیہں کچھ کہا ہے؟
امان کے نام پے ایمان ایک دم سیدھی ہو گئی اور مما کو دیکھنے لگی وہ ماں تھیں سمجھ گیں کے مسئلہ امان کا ہی ہے وہ چپ ہوگیں اور ایمان کو چپ کروا کے اندر لے گیں روشنی کی رخصتی کروا کے ذرینہ چچی کے گھر لے گئے تھے کیونکہ رات کے وقت بارات نہیں روانہ ہو سکتی تھی۔
اور ارسلان صاحب نے سب کو روکا تھا کے امان کی انگیجمینٹ کے بعد سب جائیں گے۔

❤❤

آمینہ بیگم نے پھر سے رشید صاحب سے بات کی ایمان کے رشتے کے بارے میں لیکن وہ نہیں مانے انہون نے کل کی ڈیٹ رکھ دی انگیجمینٹ کی۔
ایمان اس بات سے بے خبر تھی اور آمینہ بیگم پریشان تھیں کے یے بات اسے کیسے بتائیں گی۔
جب رشید صاحب کی آواز ان کے کانوں میں گونجی۔
سنیں آپنے ایمان کو بتا دیا ہے؟
آمینہ بیگم نے نفی میں سر ہلایا۔
کیا کرتی ہیں آپ بیگم کل اس کی منگنی ہے اور اسے یی نہیں پتا۔
بلائیں اسے۔
نہیں میں بتا دونگی خود۔
آمینہ بیگم نے فوراً کہا۔
آپ نے بتانا ہوتا اب تک آپ بتا دیتیں۔
اب بلائیں اسے یا میں خود جاؤ اس کے روم میں۔
میں بلاتی ہوں یہ کہ کے آمینہ بیگم ایمان کے روم میں اسے بلانے گیں اور اسے اپنے ساتھ لے کے آئیں اور وہ نہ سمجھی کی کیفیت میں اپنے مما بابا کو دیکھ رہی تھی۔
رشید صاحب نے ایمان کو ساتھ بیٹھنے کا کہا وہ اپنی مما کو دیکھ رہی تھی۔
جو اس وقت خود بہت پریشان تھیں۔
ایمان میں نے تمہارا رشتہ تے کردیا ہے۔
یہ سن کے ایمان کے ہوش اڑ گئے۔
آنکھون میں آنسو آگئے پر اپنے بابا کے سامنے کچھ کہ نہیں پائی۔
بس بے بسی سے اپنی مما کو دیکھ رہی تھی۔
جو خود بے بس تھیں۔
لڑکا بہت اچھا ہے تمہیں بہت خوش رکھے گا۔
رشید صاحب کی آواز پر ایمان کا سختہ ٹوٹا بابامیں۔
ابھی اس نے یہی کہا تھا کے رشید صاحب پہلے بول اُٹھے۔۔خبردار ایمان کوئی فضول بات کی ہے شادی نہ کرنے کی۔
میں بردشت نہیں کرونگا اتنا اچھا رشتہ گوانا۔
پتا نہیں کیسے ارسلان بھائی نے امان کے لیے تمہارا رشتہ مانگا میری تو اس وقت خوشی سے حالت ہو گئی۔
جس کے لیے پورا خاندان آس لگائے بیٹھا تھا۔
وہ خود ہمارے پاس آئے رشید صاحب بولے جا رے تھیں اور ایمان نے امان کا نام سن کے صدمے کی حالت میں ماں کو دیکھ رہی تھی۔
مما بابا کیا کہ رہے ہیں؟
ایمان نے بے بسی سی مما سے پوچھا۔
مما میں کبھی امان سے شادی نہیں کرونگی پلیز بابا سے کہیں نہ آپ ماں کو چپ دیکھ کے ایمان بابا کی طرف لپکی۔
بابا میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں پلیز مجھے امان سے شادی نہیں کرنی۔
پلیز بابا ایمان بابا کےآگے ہاتھ جوڑے کھڑی رو رہی تھی۔
ایمان جاؤ یہاں سے میں اپنی زبان سے نہیں مکرتا۔
جا کے تیاری کرو۔
مما پلیز بابا سے کہیں مجھے اپنے ہاتھوں سے مار دیں پر امان سے شادی نہ کریں۔
ایمان بہت رو رہی تھی رشید صاحب کے دل کو کچھ ہوا۔
پر وہ جانتے تھی ارسلان بھائی کو ہاں کر کے منع کرنا بہت مہنگا پڑ جائیگا۔
اس لیے انہوں نے ایمان کو کہا جاؤ اپنے کمرے میں اور کل تیار رہنا انگیجمینٹ کے لیے اب کوئی بحث نہ سُنوں میں۔
بابا۔۔
ایمان تڑپ کے رہ گئی اور وہیں بے ہوش ہو کے گر گئی۔
ایمان رشید صاحب اور آمینہ بیگم دونوں اس کی طرف لپکے۔۔

ڈاکٹر کیا ہوا ہے ایمان کو رشید صاحب نے ڈاکٹر سے پوچھا۔اِنہیں کس بات کا اتنا اسٹریس ہے؟
ڈاکٹر کے سوال پہ رشید صاحب چپ ہو گئے۔
جس پہ ڈاکٹر نے انہیں کہا دیکھیں انہیں ہر اسٹریس سے دور رکھیں۔
یہ کہ کےڈاکٹر چلے گئے اور رشید صاحب سوچ میں پڑ گئے کے ارسلان بھائی کو کیسے منع کرینگے۔
ایمان دوائوں کے ذیرے اثر سو رہی تھی آمینہ بیگم اس کہ پاس بیٹھیں تھیں۔

رشید صاحب ارسلان صاحب کے پاس گئے وہ اِس وقت ہوٹل میں تھے۔
امان بھی ان کے ساتھ تھا۔
اور باقی ساری بارات ذرینہ بیگم کے گھر تھی۔
کل تک بارات کو وہیں رکنا تھا۔
کیونکہ امان اور ایمان کی منگنی کی بات چل رہی تھی۔
بھائی صاحب مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔
رشید صاحب کی نظریں نیچے کرتے کہا۔
اس سے پہلے وہ کچھ کہتے ارسلان صاحب نے کہا۔
رشید ایسا کچھ مت کہنا کے مجھے اپنا لہجہ سخت کرنا پڑے ایمان میرے بیٹے کی خوشی ہے اور میں اپنے بیٹے کی کبھی کوئی خواہش ادھوری نہیں رہنے دیتا میں تم سے اس بات کا وعدہ کرتاہوں ایمان کو بیٹی بنا کے رکھوں گا اب تم کہو کیا کہنے آئے ہو۔
رشید صاحب بہت پریشان ہو گئے۔
بھائی صاحب اصل میں ایمان کی طبیعت بہت خراب ہے وہ بے ہوش ہے۔
اور جب تک وہ ٹھیک نہیں ہوتی ہم منگنی کی بات روک سکتے ہین سب آپس میں ہے۔
امان بھی ساری بات سُن رہا تھا۔
اور وہ جو اتنا خوش تھا ساری خوشی دھری کی دھری رہ گئی تھی۔
وہ غصے سے اٹھ کےچلا گیا۔
ارسلان صاحب امان کے لیے پریشان ہوئے پر اگر ایمان بے ہوش تھی تو منگنی ہو نہیں سکتی تھی اس لیے چپ ہو گئے۔۔۔کیونکہ امان کی فرمائش تھی کے وہ ایمان کو سب کے سامنے رِنگ پہنائے۔
اب وہ خالی رسم نہیں کر سکتے تھے اس لیے اتنا کہا ایمان ٹھیک ہو تو بتائیں ہم آجائیں گے پھر رسم کرینگے۔
اور رشید صاحب جی کہ کے چلے گئے۔

بارات کو جانے کا کہ دیا ارسلان صاحب نے۔
یہ کہ کے ایمان کی طبیعت کی وجہ سے کچھ وقت کہ لیے ملتوی کر دی گئی ہے منگنی کی تقریب۔
اور بارات بھی روانا ہوگئی۔
امان کا غصے سے برا حال تھا۔
اسے پتا تھا ایمان کی طبیعت کیوں خرا ب ہے۔
ارسلان صاحب امان کے پاس آئے اور کہا بیٹا ہم بھی چلیں میں ڈرائیور کو کال کردوں۔
نہیں بابا امان فوراً بولا آپ جائیں میں ابھی نہیں جاؤنگا۔
بیٹا ایمان ٹھیک ہو جائے ہم آئیں گے پھر کیوں پریشان ہو رہے ہو میرا وعدہ ہے ایمان کی شادی تم سے ہی ہوگی۔
بابا ایمان کی شادی مجھ سے ہی ہوگی لیکن یہ لوگ شرافت سے نہیں مانیں گے۔
غلط بات ہے بیٹا رشید نے مجھے ہان کہ دی ہے اور ہمہارے پاس ہان کے بعد نہ نہیں ہوتی۔
اس لیے تم فکر مت کرو۔
بابا آپ نہیں جانتے بچوں کے لیے انسان نہ بھی کرتا ہے جیسے آپ میرے لیے سب کر سکتے ہیں اس کے ماما بابا بھی کریں گے۔
ارسلان صاحب سمجھ گئے تھے لیکن وہ چپ اس لیے تھے کے ایمان ٹھیک ہو جائے پھر بات کریں گے۔
بابا آپ اور مما جائیں میں کچھ دن تک آونگا پر کسی کو پتا نہ ہو کے میں یہاں ہوں۔
آپ سب سے یہی کہنا میں آپ کے ساتھ جا رہا ہوں۔
کیوں بیٹا کیا کرنے کا اِرادہ رکھتے ہو آپ؟
کچھ نہیں بابا آپ بس وہی کریں جو کہا ہے اور ارسلان صاحب کی بیٹے کے آگے بلکل نہیں چلتی تھی اس لیے ٹھیک ہے کہ کے چلے گئے امان کی مما کے ساتھ۔

امان کو یہاں ایک ہفتہ ہو گیا تھا وہ اسی انتظار میں تھا ایمان باہر نکلے۔
ایمان اب ٹھیک تھی اور خوش بھی کے اس کے بابا نے اس کی بات مان لی تھی اور وہ واپس دبئی چلے گئے تھے اور یہاں سب کو یہی پتا تھا امان چلا گیا ہے واپس۔
ایمان خوش تھی اور اسے دیکھ کے اس کی مما بھی خوش تھیں۔۔۔
❤❤

ایمان آپی آپکی کال آرہی ہے۔
آروما نے ایمان کا موبائل لا کے ایمان کو دیا۔
سونیہ کی کال تھی۔
سونیہ ایمان سے لڑنے لگی کے وہ اسے ملتی نہیں آج رات سونیہ کی انگیجمینٹ تھی اور وہ ایمان کو بلا رہی تھی ایمان کی اسے اچھی دوستی تھی اس لیے وہ منع نہیں کر پائی۔۔

ایمان تیار ہو رہی تھی اس کی مما اسے پیار سے دیکھ رہی تھیں انہون نے آروما کو کہا ساتھ جانے کا وہ سو گئی اور وہ اسے اکیلے چھور کے نہیں جا سکتی تھیں اس لیے انہیں اب فکر تھی کے ایمان اکیلی کیسے جائی گی جب ایمان نے کہا مما پریشان مت یوں میں چلی جاؤنگی پچھلی گلی میں تو ہے گھر۔
بیٹا خیال سے جانا۔
جی۔
مما کہ کے ایمان گھر سے نکل گئی۔

ایمان اپنی دپھن میں جا رہی تھی جب کسی نے پیچھے سے اس کے منہ پہ رومال رکھا اور اس کے بعد وہ ہوش کی دنیا سے بیگانہ ہو گئی۔
امان جو کتنے وقت سے موقع کی تلاش میں تھا وہ موقع اسے آج ملا تھا۔
اور اس نے ایمان کو غایب کردیا تھا۔
امان نے وہاں ایک فارم ہاوس لے لیا تھا وہ ایمان کو وہیں لے گیا۔
ایمان بے ہوش تھی امان نے احتیاط سے ایمان کو بیڈ پہ لیٹایا اور خود باہر چلا گیا ڈور لاک کر کے۔

ایمان 8 بجے گئی تھی اب رات کا ایک بج رہا تھا۔
وہ اب تک گھر نہیں آئی تھی۔
آمینہ بیگم کو فکر ہونے لگی چلو دوست ہے پر اتنی دیر نہیں کرنی چاہے ہے بھی اکیلی۔
انہوں نے کہا تھا ایمان سے کے واپسی میں سونیہ کی امی سے کہنا تمیں گلی پار کروا دیں۔
اس نے کہا تھا ٹھیک ہے۔
اور اب تک وہ نہیں آئی تھی اس کا فون بھی نہیں لگ رہا تھا آخر انہون نے سونیہ کی مما کو کال کی اور ان کا جواب سن کے تو آمینہ بیگم کے ہوش اُڑ گئے کے ایمان منگنی میں آئی ہی نہیں۔
ان کے ہاتھ سے فون چھوٹ گیا۔
وہ خود کو کوسنے لگیں کے انہیں ایمان کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔
اور وہ رونے لگیں۔
لیکن کس سے بات کرتیں کس سے مدد ما گتیں۔
انہیں پتا تھا ایمان کو غایب کرنے میں امان کا ہی گاتھ ہوگا انہون نے سیدھا امان کو کال کی۔
آمینہ بیگم کی کال دیکھ کے امان کے چھرے پہ خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
ہیلو۔
ساسو ماں اس وقت کیسے یاد کیا۔
امان ایمان کہاں ہے۔
کون ایمان امان نے ایکٹنگ کی۔
اووو اچھا آپکی بیٹی میری ہونے والی بیوی۔
وہ مجھے کیا پتا میں ملتان ہوں پر جلد آونگا لینے اسے۔
امان کی بات پہ آمینہ بیگم حیران رہ گیں کے اگر ایمان امان کے پاس نہیں تو کہاں ہے پھر۔

ایمان کو ہوش آیا تو اس نے خود کو ایک کمرے میں پایا جہاں لائٹ کے نام پے ایک ذیرو کا بلب جل رہا تھا۔
اسے پہلے تو کچھ سمجھ نہیں آیا پھر جب مکمل ہوش آیا تو اُٹھ کے دروازے کی طرف بھاگی اور زور زور سے بجانے لگی۔کھولو کون ہے نکالو مجھے یہاں سے۔
مجھے گھر جانا ہے۔
وہ کتنی دیر ایسے بجا تی رہی۔
بجاتے بجاتے اس کی ہاتھوں میں درد پڑ گیا اور امان جو ساتھ والے کمرے میں سو رہا تھا دروازہ کھول کے اندر آیا۔
ایمان تمہیں سکون نہیں ہے رات کے 4 بجے لوگوں کو اُٹھا تی ہو۔
امان کو دیکھ کے ایمان کانپ گئی۔
اور ایک دم پیچھے ہوکے کھڑی ہو گئی۔
اب پلیز رونا مت صبح بات کریں گے۔
ابھی مجھے نیند آرہی ہے۔
اور تمھارے لیے یہ بہت بہتر ہوگا کے تم میری نیند نہ خراب کرو۔
امان یہ کہ کے واپس سونے چلا گیا اور ایمان وہیں دروزے کے پاس بیٹھ گئی۔

💖💖💖

امان جب صبح اُٹھا تو اسے یاد،آیا وہ کل ایمان کو لے آیا تھا اور یہ احساس اسے خوشی دے رہا تھا کے وہ اب ایمان کو پا لیگا ایمان اب اس کی ہوگی۔
اور وہ اُٹھ کے ایمان کے روم کی طرف گیا۔
جیسے دروازہ کھولا ایمان دروازے سے ٹیک لگئے سوئی ہوئی تھی۔
امان وہیں نیچے بیٹھ کے ایمان کو دیکھنے لگا۔
کتنا مس کیا تمہیں۔
تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے یہ امان تمہارے لیے پاگل ہوتا جا رہا ہے۔
امان نے ایمان کے چہرے پہ آئے بالوں کو ہٹایا تو ایمان اُٹھ گئی اور امان کو خود کے اتنے پاس دیکھ کے ایک دم سمٹ کے بیٹھ گئی۔
امان اسے دیکھ رہا تھا ایمان بہت ڈری ہوئی تھی۔
ایمان۔
امان نہ پُکارا۔
ایمان نے اسے نہیں دیکھا بس ڈر سے نظریں نیچے کیے بیٹھی تھی۔
ایمان۔
امان نے ایک بار پھر پُکارا۔
اور اس کا چہرا اوپر کرنے لگا تو ایمان نے ہاتھ جھٹک دیا۔
مجھے گھر جانا ہے ایمان نے کانپتی آواز میں کہا۔
نہیں جا سکتی۔
امان نہ دلچسپی سے ایمان کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
ایمان نے تڑپ کے امان کو دیکھا۔
آ۔آپ کیون لائے ہو مجھے یہاں۔
ایمان نے کہا۔
تمہیں سچ میں نہیں پتا کے میں تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں
امان نے حیرت سے ایمان کو دیکھا۔
مجھے کچھ نہیں پتا بس مجھے جانے دیں پلیز۔
ایمان دیکھو میں وہی ہوں۔
جس سے تمہیں محبت ہوئی تھی۔
پلیز دیکھو میں معافی مانگتا میں غلط تھا پلیز مجھے اب معاف کردو۔
میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔
مجھے اس بات کا احساس تھوڑا دیر سے ہوا۔
ورنہ کبھی میں تمھارے ساتھ وہ سب نہیں کرتا۔iam very sorrryyy
یار پلیز مجھے معاف کردو۔
ایمان امان کی ساری باتیں سن کے چُپ رہی اسے امان پہ اب بھروسہ نہیں رہا تھا۔
کیونکہ معافی وہ پہلے بھی مانگ چُکا تھا۔
اور اس کے بعد جو اس نہ کیا اس کا آج بھی ایمان سوچ کے کانپ جاتی ہے تو وہ اب کیسے امان کو معاف کر سکتی تھی۔
امان کے اتنا سب کہنے کے بعد ایمان نہ بس اتنا کہا مجھے گھر جانا ہے۔
امان کو غصہ آگیا۔
نہیں جانے دیتا کرلو اب جو کرنا ہے یہ کہ کے امان باہر چلا گیا دروازہ لوک کر کے۔

💖💖

آمینہ بیگم کا رو رو کے برا حال تھا انہوں نے رشید صاحب کو بھی بتا دیا تھا وی بھی روانہ ہو گئے تھا ایمان کل رات سے غایب تھی اور آمینہ بیگم کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔

❤❤

امان واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی۔
جس میں وہ اپنا اور ایمان کا ناشتا لایا تھا۔
ایمان اب تک وہیں بیٹھی تھی۔
امان نے ناشتا ٹیبل پہ رکھا اور ایمان کے پاس آیا۔
ایمان اُٹھو آؤ ناشتا کرو۔
ایمان نے کوئی جواب نہیں دیا۔
امان نہ غصہ سے کہا۔
ایمان تمہیں سنائی نہیں دیا کیا بکواس کی ہے میں نے؟
اور خبردار جو مجھ سے کوئی فضول بحث کرنے کا سوچا بھی ہے تو۔
شرافت سے چل کے ناشتہ کرو ورنہ تم جانتی ہو تمہارے ساتھ دبردستی کرنے میں مجھے ایک منٹ بھی نہیں لگے گا۔
اور یہ سب سن کے ایمان اپنی جگہ سہم گئی۔
ایمان؟
امان نہ غصے میں کہا تو ایمان ایک دم اٹھ گئی۔
مممجھے بھوک نہیں ہے۔
امان کا پارہ چڑھ گیا۔
امان جیسے ایمان کے پاس آنے لگا ایمان فوراً بولی نہیں میں کھاتی ہوں۔
اور امان کو ہنسی آنے لگی پر اس نے ظاہر نہیں کیا۔
ایمان ناشتہ کرنے بیٹھی امان بھی اس کے ساتھ بیٹھا ایمان سے کھایا نہیں جا رہا تھا۔
اس نہ ایک دو لقمے کے بعد بس کردی۔
تو امان نے اسے جوس دیا۔
یہ پی لو ایمان نے دبردستی آدھا گلاس پیا۔
امان جانتا تھا اس وقت ایمان سے کھایا نہیں جائیگا۔
اس لیے اسے جوس پلا دیا تھا۔
امان نے جب ناشتہ کمپلیٹ کیا تو وہ برتن خود باہر لے گیا۔
وہ میڈ رکھ کے کوئی رسک نہیں لیناچابتا تھا۔

❤❤

امان واپس آیا تو ایمان نیچے بیڈ کے پاس بیٹھی تھی۔
تمہیں بیڈ پہ بیٹھنے سے منع کیا ے کسی نے؟
کبھی دروازے پر بیٹھی ہوتی ہو۔
کبھی بیڈ کے پاس۔
مطلب تم نے اوپر نہیں بیٹھنا۔
ایمان چپ رہی۔
امان پاس آیا اور کہا۔
ایمان۔۔
ایمان نے سر اُٹھا کے کہا۔
مجھے گھر جانا ہے۔
اففففف۔۔
امان نے سرد آھ بھری۔
چلی جانا بس پہلے ایک کام ہو جائے۔
ک۔۔کیا کام ایمان ڈر گئی۔
ھاھاھا۔۔
ایسا کچھ نہیں میری جان اب غلط کچھ نہیں کرونگا۔
پھر مجھے جانے دو نہ پلیز۔
ایمان نے آس سے کہا۔
جانے دونگا پہلے آج ہمارا نکاح ہو جائے۔
پھر تمہیں خود چھوڑ آؤنگا۔
نکاح کی بات پہ ایمان کی آنکھیں کھلی رہ گئی۔
ن۔۔نکاح؟
ایمان ہکلائی۔
ہان میری جان۔
میں نہیں کرونگی تم سے شادی کبھی بھی۔
اچھا تو پھر ایسے رہنا ہے یہاں؟
ہمیشہ کے لیے اور زیادہ دن تو میں بھی شرافت کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔
یہ تم بھی جانتی ہو۔
تو اچھا ہوگا تم شرافت سے نکاح کرلو مجھ سے۔
میں نے سارے انتظام کرلیے ہیں۔
میں ایسا کبھی نہیں کرو گی امان۔
میں تمھارے ہاتھ جوڑتی ہون پلیز مجھے جانے دو۔
ایمان زور زور سے رونے لگی۔
امان کے دل کو کچھ ہوا۔
پر وہ پتھر بنا رہا۔
ایمان تم لگتا ہے کوئی بات شرافت سے نہیں مانو گی۔
تم نکاح کروگی یا میں تمہیں نکاح کے بغیر ہی پالوں۔
امان کی بات پہ ایمان تڑپ اُٹھی امان پلیز۔
ٹھیک ہے جیسی تمھاری مرضی۔
آج رات میں تمہیں نہیں چھوڑونگا اگر شام تک تم نے مجھ سے نکاح نہیں کیا تو۔
اور اگر نکاح کرلوگی خو تمہیں گھر چھوڑ آونگا۔
ورنہ پوری زندگی اپنے گھر والوں کی شکل تک تم دیکھ نہیں پاؤگی۔
امان کہ کے جانے لگا۔
تو ایمان نے کہا۔
مجھے منظور ہے ایمان نے بے بسی سے کہا لیکن امان بہت خوش ہوا۔
💖💖❤

اسی شام ایمان مسسز امان بن گئی۔
ایمان کا دل جانتا تھا اس نے قبول ہے کیسے کہا۔
لیکن وہ گھر جانا چاہتی تھی۔
اور اسے پتا تھا امان کبھی ایسے اسے نہیں جانے دیگا۔
ایمان رو رہی تھی۔
جب امان روم میں آیا۔
اسے روتا دیکھ کے اس کے پاس آیا اور کہا۔
اتنا کیسے رو لیتی ہو یار تم۔
مطلب اگر تمہارے آنسو جمع کیے جائیں تو ملک میں سیلاب آجائے۔
اب جانے دو مجھے جیسا تم نے کہا میں نے ویسا کیا ہے۔
اب کیسے جانے دوں اب تو تم میری بیوی ہو۔
ایمان ایک دن سہم گئی۔
امان تم نے کہا تھا تم چھوڑ آوگے مجھے۔
مذاق کیا تھا میری جان ورنہ تم نکاح نہیں کرتیں۔
اور ایمان آنکھیں پھاڑے امان کا دھوکا دیکھ رہی تھی۔
اچھا اب ایسے بھی نہ دیکھو کچھ کچھ ہوتا ہے۔
اور اب تو تم سے جائز رشتہ بھی ہے امان نے شرارت سے کہا لیکن ایمان کی سانس رُک گئی۔
امان مجھے گھر جانا ہے وہ پھر رونے لگی۔
اچھا کچھ شرطوں پہ تمہیں گھر چھوڑوں گا۔
امان نے کہا۔
کیا شرط۔
ایمان نے امان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
ابھی اس نکاح کا تم کسی کو نہیں بتاؤگی۔
پراپر شادی ہوگی ہماری اور تم اب شادی کے لیے منع نہیں کروگی۔
اور دوسرا یہ جب بھی میں تمہیں کال کروں تم بات کروگی آئی بات سمجھ میں؟
جی۔۔
ایمان بس اتنا کہ پائی۔
قربان جاؤن ابھی سے بیوی والی انداز امان ہنسنے لگا۔
مجھے جانے دیں اب۔
اور ایک بات اور تم گھر ایسے نہیں جاؤگی تم میرے پلان کے تحت جاؤگی۔
پلان؟
ایمان نے حیرت سے امان کو دیکھا۔
ہاں تم سب کو یہ بتاؤگی کے تمہارا اس رات اکسیڈینٹ ہوا تھا اور تم 2 دن بے ہوش تھی۔
آج ہوش میں آئی ہو تو گھر کا ایسڈریس بتایا ہے۔
اور میری ایک میڈ ہے وہ کہے گی کے وہ تمہیں ہاسپیٹل لائی ہے۔
اور سنو اگر کوئی چالاکی کی تو میں پھر تمہیں اُٹھا کے لے جاؤنگا۔
اور تمہارے گھر والون کا بھی بہت برا حشر کردونگا۔
میں جیسا تم کہ رہے ہو ویسا کرونگی پلیز انہیں کچھ مت کرنا۔
اب پلیز مجھے جانے دو۔
ایک آخری بات۔
پاس آو ہگ کرو اور میرے گال پہ اپنے ہونٹ رکھو۔
پھر تمہیں چھوڑ آونگا۔
نہیں پلیز ایسا نہیں کرنا مجھے ایمان دور ہوئی۔
کرنا تو پڑیگا۔
اور اب تو اور بھی بہت کچھ کرنا پڑیگا اب تو تم بیوی ہو میری۔
سوچو جب میں پہلے تمہیں نہیں چھوڑتا تھا اب چھوڑونگا۔ایمان ڈر کے دور ہونے لگی۔
ایمان کوئی فائدہ نہیں جلدی آو یہان میرے پاس۔
ایمان اور دور ہو گئی امان اس کے قریب گیا اور اسے اپنی باہون کے گھیرے میں لے لیا۔
ایمان تڑپنے لگی۔
اب ڈرنہ چھوڑو میری جان پیار کرنا سیکھو۔
امان نے ایمان کو پیار کیا ایمان رونے لگی۔
امان نے سرد آہ بھری۔
اوووففففف۔۔
اچھا چلو ہاسپیٹل۔
اور وہ دونوں ہا سپیٹل کے لیے روانہ ہو گئے۔
💖💖

امان اپنے پلان کے مطابق ایمان کو اپنی میڈ کے ساتھ ہاسپیٹل چھوڑ کے چلا گیا۔
اور وہاں سے اس میڈ نے گھر کال کی تو ایمان کے مما بابا اورآروما سب آگئے۔
ایمان ماں کو دیکھ کے ان سے لپٹ گئی۔
ماں بھی رو رہی تھیں اور بابا بھی ساتھ کھڑے ایمان کے سر پہ ہاتھ رکھے تھے۔
آروما اپنی بہن کے گلے لگی تھی۔
وہ سب گھر آگئے تھے۔
ایمان سو رہی تھی اور مما اس کے ساتھ بیٹھیں تھیں اور شکر کر رہیں تھی کے ایمان کو چوٹیں نہیں آئیں۔
کیونکہ ڈاکٹر نے انہیں کہا تھا ایمان ڈر سے دو دن بے ھوش تھی اسے چوٹیں نہیں آئیں اور وہ اس بات سے خوش تھیں لیکن وہ نہیں جانتیں تھیں کے ان کی بیٹی اندر سے کتنی چوٹیں برداشت کر کے آرہی ہے۔

💖💖

امان کو اوپس مالتان جانا تھا۔
اور وہ چاہتا تھا ایمان سے مل کے جائے۔
اس نے ایمان کو کال کی جو اس نے دو بار رسیو نہیں کی تیسری رنگ پہ کال رسیو کی۔
ہیلو۔
ایمان نے کہا۔
ہیلو کی بچی کہاں تھی؟
کال کیوں نہیں اُٹھا رہی تھی؟
پتا نہیں۔
ایمان نےروکھا سا جواب دیا۔
تم نے قسم کھا رکھی ہے میرا دل جلانے کی۔
امان نے تپ کے کہا۔
مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔
ایمان نہ کہ کے کال رکھ دی۔
امان نے پھر کال کی ایمان نے نہیں اُٹھائی۔
امان نہ مسیج کیا ایمان شرفت سے کال اُٹھاؤ ورنہ تمہیں اُٹھا کے لے جاؤگا۔
اور پھر کال کی جو ایمان نے اُٹھا لی۔
کیوں کاٹی کال۔
مجھے نہیں کرنی آپ سے کوئی بھی بات۔
پلیز بخش دین مجھے اب۔
نہیں بخش سکتا۔
اب کام کی بات کریں؟
امان نے سختی سے کہا۔
ایمان چپ رہی میں ملتان جا رہا ہوں۔
امان کہ کے چپ ہو گیا۔
ایمان کے دل میں خوشی کی لہر دوڑی۔
ذیادہ خوش نہ ہو ایک ہفتے بعد بابا مما آئیں میں اور سب آئیں گے منگنی کرنے۔
اور اس بار کوئی بھی غلطی مت کرنا ایمان ورنہ قانونن تم میری بیوی ہو میں تمہیں اسی وقت لے جاؤگا۔
نہیں اتنی جلدی کیوں کر رہے ہیں آپ یہ سب۔
ایمان نہ کہا۔
یہ جلدی ہے مجھے سمجھ نہیں آرہا میں یہ وقت کیسے گذاروں گا۔
اور تمہیں جلدی لگ رہی ہے؟
امان پلیز ابھی نہیں ایمان نے مننت کی۔
ایمان چپ رہو ایک دم جتنا کہا ہے اتنا کیا کرو۔
اور ابھی باہر آو گھر سے میں گاڑی میں ہوں۔
مجھ سے ملو آ کے۔
میں تم سے مل کے جانا چاہتا ہوں۔
نہیں میں نہیں آسکتی۔
ایمان کے چھرے پہ خوف کے سائے دوڑ گئے۔
تم آتی ہو یا میں آوں پولیس کے ساتھ؟
امان آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ؟
میں نے آپکا کیا بگاڑا ہے؟
یہ بات تم آو تمہیں سامنے سے بتاتا ہوں کے کیا کیا بگاڑا ہے تم نے۔
آو جلدی۔
اور ایمان بے بسی سے رونے لگی۔
اس کی آنکھیں سرخ یو گیں۔
باہر گئی تو امان کی گاڑی سامنے نظر آئی۔
مرتے قدموں کے ساتھ ایمان گاڑی کی طرف بڑھی۔
امان نے گاڑی کا دروازہ کھول کے ایمان کو بیٹھنے کا کہا ایمان نے منع کردیا۔
امان خود باہرآیا اور ایمان کو دیکھنے لگا۔
کتنے نخرے ہیں آپ کی میڈم۔
مجھے کوئی جب کسی بات کا منع کرتا میرا خون کھول جاتا ہے۔
امان ایمان کو دیکھ رہا تھا امان کی بات پہ ایمان نے ڈر کے امان کو دیکھا۔
نہیں تمہیں کچھ نہیں کرتا ڈرو مت۔
ایمان مجھے کہو نہ کے تم مجھ سے پیار کرتی ہو؟
میں نہیں کرتی ایمان نے فوراً کہا۔
امان نے ایمان کا ہاتھ پکڑا اور کہا۔
شوہر ہون تمہارا کچھ تو خیال کرو۔
ایمان ہاتھ چُھڑانے لگی
امان نے گرفت اور سخت کردی ایمان کی آہ نکل گئی۔
امان نے گرفت پھر ڈھیلی کردی۔
امان نے ایمان کو گلے لگایا اور بائے کہ کے چلا گیا۔
ایمان گھر چلی گئی۔

💖💖

امان ملتان پہنچ گیا تھا اور آرام کر رہا تھا۔
ایمان نے سکون کا سانس لیا تھا۔
اس کی مما نے بہت بار اسے پوچھا کے وہ کیوں پریشان ہے پر اس نے نہیں بتایا۔
❤❤

بابا میں چاہتا ہوں آپ رشید چچا سے اب بات کریں ایمان ٹھیک ہے اب۔
ہاں بیٹا میں کرتا ہوں۔
امان نے اسی وقت موبائل نکالا اور کہا لیں بابا ابھی کریں ارسلان صاحب کو امان کی اس حرکت پہ بہت ہنسی آئی۔
بہت چاہتے ہو ایمان کو؟
انہوں نے پوچھا۔
بہت سے بھی ذیادہ بابا اب بات کریں۔
ھاھاھا۔۔
اچھا میرا بیٹا میں ابھی کرتا ہوں۔
انہوں نے کال ملائی تو رشید صاحب نے کال نہیں اُٹھائی۔انہوں نے کئی بار کال کی پر انہون نے نہیں اُٹھائی۔
ارسلان صاحب کو بہت غصہ آیا۔
امان کی بھی یہی حالت تھی۔
اس نے اسی وقت روم میں جا کے ایمان کو کال ملائی۔
ایمان نے پہلی بار میں نہیں اُٹھائی۔
امان کا غصہ ساتوں آسمان پر پہنچ گیا۔
پھر اس نے ایمان کو کال کی ایمان نے اس بار کال اُٹھا لی۔
ایک بار میں کال کیوں نہیں اُٹھاتی تم۔
میں باہر تھی ایمان نے بس اتنا کہا۔
تمہارے یہ سارے بھانے ایک منٹ میں ٹھیک کر دینے ہیں میں نے۔
مجھے برائی پہ مت اُکساؤ ایمان۔
ورنہ تم سے بہتر اور کون جانتا ہے اگر اس رات روشنی نہ آتی تو میں تمہارے ساتھ کیا کر چُکا ہوتا۔
ایمان پوری طرح سہم گئی۔
اب چپ کیوں ہو امان نے غصے سے کہا۔
وہ وہ میں۔
کیا وہ میں؟
بابا کہاں ہیں تمہارے؟
تم نے اب تک بابا کو رشتے کی ہاں نہیں کی۔
ایمان تم سے کچھ پوچھ رہا ہون میں۔
ن۔نہیں میں ایسا کچھ نہیں کرونگی۔
واٹ؟
امان کا غصہ اور بڑھ گیا۔
کیا کہا تم نے؟
امان کو ایمان کی عقل پہ شُبع ہوا۔
امان مجھے تم سے شادی نہیں کرنی۔
ایمان نے پوری ہمت جمع کرتے کہا۔
شادی ہو چکی ہے تمہاری مجھ سے۔
امان نے چیخ کے کہا۔
وہ۔۔وہ تو ذبردستی تھا۔
میں اس کو نہیں مانتی۔
مجھے تم اُسے آذاد کردو۔
امان کو گہرا جھٹکا لگا۔
ایمان مجھے لگتا ہے مجھے تب تک تمہیں آزاد نہیں کرنا تھا جب تک تم میرے 2 بچون کی ماں نہ بن جاتیں۔
پر دونٹ وری اب تمیں میں ایسے ہی لے جاؤنگا اور پھر کبھی تم اپنے بابا مما سے نہیں مل پاؤگی۔
نہیں تم ایسا نہیں کر سکتے ایمان رونے جیسے ہوگئی۔
تم نے خود مجبور کیا ہے مجھے یہ سب کرنے میں اب تم دیکھو میں کیا کیا کرتا ہوں تمہارے ساتھ۔
نہیں امان میں جیسا تم کہو گے ویسا کرونگی۔
ایمان رونے لگی جاؤ ابھی اپنے بابا سے کہو تمہیں یہ رشتہ منظور ہے۔
پر۔۔
ایمان منمنائی۔
جاؤ۔۔
امان نے زوردار آواز میں کہا۔
ایمان سہم گئی۔
ج۔۔جا رہی ہوں۔
ایمان ڈرتے ہوئی بابا کے پاس گئی۔
بابا مجھے کچھ بات کرنی ہے۔
ہاں بیٹا آؤ کرو۔
بابا مجھے رشتہ منظور ہے۔
آپ نے جہان بھی کیا ہے۔
رشید صاحب نے ایمان کی طرف دیکھا اور پھر آمینہ بیگم کی طرف۔
ان کی حیرت کا عالم نہ تھا۔
بیٹا اچانک یہ فیصلہ۔
بابا بس آپ پلیز رشتہ کے لیے ہاں کردیں۔
بیٹا مجھے تو پہلے بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔
آمینہ بیگم ایک دم ایمان کی طرف لپکی ایمان سچ بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے۔
تم نے اچانک ہاں کیوں کہی ہے۔
مما مجھے کبھی تو شادی کرنی ہے تو باباکی پسند میں کیا غلط ہے اور آپی بھی وہیں ہیں آمینہ بیگم چپ کر کے ایمان کو دیکھنے لگیں جب کے رشید صاحب بہت خوش ہوئے۔
میں آج ہی ارسلان بھائی سے بات کرتا ہوں۔۔

ek larki pagal si by paraish khan episode 2


ایک لڑکی پاگل سی۔۔۔۔

از آرزو۔۔۔۔پریشے خان۔۔۔۔۔


پارٹ 2

Dont copy and paste without my permission۔۔۔۔۔۔

♡♡♡♡♡❤❤♡♡♡♡♡

ایمان کا بخار اب کافی کم تھا پر وہ اب بھی ڈری ہوئی تھی۔۔۔
تب روشنی اس کے پاس آئی اور کہا امان واپس مالتان چلا گیا ہے ۔۔۔۔
پریشان نہ ہو اب۔۔۔۔۔
ایمان کا اس بات کو سُن کر کچھ ڈر کم ہوا۔۔۔

وہ ایک دم چپ سی ہو گئی تھی ۔۔۔۔
نا کسی کے بات کرتی نا کہیں جاتی ۔۔۔۔۔
بس اپنے کمرے میں رہتی ۔۔۔۔
آمینہ بیگم نے بہت بار روشنی سے پوچھا آخر اس رات ایسا کیا ہوا ہے کے میری بیٹی کی یہ حالت ہو گئی ہے۔۔۔۔
لیکن روشنی ہر بار یہی کہتی کے وہ کسی چیز سے بری طرح ڈر گئی ہے ۔۔۔۔۔
لیکن وہ کیا ہے وہ چیز اُسے بھی نہیں پتا ۔۔۔۔
ایمان سے جیسے کوئی کچھ پوچھتا وہ رونے لگتی اور پھر مما کو لپٹ جاتی ۔۔۔۔
اس لیے آمینہ بیگم نے اس کے بعد ایمان سے دوبارہ کبھی کچھ نہیں پوچھا لیکن وہ بہت پریشان تھیں کیونکے انہیں یہ نارمل ڈر نہیں لگ رہا تھا پر وہ یہ بات پوچھتیں بھی کس سے ۔۔۔

اس لیے چُپ کر گیں اور ایمان کے ٹھیک ہونے کا انتظار کرنے لگیں۔۔۔۔
کیونکے وہی اُنہیں بتا سکتی تھی کے اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔۔

امان کو وہاں سے گیے ایک ہفتا ہو گیا تھا ۔۔۔۔
لیکن اسے ایک پل بھی سکون نہیں مل سکا تھا ۔۔۔۔
وہ بہت بےچین تھا ۔۔۔
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کیوں بےچین ہے وہ اپنا بدلا تو لے چکا ہے پھر کیوں اِسے سکون نہیں مل رہا تھا۔۔۔
آخر کیوں وہ سوچ سوچ کے پاگل ہوا جا رہا تھا۔۔۔

❤❤❤

ایمان اب کافی حد تک سمبھل گئی تھی پر اب وہ کسی سے نہ زیادہ بات کرتی تھی نہ ہی کوئی فرمائش کرتی تھی نہ ہی پہلے کی طرح آروما اور اس کی دوستوں کے ساتھ کھلتی تھی اس نے باہر جانا بلکل بند کردیا تھا وہ کہیں نہیں جاتی تھی مما کہ کہ کے تھک چُکیں تھیں اور آخرکار اب وہ بھی چپ ہو گئں تھیں۔۔
ایمان تم نے کب تک ایسے رہنا ہے؟
روشنی نے پوچھا۔۔۔
کیسے آپی؟
جیسے تم رہ رہی ہو۔۔۔۔
آپی۔۔۔
مجھے سمجھ آگیا ہے مجھ جیسے لوگوں کے لیے اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں جنہیں ہر کوئی آسانی سے بیوقوف بنا جاتا ہے۔۔۔
آپی میرا کیا قصور تھا۔۔۔
یہی کے میں نے ایک امیر زیادے کو تپٹر مار دیا غصے میں۔۔۔
آپی میں ہمشہ آروما کے دوستوں کے ساتھ کھیلتی تھی اور وہاں تو تھپڑ مارنے سے کبھی کسی کو اتنا بُرا نہیں لگتا تھا۔

لیکن آپی انسان کو کتنا بھی برا لگی وہ کسی کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے ۔۔۔۔
ایمان روتے روتے بولے جا رہی تھی۔۔
اور روشنی نے اسے روکا نہیں آج پہلی بار وہ اس طرح بات کر رہی تھی اور روشنی چاہتی تھی ایمان اپنے دل کا غبار نکال کے سکون میں آجائے۔۔۔۔
💖❤❤❤

اس بات کو 6 منتھ گذر چُکے تھے ایمان نے دوبارا کوچنگ شروع کردی تھی اور وہ آہستا آہستا نارمل ہو رہی تھی گھر والے بہت خوش تھے لیکن آج بھی وہ امان کے ذکر سے ڈر جاتی تھی روشنی ہمیشہ کوشش کرتی تھی کے اس کے سامنے امان کا نام کوئی نا لے۔۔۔۔۔

❤❤❤

وہاں امان کی بےچینی دن با دن بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔۔
وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا اُسے کیا ہوا ہے۔۔۔۔
آج بھی وہ بےچین تھا اِس لیے ذین کی طرف چلا گیا۔۔۔۔
ذین اس کا بچپن کا دوست تھا وہ اسے ہر بات بتاتا تھا۔۔۔
امان چپ چپ تھا ذین نے وجہ پوچھی تو کہا کچھ نہیں۔۔۔ ویسے ہی طبیعت تھوڑی خراب ہے۔۔
اتنے میں ذین کا دوست حماد بھی وہیں آگیا وہ امان کا بھی دوست تھا۔۔
اور وہ ایمان کے بارے میں جانتا تھا کیونکے امان سب کے سامنے ایمان سے بات کرتا تھا۔۔۔
امان کو دیکھتے ہی حماد نے امان سے کہا یار کیا بنا تیری اس کزن کا۔۔۔

ارے کیا نام تھا اُس کا؟

ہاں یاد آیا ایمان۔۔۔

امان کو حماد کا ایمان کو یوں مخاطب کرنا اچھا نہیں لگا۔۔
اس نے سرسری سا جواب دیا میری اب بات نہیں ہوتی اسں سے۔۔۔
کیا مطلب تو نے اسں سے بدلا لے لیا۔۔۔؟
حماد نے دلچسپی سے پوچھا۔۔
ہان یہی سمجھ۔۔
امان نے پہر مختثر جواب دیا۔۔۔
لیکن حماد نے اور دلچسپی سے کہا کیا یار سچ میں۔۔۔
اکیلے ہی مزے لئے اُس ٹائم ہمہیں بھول گیا۔۔۔
امان نے حماد کی بات جو کے ابھی جاری تھی سُنتے ہی ایک ذوردار پنچ حماد کو دے مارا۔۔
تیری ہمت کیسے ہوئی یہ سب بکواس کرنے کی اور حماد جو کچھ دیر پہلے ایمان کی باتیں دلچسپی سے کر رہا تھا اب حیرت سے امان کو دیکھ رہا تھا۔۔ذین کا بھی یہی حال تھا دونوں اُسے حیرت سے دیکھنے لگے کیونکہ امان خود سب کے سامنے ایمان کا مذاق بناتا تھا اور اب امان سے برداشت نہیں ہو ریا تھا تو وہ وہان سے اُٹھ کے چلا گیا۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

امان گھر آیا تو اسے حماد پہ اب بھی غصہ تھا۔۔
پھر کچھ دیر بعد امان کو خیال آیا کے اُسے ایمان کے لیے اتنا غصہ کیوں آرہا تھا۔۔۔
امان نے ایمان سے دو سال بات کی اُسے ایمان کے بارے میں اتنا تو پتا چل گیا تھا کے ایمان بہت معصوم اور شریف لڑکی ہے اور اُس کے لیے حماد کا ایسے کہنا اُسے برا لگا تھا لیکن وہ نہیں جانتا تھا برا لگنے کی وجہ کچھ اور تھی یا پھر وہ شاید خود سے ہی بھاگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

ایمان نے کمپیوٹر کلاسس جوائن کر رکھی تھی وہ اب خوش تھی اِسکی یہاں نئی دوست بھی بن گئی تھی۔۔
جس کا نام سونیہ تھا۔۔۔
وہ دونوں بہت اچھی دوست بن گئی تھیں۔۔۔
ایمان اور سونیہ ۔۔
ایمان اور سونیہ ساتھ آتے جاتے تھیں۔۔
ایمان کی وہ واحد دوست تھی جس کے گھر وہ جاتی تھی۔۔۔
اور وہ اس کے گھر آتی تھی۔۔۔۔
ایمان اب سمنھل گئی تھی۔۔۔
پر وہاں امان کا برا حال تھا ایمان کا سوچ سوچ کے۔۔
آج بھی امان اپنے کمرے میں لائٹس آف کیے سوچوں میں گُم تھا۔۔۔
ذیں آیا تو اس نے واچ مین کو امان کو خبر کرنے کا کہا اس نے امان کو بتایا امان نے اجازت دی اور وہ اندر آیا۔۔۔
امان میں کافی ٹائم سے دیکھ رہا ہوں تو بیچین ہے۔۔۔
کیا بات ہے آخر مسئلہ کیا ہے۔۔۔
ذین نے آتے ہی امان سے سوال کیا۔۔۔
کیونکہ وہ اب اکیلے رہنے لگا تھا اور ذین سے اب برداشت نہیں ہو رہا تھا۔۔۔ذین مجھے ہر وقت ایمان کا معصوم چہرا یاد آتا ہے جب وہ میرے سامنے رو رہی تھی گڑگڑا رہی تھی لیکن مجھے اس پے رحم نہیں آیا۔۔۔
میں غصے میں اتنا اندھا ہو گیا میں بغیر نکاح کے اس کے ساتھ۔۔۔
یے کہ کے امان چپ ہوگیا۔۔
ذین اُسے حیرت سے دیکھنے لگا۔۔۔
تو نے سچ میں ایمان کے ساتھ۔۔۔؟

اس سے پہلے وہ کچھ اور کہتا امان نے کہا۔۔۔
نہیں اُسکی سسٹر آگئی تھی۔۔۔
اور اگر نا آتی تو؟
ذین کی حیرت میں اِضافا ہوا۔۔۔
تو میں بھی نہیں جانتا۔۔۔
ذین کو شدید حیرت ہو رہی تھی کے امان غصے میں اتنا پاگل ہو سکتا ہےکے کسی معصوم لڑکی کی زندگی برباد کردے۔۔
ذین امان کو دیکھ رہا تھا اور امان چپ تھا۔۔۔
میں جانتا ہو میں غلط تھا۔۔۔
میں نے ایمان کے ساتھ بہت برا کیا ہے۔۔۔
اور میں یہ بھی جانتا ہوں کے اب تو وہ میری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہےگی۔۔۔
ہاں تو مت دکھا نا اسے اپنی شکل۔۔۔
بدلا لے تو لیا ہے اب کیوں دیکھانی ہے یہ شکل۔۔۔۔
یار میں بہت بےچین ہوں۔۔۔
اس کے بغیر مجھے لگتا بے مجھے اس کی عادت ہو گئی ہے۔۔۔میں نے دو سال اسے مسلسل بات کی ہے۔۔
اس کی ہر بات جانتا ہوں اُسکی جیسی معصومیت کہیں دوبارا نہیں دکھی مجھے۔۔۔۔
ذین میں پاگل ہوتا جا رہا ہوں سوچ سوچ کے۔۔۔۔
ذین نے امان کی طرف دیکھا اور کہا اچھی طرح سوچ آج کی رات کے تجھے کیا چاہیے پھر فیصلا کر۔۔۔
یے کہ کے ذین چلا گیا اور امان سوچ میں ڈوب گیا۔۔۔۔

❤❤❤❤

ایمان اور سونیہ کوچنگ سے واپس آرہیں تھیں۔۔
ایمان نے کہا چلو آج چھولے کا کے پھر گھر چلتے ہیں۔۔۔
سونیہ نے کہا ٹھیک ہے۔۔۔
اور پھر وہ دونون چھولے کھا کے گھر گیں سونیہ کا گھر پچھلی گلی میں تھا۔۔
ایمان کا اگلی اس لیے وہ ساتھ آتی جاتی تھیں۔۔۔
ایمان آج پھر دیر کردی کتنی پریشان ہو گئی تھی بیٹا۔۔
آمینہ بیگم نے ایمان کو اندر آتے دیکھا تو کہا۔۔۔
مما آج چھولے کھانے کا دل کر رہا تھا۔۔۔
ایمان کہ کے چپ ہو گئی۔۔۔
آمینہ بیگم کو یہ سُن کے اچھا لگا کے ایمان دوبارا پہلے جیسی ہو رہی تھی۔۔۔
وہ بہت خوش ہوئین اور ایمان کو گلے لگا کے پیار کیا اور کہا ہمیشہ خوش رہا کرو میری جان ایسے اچھی لگتی ہو۔۔
اور ایمان خوش ہونے لگی آج مما نے اِسے ڈانتا نہیں۔۔۔

❤❤❤

امان سو کے اُٹھا تو کافی فریش فیل کر رہا تھا۔۔
اس نے رات بھر سوچنے کے بعد ایک فیصلا کرلیا تھا۔۔۔
اور اب وہ اس پے عمل کرنا چاہتا تھا۔۔
وہ فریش ہو کے ذین کے پاس چلا گیا۔۔۔
امان تو نے سوچا تجھے کیا چاہیے۔۔۔؟
ذین نے امان سے پوچھا۔۔۔
ہاں سوچ لیا۔۔۔
کیا۔۔۔؟
ذین نے امان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
ایمان۔۔۔۔❤

امان نے تصلی سے جواب دیا۔۔۔
واٹ؟
زین نے حیرت سے امان کو دیکھا۔۔۔
کیا کہا۔۔۔؟
جو سُنا اور اب ڈرامے بند کر میں جانتا ہوں تجھے بھی پتا تھا مجھے کیا چاییے۔۔۔
امان کی بات پے زین کا قہقہ نکل گیا۔۔۔
اور وہ دونوں ہنسنے لگے۔۔۔
پر جناب جو آپنے اُس کے ساتھ کیا ہے اس کے بعد تو وہ آپکو دیکھے گی بھی نہیں۔۔
ہاں جانتا ہوں پر میں اُٹھا کے لے آونگا اب دنیا کی کوئی طاقت ایمان کو میرا ہونے سے نہیں روک سکتی۔۔۔
اووو بھائی صبر کر جا ہر بار جلد بازی اچھی نہیں ہوتی۔۔۔
زین میں جانتا ہو اب ایمان شرافت سے نہیں مانے گی اور مجھے اب اس کے بغیر رہا نہیں جاتا اس لیے دبردستی تو ہوگی میرے دوست پر اس بار سب پراپر وے میں ہوگا اور زین نے

اپنا سر پیٹ لیا جس پے امان ہنسنے لگا۔۔۔۔

❤❤❤❤

دوسرے دن زین امان کی طرف آیا تو وہ پیگنگ کر رہا تھا۔۔۔
کہاں کی تیاری ہے جناب کی۔۔۔
سندھ جا رہا ہوں۔۔۔
امان نے اپنی پیکنگ جاری رکھتے کہا۔۔۔
واٹ اتنی جلدی؟
ابھی کل ہی تو بات ہوئی ہے ہماری۔۔۔
تُو کل کی بات کر رہا ہے؟
مجھ سے ایک پل نہیں رُکا جا رہا۔۔۔
ھاھاھا۔۔
ذین ہنسنے لگا۔۔
میرے مجنو بھائی تو گیا کام سے۔۔
ہاں اب تو گیا۔۔۔
امان اور زین ہنسنے لگے۔۔۔
امان نے ڈرائیور کو کہ دیا تھا۔۔۔
اس لیے وہ بھی اپنی پیگنگ کے ساتھ باہر کھڑا تھا۔۔۔
امان کے باہر نکلتے ہی ڈرائیور نے اپنی سیٹ سمبھالی۔۔
اور ذین نے امان کو گاڑی میں بیٹھا کے گھر کا رُخ کیا۔۔۔
اور امان کو دعا دی کے وہ کامیاب ہو کے واپس آئے۔۔۔
مما بابا کو اس نے کل ہی بتا دیا تھا کے بزنس کے سلسلے میں اُسے جانا پڑ رہا ہے اور ان سے کل ہی اجازت لے لی تھی۔۔۔

❤❤❤❤

ایمان کو اب امان کا ڈر پوری طرح ختم ہو چکا تھا اُسے یہی لگا کے امان بدلا چاہتا تھا اور وہ لے چکا تھا۔۔
تو اب اُسے اس بات کی پریشانی نہیں تھی وہ اب پہلے کی طرح خوش تھی اس لیے بھی کے جب وہ اداس ہوتی یا روتی سب پریشان ہو جاتے تھے۔۔۔
اس لیے اب وہ کبھی یے ظاہر تک نہیں کرتی تھی بس وہ اب خوش رہتی تھی سب کے لیے۔۔۔۔
لیکن وہ اس بات سے انجان تھی کے امان جسے وہ بھلا چکی تھی وہ واپس اس کی زندگی میں آنے والا ہے۔۔۔۔۔

❤❤❤

امان سفر میں تھا ڈرائیور گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا ۔۔۔
اور امان ایمان کی یادوں میں کھویا تھا۔۔۔۔
ایمان میں آرہا ہوں اور اس بار تمہیں لے کے ہی جاؤگا۔۔۔۔
میرا وعدہ ہے تم سے اور خود سے۔۔۔۔
امان سوچتے سوچتے نیند کی وادی میں اتر گیا۔۔۔

❤❤❤

امان نے سندھ کی وادی میں قدم رکھا تو وہ بہت خوش تھا ایک احساس تھا جو اسے خوشی دے رہا تھا اور وہ احساس ایمان کا تھا۔۔۔
اس نے ہوٹل میں روم پہلے ہی بک کروا لیا تھا اور اب وہ ہوٹل میں موجود تھا۔۔
اس کا دل تو تھا کے وہ اسی وقت ایمان کے پاس چلا جائے پر اس نے جو کیا تھا اس کے بعد اس کا جانا اسے صیح نہیں لگا۔۔۔

اور وہ سوچنے لگا ایمان اب تمہارے گھر تمہں لینے آونگا۔۔۔
اب اس کا سب سے پہلا کام ایمان کے روٹین کے بارے میں پتا لگانا تھا جو اتنا آسان نہیں تھا وہ کچھ دیر آرام کر کے ایمان کے گھر کے باہر گاڑی میں بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا ایمان کا لیکن دو دن گذر گئے ایمان باہر نہیں آئی امان کو غصہ آتا اور دل کرتا اندر چلا جائے پر وہ نہیں گیا وہیں انتظار کرنے لگا۔۔

ایمان کی کوچنگ کی دو دن چھوٹی تھی اور ایسے وہ کہیں باہر نہیں جاتی تھی۔۔
اس لیے اب تک ایمان نے امان کو نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی امان نے ایمان کو دیکھا تھا۔۔۔
تیسرے دن امان کو ایمان کا چہرا نظر آیا اور وہ دیکھتا رہ گیا وہ پہلے سے ذیادہ خوبصورت ہو گئی تھی۔۔۔
امان نے دیکھا وہ گھر سے نکل کے پچھلی گلی میں گئی وہاں سے ایک لڑکی کو لیا اور کہیں جانے لگی امان کی گاڑی کے شیشے سیاہ تھے اس لیے ایمان اُسے دیکھ نہیں پائی امان نے ایمان کا پیچھا کیا اور اس نے دیکھا وہ ایک کوچنگ میں اندر گئی اور امان وہیں ٹہر گیا اور ایمان کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔

کچھ دیر بعد۔۔

ایمان اور اس کی دوست باہر آئیں اور گھر جانے لگیں۔۔۔
امان بھی انکے پیچھے گاڑی چلانے لگا۔۔۔
ایمان ایک بات کہوں سونیہ نے ایمان کو قریب کرتے ہوے کہا۔۔۔ہاں کہو۔۔۔
ایمان نے کہا۔۔۔
یار وہ پیچھے سیاہ مرسڈیز دیکھ رہی ہے۔۔
ایمان نے پیچھے دیکھا اور کہا ہاں کیوں۔۔۔؟؟؟
یار یے صبح بھی ہمارے پیچھے چلی تھی۔۔
اور ابھی پھر یے ہمارا پیچھا کر رہی ہے۔۔۔
کیا ایمان کی سانس اٹک گئی۔۔۔
ایمان کو ایک دم پسینہ آنے لگا۔۔۔
کیا ہوا ایمان سونیہ پریشان ہوئی کچھ نہیں چل جلدی۔۔۔
اور پھر ایمان اور سونیہ تیز تیز چل کے گھر پہنچیں اور ایمان نے سکون کا سانس لیا۔۔۔
ایمان کو اس طرح ڈرا ہوا دیکھ کے روشنی نے پوچھا ایمان کیا ہوا ہے تمہیں۔۔۔
آپی آج ایک گاڑی نے ہمارا پیچھا کیا آپی مجھے ڈر لگ ریا ہے کہیں وہ امان تو نہیں۔۔۔
کیا ہو گیا ہے ایمان تمہیں اب تک تمہارا ڈر نہیں نکلا۔۔۔
کوئی اور ہوگا وہم مت کرو امان اب یہاں کیوں آئیگا پاگل۔۔
اور روشنی کی باتیں سُن کے ایمان ریلکس ہو گئی لیکن ایمان یے نہیں جانتی تھی اس کا یے سکوں بس کچھ وقت کا مھمان تھا۔۔۔۔

❤❤❤

امان نے ایمان کی ہر روٹیں کے بارے میں پتا کرلیا تھا اب وہ ایمان سے ملنا چاہتا تھا لیکن وہ جانتا تھا ایمان ایسے کبھی نہیں راضی ہوگی ملنے پے ۔۔۔
پر امان کو ایمان سے ملنا تھا اور وہ یہی سوچ رہا تھا کے کیسے۔۔۔۔

❤❤❤

ایمان کوچنگ کے لیے نکلی تو امان نے گاڑی اِس کے پیچھے لی۔۔۔
اور ایک جگہ پہ گاڑی ایمان کے آگے روک دی۔۔۔
ایمان نہ سمجھی کی کیفیت سے گاڑی روکنے والے کو دیکھنے لگی۔۔۔
وہ نہیں جانتی تھی کے اس گاڑی میں امان ہے۔۔۔
ایمان آگے بڑھنے لگی تو امان گاڑی سے باہر نکلا۔۔۔
امان کو دیکھ کے ایمان کی سانس رُک گئی اور وہ کانپنے لگی۔۔۔۔
امان نے ایمان کی حالت دیکھی تو پریشان ہو گیا۔۔۔
وہ ایمان کی طرف بڑہا امان کو آگے آتا دیکھ کے ایمان ایک دم بھاگنے لگی تو امان نے فوراً آگے بڑھ کے ایمان کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔

ایمان کی جان نکلے جا رہی تھی۔۔۔
آنکھوں میں آنسو آگئے پر ڈر کی وجہ سے ایمان کی آواز نہیں نکل پا رہی تھی۔۔۔
وہ بس روتے اپنا ہاتھ چھوڑا رہی تھی۔۔۔۔
اور امان اُسے دلچسپی سے دیکھے جا رہا تھا۔۔۔
اتنے میں ایمان کی بس اتنی آواز نکلی جو اس نے کہا چھوڑو مجھے۔۔۔
اور امان جو کہیں کھو سا گیا تھا جسے ہوش میں آگیا۔۔۔۔
نہیں چھوڑوں تو کیا کرلوگی۔۔۔۔۔۔
مجھے جانے دو پلیز۔۔۔
ایمان رونے لگی۔۔۔
ت۔۔تم اپنا بدلا لے تو چکے ہو اب کیوں آئے ہو۔۔
ایمان کی آواز میں اُس کا ڈر واضع تھا۔۔۔۔
امان بس ایمان کو دیکھے جا رہا تھا۔۔۔
امان کو ایمان کو دیکھ کے بہت خوشی ہو رہی تھی۔۔۔
وہ سب بھول گیا تھا کے اس نے کیا کیا ہے ۔۔۔۔
وہ بس ایمان کا ہاتھ پکڑے اسے دیکھے جا رہا تھا۔۔۔
اور پھر دیکھتے دیکھتے امان نے ایمان کو گلے لگا لیا ۔۔۔۔۔

i miss u soo much Emaan

پتا نہیں کیسے رہا ہوں تمہارے بنا۔۔۔

۔۔۔ i lovee you soo much Emaan

ایمان تڑپ کے رہ گئی۔۔۔
وہ مسلسل خود کو چُھڑا رہی تھی ۔۔۔
اور زاروقطار رو رہی تھی۔۔۔
امان نے ایمان کو خود سے الگ کیا پر اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا۔۔
ایمان میں تمہیں لینے آیا ہوں۔۔۔
شادی کرنا چاہتا ہوں میں تم سے لیکن ایمان جیسے امان کی کوئی بات ہی نہیں سُن رہی تھی۔۔۔۔
بس رو رہی تھی اور اپنا ہاتھ چھڑا رہی تھی۔۔۔
کیوں جان لگا رہی ہو بِلا وجہ جب تک میں نہ چاہوں تم نہیں جا سکتیں ۔۔۔
اس لیے چلو گاڑی میں بیٹھو کچھ بات کرنی ہے تم سے۔۔

م۔۔۔مجھے تم سے کوئی بات نہیں کر نی مجھے جانے دو۔۔۔
ایماں کی حالت خراب ہونے لگی تو امان نے ایمان کا ہاتھ چھوڑ دیا اور ایمان بھاگ گئی۔۔۔۔
امان اسے جاتے دیکھ رہا تھا۔۔۔
اس وقت امان کو احساس ہوا کے اس نے کتنی بڑی غلطی کردی ہے۔۔۔
امان چُپ چاپ ایمان کو جاتے دیکھ رہا تھا بہت تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔۔
لیکن یہ تکلیف اس نے خود اپنے لیے پیدا کی تھا اور اب اسے یے سب برداشت کرنا تھا۔۔

❤❤❤

ایمان بھاگتے بھاگتے گھر پہنچی اور دروازہ زور زور سے بجانے لگی۔۔۔۔
آرہی ہوں کیا آفت آگئی ہے ۔۔۔۔
روشنی نے آتے ہوے کہا۔۔۔۔
اور دروازہ کھولا تو ایمان اس کے گلے لگ کے رونے لگی۔۔۔
آپی وہ آگیا ہے ۔۔۔۔۔
آپی وہ آگیا ہے ۔۔۔۔
وہ مجھے نہیں چھوڑیگا آپی۔۔۔۔
کون ایمان؟
کیا ہوا کون آگیا ہے۔۔۔۔؟
روشنی نے ایمان کو سیدھا کرکے پوچھا۔۔۔
آآمان۔۔۔
آپی وہ آگیا ہے۔۔۔
ایمان نے روتے روتے بتایا۔۔۔۔
یہ کہ کے ایمان پھر روشنی کے گلے لگ گئی۔۔۔
کیا۔۔۔۔؟
امان ۔۔۔۔؟
روشنی کو جھٹکا لگا۔۔۔
امان کیوں آیا ہے ۔۔۔۔۔؟
روشنی نے خود سے سوال کیا۔۔۔۔
آپی اب میں کیا کروں۔۔۔
ایمان تم ڈرو مت کیا پتا وہ اپنے کسی کام سے آیا ہو اور تم ایسے اُسے دیکھ کے ڈر رہی ہو۔۔۔
نہیں آپی میں نے اسے نہیں دیکھا اس نے میرے آگے گاڑی روکی اور میرا ہاتھ بھی پکڑلیا تھا آپی ایمان پھر رونے لگی اس کی بات سُن کے روشنی کو بھی ڈر لگا کے اب امان کیوں آیا ہے بہت مشکل سے ایمان ٹھیک ہوئی ہے اور اب یہ کیوں آگیا ہے اس کو چین نہیں ہے نہ اوروں کو چین سے جینے دیتا ہے۔۔۔

❤❤❤

امان کو بار بار ایمان کا ڈرا ہوا چہرا یاد آرہا تھا اس بات سے امان کو بہت تکلیف ہو رہی تھی جو لڑکی اس کا انتظار کرتی تھی اب اس سے اس قدر ڈر رہی تھی اور یے سب اسکا خود کا کیا ہوا تھا۔۔۔۔

❤❤❤❤

ایمان نے پھر سے گھر سے باہر نکلنا بلکل بند کردیا تھا آمینہ بیگم نے بہت بار ایمان سے وجہ پوچھی پر وہ ہر بار کہتی مما مجھے نہیں جانا کہیں بھی اگر وہ ذیادہ کہتیں تو ایمان کو پسنے آنے لگتے۔۔۔
اور اس کا رنگ ذرد پڑ جاتا یہ بات اس کی مما کو بہت پریشان کر رہی تھی۔۔۔۔۔

❤❤❤❤

امان کو آئے ایک ہفتے سے ذیادہ ہو گیا تھا ۔۔۔۔
اور اب بھی وہ روز ایمان کے انتظار میں باہر کھڑا رہتا۔۔۔۔
لیکن اس دن کے بعد وہ باہر نکلنا ہی چھوڑ گئی تھی ۔۔۔۔
اور اس دن کے بعد سے ایمان نے کوچنگ جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔
اور گھر میں کہا چھوٹیاں ہیں ۔۔۔۔
بس روشنی جانتی تھی کے وہ کیوں نہیں باہر جاتی۔۔۔
اور روشنی بھی یہی چاہتی تھی ایمان باہر نہ جائے کیونکہ اسے انداذہ تھا امان کچھ بھی کر سکتا تھا ۔۔۔۔
اس لیے وہ بھی ایمان کا ساتھ دے رہی تھی۔۔۔

💖💖💖💖

یہ سب کب تک چلے گا ایمان۔۔۔۔
ایمان روشنی کی گود میں سر رکھ کے لیٹی تھی تو روشنی نے ایمان سے پوچھا۔۔۔
آپی میں کیسے بتاؤ یہ۔۔۔۔
ایمان میں نے ایک فیصلا کیا ہے۔۔۔
کیا آپی۔۔۔
میں امان سے بات کرونگی اسے پوچھوں گی کے وہ آخر چاہتا کیا ہے۔۔۔۔
روشنی کی بات پہ ایمان ایک دم تڑپ کے اُٹھی۔۔۔
نہیں آپی میں اپنے لیے آپکو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی۔۔۔ایمان امان مجھے کچھ نہیں کریگا۔۔۔۔
روشنی نے ایمان کو تسلی دیتے ہوے کہا۔۔۔
نہیں آپی پلیز آپ کہیں نہیں جاؤگی۔۔۔
ایمان میری بات سمجھو مما کو شک ہو رہا ہے اگر تم ایسے گھر میں چُھپی رہیں تو اُنکا شک بڑہتا جائیگا۔۔۔
پر آپی۔۔۔
ایمان کچھ نہیں ہوتا مجھے۔۔۔
اور ایمان چپ ہو کے سونے کے لیے لیٹ گئی۔۔۔

❤❤❤💖💖💖💖💖💖💖❤❤❤❤❤❤

روشنی کو امان کو ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑی۔۔۔۔۔
وہ جیسے باہر نکلی تھوڑا آگے ایک گاڑی کھڑی تھی ۔۔
اور روشنی کو یہ اندازا لگانے میں دیر نہیں لگی کے وہ امان کی ہی گاڑی تھی۔۔۔
روشنی گاڑی کے پاس گئی تو امان گاڑی سے باہر آیا۔۔۔
آیے صالی صاحبہ ۔۔۔۔۔۔
اپنی بہن کو کہاں چُھپا رکھا ہے۔۔۔
امان میں تم سے کچھ بات کرنے آئی ہوں۔۔۔
روشنی نے امان کی بات اِگنور کرتے ہوے کہا۔۔۔۔
ہاں کریں بات سُن رہا ہوں ۔۔۔
امان بھی سیریس ہوا۔۔۔۔
امان تم واپس کیوں آئے ہو۔۔۔۔
ایمان کو لینے۔۔۔
امان نے فوراً جواب دیا۔۔۔
کیوں روشنی نے غصہ ضبط کر کے پوچھا۔۔۔
کیا کیوں پیار کرتا ہوں اُسے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔
تم اور پیار امان یہ تم کہ رہے ہو۔۔۔
روشنی نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
ہاں مجھے ایمان سے محبت ہو گئی ہے ۔۔۔۔
تم نے نہیں دیکھا میں اس کی ایک جھلک کے لیے یہاں کتنے دن سے ٹہرا ہوں اپنا ہر کام چھوڑ کے۔۔۔۔
امان ایمان اب تم سے نفرت کرتی ہے روشنی نے غصے سے کہا۔۔۔

ہاں تو۔۔۔
کرتی رہے نفرت جتنی کرنی ہے ۔۔۔۔
لیکن آنا تو اُسے پھر بھی میرے پاس ہی ہے۔۔۔
امان نے دو ٹوک جواب دیا۔۔۔
امان تمہیں سمجھ نہیں آتی دور رہو ایمان سے ۔۔۔۔
اس بار روشنی نے زور سے کہا تو امان ہنسنے لگا ۔۔۔۔
جاؤ بیبی اپنا کام کرو مجھے جو کرنا ہوگا میں کر کے رہوں گا۔۔۔
امان میں ارسلان چچا کو تمہاری ہر بات بتا دونگی۔۔۔
روشنی نے دھمکی دی۔۔۔
ھاھاھا ۔۔۔۔۔
یہ تو اور اچھی بات ہے پھر میں بابا کو ایمان کے میسیج بھی دیکھا دونگا اور کہوں گا ایمان بھی راضی ہے ۔۔۔۔
بس گھر والوں کی وجہ سے منع کر رہی ہے ۔۔۔۔
اور پھر تو تم بھی جانتی ہو دنیا کی کوئی بھی طاقت ایمان کو میرا ہونے سے نہیں روک سکتی۔۔۔
بابا ہر حال میں ایمان کی شادی مجھ سے کروا کہ رہیں گے۔۔۔روشنی کے پاس الفاظ ختم ہو گئے ۔۔۔
وہ حیرت سے امان کو دیکھنے لگی۔۔۔۔
امان ایمان نے کیا بگاڑا ہے تمہارا تم کیوں اُس کے ساتھ ایسا کر رہے ہو ۔۔۔۔
وہ تمہارے ڈر سے کہیں نہیں جاتی اُس پہ رحم کرو وہ بہت معصوم ہے وہ اُسے تم نے بدلا لے تو لیا ہے اب کیا اس کی جان لے کے دم لوگے۔۔
روشنی بولی جا رہی تھی اور امان اسے سن رہا تھا۔۔۔
اور سوچ رہا تھا ۔۔۔۔
پہلے روشنی کا بندوبست کرنا پڑیگا اب۔۔۔۔
روشنی تمہاری بات ختم ہو گئی ہو تو تم جا سکتی ہو۔۔
امان نے بےروخی سے کہا تو روشنی غصے میں وہاں سے چلی گئی۔۔۔

💖💖💖💖💖

روشنی کے جانے کے بعد امان نے رحمان کو کال کی۔۔۔
(رحمان )امان اور ایمان کے چچا کا بیٹا تھا ۔۔۔
سگے چچا کا تو نہیں پر ان کے بابا کے کزن کا بیٹا تھا نہایت سُلجھا ہوا نیک لڑکا تھا ۔۔۔۔
اور فیملی بھی بہت اچھی تھی۔۔۔
رحمان مجھے کچھ بات کرنی ہے تجھ سے۔۔۔۔
امان نے کال ریسیو ہوتے ہی کہا۔۔۔۔۔۔
ہاں کہ۔۔۔۔
رحمان نے کہا.....
یار تیرے لیے ایک لڑکی پسند کی ہے میں نےامان نے سیریس ہو کہ کہا ۔۔۔
ھاھاھا ۔۔۔۔
کیا؟
میرے لیے لڑکی تو نے پسند کی ہے۔۔۔؟
میرے اتنے بُرے دن بھی نہیں آئے کے تیری چھوڑی ہوئی لڑکیاں دیکھوں ۔۔۔۔۔
بکواس نہ کریں روشنی کی بات کر رہا ہوں۔۔۔۔
رحمان کی ہنسی ایک دم غایب ہوگئی۔۔۔
کیا روشنی۔۔۔؟
رحمان نے حیرت سے پوچھا۔۔۔۔
ہاں کیوں تجھے پسند نہیں۔۔۔؟
نہیں ایسی بات نہیں اچھی ہے شادی میں آئی تھی تو اچھی لگی تھی مجھے پر میں نے سوچا وہ نا مانی تو اس لیے کچھ نہیں کہا۔۔۔۔
نا مانی تو کیا ہوا تیرا دل چاہتا تھا تو تجھے پیچھے نہیں ہٹنا تھا ۔۔۔۔
خیر اب بھی دیر نہیں ہوئی سکینہ چچی (رحمان کی امی)کو لے کے سندھ آجا اور اُنہیں سمجھا دینا کے ہاں کروا کے رسم کر کے جائیں۔۔۔
رحمان خوش ہوگیا ٹھیک ہے میں امی سے کہ دونگا ۔۔۔۔
پر تو کہاں ہے ۔۔۔۔؟
اور تجھے آج یہ خیال کیسے آیا۔۔۔۔
میں سندھ ہوں اور خیال کو چھوڑ دولھا بننے کی تیاری کر بس۔۔
رحمان ہنسنے لگا۔۔۔
ٹھیک ہے میں امی سے کہ کے روانا ہوتا ہوں امی کے ساتھ ۔۔۔ہاں جلدی کر ابھی میں بھی یہیں ہوں تیری اچھی ہیلپ کردونگا۔۔۔
تھنک یو سو مچ امان۔۔۔
رحمان نے خوش ہوتے کہا۔۔۔۔
آپکا کام تو اچھا ہوگیا سالی صاحبہ۔۔
امان نے ہنستے ہوے سوچا اور کال رکھ دی۔۔۔۔

❤❤❤❤

رحمان اپنی امی کو راضی کر کے سندھ لے آیا تھا سب انہیں دیکھ کے بہت حیران تھے کے یہ لوگ اچانک یہاں کیسے پر پوچھا نہیں کسی نے ۔۔
روشنی اور اس کی مما ان کے ساتھ بیٹھیں تھیں ایمان کمرے میں ہی تھی۔۔۔
رحمان کی نظریں بار بار روشنی پہ جا رہیں تھں جس سے روشنی تنگ ہو رہی تھی۔۔۔
کیا سارے ٹھڑکی لوگ ہمارے ہی گھر آنے ہیں اوووفففف۔۔۔۔۔۔روشنی یہ بس سوچ ہی سکتی تھی۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖

روشنی اندر گئی تو ایمان نے پوچھا آپی رحمان بھائی والے کیوں آئے ہیں۔۔۔
پتا نہیں ایمان ابھی کچھ کہا نہیں شاید ایسے گھومنے آئے ہوں۔۔
اچھا آپی آپنے بتایا نہیں آپکی امان سے کیا بات ہوئی تھی۔۔۔ایمان میں پہلے تمہیں کہ چُکی ہوں اتنی بات نہیں ہو پاے۔۔۔آپی جتنی ہوئی ہے وہ تو بتا،دیں نا۔۔
وہ تمہارے کام کی نہیں ہے۔۔۔۔
آپی آپ مجھ سے کیوں چُھپا رہی ہیں ۔۔۔۔
پلیز بتا دیں امان چلا گیا کے نہیں۔۔۔
پتا نہیں ایمان اس نے کہا تھا چلا جائیگا پر اب یہ نہیں پتا کے چلا گیا ہے یا نہیں۔۔۔
آپی سچ امان چلا جائیگا ؟
ایمان بچوں جیسے خوش ہوتے بولی۔۔
روشنی ہان کہ کے نظریں چُرانے لگی۔۔۔
ایمان کو وہ سچ نہیں بتا سکتی تھی وہ اور ڈر جاتی اس لیے اسے جھوٹ بولنا پڑا۔۔۔۔

❤❤❤❤

روشنی اور ایمان کمرے میں بیٹھں تھی جب آمینہ بیگم وہاں آئیں۔۔۔۔
مجھے تم دونوں سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔
جی ممان کہیں ۔۔۔۔؟
دونوں متوجہ ہوئیں۔۔۔
روشنی کا رشتہ آیا ہے۔۔۔
اور لڑکا اچھا ہے مجھے پسند بھی آیا تمہارے بابا سے بات کی اُنہیں بھی پسند ہے بس اُنہوں نے کہا کے وہ جیسے دبئی سے آئیں گے شادی کردیں گے کیونکہ وہ بار بار نہیں آ سکتی بزنس میں لوس ہوتا ہے ۔۔۔۔
اس لیے اُنہوں نے کہا ہے کے وہ اگلے مہینے آئیں گے ۔۔۔
تب شادی ہوگی۔۔۔
اب میں جاننا چاہتی ہوں تم لوگ کیا کہتے ہو۔۔۔
مما جب آپ لوگ سب ڈیسائیڈ کر چُکے ہیں تو ہمارے چاہنے یا نا چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔۔۔۔
روشنی نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں لڑکا بہت اچھا ہے۔۔۔
پوچھوگی نہیں کون ہے۔۔۔
کیا فرق پڑتا ہے ممان آپ لوگ ویسے بھی فیصلا کر چکے ہیں تو میرے پوچھنے کا کیا فائدہ۔۔
روشنی یہ کہ کے وہاں سے چلی گئی اور ایمان چُپ تھی۔۔۔۔

❤❤❤

رحمان اور اس کے گھر والے دوسرے دن ذرینہ چچی کے گھر سے واپس چلے گئے تھے ۔۔۔۔
اُنہیں ہاں ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔
ایک مہینے بعد شادی کا کہا گیا تھا ۔۔۔۔۔
اس لیے وہ واپس چلے گئے تھے ۔۔۔۔
تیاریان وغیرہ کرنے ۔۔۔۔
رحمان کی امی نے روشنی کے بابا سے بھی بات کرلی تھی اور خاندان ہونے کی وجہ سے وہ جانتے تھے لڑکا اچھا ہے اور وہ دیر کر کے ایسا رشتہ گوانا نہیں چاہتے تھے۔۔۔

❤❤❤

ایمان اور روشنی کو جب پتا چلا کے رشتہ رحمان کا ہے تو دونون کے ہوش اُڑ گئے۔۔۔۔
آپی پلیز آپ منع کردیں ۔۔۔
آپ نے بغیر دیکھے کیوں ہاں کہی ۔۔۔۔
آپ پلیز مما سے کہیں پلیز آپی ملتان مت جائیں۔۔۔
ایمان بابا نے ہاں کی ہے اور تم جانتی ہو وہ اب کبھی نہیں منع کریں گے۔۔۔
آپی یہ کیا ہوگیا۔۔۔۔
آپی وہاں کے لوگ نہیں اچھے پلیز آپ منع کردیں۔۔۔۔۔
اور آپ جانتی ہیں کے امان بھی آئیگا آپی پھر کیا ہوگا۔۔۔
ایمان میری جان میں جانتی ہوں پر اب کچھ نہیں ہو سکتا۔۔
روشنی اور ایمان دونوں کی حالت اِس وقت غیر ہو رہی تھی۔۔۔

❤❤❤❤

امان بہت خوش تھا کے اس کا پلان کام کرگیا تھا۔۔۔
اور ایک مہینے بعد شادی کا سُن کہ وہ بھی ملتان واپس چلا گیا تھا۔۔۔
یہ سوچ کے اب شادی میں ملاقات ہوگی ۔۔۔
مس ایمان ایسے تو آپ باہر نہیں آتیں۔۔۔۔

❤❤❤❤

آپی آپ جانتی ہیں نہ شادی میں امان بھی ہوگا میں کیا کرونگی۔۔۔
ایمان رونے لگی۔۔۔
ایمان تم بس کہیں اکیلی مت جانا روشنی کو ایمان کی فکر ہو رہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی امان لازمی آئے گا۔۔۔
شادی کے دن جیسےقریب آرہے تھی ایمان کا حالت خراب ہوتی جا رہی تھی روشنی سب سمجھتی تھی پر وہ خود بھی بے بس تھی۔۔۔۔
انکہ بابا بھی دبئی سے آچکے تھی اور وہ بہت خوش تھے اپنی بیٹی کے لیے۔۔۔۔
۔۔۔آمینہ بیگم شادی کی تیاریوں میں جُھٹی تھیں۔۔۔
کل بارات نے آنا تھا ان کے رہنے کا انتظام چھت پے کیا گیا تھا۔۔۔ایک لڑکی پاگل سی۔۔۔۔

از آرزو۔۔۔۔پریشے خان۔۔۔۔۔


پارٹ 2

Dont copy and paste without my permission۔۔۔۔۔۔

♡♡♡♡♡❤❤♡♡♡♡♡

ایمان کا بخار اب کافی کم تھا پر وہ اب بھی ڈری ہوئی تھی۔۔۔
تب روشنی اس کے پاس آئی اور کہا امان واپس مالتان چلا گیا ہے ۔۔۔۔
پریشان نہ ہو اب۔۔۔۔۔
ایمان کا اس بات کو سُن کر کچھ ڈر کم ہوا۔۔۔

وہ ایک دم چپ سی ہو گئی تھی ۔۔۔۔
نا کسی کے بات کرتی نا کہیں جاتی ۔۔۔۔۔
بس اپنے کمرے میں رہتی ۔۔۔۔
آمینہ بیگم نے بہت بار روشنی سے پوچھا آخر اس رات ایسا کیا ہوا ہے کے میری بیٹی کی یہ حالت ہو گئی ہے۔۔۔۔
لیکن روشنی ہر بار یہی کہتی کے وہ کسی چیز سے بری طرح ڈر گئی ہے ۔۔۔۔۔
لیکن وہ کیا ہے وہ چیز اُسے بھی نہیں پتا ۔۔۔۔
ایمان سے جیسے کوئی کچھ پوچھتا وہ رونے لگتی اور پھر مما کو لپٹ جاتی ۔۔۔۔
اس لیے آمینہ بیگم نے اس کے بعد ایمان سے دوبارہ کبھی کچھ نہیں پوچھا لیکن وہ بہت پریشان تھیں کیونکے انہیں یہ نارمل ڈر نہیں لگ رہا تھا پر وہ یہ بات پوچھتیں بھی کس سے ۔۔۔

اس لیے چُپ کر گیں اور ایمان کے ٹھیک ہونے کا انتظار کرنے لگیں۔۔۔۔
کیونکے وہی اُنہیں بتا سکتی تھی کے اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔۔

امان کو وہاں سے گیے ایک ہفتا ہو گیا تھا ۔۔۔۔
لیکن اسے ایک پل بھی سکون نہیں مل سکا تھا ۔۔۔۔
وہ بہت بےچین تھا ۔۔۔
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کیوں بےچین ہے وہ اپنا بدلا تو لے چکا ہے پھر کیوں اِسے سکون نہیں مل رہا تھا۔۔۔
آخر کیوں وہ سوچ سوچ کے پاگل ہوا جا رہا تھا۔۔۔

❤❤❤

ایمان اب کافی حد تک سمبھل گئی تھی پر اب وہ کسی سے نہ زیادہ بات کرتی تھی نہ ہی کوئی فرمائش کرتی تھی نہ ہی پہلے کی طرح آروما اور اس کی دوستوں کے ساتھ کھلتی تھی اس نے باہر جانا بلکل بند کردیا تھا وہ کہیں نہیں جاتی تھی مما کہ کہ کے تھک چُکیں تھیں اور آخرکار اب وہ بھی چپ ہو گئں تھیں۔۔
ایمان تم نے کب تک ایسے رہنا ہے؟
روشنی نے پوچھا۔۔۔
کیسے آپی؟
جیسے تم رہ رہی ہو۔۔۔۔
آپی۔۔۔
مجھے سمجھ آگیا ہے مجھ جیسے لوگوں کے لیے اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں جنہیں ہر کوئی آسانی سے بیوقوف بنا جاتا ہے۔۔۔
آپی میرا کیا قصور تھا۔۔۔
یہی کے میں نے ایک امیر زیادے کو تپٹر مار دیا غصے میں۔۔۔
آپی میں ہمشہ آروما کے دوستوں کے ساتھ کھیلتی تھی اور وہاں تو تھپڑ مارنے سے کبھی کسی کو اتنا بُرا نہیں لگتا تھا۔

لیکن آپی انسان کو کتنا بھی برا لگی وہ کسی کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے ۔۔۔۔
ایمان روتے روتے بولے جا رہی تھی۔۔
اور روشنی نے اسے روکا نہیں آج پہلی بار وہ اس طرح بات کر رہی تھی اور روشنی چاہتی تھی ایمان اپنے دل کا غبار نکال کے سکون میں آجائے۔۔۔۔
💖❤❤❤

اس بات کو 6 منتھ گذر چُکے تھے ایمان نے دوبارا کوچنگ شروع کردی تھی اور وہ آہستا آہستا نارمل ہو رہی تھی گھر والے بہت خوش تھے لیکن آج بھی وہ امان کے ذکر سے ڈر جاتی تھی روشنی ہمیشہ کوشش کرتی تھی کے اس کے سامنے امان کا نام کوئی نا لے۔۔۔۔۔

❤❤❤

وہاں امان کی بےچینی دن با دن بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔۔
وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا اُسے کیا ہوا ہے۔۔۔۔
آج بھی وہ بےچین تھا اِس لیے ذین کی طرف چلا گیا۔۔۔۔
ذین اس کا بچپن کا دوست تھا وہ اسے ہر بات بتاتا تھا۔۔۔
امان چپ چپ تھا ذین نے وجہ پوچھی تو کہا کچھ نہیں۔۔۔ ویسے ہی طبیعت تھوڑی خراب ہے۔۔
اتنے میں ذین کا دوست حماد بھی وہیں آگیا وہ امان کا بھی دوست تھا۔۔
اور وہ ایمان کے بارے میں جانتا تھا کیونکے امان سب کے سامنے ایمان سے بات کرتا تھا۔۔۔
امان کو دیکھتے ہی حماد نے امان سے کہا یار کیا بنا تیری اس کزن کا۔۔۔

ارے کیا نام تھا اُس کا؟

ہاں یاد آیا ایمان۔۔۔

امان کو حماد کا ایمان کو یوں مخاطب کرنا اچھا نہیں لگا۔۔
اس نے سرسری سا جواب دیا میری اب بات نہیں ہوتی اسں سے۔۔۔
کیا مطلب تو نے اسں سے بدلا لے لیا۔۔۔؟
حماد نے دلچسپی سے پوچھا۔۔
ہان یہی سمجھ۔۔
امان نے پہر مختثر جواب دیا۔۔۔
لیکن حماد نے اور دلچسپی سے کہا کیا یار سچ میں۔۔۔
اکیلے ہی مزے لئے اُس ٹائم ہمہیں بھول گیا۔۔۔
امان نے حماد کی بات جو کے ابھی جاری تھی سُنتے ہی ایک ذوردار پنچ حماد کو دے مارا۔۔
تیری ہمت کیسے ہوئی یہ سب بکواس کرنے کی اور حماد جو کچھ دیر پہلے ایمان کی باتیں دلچسپی سے کر رہا تھا اب حیرت سے امان کو دیکھ رہا تھا۔۔ذین کا بھی یہی حال تھا دونوں اُسے حیرت سے دیکھنے لگے کیونکہ امان خود سب کے سامنے ایمان کا مذاق بناتا تھا اور اب امان سے برداشت نہیں ہو ریا تھا تو وہ وہان سے اُٹھ کے چلا گیا۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

امان گھر آیا تو اسے حماد پہ اب بھی غصہ تھا۔۔
پھر کچھ دیر بعد امان کو خیال آیا کے اُسے ایمان کے لیے اتنا غصہ کیوں آرہا تھا۔۔۔
امان نے ایمان سے دو سال بات کی اُسے ایمان کے بارے میں اتنا تو پتا چل گیا تھا کے ایمان بہت معصوم اور شریف لڑکی ہے اور اُس کے لیے حماد کا ایسے کہنا اُسے برا لگا تھا لیکن وہ نہیں جانتا تھا برا لگنے کی وجہ کچھ اور تھی یا پھر وہ شاید خود سے ہی بھاگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

ایمان نے کمپیوٹر کلاسس جوائن کر رکھی تھی وہ اب خوش تھی اِسکی یہاں نئی دوست بھی بن گئی تھی۔۔
جس کا نام سونیہ تھا۔۔۔
وہ دونوں بہت اچھی دوست بن گئی تھیں۔۔۔
ایمان اور سونیہ ۔۔
ایمان اور سونیہ ساتھ آتے جاتے تھیں۔۔
ایمان کی وہ واحد دوست تھی جس کے گھر وہ جاتی تھی۔۔۔
اور وہ اس کے گھر آتی تھی۔۔۔۔
ایمان اب سمنھل گئی تھی۔۔۔
پر وہاں امان کا برا حال تھا ایمان کا سوچ سوچ کے۔۔
آج بھی امان اپنے کمرے میں لائٹس آف کیے سوچوں میں گُم تھا۔۔۔
ذیں آیا تو اس نے واچ مین کو امان کو خبر کرنے کا کہا اس نے امان کو بتایا امان نے اجازت دی اور وہ اندر آیا۔۔۔
امان میں کافی ٹائم سے دیکھ رہا ہوں تو بیچین ہے۔۔۔
کیا بات ہے آخر مسئلہ کیا ہے۔۔۔
ذین نے آتے ہی امان سے سوال کیا۔۔۔
کیونکہ وہ اب اکیلے رہنے لگا تھا اور ذین سے اب برداشت نہیں ہو رہا تھا۔۔۔ذین مجھے ہر وقت ایمان کا معصوم چہرا یاد آتا ہے جب وہ میرے سامنے رو رہی تھی گڑگڑا رہی تھی لیکن مجھے اس پے رحم نہیں آیا۔۔۔
میں غصے میں اتنا اندھا ہو گیا میں بغیر نکاح کے اس کے ساتھ۔۔۔
یے کہ کے امان چپ ہوگیا۔۔
ذین اُسے حیرت سے دیکھنے لگا۔۔۔
تو نے سچ میں ایمان کے ساتھ۔۔۔؟

اس سے پہلے وہ کچھ اور کہتا امان نے کہا۔۔۔
نہیں اُسکی سسٹر آگئی تھی۔۔۔
اور اگر نا آتی تو؟
ذین کی حیرت میں اِضافا ہوا۔۔۔
تو میں بھی نہیں جانتا۔۔۔
ذین کو شدید حیرت ہو رہی تھی کے امان غصے میں اتنا پاگل ہو سکتا ہےکے کسی معصوم لڑکی کی زندگی برباد کردے۔۔
ذین امان کو دیکھ رہا تھا اور امان چپ تھا۔۔۔
میں جانتا ہو میں غلط تھا۔۔۔
میں نے ایمان کے ساتھ بہت برا کیا ہے۔۔۔
اور میں یہ بھی جانتا ہوں کے اب تو وہ میری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہےگی۔۔۔
ہاں تو مت دکھا نا اسے اپنی شکل۔۔۔
بدلا لے تو لیا ہے اب کیوں دیکھانی ہے یہ شکل۔۔۔۔
یار میں بہت بےچین ہوں۔۔۔
اس کے بغیر مجھے لگتا بے مجھے اس کی عادت ہو گئی ہے۔۔۔میں نے دو سال اسے مسلسل بات کی ہے۔۔
اس کی ہر بات جانتا ہوں اُسکی جیسی معصومیت کہیں دوبارا نہیں دکھی مجھے۔۔۔۔
ذین میں پاگل ہوتا جا رہا ہوں سوچ سوچ کے۔۔۔۔
ذین نے امان کی طرف دیکھا اور کہا اچھی طرح سوچ آج کی رات کے تجھے کیا چاہیے پھر فیصلا کر۔۔۔
یے کہ کے ذین چلا گیا اور امان سوچ میں ڈوب گیا۔۔۔۔

❤❤❤❤

ایمان اور سونیہ کوچنگ سے واپس آرہیں تھیں۔۔
ایمان نے کہا چلو آج چھولے کا کے پھر گھر چلتے ہیں۔۔۔
سونیہ نے کہا ٹھیک ہے۔۔۔
اور پھر وہ دونون چھولے کھا کے گھر گیں سونیہ کا گھر پچھلی گلی میں تھا۔۔
ایمان کا اگلی اس لیے وہ ساتھ آتی جاتی تھیں۔۔۔
ایمان آج پھر دیر کردی کتنی پریشان ہو گئی تھی بیٹا۔۔
آمینہ بیگم نے ایمان کو اندر آتے دیکھا تو کہا۔۔۔
مما آج چھولے کھانے کا دل کر رہا تھا۔۔۔
ایمان کہ کے چپ ہو گئی۔۔۔
آمینہ بیگم کو یہ سُن کے اچھا لگا کے ایمان دوبارا پہلے جیسی ہو رہی تھی۔۔۔
وہ بہت خوش ہوئین اور ایمان کو گلے لگا کے پیار کیا اور کہا ہمیشہ خوش رہا کرو میری جان ایسے اچھی لگتی ہو۔۔
اور ایمان خوش ہونے لگی آج مما نے اِسے ڈانتا نہیں۔۔۔

❤❤❤

امان سو کے اُٹھا تو کافی فریش فیل کر رہا تھا۔۔
اس نے رات بھر سوچنے کے بعد ایک فیصلا کرلیا تھا۔۔۔
اور اب وہ اس پے عمل کرنا چاہتا تھا۔۔
وہ فریش ہو کے ذین کے پاس چلا گیا۔۔۔
امان تو نے سوچا تجھے کیا چاہیے۔۔۔؟
ذین نے امان سے پوچھا۔۔۔
ہاں سوچ لیا۔۔۔
کیا۔۔۔؟
ذین نے امان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
ایمان۔۔۔۔❤

امان نے تصلی سے جواب دیا۔۔۔
واٹ؟
زین نے حیرت سے امان کو دیکھا۔۔۔
کیا کہا۔۔۔؟
جو سُنا اور اب ڈرامے بند کر میں جانتا ہوں تجھے بھی پتا تھا مجھے کیا چاییے۔۔۔
امان کی بات پے زین کا قہقہ نکل گیا۔۔۔
اور وہ دونوں ہنسنے لگے۔۔۔
پر جناب جو آپنے اُس کے ساتھ کیا ہے اس کے بعد تو وہ آپکو دیکھے گی بھی نہیں۔۔
ہاں جانتا ہوں پر میں اُٹھا کے لے آونگا اب دنیا کی کوئی طاقت ایمان کو میرا ہونے سے نہیں روک سکتی۔۔۔
اووو بھائی صبر کر جا ہر بار جلد بازی اچھی نہیں ہوتی۔۔۔
زین میں جانتا ہو اب ایمان شرافت سے نہیں مانے گی اور مجھے اب اس کے بغیر رہا نہیں جاتا اس لیے دبردستی تو ہوگی میرے دوست پر اس بار سب پراپر وے میں ہوگا اور زین نے

اپنا سر پیٹ لیا جس پے امان ہنسنے لگا۔۔۔۔

❤❤❤❤

دوسرے دن زین امان کی طرف آیا تو وہ پیگنگ کر رہا تھا۔۔۔
کہاں کی تیاری ہے جناب کی۔۔۔
سندھ جا رہا ہوں۔۔۔
امان نے اپنی پیکنگ جاری رکھتے کہا۔۔۔
واٹ اتنی جلدی؟
ابھی کل ہی تو بات ہوئی ہے ہماری۔۔۔
تُو کل کی بات کر رہا ہے؟
مجھ سے ایک پل نہیں رُکا جا رہا۔۔۔
ھاھاھا۔۔
ذین ہنسنے لگا۔۔
میرے مجنو بھائی تو گیا کام سے۔۔
ہاں اب تو گیا۔۔۔
امان اور زین ہنسنے لگے۔۔۔
امان نے ڈرائیور کو کہ دیا تھا۔۔۔
اس لیے وہ بھی اپنی پیگنگ کے ساتھ باہر کھڑا تھا۔۔۔
امان کے باہر نکلتے ہی ڈرائیور نے اپنی سیٹ سمبھالی۔۔
اور ذین نے امان کو گاڑی میں بیٹھا کے گھر کا رُخ کیا۔۔۔
اور امان کو دعا دی کے وہ کامیاب ہو کے واپس آئے۔۔۔
مما بابا کو اس نے کل ہی بتا دیا تھا کے بزنس کے سلسلے میں اُسے جانا پڑ رہا ہے اور ان سے کل ہی اجازت لے لی تھی۔۔۔

❤❤❤❤

ایمان کو اب امان کا ڈر پوری طرح ختم ہو چکا تھا اُسے یہی لگا کے امان بدلا چاہتا تھا اور وہ لے چکا تھا۔۔
تو اب اُسے اس بات کی پریشانی نہیں تھی وہ اب پہلے کی طرح خوش تھی اس لیے بھی کے جب وہ اداس ہوتی یا روتی سب پریشان ہو جاتے تھے۔۔۔
اس لیے اب وہ کبھی یے ظاہر تک نہیں کرتی تھی بس وہ اب خوش رہتی تھی سب کے لیے۔۔۔۔
لیکن وہ اس بات سے انجان تھی کے امان جسے وہ بھلا چکی تھی وہ واپس اس کی زندگی میں آنے والا ہے۔۔۔۔۔

❤❤❤

امان سفر میں تھا ڈرائیور گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا ۔۔۔
اور امان ایمان کی یادوں میں کھویا تھا۔۔۔۔
ایمان میں آرہا ہوں اور اس بار تمہیں لے کے ہی جاؤگا۔۔۔۔
میرا وعدہ ہے تم سے اور خود سے۔۔۔۔
امان سوچتے سوچتے نیند کی وادی میں اتر گیا۔۔۔

❤❤❤

امان نے سندھ کی وادی میں قدم رکھا تو وہ بہت خوش تھا ایک احساس تھا جو اسے خوشی دے رہا تھا اور وہ احساس ایمان کا تھا۔۔۔
اس نے ہوٹل میں روم پہلے ہی بک کروا لیا تھا اور اب وہ ہوٹل میں موجود تھا۔۔
اس کا دل تو تھا کے وہ اسی وقت ایمان کے پاس چلا جائے پر اس نے جو کیا تھا اس کے بعد اس کا جانا اسے صیح نہیں لگا۔۔۔

اور وہ سوچنے لگا ایمان اب تمہارے گھر تمہں لینے آونگا۔۔۔
اب اس کا سب سے پہلا کام ایمان کے روٹین کے بارے میں پتا لگانا تھا جو اتنا آسان نہیں تھا وہ کچھ دیر آرام کر کے ایمان کے گھر کے باہر گاڑی میں بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا ایمان کا لیکن دو دن گذر گئے ایمان باہر نہیں آئی امان کو غصہ آتا اور دل کرتا اندر چلا جائے پر وہ نہیں گیا وہیں انتظار کرنے لگا۔۔

ایمان کی کوچنگ کی دو دن چھوٹی تھی اور ایسے وہ کہیں باہر نہیں جاتی تھی۔۔
اس لیے اب تک ایمان نے امان کو نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی امان نے ایمان کو دیکھا تھا۔۔۔
تیسرے دن امان کو ایمان کا چہرا نظر آیا اور وہ دیکھتا رہ گیا وہ پہلے سے ذیادہ خوبصورت ہو گئی تھی۔۔۔
امان نے دیکھا وہ گھر سے نکل کے پچھلی گلی میں گئی وہاں سے ایک لڑکی کو لیا اور کہیں جانے لگی امان کی گاڑی کے شیشے سیاہ تھے اس لیے ایمان اُسے دیکھ نہیں پائی امان نے ایمان کا پیچھا کیا اور اس نے دیکھا وہ ایک کوچنگ میں اندر گئی اور امان وہیں ٹہر گیا اور ایمان کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔

کچھ دیر بعد۔۔

ایمان اور اس کی دوست باہر آئیں اور گھر جانے لگیں۔۔۔
امان بھی انکے پیچھے گاڑی چلانے لگا۔۔۔
ایمان ایک بات کہوں سونیہ نے ایمان کو قریب کرتے ہوے کہا۔۔۔ہاں کہو۔۔۔
ایمان نے کہا۔۔۔
یار وہ پیچھے سیاہ مرسڈیز دیکھ رہی ہے۔۔
ایمان نے پیچھے دیکھا اور کہا ہاں کیوں۔۔۔؟؟؟
یار یے صبح بھی ہمارے پیچھے چلی تھی۔۔
اور ابھی پھر یے ہمارا پیچھا کر رہی ہے۔۔۔
کیا ایمان کی سانس اٹک گئی۔۔۔
ایمان کو ایک دم پسینہ آنے لگا۔۔۔
کیا ہوا ایمان سونیہ پریشان ہوئی کچھ نہیں چل جلدی۔۔۔
اور پھر ایمان اور سونیہ تیز تیز چل کے گھر پہنچیں اور ایمان نے سکون کا سانس لیا۔۔۔
ایمان کو اس طرح ڈرا ہوا دیکھ کے روشنی نے پوچھا ایمان کیا ہوا ہے تمہیں۔۔۔
آپی آج ایک گاڑی نے ہمارا پیچھا کیا آپی مجھے ڈر لگ ریا ہے کہیں وہ امان تو نہیں۔۔۔
کیا ہو گیا ہے ایمان تمہیں اب تک تمہارا ڈر نہیں نکلا۔۔۔
کوئی اور ہوگا وہم مت کرو امان اب یہاں کیوں آئیگا پاگل۔۔
اور روشنی کی باتیں سُن کے ایمان ریلکس ہو گئی لیکن ایمان یے نہیں جانتی تھی اس کا یے سکوں بس کچھ وقت کا مھمان تھا۔۔۔۔

❤❤❤

امان نے ایمان کی ہر روٹیں کے بارے میں پتا کرلیا تھا اب وہ ایمان سے ملنا چاہتا تھا لیکن وہ جانتا تھا ایمان ایسے کبھی نہیں راضی ہوگی ملنے پے ۔۔۔
پر امان کو ایمان سے ملنا تھا اور وہ یہی سوچ رہا تھا کے کیسے۔۔۔۔

❤❤❤

ایمان کوچنگ کے لیے نکلی تو امان نے گاڑی اِس کے پیچھے لی۔۔۔
اور ایک جگہ پہ گاڑی ایمان کے آگے روک دی۔۔۔
ایمان نہ سمجھی کی کیفیت سے گاڑی روکنے والے کو دیکھنے لگی۔۔۔
وہ نہیں جانتی تھی کے اس گاڑی میں امان ہے۔۔۔
ایمان آگے بڑھنے لگی تو امان گاڑی سے باہر نکلا۔۔۔
امان کو دیکھ کے ایمان کی سانس رُک گئی اور وہ کانپنے لگی۔۔۔۔
امان نے ایمان کی حالت دیکھی تو پریشان ہو گیا۔۔۔
وہ ایمان کی طرف بڑہا امان کو آگے آتا دیکھ کے ایمان ایک دم بھاگنے لگی تو امان نے فوراً آگے بڑھ کے ایمان کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔

ایمان کی جان نکلے جا رہی تھی۔۔۔
آنکھوں میں آنسو آگئے پر ڈر کی وجہ سے ایمان کی آواز نہیں نکل پا رہی تھی۔۔۔
وہ بس روتے اپنا ہاتھ چھوڑا رہی تھی۔۔۔۔
اور امان اُسے دلچسپی سے دیکھے جا رہا تھا۔۔۔
اتنے میں ایمان کی بس اتنی آواز نکلی جو اس نے کہا چھوڑو مجھے۔۔۔
اور امان جو کہیں کھو سا گیا تھا جسے ہوش میں آگیا۔۔۔۔
نہیں چھوڑوں تو کیا کرلوگی۔۔۔۔۔۔
مجھے جانے دو پلیز۔۔۔
ایمان رونے لگی۔۔۔
ت۔۔تم اپنا بدلا لے تو چکے ہو اب کیوں آئے ہو۔۔
ایمان کی آواز میں اُس کا ڈر واضع تھا۔۔۔۔
امان بس ایمان کو دیکھے جا رہا تھا۔۔۔
امان کو ایمان کو دیکھ کے بہت خوشی ہو رہی تھی۔۔۔
وہ سب بھول گیا تھا کے اس نے کیا کیا ہے ۔۔۔۔
وہ بس ایمان کا ہاتھ پکڑے اسے دیکھے جا رہا تھا۔۔۔
اور پھر دیکھتے دیکھتے امان نے ایمان کو گلے لگا لیا ۔۔۔۔۔

i miss u soo much Emaan

پتا نہیں کیسے رہا ہوں تمہارے بنا۔۔۔

۔۔۔ i lovee you soo much Emaan

ایمان تڑپ کے رہ گئی۔۔۔
وہ مسلسل خود کو چُھڑا رہی تھی ۔۔۔
اور زاروقطار رو رہی تھی۔۔۔
امان نے ایمان کو خود سے الگ کیا پر اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا۔۔
ایمان میں تمہیں لینے آیا ہوں۔۔۔
شادی کرنا چاہتا ہوں میں تم سے لیکن ایمان جیسے امان کی کوئی بات ہی نہیں سُن رہی تھی۔۔۔۔
بس رو رہی تھی اور اپنا ہاتھ چھڑا رہی تھی۔۔۔
کیوں جان لگا رہی ہو بِلا وجہ جب تک میں نہ چاہوں تم نہیں جا سکتیں ۔۔۔
اس لیے چلو گاڑی میں بیٹھو کچھ بات کرنی ہے تم سے۔۔

م۔۔۔مجھے تم سے کوئی بات نہیں کر نی مجھے جانے دو۔۔۔
ایماں کی حالت خراب ہونے لگی تو امان نے ایمان کا ہاتھ چھوڑ دیا اور ایمان بھاگ گئی۔۔۔۔
امان اسے جاتے دیکھ رہا تھا۔۔۔
اس وقت امان کو احساس ہوا کے اس نے کتنی بڑی غلطی کردی ہے۔۔۔
امان چُپ چاپ ایمان کو جاتے دیکھ رہا تھا بہت تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔۔
لیکن یہ تکلیف اس نے خود اپنے لیے پیدا کی تھا اور اب اسے یے سب برداشت کرنا تھا۔۔

❤❤❤

ایمان بھاگتے بھاگتے گھر پہنچی اور دروازہ زور زور سے بجانے لگی۔۔۔۔
آرہی ہوں کیا آفت آگئی ہے ۔۔۔۔
روشنی نے آتے ہوے کہا۔۔۔۔
اور دروازہ کھولا تو ایمان اس کے گلے لگ کے رونے لگی۔۔۔
آپی وہ آگیا ہے ۔۔۔۔۔
آپی وہ آگیا ہے ۔۔۔۔
وہ مجھے نہیں چھوڑیگا آپی۔۔۔۔
کون ایمان؟
کیا ہوا کون آگیا ہے۔۔۔۔؟
روشنی نے ایمان کو سیدھا کرکے پوچھا۔۔۔
آآمان۔۔۔
آپی وہ آگیا ہے۔۔۔
ایمان نے روتے روتے بتایا۔۔۔۔
یہ کہ کے ایمان پھر روشنی کے گلے لگ گئی۔۔۔
کیا۔۔۔۔؟
امان ۔۔۔۔؟
روشنی کو جھٹکا لگا۔۔۔
امان کیوں آیا ہے ۔۔۔۔۔؟
روشنی نے خود سے سوال کیا۔۔۔۔
آپی اب میں کیا کروں۔۔۔
ایمان تم ڈرو مت کیا پتا وہ اپنے کسی کام سے آیا ہو اور تم ایسے اُسے دیکھ کے ڈر رہی ہو۔۔۔
نہیں آپی میں نے اسے نہیں دیکھا اس نے میرے آگے گاڑی روکی اور میرا ہاتھ بھی پکڑلیا تھا آپی ایمان پھر رونے لگی اس کی بات سُن کے روشنی کو بھی ڈر لگا کے اب امان کیوں آیا ہے بہت مشکل سے ایمان ٹھیک ہوئی ہے اور اب یہ کیوں آگیا ہے اس کو چین نہیں ہے نہ اوروں کو چین سے جینے دیتا ہے۔۔۔

❤❤❤

امان کو بار بار ایمان کا ڈرا ہوا چہرا یاد آرہا تھا اس بات سے امان کو بہت تکلیف ہو رہی تھی جو لڑکی اس کا انتظار کرتی تھی اب اس سے اس قدر ڈر رہی تھی اور یے سب اسکا خود کا کیا ہوا تھا۔۔۔۔

❤❤❤❤

ایمان نے پھر سے گھر سے باہر نکلنا بلکل بند کردیا تھا آمینہ بیگم نے بہت بار ایمان سے وجہ پوچھی پر وہ ہر بار کہتی مما مجھے نہیں جانا کہیں بھی اگر وہ ذیادہ کہتیں تو ایمان کو پسنے آنے لگتے۔۔۔
اور اس کا رنگ ذرد پڑ جاتا یہ بات اس کی مما کو بہت پریشان کر رہی تھی۔۔۔۔۔

❤❤❤❤

امان کو آئے ایک ہفتے سے ذیادہ ہو گیا تھا ۔۔۔۔
اور اب بھی وہ روز ایمان کے انتظار میں باہر کھڑا رہتا۔۔۔۔
لیکن اس دن کے بعد وہ باہر نکلنا ہی چھوڑ گئی تھی ۔۔۔۔
اور اس دن کے بعد سے ایمان نے کوچنگ جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔
اور گھر میں کہا چھوٹیاں ہیں ۔۔۔۔
بس روشنی جانتی تھی کے وہ کیوں نہیں باہر جاتی۔۔۔
اور روشنی بھی یہی چاہتی تھی ایمان باہر نہ جائے کیونکہ اسے انداذہ تھا امان کچھ بھی کر سکتا تھا ۔۔۔۔
اس لیے وہ بھی ایمان کا ساتھ دے رہی تھی۔۔۔

💖💖💖💖

یہ سب کب تک چلے گا ایمان۔۔۔۔
ایمان روشنی کی گود میں سر رکھ کے لیٹی تھی تو روشنی نے ایمان سے پوچھا۔۔۔
آپی میں کیسے بتاؤ یہ۔۔۔۔
ایمان میں نے ایک فیصلا کیا ہے۔۔۔
کیا آپی۔۔۔
میں امان سے بات کرونگی اسے پوچھوں گی کے وہ آخر چاہتا کیا ہے۔۔۔۔
روشنی کی بات پہ ایمان ایک دم تڑپ کے اُٹھی۔۔۔
نہیں آپی میں اپنے لیے آپکو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی۔۔۔ایمان امان مجھے کچھ نہیں کریگا۔۔۔۔
روشنی نے ایمان کو تسلی دیتے ہوے کہا۔۔۔
نہیں آپی پلیز آپ کہیں نہیں جاؤگی۔۔۔
ایمان میری بات سمجھو مما کو شک ہو رہا ہے اگر تم ایسے گھر میں چُھپی رہیں تو اُنکا شک بڑہتا جائیگا۔۔۔
پر آپی۔۔۔
ایمان کچھ نہیں ہوتا مجھے۔۔۔
اور ایمان چپ ہو کے سونے کے لیے لیٹ گئی۔۔۔

❤❤❤💖💖💖💖💖💖💖❤❤❤❤❤❤

روشنی کو امان کو ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑی۔۔۔۔۔
وہ جیسے باہر نکلی تھوڑا آگے ایک گاڑی کھڑی تھی ۔۔
اور روشنی کو یہ اندازا لگانے میں دیر نہیں لگی کے وہ امان کی ہی گاڑی تھی۔۔۔
روشنی گاڑی کے پاس گئی تو امان گاڑی سے باہر آیا۔۔۔
آیے صالی صاحبہ ۔۔۔۔۔۔
اپنی بہن کو کہاں چُھپا رکھا ہے۔۔۔
امان میں تم سے کچھ بات کرنے آئی ہوں۔۔۔
روشنی نے امان کی بات اِگنور کرتے ہوے کہا۔۔۔۔
ہاں کریں بات سُن رہا ہوں ۔۔۔
امان بھی سیریس ہوا۔۔۔۔
امان تم واپس کیوں آئے ہو۔۔۔۔
ایمان کو لینے۔۔۔
امان نے فوراً جواب دیا۔۔۔
کیوں روشنی نے غصہ ضبط کر کے پوچھا۔۔۔
کیا کیوں پیار کرتا ہوں اُسے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔
تم اور پیار امان یہ تم کہ رہے ہو۔۔۔
روشنی نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
ہاں مجھے ایمان سے محبت ہو گئی ہے ۔۔۔۔
تم نے نہیں دیکھا میں اس کی ایک جھلک کے لیے یہاں کتنے دن سے ٹہرا ہوں اپنا ہر کام چھوڑ کے۔۔۔۔
امان ایمان اب تم سے نفرت کرتی ہے روشنی نے غصے سے کہا۔۔۔

ہاں تو۔۔۔
کرتی رہے نفرت جتنی کرنی ہے ۔۔۔۔
لیکن آنا تو اُسے پھر بھی میرے پاس ہی ہے۔۔۔
امان نے دو ٹوک جواب دیا۔۔۔
امان تمہیں سمجھ نہیں آتی دور رہو ایمان سے ۔۔۔۔
اس بار روشنی نے زور سے کہا تو امان ہنسنے لگا ۔۔۔۔
جاؤ بیبی اپنا کام کرو مجھے جو کرنا ہوگا میں کر کے رہوں گا۔۔۔
امان میں ارسلان چچا کو تمہاری ہر بات بتا دونگی۔۔۔
روشنی نے دھمکی دی۔۔۔
ھاھاھا ۔۔۔۔۔
یہ تو اور اچھی بات ہے پھر میں بابا کو ایمان کے میسیج بھی دیکھا دونگا اور کہوں گا ایمان بھی راضی ہے ۔۔۔۔
بس گھر والوں کی وجہ سے منع کر رہی ہے ۔۔۔۔
اور پھر تو تم بھی جانتی ہو دنیا کی کوئی بھی طاقت ایمان کو میرا ہونے سے نہیں روک سکتی۔۔۔
بابا ہر حال میں ایمان کی شادی مجھ سے کروا کہ رہیں گے۔۔۔روشنی کے پاس الفاظ ختم ہو گئے ۔۔۔
وہ حیرت سے امان کو دیکھنے لگی۔۔۔۔
امان ایمان نے کیا بگاڑا ہے تمہارا تم کیوں اُس کے ساتھ ایسا کر رہے ہو ۔۔۔۔
وہ تمہارے ڈر سے کہیں نہیں جاتی اُس پہ رحم کرو وہ بہت معصوم ہے وہ اُسے تم نے بدلا لے تو لیا ہے اب کیا اس کی جان لے کے دم لوگے۔۔
روشنی بولی جا رہی تھی اور امان اسے سن رہا تھا۔۔۔
اور سوچ رہا تھا ۔۔۔۔
پہلے روشنی کا بندوبست کرنا پڑیگا اب۔۔۔۔
روشنی تمہاری بات ختم ہو گئی ہو تو تم جا سکتی ہو۔۔
امان نے بےروخی سے کہا تو روشنی غصے میں وہاں سے چلی گئی۔۔۔

💖💖💖💖💖

روشنی کے جانے کے بعد امان نے رحمان کو کال کی۔۔۔
(رحمان )امان اور ایمان کے چچا کا بیٹا تھا ۔۔۔
سگے چچا کا تو نہیں پر ان کے بابا کے کزن کا بیٹا تھا نہایت سُلجھا ہوا نیک لڑکا تھا ۔۔۔۔
اور فیملی بھی بہت اچھی تھی۔۔۔
رحمان مجھے کچھ بات کرنی ہے تجھ سے۔۔۔۔
امان نے کال ریسیو ہوتے ہی کہا۔۔۔۔۔۔
ہاں کہ۔۔۔۔
رحمان نے کہا.....
یار تیرے لیے ایک لڑکی پسند کی ہے میں نےامان نے سیریس ہو کہ کہا ۔۔۔
ھاھاھا ۔۔۔۔
کیا؟
میرے لیے لڑکی تو نے پسند کی ہے۔۔۔؟
میرے اتنے بُرے دن بھی نہیں آئے کے تیری چھوڑی ہوئی لڑکیاں دیکھوں ۔۔۔۔۔
بکواس نہ کریں روشنی کی بات کر رہا ہوں۔۔۔۔
رحمان کی ہنسی ایک دم غایب ہوگئی۔۔۔
کیا روشنی۔۔۔؟
رحمان نے حیرت سے پوچھا۔۔۔۔
ہاں کیوں تجھے پسند نہیں۔۔۔؟
نہیں ایسی بات نہیں اچھی ہے شادی میں آئی تھی تو اچھی لگی تھی مجھے پر میں نے سوچا وہ نا مانی تو اس لیے کچھ نہیں کہا۔۔۔۔
نا مانی تو کیا ہوا تیرا دل چاہتا تھا تو تجھے پیچھے نہیں ہٹنا تھا ۔۔۔۔
خیر اب بھی دیر نہیں ہوئی سکینہ چچی (رحمان کی امی)کو لے کے سندھ آجا اور اُنہیں سمجھا دینا کے ہاں کروا کے رسم کر کے جائیں۔۔۔
رحمان خوش ہوگیا ٹھیک ہے میں امی سے کہ دونگا ۔۔۔۔
پر تو کہاں ہے ۔۔۔۔؟
اور تجھے آج یہ خیال کیسے آیا۔۔۔۔
میں سندھ ہوں اور خیال کو چھوڑ دولھا بننے کی تیاری کر بس۔۔
رحمان ہنسنے لگا۔۔۔
ٹھیک ہے میں امی سے کہ کے روانا ہوتا ہوں امی کے ساتھ ۔۔۔ہاں جلدی کر ابھی میں بھی یہیں ہوں تیری اچھی ہیلپ کردونگا۔۔۔
تھنک یو سو مچ امان۔۔۔
رحمان نے خوش ہوتے کہا۔۔۔۔
آپکا کام تو اچھا ہوگیا سالی صاحبہ۔۔
امان نے ہنستے ہوے سوچا اور کال رکھ دی۔۔۔۔

❤❤❤❤

رحمان اپنی امی کو راضی کر کے سندھ لے آیا تھا سب انہیں دیکھ کے بہت حیران تھے کے یہ لوگ اچانک یہاں کیسے پر پوچھا نہیں کسی نے ۔۔
روشنی اور اس کی مما ان کے ساتھ بیٹھیں تھیں ایمان کمرے میں ہی تھی۔۔۔
رحمان کی نظریں بار بار روشنی پہ جا رہیں تھں جس سے روشنی تنگ ہو رہی تھی۔۔۔
کیا سارے ٹھڑکی لوگ ہمارے ہی گھر آنے ہیں اوووفففف۔۔۔۔۔۔روشنی یہ بس سوچ ہی سکتی تھی۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖

روشنی اندر گئی تو ایمان نے پوچھا آپی رحمان بھائی والے کیوں آئے ہیں۔۔۔
پتا نہیں ایمان ابھی کچھ کہا نہیں شاید ایسے گھومنے آئے ہوں۔۔
اچھا آپی آپنے بتایا نہیں آپکی امان سے کیا بات ہوئی تھی۔۔۔ایمان میں پہلے تمہیں کہ چُکی ہوں اتنی بات نہیں ہو پاے۔۔۔آپی جتنی ہوئی ہے وہ تو بتا،دیں نا۔۔
وہ تمہارے کام کی نہیں ہے۔۔۔۔
آپی آپ مجھ سے کیوں چُھپا رہی ہیں ۔۔۔۔
پلیز بتا دیں امان چلا گیا کے نہیں۔۔۔
پتا نہیں ایمان اس نے کہا تھا چلا جائیگا پر اب یہ نہیں پتا کے چلا گیا ہے یا نہیں۔۔۔
آپی سچ امان چلا جائیگا ؟
ایمان بچوں جیسے خوش ہوتے بولی۔۔
روشنی ہان کہ کے نظریں چُرانے لگی۔۔۔
ایمان کو وہ سچ نہیں بتا سکتی تھی وہ اور ڈر جاتی اس لیے اسے جھوٹ بولنا پڑا۔۔۔۔

❤❤❤❤

روشنی اور ایمان کمرے میں بیٹھں تھی جب آمینہ بیگم وہاں آئیں۔۔۔۔
مجھے تم دونوں سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔
جی ممان کہیں ۔۔۔۔؟
دونوں متوجہ ہوئیں۔۔۔
روشنی کا رشتہ آیا ہے۔۔۔
اور لڑکا اچھا ہے مجھے پسند بھی آیا تمہارے بابا سے بات کی اُنہیں بھی پسند ہے بس اُنہوں نے کہا کے وہ جیسے دبئی سے آئیں گے شادی کردیں گے کیونکہ وہ بار بار نہیں آ سکتی بزنس میں لوس ہوتا ہے ۔۔۔۔
اس لیے اُنہوں نے کہا ہے کے وہ اگلے مہینے آئیں گے ۔۔۔
تب شادی ہوگی۔۔۔
اب میں جاننا چاہتی ہوں تم لوگ کیا کہتے ہو۔۔۔
مما جب آپ لوگ سب ڈیسائیڈ کر چُکے ہیں تو ہمارے چاہنے یا نا چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔۔۔۔
روشنی نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں لڑکا بہت اچھا ہے۔۔۔
پوچھوگی نہیں کون ہے۔۔۔
کیا فرق پڑتا ہے ممان آپ لوگ ویسے بھی فیصلا کر چکے ہیں تو میرے پوچھنے کا کیا فائدہ۔۔
روشنی یہ کہ کے وہاں سے چلی گئی اور ایمان چُپ تھی۔۔۔۔

❤❤❤

رحمان اور اس کے گھر والے دوسرے دن ذرینہ چچی کے گھر سے واپس چلے گئے تھے ۔۔۔۔
اُنہیں ہاں ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔
ایک مہینے بعد شادی کا کہا گیا تھا ۔۔۔۔۔
اس لیے وہ واپس چلے گئے تھے ۔۔۔۔
تیاریان وغیرہ کرنے ۔۔۔۔
رحمان کی امی نے روشنی کے بابا سے بھی بات کرلی تھی اور خاندان ہونے کی وجہ سے وہ جانتے تھے لڑکا اچھا ہے اور وہ دیر کر کے ایسا رشتہ گوانا نہیں چاہتے تھے۔۔۔

❤❤❤

ایمان اور روشنی کو جب پتا چلا کے رشتہ رحمان کا ہے تو دونون کے ہوش اُڑ گئے۔۔۔۔
آپی پلیز آپ منع کردیں ۔۔۔
آپ نے بغیر دیکھے کیوں ہاں کہی ۔۔۔۔
آپ پلیز مما سے کہیں پلیز آپی ملتان مت جائیں۔۔۔
ایمان بابا نے ہاں کی ہے اور تم جانتی ہو وہ اب کبھی نہیں منع کریں گے۔۔۔
آپی یہ کیا ہوگیا۔۔۔۔
آپی وہاں کے لوگ نہیں اچھے پلیز آپ منع کردیں۔۔۔۔۔
اور آپ جانتی ہیں کے امان بھی آئیگا آپی پھر کیا ہوگا۔۔۔
ایمان میری جان میں جانتی ہوں پر اب کچھ نہیں ہو سکتا۔۔
روشنی اور ایمان دونوں کی حالت اِس وقت غیر ہو رہی تھی۔۔۔

❤❤❤❤

امان بہت خوش تھا کے اس کا پلان کام کرگیا تھا۔۔۔
اور ایک مہینے بعد شادی کا سُن کہ وہ بھی ملتان واپس چلا گیا تھا۔۔۔
یہ سوچ کے اب شادی میں ملاقات ہوگی ۔۔۔
مس ایمان ایسے تو آپ باہر نہیں آتیں۔۔۔۔

❤❤❤❤

آپی آپ جانتی ہیں نہ شادی میں امان بھی ہوگا میں کیا کرونگی۔۔۔
ایمان رونے لگی۔۔۔
ایمان تم بس کہیں اکیلی مت جانا روشنی کو ایمان کی فکر ہو رہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی امان لازمی آئے گا۔۔۔

شادی کے دن جیسےقریب آرہے تھی ایمان کا حالت خراب ہوتی جا رہی تھی روشنی سب سمجھتی تھی پر وہ خود بھی بے بس تھی۔۔۔۔
انکہ بابا بھی دبئی سے آچکے تھی اور وہ بہت خوش تھے اپنی بیٹی کے لیے۔۔۔۔
۔۔۔آمینہ بیگم شادی کی تیاریوں میں جُھٹی تھیں۔۔۔
کل بارات نے آنا تھا ان کے رہنے کا انتظام چھت پے کیا گیا تھا۔۔۔